0
Tuesday 26 Apr 2016 17:36

جنوبی پنجاب زیر عتاب؟

جنوبی پنجاب زیر عتاب؟
رپورٹ: سید محمد ثقلین

دہشت گردوں، سہولت کاروں اور خطرناک اشتہاریوں کی محفوظ آماجگاہ جنوبی پنجاب کا ٹرائبل ایریا قبائلی سرداروں کیلئے جنت جبکہ عوام کیلئے قتل گاہ بن چکا ہے، جنوبی پنجاب کا ٹرائبل ایریا جو ڈیرہ غازیخان، راجن پور اور رحیم یار خان کی سرحد پر واقع ہے۔ اس نوگو ایریا میں جاگیرداروں کی سرپرستی میں اغوا برائے تاوان، قتل و ڈکیتی سمیت ہر قسم کے جرائم سرعام ہو رہے ہیں۔ لاکھوں کی آبادی میں جرائم کو کنٹرول کرنے کیلئے بنائے گئے بارڈر ملٹری پولیس کے تھانے بھی قبائلی سرداروں کے اشاروں پر چل رہے ہیں۔ ان نام نہاد تھانوں میں نفری پوری ہے اور نہ ہی اسلحہ فراہم کیا گیا ہے۔ اکثر تھانوں کی تو عمارتیں تک موجود نہیں ہیں۔ میز کرسی رکھ کر ڈنڈوں کے ذریعے لوگوں کی حفاظت اور جرائم کے خاتمہ کے دعوے کئے جا رہے ہیں۔ جنوبی پنجاب کے 11 ہزار 535 کلومیٹر پر پھیلے سب سے بڑے نوگو ایریا میں جرائم پیشہ افرد اور مفرور اشتہاریوں کیخلاف کارروائی کیلئے صرف 355 اہلکاروں پر مشتمل بارڈر ملٹری پولیس تعینات ہے۔ ڈی جی خان اور راجن پور سے ملحقہ اس ٹرائبل ایریا میں 43 بارڈر ملٹری پولیس کے تھانے قائم ہیں مگر کام صرف 15 کر رہے ہیں۔ 1890 میں یہ تھانے قائم تو کر دیئے گئے مگر ان کا کنٹرول بھی مقامی قبائلی سرداروں کے حوالے کر دیا گیا۔

ذرائع کے مطابق جاگیرداروں کے کنٹرول کی وجہ سے بارڈر ملٹری پولیس بھی انہی کے گھروں کی لونڈی بن کر رہ گئی ہے۔ سروس اسٹرکچر رولز اینڈ ریگولیشن نہ ہونے کی وجہ سے فورس کے جوان مایوس ہو کر ڈیوٹی دینے سے انکاری ہیں۔ 18 سالوں سے ترقی نہ دیئے جانے کی وجہ سے بی ایم بھی کے سرکل آفیسر سے سوار تک اس عہدے اور تنخواہ پر موجود ہیں۔ اس دوران متعدد جمعدار دفعدار اور نائب دفعدار ریٹائر ہوگئے مگر ان کی جگہ کسی کو تعینات نہیں کیا گیا۔ قبائلی سرداروں کی مداخلت کی وجہ سے صرف نام کی فورس رہ گئی ہے۔ اگر کبھی کبھار جاگیرداروں کی اجازت سے قتل کی ایف آئی آر درج کرنا پڑ جائے تو پنجاب پولیس کے ریٹائرڈ اہلکاروں کو پیسے دے کر ان کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں۔ متعدد افسران انگوٹھا چھاپ ہیں۔ چونکہ انہیں سرداروں نے بھرتی کرایا ہے، اس لئے کام چل رہا ہے۔ بارڈر ملٹری پولیس میں لیڈی پولیس کا تو تصور ہی موجود نہیں، اسی وجہ سے خواتین کی تلاشی ہی نہیں لی جاتی۔ کوئی بھی اشتہاری برقع پہن کر ان کے سامنے سے آسانی سے گزر جاتا ہے۔ پرائیویٹ عمارتوں میں قائم ان تھانوں کی حالت انتہائی خراب ہے۔ دیواریں ٹوٹی ہوئی ہیں۔ بیٹھنے کیلئے جگہ نہیں ہے۔ اگر کسی ملزم کو پکڑ لیا جائے تو حوالات موجود نہیں ہے۔

رپورٹ کے مطابق ٹرائبل ایریا جو کہ جرائم پیشہ افراد کی محفوظ آماجگاہ سمجھا جاتا ہے، ان کیخلاف کارروائی کیلئے بارڈر ملٹری پولیس کے جوان ڈنڈے اٹھا کر جدید اسلحہ کا مقابلہ کرنے کیلئے بیٹھے ہوتے ہیں۔ وسیع تر ٹرائبل ایریا میں گشت کرنے کیلئے بارڈر ملٹری پولیس کے پاس گاڑی تک موجود نہیں۔ اہلکار پیدل ہی گشت میں مصروف ہوتے ہیں۔ ہر تھانے میں دو سے تین اہلکار موجود ہوتے ہیں۔ سنگین نوعیت کے مقدمات میں پکڑے گئے ملزمان کو چارپائی سے باندھ دیا جاتا ہے۔ متعدد بار اشتہاری چارپائی سمیت فرار ہوچکے ہیں۔ اگر ملزم کو عدالت پیش کرنا ہو تو ڈیرہ غازی خان آنا پڑتا ہے۔ پہاڑی ایریا پیدل چل کر عبور کرنا پڑتا ہے۔ شریف ملزم ہی ان کے ساتھ چل کر عدالت تک جاسکتا ہے۔ اشتہاری آرام سے راستے میں ہی فرار ہو جاتا ہے۔ ثمن دار بھی فورس کی بہتری کیلئے تیار نظر نہیں آتے ہیں۔ اس طرح حکومت نے اس نوگو ایریا کو لغاری، قیصرانی، لنڈ، بزدار، کھوسہ، دریشک، مزاری اور گورچانی قبائل کے حوالے کرکے انہیں مفروروں، دہشت گردوں، سہولت کاروں اور جرائم پیشہ افراد کی سرپرستی کرنے کا سرٹیفکیٹ دے دیا ہے۔ قبائلی سرداروں نے نام نہاد بارڈر ملٹری پولیس کی موجودگی میں خطرناک گروہ تیار کرنا شروع کر رکھے ہیں، جو ان کے اشاروں پر سرعام وارداتیں کرکے لوگوں کیلئے خوف کی علامت بن گئے ہیں۔ قبائلی سرداروں نے چھوٹو گینگ جیسے درجنوں گروہ تیار کر رکھے ہیں، جن کیخلاف کارروائی کرنا اس حکومت کے بس میں نظر نہیں آتا ہے۔
خبر کا کوڈ : 535538
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش