0
Monday 25 Apr 2016 00:50

تاریخ بشریت کا چمکتا ستارہ

تاریخ بشریت کا چمکتا ستارہ
تحریر: عباس رضا

تاریخ بشریت میں مقدس افراد بہت گزرے ہیں۔ کبھی انبیاء کی شکل میں تو کبھی اولیاء اور دانشمندوں کی شکل میں۔ حتی اسلام کے ظہور سے پہلے بھی بڑے بڑے دانشمند اور سیاستدان گزرے ہیں۔ جن کا تاریخ بشریت میں بڑا کردار ہے۔ کبھی علمی میدان میں تو کبھی تجربی، کبھی مذھبی میدان میں تو کبھی نظریاتی میدان میں، لیکن اسلام کے ظہور کے بعد پیغمبر اسلام کے سایے میں کچھ ہستیوں نے تربیت پائی، جن کی نظیر دنیا میں نہیں ملتی۔ ہم ان کو پنجتن کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ ان الٰہی ہستیوں میں سے ایک عظیم ہستی امام المتقین و امام الاولین و الآخرین حضرت امام علی علیہ السلام ہیں۔ انسان جب علی علیہ السلام_کے فضائل و کمالات کو بیان کرنے کی منزل پر آتا ہے تو انسانی عقل پریشان رہ جاتی ہے کہ کہاں سے فضائل کو شروع کیا جائے۔

علم و تقویٰ سے یا زہد و عبادت سے، شجاعت سے یا پھر کرم و سخا سے، امین سے یا پھر حلیم سے۔ علی علیہ السلام_کی ذات میں ہزاروں ایسی صفات پائی جاتی ہیں کہ عام انسان کے بس کی بات نہیں کہ وہ علی علیہ السلام کے فضائل و کمالات کو بیان کرے۔ علی علیہ السلام دنیا کی وہ عظیم و کریم ہستی ہے کہ جس کو یا نبی نے پہچانا ہے یا پھر خدا نے۔امام علی علیہ السلام پوری عمر میں پیغمبر خدا کے شانہ بشانہ میدان میں رہے۔ دعوت ذوالعشیرہ سے لے کر حجۃ الوداع تک تاریخ میں کوئی مقام ایسا نظر نہیں آتا کہ جہاں امام کا کردار نہ ہو۔

پیامبر اکرم کے ساتھ ہر خوشی و غم میں برابر کے شریک رہے۔ ولادت سے لے کر پیامبر اکرم کی شھادت تک اور پھر پیامبر اکرم کی شھادت سے لیکر اپنی شھادت تک علی علیہ السلام اسلام اور پیامبر کے دفاع میں مشغول رہے۔ جب خانہ کعبہ میں ولادت ہوئی تو مولا علیؑ نے اس دنیا میں دیکھنے کا آغاز رسول اکرم کے چہرے سے کیا اور جب رسول اکرم دنیا کو وداع فرما رہے تھے، تب بھی امام علی کی نگاہیں رسول اکرم کے چہرے پر تھیں۔ اسی طرح جتنی جنگیں مسلمانوں اور کفار کے درمیان لڑی گئیں، ان میں علی علیہ السلام کی ذوالفقار کی جھنکار سنائی دیتی ہے۔ بعثت سے لے کر رسول اللہ کی وفات تک، شجاعانہ و جوانمردانہ ایک حقیقی مجاہد کی حیثیت سے اسلام و مسلمین کا دفاع کرتے رہے۔

امام علی علیہ السلام کے ساتھ امت کے رویے میں اس وقت فرق آجاتا ہے کہ جب نبی اکرم کی آنکھیں بند ہو جاتی ہیں۔ ابھی رسول اللہ کا جنازہ نہیں نکلا اور کفن و دفن کے مراسم انجام نہیں ہوئے ہیں، مسلمانوں نے سقیفہ میں خلافت بانٹنی شروع کر دی۔ اب بھی علی وہی علی ہیں، جو رسول اللہ کے زمانے میں تھے، لیکن امت نے اپنی نگاہیں بدل لی تھیں۔ رسول اسلام کی رحلت کے بعد مولا علی ؑ کے گلے میں رسی باند کر مسجد لے جایا گیا۔ اپنے حق کے خاطر حضرت زہرا سلام اللہ علیہا مہاجرین و انصار کے گھر دھکے کھاتی رہیں۔ باغ فدک چھین لیا گیا  اور خلافت پر جبراً قبضہ کیا گیا۔ یہ سب کچھ ہوگیا لیکن علی گھر میں بیٹھے رہے۔

آخر اس خاموشی کی وجہ کیا ہے؟ کیوں علی خاموش ہیں؟ کیوں امام  علی کی ذات میں یہ تبدیلی آگئی ہے؟ اس سوال کا جواب اگرچہ امام علی علیہ السلام نے خود ہی دیا کہ اگر ایک ہی جملے میں خلاصہ کرنا چاہوں تو یہ ہے: اسلام کی بقاء کے خاطر سب کچھ قربان کر دیا۔ جب حضرت زہرا سلام اللہ علیہا نے کہا یاعلی آپ کو کیا ہوا ہے، ایک جنین کر طرح گھر کے کونے میں بیٹھے ہو۔ جواب میں امام نے فرمایا زہرا یہ جو اشھد ان محمد رسول اللہ کی آواز سن رہی ہو نا، اگر میں قیام کروں تو آج کے بعد یہ آواز بھی نہ سن پاو گی اور ایسے عالم میں 25 سال گزارے لیکن علی علی رہے۔

یہان پر ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ان 25 سالوں میں علی نے کچھ بھی نہیں کیا؟؟؟ اور ایسے ہی گھر میں بیٹھے رہیں؟؟؟ یا علی علیہ السلام نے اپنا کام انجام دیا؟؟ یقیباً امام علی علیہ السلام نے اپنا فریضہ انجام دیا ہے۔ پورے اس دورانیے میں امام نے تفسیر قرآن پر کام کیا اور ایسی تفسیر لکھی ہے، جس کی مثال نہیں ملتی۔ وہ قرآن جو خلیفہ سوم کے زمانے میں امام علی نے پیش کیا تھا، لیکن مسلمانون نے قبول نہیں کیا تھا۔ اس کی وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ صرف الفاظ قرآن نہ تھے، علی کے قرآن میں آیات کی تفسیر، شان نزول، سب موجود تھا۔

بعدازاں امام  علی علیہ السلام نے اپنی چار سالہ حکومت میں اپنی سیاست کو واضح کیا اور معاشرے سے ظلم و جور اور غربت کو ختم کرنے کے لئے عملی اقدامات کئے۔ آپ نے فریایا: اگر زمین و آسمان میں موجود سب کچھ دیا جائے اور مجھ سے کہا جائے کہ ایک چیونٹی کے منہ سے ظلماً چھیلکا چھین لوں تو میں ہرگز یہ کام نہیں کرونگا۔ یہی سیاست علی ہے، جو قرآن اور سنت کا عملی نظام ہے۔ علی تاریخ کا وہ ستارہ ہے، جس کی روشنی آج بھی انسانیت پر چمکتی ہے۔ اگر آج کا انسان سیاست کرنا چاہتا ہے تو اس کو اپنا سیاسی آئین اس نامے کو قرار دینا ہوگا، جو 14 سو سال پہلے امام علی علیہ السلام نے مصر کے والی مالک اشتر کو لکھا ہے۔ اس نامے میں علی کی سیاست چمک رہی ہے اور انسانیت، حریت، آزادی، حکومت اور انسانوں کے ساتھ سلوک کو واضح کر دیا ہے۔

جس میں امام کا ایک جملہ عجیب ہے آپ فرماتے ہیں: جو بھی انسان ہے، وہ یا تو آپ کا دینی بھائی ہے یا پھر نوع انسانی میں آپ کے ساتھ شریک ہے۔ اگر دنیا علی کی سیاست کو جاننا چاہتی ہے تو پھر یہی ایک جملہ کافی ہے۔ اس کی تفسیر کی جائے اور آج کے ظالم معاشرے میں اس آئین نامے کو پھیلایا جائے۔ عدل و انصاف اور حقوق و آزادی کی باتیں کرنے والے ذرا علی کے سیاسی آئین نامہ کو دیکھ لیں اور اس کو اپنا آئین نامہ قرار دیں تو پوری دنیا سدھر جائے گی اور ظلم و جور، فساد اور معاشرے میں افراتفری ختم ہو جائے گی اور ایک انسانی اقدار پر مشتمل معاشرہ قائم ہو جائے گا۔ آج کی دنیا کو علی جیسے ستارے کی ضرورت ہے، تاکہ اپنی روشنی سے دنیا کی ظلمتوں کو ختم کرے اور بنی نوع انسان کی نجات کا سامان فراہم کرے۔
خبر کا کوڈ : 535088
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش