0
Sunday 1 May 2016 09:22
امام امت کا عزیز ترین فرزند

استاد شہید مرتضٰی مطہری

استاد شہید مرتضٰی مطہری
تحریر: محمد لطیف مطہری کچوروی

مرتضٰی مطہری 3 فروری 1920ء بمطابق 12 جمادی الاول 1338 ھ مطابق 13 بھمن 1299 شمسی کو فریمان گاوں کے ایک علمی و مذھبی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ انکے والد شیخ محمد حسین اس گاوں کی مشہور مذھبی شخصیات میں سے تھے۔ آیت اللہ مرعشی نجفی کی رائے میں وہ ایک بے نظیر شخصیت کے مالک تھے۔ شہید مطہری اپنے والد کے بارے میں کہتے ہیں: جہاں تک مجھے یاد ہے میں نے کم از کم چالیس سال پہلے سے دیکھا ہے کہ یہ شریف انسان رات کو تین گھنٹے سے زیادہ نہیں سوتا، وہ انتہائی فراغت اور سکون کے ساتھ نماز تہجد ادا کرتا ہے۔ کوئی ایسی رات نہیں کہ جس میں انہوں نے اپنے ماں باپ کے لئے دعا نہ کی ہو۔ مرتضٰی مطہری کی ماں بھی ایک پرہیزگار خاتون تھیں۔ جو انتہائی قوی حافظے اور قوت بیان کی مالکہ تھیں۔ وہ اپنے گاوں کی عورتوں کا علاج بھی کرتی تھیں۔

بقول مرتضٰی مطہری انکے والد ساٹھ سال تک لوگوں کے روحانی طبیب اور انکی والدہ کئی سال تک لوگوں کی جسمانی طبیب رہی ہیں۔ یہ پرہیزگار خاتون حاملہ ہونے کے ساتویں مہینے میں خواب دیکھتی ہیں کہ وہ اپنے محلے کی مسجد میں کچھ خواتین کے درمیان بیٹھی ہوئی ہیں، ایک بزرگ خاتون کہ جن کے ساتھ دو اور خواتیں بھی ہیں، مسجد میں داخل ہوتی ہیں اور اس بزرگ خاتون کے حکم پر وہ نمازیوں کے سروں پر عرق گلاب چھڑکتی ہیں، جب شہید مرتضٰی کی والدہ کی باری آتی ہے تو انکے سر پر بہت زیادہ عرق گلاب چھڑکتی ہیں، جب سبب پوچھتی ہیں تو جواب ملتا ہے کہ تیرے پیٹ میں موجود بچہ اسلام کے لئے بہت زیادہ خدمات انجام دے گا۔

مرتضٰی بچپن ہی سے ذہین تھے، ان میں عام بچوں جیسی شرارتیں نہیں دیکھی جاتی کہ جن کی وجہ سے سے والدین بھی پریشان ہوتے ہیں کہ کہیں انکا بچہ نفسیاتی مشکلات میں گرفتار نہ ہو۔ کتاب میں دلچسپی پانچ سال کی عمر میں ہی مرتضٰی میں دیکھی جانے لگی، جب وہ والد کے کتابخانے میں جاتے تو ترتیب سے رکھی ہوئی کتابوں کو خراب کرتے۔ مرتضٰی نے بارہ سال کی عمر تک فریمان میں اپنے والد کے پاس اسلامی علوم کی ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ کچھ عرصے بعد مشھد چلے گئے۔ انکے علم و دانش و مسلسل محنت نے انہیں نہایت کم عمری میں ہی ایک محبوب طالب علم بنا دیا تھا۔ گھریلو پریشانی کے باعث 1935ء کو دوبارہ فریمان واپس آجاتے ہیں اور اپنے والد کی کتابوں کا مطالعہ کرتے ہیں۔ خود شہید کی زبانی کہ اکثر تاریخی مطالعات انہی دو سالوں میں انجام  پائے تھے۔

1936ء میں مرتضٰی مطھری تحصیل علم کے لئے قم کی طرف سفر کا عزم کرتے ہیں۔ پہلے ایک دو سال مرتضٰی کو مناسب کمرہ نہ مل سکا اور مجبوراً مدرسہ فیضہ کے مشرقی حصے میں ایک نامناسب کمرے میں رہنے لگے۔ قم میں تعلیم کے شروع کرتے ہی انکے ذہن میں مطالعہ کائنات کے بارے میں سوالات اٹھنے لگتے ہیں اور یہ افکار اس قدر اثر انداز ہوتے ہیں کہ وہ تنھائی پسند ہو جاتے ہیں اور ان میں تنھائی میں غور و فکر کا شدید میلان پیدا ہو جاتا ہے۔ مرتضٰی مطہری آیت اللہ سید محقق یزدی معروف بہ داماد کے پاس مکاسب اور کفایہ پڑھتے ہیں اور ایک سال تک آیت اللہ حجت کوہ کمری کے درس خارج میں بھی شرکت کرتے ہیں۔ اسی طرح آیات عظام سید صدر الدین صدر، محمد تقی خوانساری، گلپایگانی، شھاب الدین مرعشی نجفی سے بھی علمی استفادہ کرتے ہیں۔

جب 1944ء میں آیت اللہ بروجردی قم تشریف لے آئے تو شہید مطہری دس سال تک انکے فقہ و اصول کے درس خارج میں شرکت کرتے ہیں اور انہی دنوں میں وہ میرزا مھدی آشتیانی کے درس فلسفہ سے بھی بہرہ مند ہوتے ہیں۔ شہید مرتضٰی مطہری کے ہم کلاسوں میں آیت اللہ منتظری نے زیادہ وقت مطہری کے ساتھ گذرا ہے۔ تقریباً گیارہ سال تک وہ ایک ہی کمرے میں زندگی گزارتے اور علمی مباحثے کرتے رہے۔ 1941ء کی سرگرمیوں میں مطہری اصفھان چلے جاتے ہیں، جہاں شہید ایک عظیم استاد الحاج علی آقا شیرازی جو نہج البلاغہ کے استاد تھے، سے آشنا ہوتے ہیں۔ اسی استاد کو شہید عالم ربانی کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ مطہری کی نظر میں نھج البلاغہ کے نصیحت آموز مضامین استاد کی جان اور روح کی گہرائیوں تک اثر انداز ہوچکے تھے۔ نہج البلاغہ سے ارادت اس قدر تھی کہ پڑھتے ہوئے آنکھوں سے آنسو جاری ہو جاتے۔ شہید نقل کرتے ہیں: ان کے حضور میں اپنے گراں بہا ذخائر میں شمار کرتا ہوں، جن کو میں کسی چیز کے ساتھ تبدیل کرنے کو تیار نہیں، ایسا دن یا رات نہیں، جب ان کی یاد میری نظروں کے سامنے مجسم نہ ہو جائے اور میں انہیں یاد نہ کروں۔

طالب علمی کے آغاز میں ہی شہید مطہری، امام خمینی کے درس اخلاق میں جانے لگے تھے، شہید اکثر دروس میں خاموش رہتے تھے جبکہ آیت اللہ منتظری زیادہ بحث و مباحثہ اور علمی اعتراضات کرتے تھے۔ مطہری امام کے درس فلسفہ میں شرکت کرتے ہیں۔ شہید نقل کرتے ہیں، جو درس اخلاق میری پسندیدہ شخصیت ہر جمعرات اور جمعہ کو دیتی تھی، وہ فقط خشک علمی درس اخلاق نہ تھا بلکہ درحقیقت معارف اور سیر و سلوک کا درس تھا، جس نے مجھے سر مست کر دیا۔ انہی دنوں میں امام خمینی عرفان کا خصوصی درس بھی دیتے تھے کہ جس میں مطھری، منتظری، مرتضٰی حائری وغیرہ شرکت کرتے تھے۔

علامہ طباطبائی 1946ء کو قم تشریف لے آتے ہیں اور ایک گمنام طالب علم کی طرح زندگی گزارتے ہیں۔ علامہ درس (شفا) شروع کرتے ہیں اور شہید مطہری علامہ کے درس میں شرکت اور انکی بحث کے شیفتہ اور مجذوب ہو جاتے ہیں۔ شہید، علامہ کے مطالب کو ایک جدید بیان کے ساتھ پیش کرتے، جسکی وجہ سے تمام حاضرین کلاس انکی باتوں کو غور سے سنتے تھے۔ شہید مطہری جن دنوں حوزہ علمیہ میں تحصیل علم میں مشغول تھے، ان ایام میں تبلیغی سرگرمیوں کے علاوہ عربی ادب، فلسفہ، منطق، کلام اور مکاسب و کفایہ کی تدریس بھی کرتے تھے۔ 1950ء میں شہید مطہری ایک خراسانی عالم دین آیت اللہ روحانی کی بیٹی سے شادی کرتے ہیں۔ 1950ء میں علامہ طباطبائی فلسفہ کے جدید مسائل کے بارے خصوصی درس و بحث شروع کرتے ہیں، یہی دروس بعد میں شہید مطہری کے فکری محور کے ہمراہ (اصول فلسفہ و روش رئالیسم) نامی کتاب کی شکل میں تبدیل ہوجاتے ہیں۔

26 ستمبر 1955ء کو تہران یونیورستی کے شعبہ معقول و منقول میں معلم کی حثیت سے کام شروع کر دیتے ہیں۔ قم سے تہران منتقل ہونے کے ساتھ ہی شہید مطہری بہت زیادہ ثقافتی اور اجتماعی سرگرمیاں انجام دیتے ہیں۔ تہران یونیورسٹی اور مدرسہ مروی میں پڑھانے کے علاوہ (مکتب تشیع اور مکتب اسلام) جیسے بعض رسائل کے ساتھ قلمی تعاون شروع کرتے ہیں۔ 5 جون 1963ء کی اسلامی تحریک میں شہید مطہری گرفتار اور جیل بھیج دیئے جاتے ہیں۔ انکی گرفتاری کا سبب انکی وہ سخت تقریر تھی، جو انہوں نے اسی رات کی تھی۔ انکی زوجہ محترمہ انکی عبا کو تبدیل کرتی ہیں، چونکہ شہید مطہری دروازہ کھولنے گئے تو ساواکی شہید مطہری کو لباس تبدیل کرنے کی بھی اجازت نہیں دے رہے تھے، شہید اپنے لباس کے بارے میں اپنی زوجہ سے کہتے ہیں، درحالیکہ ان کی قبا کی جیب اعلانات، ٹیلی فون نمبرز کی ڈائری اور دوسری اسناد سے بھری ہوئی تھی، لیکن زوجہ محترمہ دوسری قبا لا کر دیتی ہیں۔ شہید مطہری چالیس دن تک زندان میں رہے اور آخر کار 17 جولائی 1963ء کو زندان سے آزادی ملی۔

شہید مطہری علمی سطح بلند کرنے اور اپنے مدنظر مقاصد کی تکمیل کے لئے حسینہ ارشاد میں بہت زیادہ سرگرم عمل ہوجاتے ہیں۔ لیکن آخر کار ایسے واقعات پیش آتے ہیں، جن کی وجہ سے شہید مطہری مجبوراً حسینہ ارشاد سے کنارہ گیری کرتے ہیں۔ شہید مطہری جوانی ہی سے تہجد گزار اور شب زندہ دار تھے۔ آیت اللہ منتظری جو گیارہ سال انکے کمرے میں رہے، کہتے ہیں کہ انکی نماز تہجد زمانہ طالب علمی سے ہی کبھی قضا نہیں ہوئی، راتوں کو انکی گریہ و زاری اور راز و نیاز سے انکے معنوی حالات اور باطنی طھارت ظاہر ہوتی ہے۔ حسینیہ ارشاد کو چھورنے کے بعد شہید مطہری ایک دوسرے مورچے کی طرف جاتے ہیں اور وہ مسجد الجواد ہے۔ وہ اس مسجد میں تقاریر بھی کرتے اور تفسیر کا درس بھی دیتے (جہاد در اسلام، رشد اسلامی۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تبلیغی سیرت پر بحث اس زمانے کی تقاریر ہیں۔ شہید مطہری کی سیاسی سرگرمیوں کی وجہ سے 23 جون 1975ء تک انکے منبر پر جانے اور تقریر کرنے پر پابندی لگا دی گئی۔ تمام اضلاع میں ساواک کے شعبوں کو حکم دیا جاتا ہے کہ وہ تیار رہیں، تاکہ شہید مطہری کسی بھی جگہ تقریر نہ کرسکیں۔

1976ء میں شہید مطہری نجف اشرف جاتے ہیں اور امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ حوزہ علمیہ قم کے حالات اور اسلامی تحریک کے مسائل پر تبادلہ خیال کرتے ہیں۔ انقلاب سے چند ماہ پہلے امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ پیرس میں تھے، شہید مطہری نے پیرس کا سفر کیا اور انکے ساتھ ملاقات میں بعض مسائل پر تبادلہ خیال کیا۔ اسی سفر میں امام کے اطرافیوں کو پتہ چلا کہ انکے ساتھ امام کا تعلق کچھ اور ہی قسم کا ہے۔ امام جس قدر اطمینان و اعتماد ان پر کرتے، کسی دوسرے شخص پر نہیں کرتے تھے۔ شہید مطہری استقبال امام کے تمام پروگرام دوستوں سے ملکر بناتے ہیں۔ جب امام کو لیکر آنیوالا جہاز زمین پر اترتا ہے تو امام جہاز سے اترنے سے پہلے انہیں بلاتے ہیں اور ان سے بات چیت کرنے کے بعد جہاز سے  نکلتے ہیں۔

1971ء کے بعد سے شہید مطہری گمراہ قسم کی فکری سرگرمیوں کے خلاف جنگ کر رہے تھے۔ مجاہدین خلق جیسے بعض گروہ انکے افکار کے سخت مخالف تھے۔ آخری ایام میں فرقان نام کا ایک گروہ بن گیا، جو شہید مطہری جیسی شخصیات کو اپنے نظریات کی ترویج میں سب سے بڑی  رکاوٹ اور خطرہ سمجھتا تھا۔ آخرکار یہ گروہ انکے قتل پر کمر بستہ ہو جاتا ہے اور انہیں منگل یکم مئی 1979ء کی رات 10 بجکر 20 منٹ پر شہید کر دیتا ہے۔ شہادت کے مقام پر گروہ فرقان کا ایک پمفلٹ ملتا ہے، جس میں لکھا ہوا تھا (عوامی انقلاب کو منحرف کرنے کے سلسلے میں مرتضٰی مطہری کی ذاتی خیانت سب پر واضح تھی، لہذا مذکورہ شخص کی انقلابی پھانسی انجام پا گئی۔) شھادت سے چند شب پہلے وہ خواب میں رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھتے ہیں اور اس خواب میں امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ بھی موجود تھے۔ رسول خدا اپنے لب مبارک انکے لبوں پر رکھتے ہیں اور پھر اٹھاتے نہیں ہیں، خوشی کی شدت میں وہ خواب سے بیدار ہو جاتے ہیں، گویا کہ حضرت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لبوں کی گرمی اب بھی وہ اپنے لبوں پر محسوس کرتے ہیں اور یہ خواب پہلے اپنی زوجہ کو سناتے ہیں۔

امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے پیغام تسلیت سے چند اقتباس:
میں فقیہ عالی، فیلسوف علام اور مفکر حکیم آقائے شیخ مرتضٰی مطہری کی اندوہناک رحلت پر دلی تعزیت پیش کرتا ہوں۔ یہ عظیم انسان جس نے پوری عمر عزیز اسلام کے مقدس اہداف کے حصول کی جدوجہد میں صرف کی۔ میں اپنے عزیز ترین فرزند کے لئے سوگ نشین ہوں، جو میری عمر کا حاصل تھا۔ میں نے ایک فرزند کھویا ہے، جو میرے بدن کا جصہ تھا۔ میں ایسے فرزند کی تربیت پر، جس نے اپنی نورانی تبلیغات سے مردہ روحوں کو زندگی بخشی اور جہالت کی تاریکیوں کو اپنے علم کی شمع فروزاں سے منور کیا، آغوش اسلام کو سلام اور مبارکباد پیش کرتا ہوں۔
منابع:
1۔ پارہ ای از خورشید
2۔ احیا تفکر اسلامی
3۔ مجموعہ آثار شھید مطھری
4۔ جلوہ ھای معلمی استاد
5۔ مصلح بیدار
6۔ خاطرات من از شہید مطہری
7۔ استاد شہید بہ روایت اسناد
8۔ سیری در زندگانی استاد مطہری  
9۔ یاد نامہ شہید مرتضٰی مطہری             
10۔ استاد شہید بہ روایت ساواک
خبر کا کوڈ : 536225
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش