0
Thursday 5 May 2016 17:59

امریکی سلطنت، قتل و غارت کی کارپوریشن

امریکی سلطنت، قتل و غارت کی کارپوریشن
تحریر: کرس ہیجر(Chris Hedges)

خوف و ہراس پھیلانا، ڈرانا دھمکانا اور شدت پسندی وہ عناصر ہیں، جنہوں نے امریکی سلطنت کے مختلف حصوں کو آپس میں جوڑ کر رکھا ہوا ہے۔ ہوائی حملے اور بمباری، ڈرون اور میزائل حملے، آرٹلری فائر اور شیلنگ، ٹارگٹڈ کلنگ، وسیع قتل عام، ڈیتھ اسکواڈز کے ذریعے کلنگ، ٹارچر، عام شہریوں کی جاسوسی اور نگرانی، وسیع پیمانے پر گرفتاریاں، کرفیو لگانا، پروپیگنڈہ، شہری آزادی کا خاتمہ اور سازباز پر آمادہ سیاسی کٹھ پتلیاں ہماری جنگوں اور پراکسی جنگوں کا نتیجہ ہیں۔ انڈونیشیا اور گوئٹے مالا سے لے کر عراق اور افغانستان تک ایسے ممالک جن پر ہم اپنا تسلط قائم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، اس ظالمانہ طرز عمل سے اچھی طرح آگاہ ہیں۔ لیکن امریکی معاشرہ اپنی سلطنت سے متعلق حقائق سے بہت کم باخبر ہوتا ہے۔ ان ناگوار حادثات کا بھی انکار کر دیا جاتا ہے، جن کے بارے میں ہمیں بہت کم معلومات مہیا ہوتی ہیں۔ ہمارے معاشرے کو یہ اطمینان ہے کہ ہمارا مطیع میڈیا اور ہمارے حکام انتہائی بافضیلت اور شریف ہیں، جبکہ قتل و غارت کی مشینری بدستور سرگرم عمل ہے اور آگے بڑھتی جاتی ہے۔

ایسے صحافیوں کی تعداد انتہائی محدود ہے، جو ایلن نائرن (Allan Nairn) سے زیادہ شجاعانہ، ظریفانہ اور دقیق انداز میں امریکی سلطنت سے متعلق حقائق بیان کرسکیں۔ انہوں نے تین سال سے زیادہ عرصے تک مرکزی امریکہ، مشرقی تیمور، فلسطین، جنوبی افریقہ، ہیٹی اور انڈونیشیا میں زندگی بسر کی اور بڑی تعداد میں رپورٹس شائع کیں۔ انہوں نے پہلی بار ال سلواڈور، گوائٹے مالا اور ہیٹی میں وسیع پیمانے پر قتل عام انجام دینے والے نیم فوجی گروہوں کے ساتھ امریکی تعاون سے پردہ اٹھایا اور اسے منظرعام پر لائے۔ وہ اس وقت نیویارک میں رہائش پذیر ہیں۔ انہوں نے میرے ساتھ ایک انٹرویو میں مقامی امریکی شہریوں کے وسیع قتل عام، غلامی کے مراکز، سینکڑوں مزدوروں کے قتل عام اور انیسویں صدی اور بیسویں صدی کے آغاز میں مزدور یونینز تشکیل دینے والے عناصر پر روشنی ڈالی اور امریکہ کی سامراجی شدت پسندی کی وضاحت کی۔

ایلن نائرن نے کہا: "آج بھی امریکہ کی مسلح افواج کو سیاسی اعتبار سے عام شہریوں، صحافیوں، دینی رہنماوں، مزدور رہنماوں، طالب علموں اور دیگر افراد کے قتل کی اجازت حاصل ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ امریکی سیاست میں اگر کوئی صدر مملکت ایسے اقدامات سے بیزاری کا اظہار کرے تو اسے برا سمجھا جاتا ہے۔ ایسے صدر کو بزدل اور کمزور خیال کیا جاتا ہے۔ جب جارج بش سینیئر نے خفیہ طریقوں سے پانامہ میں میخال نوروئیگا کے خلاف بغاوت کا مقدمہ فراہم کرنے کی منصوبہ بندی کی تو انہیں اس میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ ان کے خلاف شدید ردعمل کا اظہار کیا گیا۔ حتی امریکی اخبار نیوزویک میں ایک رپورٹ بھی شائع کی گئی، جس میں جارج بش سینیئر کو اس ناکامی پر کمزور شخص قرار دیا گیا اور ان کی مذمت کی گئی۔"

ایلن نائرن نے مزید کہا: "میرے خیال میں ابھی ایک ہفتہ بھی نہیں گزرا تھا کہ امریکہ نے پانامہ کے خلاف جنگ کا اعلان کر دیا۔ پہلے حملے کے دوران ہی "ایل شوریلو" نامی پانامہ کا ایک غریب نشین محلہ جل کر راکھ ہوگیا اور سینکڑوں بیگناہ انسان اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ امریکی اخبار نیویارک ٹائمز نے اس حملے کے بعد شائع ہونے والے اپنے ایڈیشن کے اداریے میں آر ڈبلیو ایپل کے قلم سے لکھا کہ بش سینیئر نے خون خرابے کی طرف رجحان ظاہر کرکے یہ ثابت کر دیا ہے کہ وہ امریکی صدر کا عہدہ سنبھالنے کے لائق ہیں۔ البتہ نہ اپنا خون بہا کر بلکہ سویلین افراد سمیت دوسروں کا خون بہا کر۔ یہ ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ جب بھی امریکی صدور مملکت یا فوجی جرنیل قتل عام کے مرتکب ہوتے ہیں اور اس قتل عام کا نشانہ بننے والے بھی امریکی شہری نہیں ہوتے، امریکی معاشرہ ان پر قتل سے مربوط قوانین اور سزاوں کو لاگو کرنے میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کرتا ہے۔ جی ہاں، تمام بڑی طاقتیں ایسا ہی کرتی ہیں۔

لیکن حالیہ کچھ عرصے میں چونکہ امریکہ عالمی سطح پر ایک سپر پاور بن چکا ہے، لہذا اس نے جو قتل عام انجام دیئے ہیں، وہ بھی زیادہ گھناونے اور وحشیانہ ہیں۔ صرف قتل عام کے ان واقعات پر توجہ دیں، جن کا مشاہدہ میں نے اپنی آنکھوں سے کیا ہے اور انہیں فاش کرنے اور ان سے مقابلہ کرنے کی کوشش کی ہے، جیسے گوائٹے مالا، ال سلواڈور، نیکاراگوا، ہونڈوراس، ہیٹی، جنوبی افریقہ، فلسطین، مشرقی تیمور، انڈونیشیا اور جنوبی تھائی لینڈ۔ مجھے یقین ہے کہ میں بعض موارد کا ذکر کرنا بھول گیا ہوں۔ ان جنگوں اور پراکسی وارز میں امریکی سپاہیوں نے ایسے ایسے گھناونے قتل عام انجام دیئے، جن کے دوران پورے کے پورے گاوں صفحہ ہستی سے مٹا دیے جاتے تھے۔ یاد رہے گوائٹے مالا کی آرمی نے ایسے ہی کئی قتل عام انجام دیئے، خاص طور پر 1980ء کے شروع میں جب ریگن امریکی صدر تھے اور وہ گوائٹے مالا کے فوجی آمر جنرل ریوس مانٹ کی بھرپور حمایت میں مصروف تھے۔

گوائٹے مالا کے فوجی ملک کے شمال مغرب میں واقع مایا کی پہاڑیوں میں واقع دیہاتوں سے عبور کر رہے تھے۔ میں بھی وہاں موجود تھا اور قتل عام میں شریک فوجیوں سے بات چیت کرتا رہتا تھا۔ اسی طرح میں ان گھناونے حادثات میں بچ جانے والے افراد سے بھی انٹرویو لیتا تھا۔ فوجی عام افراد کو صلیب پر چڑھا دیتے تھے۔ وہ ایسے ایسے طریقے استعمال کرتے تھے، جو میں آج دہشت گرد گروہ داعش کی جانب سے ریلیز ہونے والی مختلف ویڈیوز میں مشاہدہ کرتا ہوں اور جنہیں دیکھ کر دنیا والے انگشت بدہان ہو جاتے ہیں۔" ایلن نائرن نے مزید کہا: "ان عالمی طاقتوں میں ہمیشہ سے ایسے ہتھکنڈے استعمال کرنے کا رجحان پایا گیا ہے اور کئی صدیوں سے وہ انہیں استعمال بھی کر رہی ہیں۔ تاریخ کے آمر حکمرانوں سے منسوب ایسے واقعات تمام بڑے ادیان کی مقدس کتابوں میں پڑھے جاسکتے ہیں۔ امریکی تاریخ پر نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ تھیوڈور روزویلٹ کے دوران صدارت سے لے کر آج تک تمام امریکی صدور مملکت اپنے ایسے اقدامات پر فخر کا اظہار کرتے آئے ہیں۔ ذرا صدر روزویلٹ کی تحریروں کا مطالعہ کیجئے۔ وہ بارہا قتل و غارت کی ضرورت اور قتل کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہیں اور لکھتے ہیں کہ اس کے بغیر ایک سیاسی نظام کی بقا کو یقینی نہیں بنایا جا سکتا۔"

ایلن نائرن سے میری پہلی ملاقات 1981ء میں ال سیلواڈور میں ہوئی، جب میں وہاں جاری جنگ کی کوریج کیلئے وہاں موجود تھا۔ اس سال ان کا ایک تحقیقاتی مقالہ "ڈیتھ اسکواڈز کے پس پردہ حقائق" کے عنوان سے مجلہ "پروگریسو" میں شائع ہوچکا تھا۔ اس مقالے نے سیاسی دنیا میں زلزلہ برپا کر دیا۔ اس مقالے میں امریکی فوجی افسران کی جانب سے ال سیلواڈور میں سرگرم ڈیتھ اسکواڈز کی مکمل حمایت، ٹریننگ اور اسلحہ کی فراہمی کی پوری تفصیلات فراہم کی گئی تھیں۔ یہ ڈیتھ اسکواڈز صرف ایک ماہ کی مدت میں سینکڑوں افراد قتل کرچکے تھے۔ ان میں سے اکثر افراد کو قتل کرنے سے پہلے ٹارچر کیا گیا تھا اور ان کی لاشوں کو بھی مسخ کیا گیا تھا۔ ان کا یہ مقالہ باعث بنا کہ امریکی سینیٹ کی انٹیلی جنس کمیٹی اس کا نوٹس لیتے ہوئے اس واقعے کی تحقیق کا حکم جاری کرے۔

ایلن نائرن نے مزید کہا: "ال سیلواڈور میں امریکہ کی جانب سے تشکیل دیئے گئے، ڈیتھ اسکواڈز امریکی صدر کینیڈی کے دور میں تشکیل پائے اور ان کی تشکیل میں زیادہ اہم کردار امریکہ کی اسپشل سروسز گروپ سے مربوط فوجی افسران اور سی آئی اے کے اہلکاروں نے ادا کیا۔ ان امریکی افسران اور اہلکاروں نے جاسوسی کا ایک نظام تشکیل دیا، جو ال سیلواڈور، ہونڈوراس اور نکاراگوا سے مربوط تھا۔ ان کی مرکزی فائلیں سی آئی اے کی طرف سے بنائی جاتی تھیں۔ وہ ڈیتھ اسکواڈ کے اراکین کو مختلف علاقوں میں یونیورسٹیز، عدالتیں، کھیتوں اور کارخانوں پر نظر رکھنے اور ضروری معلومات حاصل کرنے کی ٹریننگ دیتے تھے۔ اس کے بعد ان سے یہ فائلیں واپس لے لی جاتی تھیں۔"

ایلن نائرن نے ال سیلواڈور کے ایک سابق فوجی جرنیل جوز البرٹو میدارنو سے 13 گھنٹے کا انٹرویو لیا۔ یہ فوجی جرنیل ال سیلواڈور کے ڈیتھ اسکواڈز کا گاڈ فادر تصور کیا جاتا تھا۔ 1985ء میں حریت پسند تحریک کے جنگجووں نے اس جرنیل کو قتل کر دیا۔ ایلن نائرن اس انٹرویو کے بارے میں کہتے ہیں: "اس نے مجھے تفصیل سے بتایا کہ کس طرح پادری، راہب، وعظ کرنے والے اور یونینز کے اراکین سب کے سب ان کا ٹارگٹ بن چکے تھے اور انہیں ان سب کو قتل کرنے کا ٹاسک دیا گیا تھا۔ اس نے تمام چھوٹے سے چھوٹے واقعات کی بھی تفصیل بیان کرتے ہوئے مجھے بتایا کہ وہ یہ کام امریکیوں سے پیسے لے کر انجام دیتے تھے۔ یہ ڈیتھ اسکواڈز عیسائی راہبوں کے ساتھ جنسی زیادتی اور ان کے قتل کے بھی مرتکب ہوتے تھے۔ دنیا والے داعش کی جانب سے شائع ہونے والی ویڈیوز دیکھ کر آخرکار اس حقیقت کو درک کرنے لگے ہیں کہ سیاسی قتل و غارت کے پیچھے کون سی قوت کارفرما ہے۔ ال سیلواڈور میں انہوں نے نہ صرف عام انسانوں کا قتل عام کیا بلکہ ان کے ہاتھ پاوں بھی کاٹے اور لاشوں کو راستوں پر لٹکا دیتے تھے۔ ہر گزرنے والا شخص انہیں دیکھ سکتا تھا۔

اسی وقت کی بات ہے کہ میں چند سال کیلئے گوائٹے مالا گیا۔ وہاں اس سے بھی زیادہ بری صورتحال تھی۔ انہوں نے 1 لاکھ سے زیادہ عام انسانوں کا قتل عام کیا۔ ایک دن میں نے پولی ٹیکنیک یونیورسٹی جو گوائٹے مالا آرمی کی اکیڈمی بھی تھی، میں امریکی آرمی کی جانب سے صادرہ دستورالعمل کا ہسپانوی زبان میں ترجمہ ڈھونڈ نکالا۔ اس پیپر میں مظاہرین اور مشتعل ہجوم کو کنٹرول کرنے کا طریقہ بیان کیا گیا تھا اور وہ اس پر عمل بھی کرتے تھے۔ اس میں ایسا طریقہ کار بیان کیا گیا تھا جسے فلپائن میں "ہوکس کے خلاف جنگ" کا نام دیا گیا تھا۔ اس طریقہ کار کے مطابق افراد کو قتل کرنے کے بعد ان کی لاش دریا میں ڈال دی جاتی تھی، تاکہ گل سڑ کر ٹکڑے ٹکڑے ہو جائے۔ بعد میں ان ٹکڑوں کو دریا کے کنارے پھیلا دیا جاتا تھا، تاکہ اس طرح عام انسانوں میں رعب اور وحشت کی فضا قائم کی جاسکے۔ البتہ یہ وہی کام ہے جو آج داعش سے وابستہ دہشت گرد عناصر انجام دیتے نظر آتے ہیں۔

انڈونیشیا میں چینی نژاد باشندوں، لیبر منتظمین، فنکاروں، روشن خیالوں، اسٹوڈنٹ رہنماوں اور کمیونسٹ پارٹی کے اراکین کے خلاف بھی مشابہہ ہتھکنڈے بروئے کار لائے گئے۔ ان اقدامات کا نتیجہ آزاد رہنما سوکارنو کی معزولی کی صورت میں نکلا۔ 1967ء میں ایک فوجی بغاوت کے نتیجے میں جنرل سوہارتو نے صدر سوکارنو کا تختہ الٹ کر اقتدار سنبھال لیا۔ جنرل سوہارتو نے 31 سال تک ملک پر حکومت کی۔ آمریت کے اس دور میں مسلح افواج اور نیم فوجی دستوں کے ہاتھوں 10 لاکھ سے زائد بیگناہ انڈونیشیائی شہری قتل ہوئے۔ قتل ہونے والے افراد کی لاشیں زیادہ تر دریا میں ڈال دی جاتی تھیں یا سڑک کے کنارے پھینک دی جاتی تھیں۔ ایسے 5000 افراد کی لسٹ موجود ہے، جن کی ٹارگٹ کلنگ میں امریکی جاسوسی ادارے سی آئی اے کو ذمہ دار قرار دیا گیا ہے۔ اس زمانے میں امریکی میڈیا نے سی آئی کی بہت تعریف کی اور اسے ہیرو بنا کر پیش کیا۔

امریکی میڈیا نے ان سیاسی حوادث کو ایشیا میں نور کا نام دیا۔ جنرل سوہارتو انہیں سیاسی حوادث کے نتیجے میں برسراقتدار آئے۔ اس کے بعد 1970ء کے عشرے کے اواسط میں جنرل سوہارتو نے صدر فورڈ اور ہنری کسنجر کی اجازت سے اپنے ہمسایہ چھوٹے ملک مشرقی تیمور پر دھاوا بول دیا۔ مشرقی تیمور اس وقت پرتگال کی کالونی محسوب ہوتا تھا اور اپنی آزادی اور خود مختاری کی جنگ لڑ رہا تھا۔ استعماری طاقتوں نے جنرل سوہارتو کو سبز جھنڈی دکھا کر کام جلد مکمل کرنے کی تاکید کی۔ استعماری طاقتیں بھی خاموش تماشائی نہیں بنیں بلکہ اس عظیم قتل عام میں شریک ہو کر مشرقی تیمور کی ایک تہائی آبادی کا خون بہا دیا۔

1991ء میں انہوں نے ایک قبرستان کے سامنے بڑا قتل عام انجام دیا، جس میں خوش قسمتی سے میں زندہ بچ جانے میں کامیاب ہوگیا۔ میں ایمی گڈمین کے ساتھ وہاں موجود تھا۔ انہوں نے ہماری آنکھوں کے سامنے 200 سے زائد افراد کو خون میں نہلا دیا۔ وہ امریکی ایم – 16 رائفلوں کے ذریعے لوگوں کی کھوپڑیاں اڑا رہے تھے۔ یہ ایک معیاری عمل ہے۔ میں نے کوشش کی ہے ایسے ممالک کا سفر کروں، جہاں شدید آمرانہ اور گھٹا ہوا ماحول حکمفرما ہے اور امریکہ اس حکمفرما نظام کی حمایت میں مصروف ہے۔ اسی طرح میں نے ہمیشہ کوشش کی ہے کہ اس حقیقت سے پردہ اٹھاوں اور ایسے ناگوار واقعات دوبارہ انجام پانے سے ممانعت کروں۔ یہ رویہ صرف امریکہ تک ہی محدود نہیں بلکہ ایسے اقدامات ہر بڑی طاقت کا معیاری عمل شمار ہوتا ہے۔ اگر آپ سیاست کی دنیا پر اثرانداز ہونا چاہتے ہیں تو آپ کو دنیا والوں پر اپنی درندگی اور وحشیانہ پن ظاہر کرنا ہوگا۔ یہ طاقت چاہے امریکی حکام ہوں، نیٹو ہو، طالبان ہو یا کوئی اور مسلح گروہ ہو، جو وسیع پیمانے پر قتل عام کی توانائی رکھتا ہو۔ اس تاثر کے بغیر سیاست کی دنیا میں آپ کیلئے کوئی جگہ نہیں۔

افغانستان، عراق اور شام میں جاری بدامنی کے نتیجے میں اب سیاسی اور سماجی ٹوٹ پھوٹ کا آغاز ہوگیا ہے اور اس کی کوئی آخری حد نظر نہیں آتی۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ دو متخاصم دھڑے نہیں بلکہ چند دھڑے آپس میں دست و گریبان ہیں۔ ایسی صورتحال دیکھ کر انسان کے ذہن میں کمبوڈیا کی یاد تازہ ہوجاتی ہے۔ امریکہ نے وسیع پیمانے پر اس ملک کو بمباری کا نشانہ بنایا جس کے نتیجے میں دہشت گرد گروہوں کو سر اٹھانے کا موقع مل گیا۔ اس امریکی بمباری کے نتیجے میں کمبوڈیا کے تمام سیاسی اور سماجی مراکز نابود ہوگئے۔ ایسے ماحول میں شیطانی اور شدت پسند گروہوں کو سر اٹھانے کا موقع مل جاتا ہے۔ بغیر وقفے کے جنگ اور اندھا دھند کلنگ امریکہ کی استعماری طاقت کا شاخسانہ ہے۔ ایک بڑی طاقتور حکومت ایسی حکومت کو کہا جاتا ہے، جس کے بنیادی ارکان جنگ پر استوار ہوتے ہیں۔ اس کی واضح مثال امریکہ یا آج کا اسرائیل ہے۔ یہ دونوں ممالک سپارٹا جیسے ممالک ہیں، جنہیں اپنی بقا کیلئے شدید کشیدہ صورتحال کی ضرورت ہے۔ امریکی اور اسرائیلی حکومتیں ہمیشہ شدت پسندانہ اقدامات انجام دیتے رہیں گے اور ہمیشہ کہیں نہ کہیں بحران سازی کرتے رہیں گے۔

ہم آج ایسے دور سے گزر رہے ہیں، جس میں امریکی حمایت میں انجام پانے والے عمدی قتل عام اور شدت پسندانہ اقدامات ایک حد تک امریکی معاشرے کے اندر درک کئے جا رہے ہیں۔ ماضی میں کبھی ایسا نہیں ہوتا تھا۔ دنیا کے کسی کونے میں امریکی حکومت کے مجرمانہ اقدامات کا نتیجہ خود امریکی معاشرے کے اندر ظاہر نہیں ہوتا تھا۔ ہیٹی، فلسطین یا جنوبی افریقہ میں انجام پانے والے ظالمانہ اقدامات کا خود امریکہ پر کوئی منفی اثر نہیں پڑتا تھا، لیکن آج ایسا ہو رہا ہے۔ دنیا کے مختلف حصوں میں انجام پانے والے امریکی اقدامات جیسے افغانستان میں سوویت قبضے کے خلاف مجاہدین کی حمایت، شام میں صدر بشار اسد کے مخالف گروہوں کی حمایت کا نتیجہ پہلے القاعدہ اور اس کے بعد داعش کی تشکیل کی صورت میں ظاہر ہوا ہے۔ انجیل میں آیا ہے کہ جو کوئی تیز ہوا ایجاد کرے گا، اسے خود طوفان کا مقابلہ کرنا پڑے گا۔ یہ وہی چیز ہے جو آج داعش کے مسئلے میں مغرب کو سامنا کرنا پڑ رہی ہے۔"
خبر کا کوڈ : 536381
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش