0
Friday 6 May 2016 18:48

رشتہ، سوشل میڈیا ..... پیار انجان فرینڈز.....

رشتہ، سوشل میڈیا ..... پیار انجان فرینڈز.....
تحریر: آغا مجتبٰی زمانی

جب رشتوں میں پیار ہوتا تھا تو اس پیار بھرے تعلق کے درمیان کوئی حائل نہیں ہوسکتا تھا، جب تعلق کے درمیان اخلاص ہوتا تھا تو کوئی بھی اس پرخلوص تعلق کو کمزور نہیں کرسکتا تھا، لیکن آج ایسا محسوس ہوتا ہے کہ فیس بک (اور سوشل میڈیا کے دیگر ذرائع) کے استعمال کی اتنی عادت پڑ چکی ہے کہ بعض پڑھے لکھے اعلٰی تعلیم یافتہ اپنے سماجی رابطے کی ویب سائٹس فرینڈز کے درمیان ماں باپ، بہن بھائی اور دیگر مخلص رشتوں کو بھی حائل سمجھتے ہیں، اب بھائی کی توجہ کو بھی سوشل میڈیا کی من پسند زندگی میں دیوار سمجھتے ہیں۔ آج فیس بک فرینڈز کی خاطر نوجوان نسل ماں کو رکاوٹ سمجھتی ہے، اب ایسا لگتا ہے جیسے اپنے عزیز ترین رشتوں سے زیادہ سوشل میڈیا کے فرینڈز زیادہ اہم ہوچکے ہیں، اب رشتہ سوشل میڈیا ہے اور پیار اس پر موجود انجان فرینڈز ہیں۔

پہلے جب قریبی رشتوں کے درمیان پیار تھا تو اس پیار بھرے تعلق کے درمیان کوئی حائل نہیں ہوسکتا تھا، لیکن اب ایسا لگتا ہے کہ سماجی رابطوں کی ویب سائٹس (سوشل میڈیا) کے درمیان بھائی حائل نہیں ہوسکتا اور سوشل مییڈیا کے انجان فرینڈز کے درمیان ماں باپ حائل نہیں ہوسکتے۔ اب ایسا نظر آتا ہے کہ فیس بک اور ٹیوٹر فرینڈز کے درمیان اخلاص کی طاقت بھی حائل نہیں ہوسکتی جبکہ ان سب سے پہلے رشتوں کی طاقت زیادہ موثر تھی اور آج بھی جو سمجھدار لوگ خاندانی اور رشتوں کی پائیداری کی اہمیت کو سمجھتے ہیں، وہ اپنے خاندانی تعلقات اور اخلاص پر مبنی رشتوں کے درمیان کسی بھی شے کو حائل نہیں ہونے دیتے۔ لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ آج کی نوجوان اور تعلیم یافتہ نسل کا رشتہ اور تعلق مشینی اور مصنوعی سراب بن چکا ہے، آج انسان کے اوپر سوشل میڈیا کا نشہ چڑھا ہوا ہے۔ لہذا گہرے سے گہرا رشتہ بھی ٹھکرا دیا جاتا ہے، جو ان تمام مصنوعی عادتوں کے درمیان آجائے۔

سوشل میڈیا کا نام تو بہت حسین ہے، لیکن ان سماجی رابطوں کی ویب سائٹس کے ذریعے سماجی قدروں کا گلا گھونٹ دیا گیا ہے، نام تو سماجی رابطہ (سوشل میڈیا) ہے، لیکن آج اس (کے ذریعے) نئی نسل کو بے لگام کر دیا گیا ہے، پڑهے لکھے اور اعلٰی تعلیم یافتہ نسل کے اذہان پر بھی ایک خبط سوار کر دیا گیا ہے، جو آج کی نسل کے ذہنوں کو الجھا رہے ہیں، خاندانی اور معاشرتی مسائل کے حل کی بجائے معاشروں میں مسائل کو مزید پروان چڑھا دیا گیا ہے۔ اس سوشل میڈیا نے سب بڑا ظلم یہ کیا ہے کہ ہم سے دور والے تو قریب کر دیئے لیکن قریب والوں کو دور... فون پر چیٹ کرتے بچے کا دوست لطیفہ لکھ بھیجھے تو قہقہہ لگاتا ہے، ایسے جیسے اس کا دوست قریب ہے، لیکن اسی بچے کی ماں کچھ پوچھے تو فون میں دھیان ایسا لگتا ہے کہ ماں سے اتنا دور ہے جیسے اس نے کچھ سنا ہی نہیں..۔

آج بعض خواتین شادی کو جھنجٹ سمجھنے لگی ہیں، بچے پاؤں کی زنجیر ہیں، بھائی روک ٹوک کرنے والا ہے، ماں صرف کپڑا دھونے والی ماسی ہے، باپ پیسہ کمانے کا منافع بخش کوئی ایجنٹ ہے، بیوی گھر کی جھاڑ پوچھ کرنے والی نوکرانی ہے، استاد بے جا تنقید کرنے والا لگتا ہے، اب عزیز و اقارب فضول لوگ ہیں، سالہا سال کی دوستی اور چاہت ماضی کی غلطی ہے، ایک دوسرے کے لئے پیار، خیال اور توجہ پاگل پنا تھا، پڑوسی دشمن ہیں، یہ اور اس جیسے دیگر مسائل اس زمانے کی سنگین سماجی بیماریاں بن چکی ہیں۔ ایک معروف ادیب کے بقول ان سب مسائل کی ایک سب سے بڑی وجہ آج کے دور میں گھر میں کوئی ایک گھر کا بڑا نہ ہونا ہے، بلکہ آج گھر کے سب افراد ہی بڑے ہوچکے ہیں۔ ہمیں گھر میں ایک کو تو بڑا ماننا ہوگا اور بڑوں کو بڑا بن کر دکھانا ہوگا اور جو جس عمر کا ہے، اسے اسی عمر کی غذا دینی ہوگی، اسی عمر کے مطابق تعلیم دینی ہوگی، وقت اور عمر کے مطابق غذا کا ملنا بھی ضروری ہے، وقت اور عمر سے پہلے کی غذا بھی انسان کا معدہ فاسد اور تباہ کر دیتی ہے۔

اب آئیں ان تمام سماجی و خاندانی بلکہ تمام بیماریوں کا علاج طب الٰہی سے کرتے ہیں اور قرآن کریم سے معلوم کرتے ہیں۔ قرآن کریم کو اول سے آخر تک تدبر کے ساتھ تلاوت کریں تو خداوند کریم نے متعدد مقامات پر جملہ بیماریوں کے لئے جو نسخہ کیمیا تجویز کیا ہے، وہ تقویٰ الٰہی و تہذیب نفس ہے۔ اگر انسان اس الٰہی نسخے کو اپنی زندگی کا معمول بنا لے تو تمام روحانی و جسمانی اور انفرادی و سماجی بیماریوں سے چھٹکارا حاصل کرسکتا ہے۔ با الفاظ دیگر وہ تمام رشتے جنکو جوڑنے کا خداوند نے حکم دیا ہے اور اس سوشل میڈیا سے بری طرح ٹوٹتے نظر آرہے ہیں، یہ سب اسی نسخے سے جوڑے جاسکتے ہیں۔ البتہ شرط یہ ہے کہ اس نسخے کی فقط تلاوت یا تعویذ یا اس سے محبت نہیں بلکہ اسکو روزمرہ زندگی کا معمول بنا لیا جائے۔
خبر کا کوڈ : 537124
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش