0
Monday 18 Apr 2016 12:10

انتہا پسند امریکی ایئر لائنز

انتہا پسند امریکی ایئر لائنز
تحریر: طاہر یاسین طاہر

انتہا پسندی کی اپنی معاشرتی اور نفسیاتی وجوہات بھی ہوتی ہے۔ کوئی معاشرہ یا گروہ انتہا پسندی کی ڈگر پر کیوں چل پڑتا ہے؟ اس کا الگ سے تجزیہ ضروری ہے، اگرچہ پوری دنیا میں اس وقت انتہا پسندی کو مسلمانوں کے ساتھ نتھی کر دیا گیا ہے۔ افغانستان، یمن، شام، نائیجیریا، ترکی، عراق اور پاکستان میں ہونے والی دہشت گردانہ کارروائیاں، جبکہ نائن الیون سے برطانیہ کے سیون سیون پھر فرانس اور بیلجیم میں ہونے والی دہشت گردی کو بطور دلیل پیش کیا جاتا ہے۔ بڑی حد تک یہ درست بھی ہے۔ انتہا پسندی اور دہشت گردی تک کے دفاع میں کچھ کج دماغ اسے ردِعمل بھی کہتے ہیں، مگر کس کا؟ عالمی سامراج کا، لیکن کیا یہ ردعمل اس قدر شدید ہو کہ اپنے ہی جیسے انسانوں اور مسلمانوں کو لقمہ اجل بنا دیا جائے؟ یہ ردعمل کسی طور زیبا نہیں۔ بے شک دہشت گردی اور انتہا پسندی کے حق میں کوئی بھی جواز نہیں تراشا جا سکتا، نہ ہی دلیل کام آتی ہے۔ یہ کام کوئی مسلمان اسلام کے نام پر کرے یا پھر کوئی اور آزاد معاشرہ انسانی حقوق کے نام پر، اسے نا پسند ہی کیا جائے گا۔

کالم نگاری کے لئے خبریں ٹٹول رہا تھا، کئی ہنگامہ خیز موضوعات کئی دنوں سے اپنی طرف بلا رہے ہیں، جن میں پانامہ لیکس سر فہرست ہے۔ چھوٹو گینگ کی ’’ثابت قدمی‘‘ اپنی جگہ ایک الگ داستان ہے کہ پنجاب میں اگر سب امن ہے، کی کہانی سنائی جاتی رہی تو یہ چھوٹو کہاں سے آگیا؟ او آئی سی کا اجلاس اور انقرہ میں پھٹنے والے دھماکے الگ سے ایک تقاضا ہیں، یمن و شام اور پھر داعش یہ سارے موضوعات میرے قلم کی مانگ ہیں، مگر صحت کئی ماہ سے ساتھ نہیں دے پا رہی، جس کے باعث سارے موضوعات سے ذرا فاصلے پر ہوں۔ آج لکھنے بیٹھا تو ایک خبر نے فوراً اپنی طرف بلایا۔ بار بار پڑھا اور سوچا کہ دنیا کو اپنی ہتھیلی پر رکھ کر دیکھنے والے امریکی اس قدر خوفزہ اور پاگل بھی ہوسکتے ہیں؟ سارے نہیں مگر تعصب جن کی جبلت میں ہو، وہ ایسی حرکتیں کرتے رہیں گے۔ حد سے بڑھی ہوئی برتری بھی قوموں کو نفساتی عارضہ لاحق کر دیتی ہے۔ مرنے کا، تباہ ہونے کا خوف انسان کو موت سے پہلے مار دیتا ہے۔ امریکی اسی خوف کا شکار ہیں۔

عالمی میڈیا کے مطابق ’’ویسٹ ایئرلائن کے عملے نے سیٹ تبدیل کرنے پر مسلم خاتون کو شکاگو ایئر پورٹ پر جہاز سے اتار دیا۔ سکارف پہنے حکیمہ عبداللہ نامی مسلم خاتون شکاگو سے سفر کر رہی تھیں کہ انھوں نے پاس بیٹھے مسافر سے نشست تبدیل کرنے کی درخواست کی، مسافر نے اپنی نشست حکیمہ کو دے دی، جس پر طیارے کے میزبان نے مسلمان خاتون کو برا بھلا کہا اور طیارے سے اتار دیا۔ کونسل آف اسلامک ریلیشن نے اس واقعے کی مذمت کرتے ہوئے فوری تحقیقات کرانے کا مطالبہ کیا ہے۔ یہ واقعہ ایسے وقت میں پیش آیا ہے جب امریکی وزرات انصاف نے چند روز قبل ہی ملک بھر میں اسلام مخالف اقدامات میں اضافے کا اعتراف کیا ہے۔‘‘ ایسا مگر پہلی بار نہیں ہوا، امریکہ میں اب یہ معمول بنتا جا رہا ہے۔ کچھ عرصہ قبل بھی چار افراد پر مشتمل امریکی مسلم خاندان کو، جس میں دو کم عمر بچے بھی شامل تھے، سکیورٹی کا بہانہ بنا کر جہاز سے اتار دیا گیا تھا۔ ایک سال کے اندر تیسری مسلمان خاتون کو طیارے سے اتارنے پر کونسل آف اسلامک ریلیشن نے احتجاج کیا اور فضائی کمپینی کے رویئے کی مذمت کی۔ اس سے قبل بھی ایک مسلم خاتون کو بوتل طلب کرنے پر طیارے سے اتار دیا گیا تھا۔

اس قدر تعصب اور خوف کے سائے میں جینے والا معاشرہ کیوں کر دنیا پر اپنی حاکمیت قائم رکھ پائے گا؟ ہمیں امریکی ترقی اور اس کی معیشت و سائنسی پرواز سے بے شک سروکار ہے کہ دنیا ایک گلوبل ویلج بن چکی ہے۔ دنیا میں آنے والی تبدیلیوں سے ہم نہ تو غیر وابستہ رہ سکتے ہیں نہ ہی بے نیاز۔ اسی طرح امریکی فضائی کمپنیاں سکیورٹی کے نام پر جس طرح سکارف پہننے والی مسلم خواتین کی عزت نفس کو مجروح کر رہی ہیں، ہم اس سے بھی بے نیاز نہیں رہ سکتے اور اس پر سراپا احتجاج ہیں۔ نائن الیون کے بعد آنے والی تبدیلیوں نے مسلمانوں کو ایک مشکوک مخلوق بنا کر رکھ دیا ہے۔ تعصب اور جانبداری اگرچہ درست تجزیے کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہے، لیکن ہمیں یہ تسلیم کرنا چاہیے کہ مسلم دنیا کے بعض حصوں اور کچھ گروہوں نے القاعدہ و طالبان کی بے جا حمایت کرکے پوری دنیا کے مسلمانوں کے لیے مصائب کھڑے کر دیئے ہیں۔ انتہا پسندی ایک قابلِ مذمت رویہ ہے، امریکی اسی رویئے کی مذمت کرتے کرتے اسی رویے کا شکار ہو گئے ہیں۔ ان کی نظر میں ہر داڑھی والا مسلمان اور سکارف پہننے والی مسلمان خاتون دہشت گرد ہی ہے، جبکہ ایسا بالکل نہیں۔

جس طرح سارے امریکی یا یورپی باشندے مسلم مخالف جذبات نہیں رکھتے، اسی طرح سارے مسلمان بھی انتہا پسند نہیں۔ مسلم دنیا کی غالب تعداد معتدل اور اسلام کی آفاقی تعلیمات کی پیروکار ہے۔ دنیا کو گلوبل ویلج بنانے والوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے جیسے انسانوں کی تعظیم کریں، بے شک سارے انسان آدمؑ کی اولاد ہیں۔ ایک خاتون نے اگر کسی وجہ سے سیٹ تبدیل کر لی تو اس سے جہاز کی سکیورٹی کو کیا مسئلہ ہوگیا تھا؟ کیا وہ خاتون سکیورٹی کلیئرنس کے بغیر ہی جہاز میں داخل ہوگئی تھی؟ کیا اس نے بورڈنگ کارڈ حاصل نہیں کیا تھا؟ یقیناً وہ ان سارے مراحل سے گذر کر ہی جہاز میں داخل ہوئی ہوگئی۔ جب ایسا ہے تو اس کے بعد اسے جہاز سے اتار دینا خود امریکی سکیورٹی نظام پر بھی سوالیہ نشان ہے، جنھیں اپنے سکیورٹی اداروں اور آلات پر ہی اعتماد نہیں اور صرف اس بنا پر وہ مسلم خواتین کو جہاز سے اتار رہے ہیں کہ کوئی سیٹ تبدیل کر رہی ہے تو کسی نے پانی کی بوتل کیوں طلب کی؟ کیا ایسا ہی ہے؟ بادی النظر میں ایسا نہیں، صرف تعصب ہے اور اس تعصب کی اوٹ سے یہ ثابت کرنا کہ ہر مسلمان مشکوک اور دہشت گرد ہے۔ امریکی معاشرے کا یہی رویہ اسے دنیا بھر میں نفرت انگیز بنائے ہوئے ہے۔
خبر کا کوڈ : 534034
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش