1
Wednesday 27 Apr 2016 22:31

پاکستان، افغانستان کشیدگی اور بھارت کا کردار

پاکستان، افغانستان کشیدگی اور بھارت کا کردار
تحریر: عرفان علی

افغانستان کے صدر اشرف غنی ایک اور مرتبہ پاکستان پر ناراض ہوئے ہیں۔ طالبان نے کابل دھماکوں کی ذمے داری قبول کی اور اس کے بعد افغان صدر نے پاکستان سے ان کے خلاف اقدامات کا مطالبہ کیا۔ اقدامات نہ کرنے پر اقوام متحدہ کے فورم پر پاکستان کے خلاف شکایت کی دھمکی دی۔ پچھلے سال 10 اگست کو بھی انہوں نے پاکستان پر کابل دھماکوں کا الزام لگایا تھا۔ جہاں تک الزامات کی اس جنگ کی بات ہے تو پاکستان کو بھی افغان حکومت سے کچھ کم شکایات نہیں ہیں۔ پاکستان کے سکیورٹی اداروں نے صوبہ بلوچستان میں افغان انٹیلی جنس ادارے اور بھارتی انٹیلی جنس ادارے راء کے مشترکہ ایجنٹوں کا نیٹ ورک پکڑا ہے۔ پاکستان کے ریاستی ادارے پہلے ہی ایک بھارتی جاسوس اور افغان انٹیلی جنس کے ایک اہلکار کو گرفتار کرچکے ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان کی اس شکایت کا نوٹس کب لیا جائے گا اور کون یہ شکایت سنے گا کہ افغانستان کی سرزمین سے بھارت پاکستان کے دو صوبوں میں عدم استحکام پھیلاتا رہا ہے اور اب بھی پاکستان دشمن اقدامات میں مصروف ہے۔

بدھ 27 اپریل کو سحر اردو ٹی وی کے سیاسی ٹاک شو انداز جہاں میں اسی موضوع پر اظہار خیال کے لئے اس ناچیز کو بھی مدعو کیا گیا۔ نئی دہلی سے محترم اقتدار محمد خان صاحب نے تجزیہ پیش کیا۔ ان کی رائے اور شخصیت کا احترام کرتے ہوئے ان کی خدمت میں راقم الحروف نے عرض کیا کہ پاکستان کے بارے میں بھارت کی جانب سے پھیلایا جانے والا تاثر غلط ہے۔ ان کی نظر میں پاکستان میں ایک کمزور حکومت ہے، جو دہشت گردوں کے خلاف بے بس ہے اور پاکستان کی سرزمین سارے پڑوسی ممالک کے خلاف استعمال ہوتی رہتی ہے اور پاکستان اتنا کمزور ہے کہ وہ اس کو نہیں روک سکتا۔ ان کی رائے کے جواب میں بندہ نے عرض کیا کہ جناب جتنے مسائل پاکستان کے انہوں نے گنوائے ہیں، اگر میں گنوانا شروع کروں تو کسی طور بھارت کے مسائل پاکستان سے کم نہ ہوں گے۔ تازہ ترین پٹھان کوٹ ایئربیس پر دہشت گردوں کا حملہ تھا۔ عوامی مسائل میں بھارتی ریاست (یعنی صوبہ) ہریانہ کے عوام کا بنیادی سہولیات اور روزگار کی فراہمی کے لئے شدید احتجاج اور ہڑتالیں تازہ ترین مثال تھی اور اس کے ساتھ ساتھ نکسل باڑی کے نام سے کارروائیاں کرنے والے گروہ۔

وہ پاکستان میں طالبان کا رونا رو رہے تھے، لیکن وہ یہ فراموش کرگئے کہ طالبان کو اس طرح کی عوامی تائید حاصل نہیں کہ وہ بھارت کی کرکٹ ٹیم کی پاکستان آمد کو، یا اوم پوری اور مہیش بھٹ جیسے اداکاروں اور فلمسازوں کو پاکستان آنے سے روکنے میں کامیاب ہوجائیں۔ لیکن بھارت وہ ملک ہے جہاں پاکستان کی کرکٹ ٹیم کو پیشگی ضمانت چاہئے ہوتی ہے اور بھارت کی سرکار کو شیو سینا اور ان جیسی دیگر انتہا پسند ہندو تنظیموں کے نامناسب غیر عاقلانہ و غیر انسانی تشدد و تعصب کے خلاف پاکستان کو پیشگی ضمانت دینا پڑتی ہے اور اس کے باوجود وسیم اکرم کے لائیو اسپورٹس پروگرام میں انتہا پسند ہندو گھس آتے ہیں اور بولنے نہیں دیتے۔ استاد غلام علی کی غزل گائیکی کے خلاف احتجاج ہونے لگتا ہے۔ لیکن پاکستان میں اگر اوکسفورڈ یونیورسٹی پریس کراچی ادبی میلہ منعقد کرتا ہے تو وہاں مہاتما گاندھی کے پوتے کو سننے ہم جیسے پاکستانی بلا کسی خوف کے شرکت کرتے ہیں۔ پاکستان اس لحاظ سے بھارت سے زیادہ اچھا ملک ہے اور پاکستانی اپنے پڑوسی بھارت کے شہریوں کے بارے میں وہ منفی جذبات نہیں رکھتے، جیسے کہ بھارت کے خواص ذرائع ابلاغ پر سارا ملبہ پاکستان پر ہی گرا کر خوش ہوجاتے ہیں۔

اس پروگرام میں کہا گیا کہ پاکستان کی مرکزی حکومت صوبائی حکومتوں کی بلیک میلنگ کی زد پر رہتی ہے۔ اس پر میں عرض کر دوں کہ عام آدمی پارٹی کے کیجری وال کی حکومت بھی بھارت کی مرکزی حکومت سے نالاں رہتی ہے تو کیا اس کا مطلب یہ لیا جائے کہ مرکزی حکومت محکمہ امور خارجہ، داخلہ و دفاع میں ناکام ہوچکی ہے؟ ان کی باتوں سے میں نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ شاید وہ سیاسی حکومت کو کمزور کہنا چاہتے ہیں اور فوجی اسٹیبلشمنٹ کو الزام دینا چاہتے ہیں تو میں نے خود ہی یہ وضاحت کی، لیکن شاید وقت ختم ہوچکا تھا اور میری بات درمیان میں ہی کاٹ دی گئی۔ میں نے انہیں مثال دی کہ سابق جنرل پرویز مشرف جب پاکستان کے حکمران کی حیثیت سے بھارت کے دورے پر گئے تو انہوں نے مسئلہ کشمیر پر متبادل حل بھی تجویز کئے اور بھارت کو دوطرفہ تعلقات مستحکم کرنے کی کئی تجاویز بھی پیش کیں، لیکن وہ نئی دہلی سے خالی ہاتھ لوٹ آئے اور اس دورے کے مشترکہ اعلامیہ پر بھی بھارت کے ان بزعم خود طاقتور حکمرانوں میں اتفاق رائے نہ ہوسکا۔

میں نے اس پروگرام میں یہ عرض کیا کہ جب یہ بات سب تسلیم کر رہے ہیں کہ اس خطے کے مسائل کے حل نہ ہونے کا سبب امریکا ہے تو یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ امریکی صدر جارج بش دوم نے ہی بھارت اور پاکستان کے دورے میں یہ بات کہی تھی کہ افغانستان کی جمہوریت قائم کرنے میں بھارت مدد فراہم کرے گا۔ با الفاظ دیگر بھارت کو امریکا نے افغانستان ٹھیکے پر دے دیا اور پاکستان کو بھارت کا چھوٹا بھائی بنانے کی کوشش کی۔ پاکستان نے بھارت کے کسی علاقے کو بھارت سے علیحدہ نہیں کیا، لیکن 1971ء میں بھارت نے مشرقی پاکستان میں مکتی باہنی کو فوجی تربیت دے کر بنگلہ دیش بنوا دیا۔ بھارت نے آج تک کشمیر پر قبضہ کر رکھا ہے۔ بھارت ہی ہے جس نے اس خطے میں ایٹم بم بنا کر اس خطے میں نیوکلیئر ہتھیاروں کی دوڑ شروع کی اور پاکستان کو بھی بحالت مجبوری اس غلط راہ کا انتخاب کرنا پڑا۔ جہاں تک افغانستان کی بات ہے تو پاکستانی طالبان افغانستان میں پناہ گزین ہیں، ان کے خلاف کونسے اقدامات کئے گئے ہیں؟ پھر صوبہ بلوچستان کے علیحدگی پسند باغیوں کی محفوظ پناہگاہیں بھی تو افغانستان میں ہیں اور بھارت بھی ان علیحدگی پسندوں کی میزبانی کرتا آیا ہے۔ صوبہ بلوچستان پاکستان کا صوبہ ہے، یہ کشمیر کی طرح کا علاقہ نہیں ہے کہ جسے بھارت نے متنازعہ سمجھ لیا ہے۔

افغانستان، پاکستان کی مدد کے بغیر اس قابل ہی نہیں کہ باقی رہ سکے۔ افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے ذریعے ہی افغانستان کی ضروریات زندگی کی اہم اشیاء براستہ پاکستان افغانستان جاتی ہیں، یہ سستی ترین ٹرانسپورٹیشن ہے۔ بھارت کہاں سے افغانستان کی مدد کرسکتا ہے؟ اگر اس کا کوئی بحری جہاز ایران کے راستے بھی افغانستان کی مدد کرنا چاہے گا تو بھی یہ انتہائی زیادہ وقت طلب اور مہنگی گذرگاہ کہلائے گی، کیونکہ سمندری سفر میں کم از کم ایک ماہ لگ جائے گا اور پھر اس کے بعد چاہ بہار سے افغانستان تک کا سفر بذریعہ سڑک کتنے دنوں میں طے ہوگا جبکہ ابھی وہ سڑک بننا شروع ہوئی ہے کہ جو افغانستان کے ایران کے صوبہ سیستان بلوچستان کے پڑوس میں واقع صوبے کو ایران سے منسلک کر دے گی۔ میں اس روٹ کا مخالف نہیں، لیکن یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ یہ پاکستان کی نسبت زیادہ وقت اور پیسے خرچ کروانے والا روٹ ہوگا۔ کیونکہ ایران کو افغانستان سے تعلق کے لئے اس روٹ کی ضرورت نہیں، ایران کی افغانستان کے ساتھ جو سرحدی گذرگاہیں ہیں، وہ موجود ہیں اور ان کے ذریعے بھی تجارت ہو رہی ہے، لیکن افغانستان کے لئے پاکستان کی اہمیت کسی طور کم نہیں کی جاسکتی۔

بہتر یہ ہوگا کہ جس طرح پاکستان نے پٹھان کوٹ ایئر بیس حملے کے بعد تعاون کیا ہے اور بھارت کے ساتھ ایسی انٹیلی جنس شیئر کی ہے، جس کے سبب بھارت کو دہشت گردوں کی منصوبہ بندی سے پیشگی آگاہ کرکے اسے نقصان سے بچا لیا گیا، اسی طرح بھارت بھی پاکستان کے خلاف سازشیں کرنا بند کرے اور پاکستان کو پاکستان دشمن دہشت گردوں کے بارے میں معلومات فراہم کرے، پاکستان کے ایران اور افغانستان سے تعلقات خراب کرنے کے اسباب پیدا نہ کرے۔ بھارت ہی تھا جس نے امریکا کے دباؤ پر ایران کے خلاف آئی اے ای اے میں ووٹ دیا، کیا بھارت امریکا کو منع نہیں کرسکتا تھا، یہ بھارت ہی تھا جس نے امریکا کے کہنے پر ایران کے ساتھ تجارت انتہائی نچلی سطح پر کر دی تھی اور یہ پاکستان تھا جس نے ایٹمی توانائی کے عالمی ادارے میں ایران کے حق میں ووٹ دیا تھا۔ پاکستان سے زیادہ بھارت پر امریکی اثر و رسوخ کارگر ثابت ہوتا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ بھارت اور افغانستان بھی امریکی اتحاد سے باہر نکلیں۔ بھارت تو امریکا کے ساتھ ساتھ جعلی ریاست اسرائیل کے ساتھ بھی تعلقات استوار کرچکا ہے۔ بھارت کی مضبوطی اور آزادی کی باتوں میں اب کوئی وزن نہیں رہا، یہ کھوکھلی باتیں ہیں۔ بھارت مکمل طور پر امریکی صہیونی اتحاد کا حصہ ہے اور اب تو سعودی خلیجی عرب ممالک کا تڑکا بھی اس پر لگ چکا ہے۔ بھارت کو پاکستانیوں سے زیادہ کون بہتر جان سکتا ہے کیونکہ 14 اگست 1947ء سے پہلے پاکستانی بھی تو ہندوستانی ہی تھے۔
خبر کا کوڈ : 535611
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش