4
0
Saturday 30 Apr 2016 00:57

کونڈوں کی شرعی حیثیت

کونڈوں کی شرعی حیثیت
تحریر: سید مصطفٰی رضوی
حوزہ علمیہ قم


22 رجب، نذر و نیاز امام جعفر صادق علیہ السلام، جو کہ کونڈے کے نام سے جانی جاتی ہے، اس نذر کو کونڈے اس لئے کہا جاتا ہے کیونکہ کہ اس دن مٹی کے خاص قسم کے برتنوں (کونڈوں) میں  نیاز کے طور پر کھیر یا کوئی اور میٹھی چیز بنا کر مومنین کو کھانے کے لئے پیش کی جاتی ہے۔ درحقیقت کونڈے کی رسم نذر ہے، لیکن عرف میں کونڈے کے نام سے جانی پہچانی جاتی ہے، اس رسم میں نذر کرنے والے نے  (یا منت مانگنے والے نے) اللہ تعالٰی سے عھد کیا ہوتا ہے کہ اگر میری فلاں حاجت پوری ہوگئی تو میں ہر سال 22 رجب کو مومنین کو طعام دوں گا/گی، یا اللہ سے بغیر کسی حاجت کے یہ عھد کیا ہوتا ہے کہ میں ہر سال 22 رجب کے دن مومنین کو طعام دوں گا اور اس عمل کے ثواب کو امام جعفر صادق علیہ السلام کو ہدیہ کروں گا۔ یہاں تک یہ بات واضح ہوگئی کہ  کونڈا درحقیقت  نذر ہے، درحقیقت اللہ سے کیا گیا عھد و پیمان ہے۔ اب ہم نے یہ دیکھنا ہے کہ کیا نذر کرنا (منت ماننا)، مومنین کو طعام دینا، مومنین کی ضیافت کرنا بدعت ہے۔؟؟ کیا یہ عمل غیر شرعی ہے۔؟؟

نذر قرآن اور روایات سے ثابت ہے اور ہمارے تمام فقھاء نے اپنی اپنی توضیح المسائل میں اس کے احکامات بیان فرمائے ہیں۔
نذر قرآن مجید میں:
1۔ جو کچھ تم خرچ کرو یا کوئی نذر مانو، اللہ اسے جانتا ہے۔ (سورہ 3، آیت 144)
2۔ اے میرے رب میں نے نذر مانی تیرے لئے، اس بچے کی جو میرے پیٹ میں ہے آزاد۔ پس قبول فرما مجھ سے۔  (سورۃ 3، آیت 35)
3۔ چاہیے کہ یہ لوگ اپنی نذریں پوری کریں۔ (سورۃ 22، آیت 29)
4۔ میں نے اللہ کے لئے روزے کی نذر مانی ہے، پس آج کسی سے کلام نہ کروں گی۔  (سورہ 19، آیت 26)
روایات میں ہے کہ جب امام حسن علیہ السلام اور امام حسین علیہ السلام بچپن میں بیمار ہوئے تو امام علی علیہ السلام اور حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا نے حسنین (ع) کی شفاء یابی کے لئے 3 دن نذر کرکے روزہ رکھا۔

تعریف نذر اور احکام نذر فقھاء امامیہ کے کلام کی روشنی میں:
نذر کی تعریف:

"نذر" ( منّت) یہ ہے کہ انسان اپنے آپ پر واجب کرلے کہ اللہ تعالٰی کی رضا کے لئے کوئی اچھا کام کرے گا یا کوئی ایسا کام جس کا نہ کرنا بہتر ہو، ترک کر دے گا۔
نذر کی دو قسمیں ہیں:

مشروط، مثلاً کہے کہ اگر مریض اچھا ہوگیا تو فلاں کام کو خدا کے لئے انجام دوں گا، اس کو نذر شکر کہتے ہیں یا اگر فلاں برا کام کروں گا تو خدا کے لئے کار خیر انجام دونگا، اس کو نذر زجر کہتے ہیں۔
مطلق، بغیر کسی قید و شرط کے کہے میں خدا کیلیے نذر کرتا ہوں کہ نماز شب پڑھا کروں گا۔ (یا امام حسین (ع) کی مجلس منعقد کروں گا یا امام حسین (ع) کی مجلس میں شرکت کرنے والوں کے لئے نیاز کا اہتمام کروں گا) یہ تمام نذریں صحیح ہیں۔

* نذر میں صیغہ پڑھنا ضروری ہے اور یہ لازم نہیں کہ صیغہ عربی میں ہی پڑھا جائے، لہذا اگر کوئی شخص کہے کہ "میرا مریض صحت یاب ہوگیا تو اللہ تعالٰی کی خاطر مجھ پر لازم ہے کہ میں دس روپے فقیر کو دوں" تو اس کی نذر صحیح ہے۔
* ضروری ہے کہ نذر کرنے والا بالغ اور عاقل ہو، نیز اپنے ارادے اور اختیار کے ساتھ نذر کرے۔ لہذا کسی ایسے شخص کا نذر کرنا، جسے مجبور کیا جائے یا جو جذبات میں آکر بغیر ارادے کے بے اختیار منت مانے تو صحیح نہیں ہے۔
* جب کوئی شخص اللہ تعالٰی سے عہد کرے کہ جب اس کی کوئی معین شرعی حاجت پوری ہوجائے گی تو فلاں کام کرے گا۔ پس جب اس کی حاجت پوری ہوجائے تو ضروری ہے کہ وہ کام انجام دے۔ نیز اگر وہ کوئی حاجت نہ ہوتے ہوئے عہد کرے کہ فلاں کام انجام دے گا تو وہ کام کرنا اس پر واجب ہوجاتا ہے۔

*
اگر ایک شخص کوئی عمل بجالانے کی نذر کرے تو ضروری ہے کہ وہ عمل اسی طرح بجالائے، جس طرح اس نے نذر کی ہو۔ لہذا اگر نذر کرے کہ مہینے کی پہلی تاریخ کو صدقہ دے گا یا روزہ رکھے گا یا (مہینے کی پہلی تاریخ کو) اول ماہ کی نماز پڑھے گا تو اگر اس دن سے پہلے یا بعد میں اس عمل کو بجا لائے تو کافی نہیں ہے۔ اسی طرح اگر کوئی شخص منت مانے کہ جب اس کا مریض صحت یاب ہوجائے گا تو وہ صدقہ دے گا تو اگر اس مریض کے صحت یاب ہونے سے پہلے صدقہ دے دے تو کافی نہیں ہے۔
* اگر انسان حالت اختیار میں اپنی کی ہوئی نذر پر عمل نہ کرے تو کفارہ دینا ضروری ہے۔
* جب کوئی شخص اللہ تعالٰی سے عہد کرے کہ جب اس کی کوئی معین شرعی حاجت پوری ہوجائے گی تو فلاں کام کرے گا۔ پس جب اس کی حاجت پوری ہوجائے تو ضروری ہے کہ وہ کام انجام دے۔ نیز اگر وہ کوئی حاجت نہ ہوتے ہوئے عہد کرے کہ فلاں کام انجام دے گا تو وہ کام کرنا اس پر واجب ہوجاتا ہے۔
* اگر کوئی شخص اپنے عہد پر عمل نہ کرے تو ضروری ہے کہ کفارہ دے، یعنی ساٹھ فقیروں کو پیٹ بھر کر کھانا کھلائے یا دو مہینے مسلسل روزے رکھے یا ایک غلام کو آزاد کرے۔ (توضیح المسائل آیت اللہ سید علی سیستانی، استفتاءات آیت اللہ سید علی خامنہ ای، توضیح المسائل آیت اللہ مکارم شیرازی)

یہاں تک یہ بات ثابت ہوگئی کہ نذر شرعاً جائز عمل ہے بلکہ جب انسان اللہ سے عھد کرے کہ میں فلاں دن روزے رکھوں گا، یا فلاں امام کی مجلس میں شرکت کرنے والوں کے لئے نیاز و طعام کا اہتمام کروں گا تو اس شخص پر واجب ہے کہ وہ اپنے اس عہد کو پورا کرے، اگر ایسا نہیں کرے گا تو وہ شخص گناہ گار ہوگا اور اس پر کفارہ واجب ہوگا۔ اب ہم نے یہ دیکھنا ہے کہ آیا مومنین کو طعام دینا، انہیں کھانا کھلانا بدعت ہے؟ کیا یہ عمل روایات معصومین علیھم السلام سے ثابت ہے۔؟ تو آیئے اب ہم چلتے ہیں روایات معصومین علیہم السلام کی طرف۔ روایات معصومین علیھم السلام میں مومنین کو طعام دینے کی بہت تاکید اور فضیلت بیان کی گئی ہے۔
علامہ باقر مجلسی رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب "حلیتہ المتقین" اردو ترجمہ مولانا مقبول احمد صاحب  اشاعت: افتخار بک ڈپو صفحہ 61 بسند معتبر امام جعفر الصادق علیہ السلام سے ایک روایت بیان  کرتے ہیں جس کے مطابق: حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام اکثر عمدہ روٹیوں، نفیس فرینی اور لذیذ حلوہ لوگوں کو کھلایا کرتے تھے اور یہ فرماتے تھے، جب خدا ہمارے لئے فراخی کرتا ہے تو ہم بھی فراخ دلی سے لوگوں کو کھلاتے ہیں اور جس وقت کم میسر آتا ہے اس وقت ہم بھی کفایت برتتے ہیں۔"

چند دیگر احادیث پیش خدمت ہے:

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا: "جو شخص الله تعالٰی کی محبت میں کسی "مومن" بھائی کو کھانا کھلاتا ہے تو اس کے لئے اس شخص کے مساوی ثواب ہے، جو لوگوں میں سے "فیام" کو کھانا کھلائے۔ راوی کہتا ہے میں نے پوچھا یہ "فیام" کیا چیز ہے، فرمایا لوگوں میں سے ایک لاکھ افراد۔" (اصول كافي ج2)
امام جعفر صادق علیہ اسلام  نے ارشاد فرمایا: "میرے نزدیک کوئی چیز مومن کے دیدار اور زیارت کے برابر نہیں ہے۔ سوائے اُس کو کھانا کھلانے کے اور جو شخص کسی مومن کو کھانا کھلائے تو اس کا حق یہ ہے کہ  اللہ اُسے جنت کے کھانوں میں سے کھانا کھلائے۔" (اصولِ کافی جلد باب اطعام مومن)
امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا: "جو تین مومنین کو کھانا کھلائے گا تو الله اسے تین بہشتوں جنت فردوس، جنت عدن اور جنت طوبٰی میں کھانا کھلائے گا۔" (اصول كافى، ج 2، باب اطعام مؤمن)
امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا: "کائنات میں الله کے علاوہ، کوئی مخلوق بھی (خواہ مقرب فرشتے ہوں یا نبی مرسل) الله کی کی طرف سے آخرت میں ملنے والے اس ثواب کو نہیں جانتی، جو ایک مسلمان کو سیر کرکے کھانا کھلانے کا ہے۔" (اصول کافی، ج 2، باب اطعام مومن)
ان روایات سے یہ بات واضح خوگئی کہ مومنین کو طعام دیناو کھانا کھلانا بدعت نہیں بلکہ  ایک بہت ہی اچھا اور بافضیلت عمل ہے۔

*22 رجب خوشی کا دن*
شیخ مفید رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب مسار الشیعہ میں 22 رجب کے دن کو مومنین کے لئے خوشی و مسرت  کا دن قرار دیا ہے۔
نتیجہ:

22 رجب کا دن مومنین کے لئے خوشی اور مسرت کا دن ہے۔ لہذا 22 رجب کے دن نذر و نیاز کا اہتمام کرکے مومنین کو طعام دینا، ان کا منہ میٹھا کرانا، ان کی ضیافت کرنا، بدعت نہیں بلکہ انتھائی مطلوب اور مستحب عمل ہے، بلکہ اگر کسی نے اللہ تعالٰی سے عھد کیا ہو، نذر کی ہو کہ میں ہر سال 22 رجب کے دن مومنین کو مدعو کروں گا اور ان کے لئے طعام یا کھانے کا بندوبست کروں گا اور اس عمل کے ثواب کو امام جعفر صادق علیہ السلام کو ہدیہ کروں گا تو اپنی اس نذر کو، اس عھد کو پورا کرنا اس شخص پر واجب ہے۔ اس دن بعض مومنین ایک لکڑھارے کی کہانی پڑھتے ہیں، جس کی کوئی شرعی حیثیت نہیں بلکہ ایسی من گھڑت کہانی کو امام جعفر صادق علیہ السلام سے منسوب کرنا باعث گناہ ہے۔ لہذا اس دن ایسی من گھڑت کہانی کی بجائے، زیارت جامعۃ الکبیرۃ ترجمے کے ساتھ  پڑھی جائے، تاکہ معرفت اہلبیت علیھم السلام میں اضافہ ہو۔
خبر کا کوڈ : 535938
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Pakistan
salam sayed /khasta nabasheed ap nay konday ko sabet karnay ki koshesh ke hay khob zaafay qowatay estembaat ki wajah say akher sawal kma kaan baqi rah geya yane bayees rajab ko quen es nazar ka ehtemam kartay hay / wasalam
Iran, Islamic Republic of
ایسے استدلال حوزہ علمیہ سے کیے گئے تو پھر دین کا ۔۔۔۔
مصطفٰی رضوی
United States
برادران، استدلال الحمد للہ مکمل ھے۔۔
بندہ حقیر نے پچھلے سال ماہ رجب میں ۲۲ رجب کے کونڈوں کے بارے میں آیت اللہ العظمی سید علی سیستانی حفظہ اللہ کے نجف میں موجود دفتر کو سوال ارسال کیا، وہ سوال اور آیت اللہ العظمی سیستانی حفظہ اللہ کا جواب آپ دونوں کی خدمت میں پیش کرتا ہوں۔

سوال: پاکستان اور ھندوستان میں رسم ھے کہ ۲۲ رجب کو مختلف قسم کے کھانے تیار کئے جاتے ہیں اور مومنین کو کھلائے جاتے ہیں، اور اس فعل ( کے ثواب) کو امام جعفر صادق علیہ السلام کو ھدیہ کیا جاتا ہے۔ آیا ایسا کرنا جائز ہے۔؟؟ آج کل بعض شیعہ حضرات کہنے لگے ہیں کہ یہ فعل جائز نہیں ہے، بدعت ہے۔

جواب: بسمہ تعالٰی جائز ہے، اللہ آپ کی توفیقات میں اضافہ فرمائے۔
آیت اللہ سیستانی حفظہ اللہ
استفتائات کا کوڈ:
318753
والسلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ
مصطفٰی رضوی
فیصل
Iraq
جناب آپ نے اپنی بات کو سیدھا کرنے کی خوب کوشش کی ہے۔ ادھر ادھر کی دلیلیں لا کر آپ نے کیا ثابت کیا ہے۔؟ اتنی لمبی چوڑی تقریر میں یہ تو آپ نے لکھا ہی نہیں ہے کہ 22 رجب کیوں خوشی کا دن ہے۔؟ اس دن کیا ہوا تھا کہ ہمارے لیے خوشی کا دن ہے۔ اس پر دلیل لانے کی ضرورت تھی جبکہ موصوف نے اس بات کو چھیڑا ہی نہیں ہے۔
جزاک اللہ
ہماری پیشکش