2
Wednesday 20 Apr 2016 16:30

پارلیمانی انتخابات، شام میں جمہوریت کا تسلسل

پارلیمانی انتخابات، شام میں جمہوریت کا تسلسل
تحریر: عرفان علی

عرب جمہوریہ شام مسلط کی گئی جنگ اور دہشت گردی کے باوجود پرامن سیاسی جمہوری عمل کی راہ پر گامزن ہے۔ جون 2014ء میں صدارتی الیکشن اپنے وقت پر انجام پائے تھے اور اب شام کی پارلیمنٹ (مجلس الشعب) کے لئے انتخابات 13 اپریل 2016ء کو منعقد ہوئے۔ 16 اپریل بروز ہفتہ ان انتخابات کے نتائج جاری کئے گئے ہیں۔ شام کی پارلیمنٹ کی کل نشستیں 250 ہیں اور تاحال تقریباً 210 نشستوں کی تفصیلات ہمارے سامنے آچکی ہیں۔ یہ نتائج شام کی بشار الاسد حکومت کے خلاف منفی پروپیگنڈا کرنے والوں کے جھوٹ کی عملی تردید ہیں۔ بشار الاسد کو ایران کے کھاتے میں ڈال کر علوی اور شیعہ زاویوں سے دنیا کے سامنے پیش کیا جاتا رہا ہے، تاکہ دنیا کے سنی مسلمانوں کو شام کے بارے میں حقائق سے لاعلم رکھا جاسکے اور فرقہ واریت کے امریکی صہیونی سعودی زاویہ فکر کو فروغ دیا جاسکے۔ لیکن شام ایک اور مرتبہ جیت گیا ہے، بشار الاسد کی عرب دوست اور فلسطین دوست حکومت ایک اور مرتبہ جیت گئی ہے، کیونکہ شام کی پارلیمنٹ میں ایک اور مرتبہ سنی عرب مسلمان اکثریت سے جیت گئے ہیں اور یہ سب بشار الاسد کی زیر صدارت جاری شام کے سیاسی جمہوری نظام پر غیر متزلزل یقین و اعتقاد رکھنے والے سنی عرب مسلمان ہیں۔

شام کے پارلیمانی انتخابات کے لئے 11314 امیدواروں نے نامزدگی فارم جمع کروائے تھے۔ بعد ازاں یقینی شکست کے پیش نظر کمزور امیدواروں نے دستبرداری کا ا علان کر دیا اور 250 نشستوں کے لئے 3500 امیدواروں کے مابین مقابلہ ہوا۔ شام میں اس وقت ووٹرز کی کل تعداد 88 لاکھ 34 ہزار 994 ہے۔ یعنی 8.8 ملین سے کچھ زائد اور الیکشن میں ووٹ ڈالنے والوں کی تعداد 5 ملین سے بھی زائد ریکارڈ کی گئی۔ کہیں ٹرن آؤٹ 80 فیصد تک جاپہنچا تو کہیں 52 فیصد تک رہا۔ صدر بشار الاسد کے حامی پینل قومی اتحاد نے تقریباً 200 نشستوں پر کامیابی حاصل کی۔ اب تک کے نتائج کے مطابق 154 سنی عرب، 21 علوی عرب، 5 دروزی فرقہ کے پیروکار، 3 شیعہ مسلمان اور 23 مسیحی عرب پارلیمانی الیکشن میں کامیاب ہوچکے ہیں۔ یقیناً صہیونیت کے اتحادی اس پارلیمانی الیکشن اور اس کے نتائج سے خوش نہیں ہیں۔ لیکن اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ شام کے حال و مستقبل کے فیصلے کا حق شام کے عوام کو ہے۔

امریکا، سعودی عرب، جعلی ریاست اسرائیل اور ان کے ہمنوا کوئی بھی الزام لگائیں یا بشار کے خلاف اپنی منفی خواہشات کا اظہار کریں، شام کا صدارتی الیکشن اور اب پارلیمانی الیکشن، یہ اس حقیقت کی جانب عملی اشارہ ہے کہ شام کے عوام دنیا بھر کے منفی پروپیگنڈا سے بے نیاز ہوکر پرامن سیاسی جمہوری عمل میں شریک ہیں۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ شام کی موجودہ حکومت کو عوام کی غالب اکثریت کی حمایت و تائید حاصل ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو عوام اس سیاسی عمل سے لاتعلقی کے اظہار کے طور پر گھروں سے باہر ہی نہ نکلتے اور الیکشن کا بائیکاٹ کر دیتے۔ لیکن سعودی عرب اور قطر کی بادشاہتوں کو کیا معلوم کہ جمہوری عمل کیا ہوتا ہے، الیکشن کیا ہوتے ہیں اور عرب عوام کی خواہشات کیا ہیں؟ سعودی بادشاہ اور اس کے اتحادی حکمران شام کے عوام کی جانب سے دیئے گئے پیغام کو سمجھ کر اپنی پالیسی میں تبدیلی کریں اور شام کو اس کے حال پر چھوڑ دیں۔ شام کے عوام کا پیغام یہ ہے کہ وہ شام میں غیر ملکی مداخلت کے خلاف بشار الاسد کی حکومت کے ساتھ کھڑے ہیں۔

بشار الاسد کی حکومت نے فلسطین اور لبنان کی مقاومت کا ساتھ دیا اور اس کا یہ ساتھ دینا امریکا اور جعلی ریاست کی برہمی کا سبب بنا، لیکن حیف ہے کہ عرب مسلمان ممالک کے حکمران بھی صہیونی امریکی ایجنڈا میں ہم پیالہ و ہم نوالہ بن گئے۔ وہ جس نام نہاد اپوزیشن کی سرپرستی کر رہے ہیں، ان کی صفوں میں اتحاد نام کی کوئی چیز تو ہے ہی نہیں۔ مذاکرات تو محض بہانہ ہے، یہ نام نہاد اپوزیشن غیر ملکی آقاؤں کی نیابتی جنگ میں ہی اپنی بقا دیکھ رہی ہے۔ اس طرح انہیں مال بھی ملے گا اور شہرت بھی۔ ممکن ہے کہ غیر ممالک کی شہریت بھی اس کے ساتھ ساتھ مل جائے۔ ان کی ڈوریاں نہ جانے کتنی جگہوں سے ہلائی جا رہی ہے کہ یہ ویانا اور جنیوا میں مذاکرات کے لئے آجاتے ہیں اور پھر کوئی کھوکھلا غیر منطقی بہانہ بنا کر مذاکراتی عمل کو ناکام کر دیتے ہیں۔ اس مرتبہ انہوں نے اقوام متحدہ کے نمائندے کو ہی متعصب قرار دے دیا ہے، حالانکہ اقوام متحدہ نے شام کے مسئلے میں ایک بھی ایسا کام نہیں کیا جو بشار الاسد کی حمایت پر مبنی ہو۔ اس کے سارے اقدامات امریکا کے احکامات کے تحت اٹھائے گئے ہیں اور اقوام متحدہ کے نمائندہ برائے شام براہ راست امریکی وزیر خارجہ سے ڈکٹیشن لیتے رہے ہیں، جس کا انکشاف و اعتراف خود سابق وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن نے اپنی کتاب ہارڈ چوائسز میں کیا ہے۔

شام کے حمیمم ایئر بیس سے سیز فائز کی مانیٹرنگ کرنے والے روسی مرکز نے اب تک 401 خلاف ورزیوں کو ریکارڈ کیا ہے، جو دہشت گردوں، باغیوں یا نام نہاد اپوزیشن میں شامل گروہوں کی جانب سے کی گئی ہیں۔ شام کے مستقل مندوب برائے اقوام متحدہ بشار ال جعفری کا کہنا ہے کہ اقوام متحدہ کے نمائندہ برائے شام اسٹیفان ڈی مسچورا اپوزیشن کے سارے گروہوں کو برابر نہیں سمجھتے (یعنی وہ بعض کو اہمیت دیتے ہیں اور بعض کو نظر انداز کر دیتے ہیں)۔ اپوزیشن گروپس جو مذاکرات و مکالمہ جاری رکھنا چاہتے ہیں، ان کے ساتھ ہی مذاکراتی عمل کو جاری رہنا چاہئے اور جو مذاکرات میں شرکت نہیں کرنا چاہتے، ان کا انتظار نہ کیا جائے کہ وہ کب راضی ہوتے ہیں۔ جنیوا میں مذاکرات 22 اپریل تک جاری رہنے کے امکانات ہیں۔ شام کے نمائندے بشار ال جعفری نے واضح کر دیا ہے کہ مجوزہ توسیع شدہ عبوری قومی حکومت میں موجودہ حکومت، اپوزیشن اور آزاد نمائندگان کی شرکت ہوگی اور وہ ٹیکنو کریٹس ہوں گے، لیکن ایسے کسی بھی گروپ کو اس میں شامل نہیں کیا جائے گا جو دہشت گردی کر رہے ہیں اور جو غیر ملکیوں کے ایجنڈا پر عمل پیرا ہیں۔ انہوں نے واضح کیا کہ نام نہاد اعلٰی سطحی مذاکراتی ٹیم (HNC) سعودی عرب، قطر اور ترکی کی ڈکٹیشن پر کام کر رہی ہے۔

مذاکراتی عمل میں بھی شام کی حکومت کو مزید ہوشیاری کا ثبوت دینا ہوگا۔ ملک کے اندر سیاسی جمہوری عمل کے تسلسل سے انہوں نے اس محاذ پر دشمن کو دندان شکن جواب دیا ہے۔ جنگ کے میدان میں بھی شام اور اس کے اتحادی ممالک کافی حد تک کامیاب ہوچکے ہیں۔ اب سی آئی اے دہشت گردوں کو مزید جدید ہتھیار دینے کا منصوبہ بنا چکا ہے۔ اقوام متحدہ کے کاندھے استعمال کرنے والے امریکا کی پوری کوشش ہوگی کہ شام کو مذاکرات کی میز پر شکست دی جائے اور پیچیدہ سفارتی عمل کے ذریعے شام سے وہ کچھ حاصل کرلے جو پانچ برسوں میں جنگ کے میدان میں وہ اور اس کے اتحادی حاصل نہیں کرسکے۔ شام کی حکومت کو شام کے عوام نے تازہ مینڈیٹ دے کر اپنی حمایت کا اعادہ کر دیا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ مائنس بشار یا اس جیسی کسی اور شام دشمن شرط کے آگے سیسہ پلائی دیوار کی طرح کھڑا ہوا جائے۔ شام کے اندر موجود پرامن سیاسی اپوزیشن گروپوں کو مزید سیاسی عمل میں شریک کیا جائے اور بیرون ملک سے دشمنوں کی نیابت کرنے والے غداروں کو شام کی سیاست سے نااہل قرار دیا جائے، جیسا کہ اب تک شام کی حکومت کے سفارتی نمائندوں نے ثابت قدمی کا مظاہرہ کیا ہے۔ ان شاء اللہ شام اپنے درست عرب اسلامی موقف کے تحت اس جنگ کے ہر محاذ پر کامیاب ہوگا، اس کی کامیابی مقاومت کے محور کی کامیابی ہے اور شام کا استحکام جعلی ریاست اسرائیل کی موت کے مترادف ہے۔
خبر کا کوڈ : 534423
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش