0
Wednesday 18 May 2016 19:58
حکومت نے خود بنایا تھا، کارروائی کرنا مشکل ہے

رانا ثناءاللہ کا دہشتگردوں کی سرپرستی کا اعتراف

رانا ثناءاللہ کا دہشتگردوں کی سرپرستی کا اعتراف
ابو فجر لاہوری

ملک میں جاری دہشتگردی کی لہر کے پیچھے ایسی تنظیموں کا نام لیا جا رہا تھا، جو کالعدم تحریک طالبان جیسی دہشتگرد تنظیموں کیلئے افرادی قوت فراہم کرتی تھیں۔ اطلاعات کے مطابق جماعت الدعوۃ، جیش محمد، حرکت الانصار، لشکر جھنگوی اور دیگر تنظیمیں طالبان کیلئے افرای قوت فراہم کرنے کیلئے کام کرتی ہیں۔ حرکت الانصار کالعدم سپاہ صحابہ کا عسکری (جہادی) ونگ تھا جو تعلیمی اداروں سمیت دیہی علاقوں سے سادہ لوح نوجوانوں کو بھرتی کرتے، انہیں ٹریننگ دی جاتی، پھر انہیں نام نہاد جہاد پر بھیج دیا جاتا۔ یہ "جہاد" افغانستان اور کشمیر کے محاذ پر جاری رہا۔ افغانستان اور کشمیر کا محاذ بند ہوا تو ان دہشتگردوں نے ملک کے اندر کا رخ کر لیا اور ان کا سوفٹ ٹارگٹ پاکستان کے اہل تشیع رہے۔ پاکستان میں اہل تشیع کی ٹارگٹ کلنگ کا نہ بند ہونیوالا سلسلہ شروع ہوگیا۔ دہشتگردی کی اس لہر میں پاکستان کے قیمتی ترین افراد نشانہ بنے۔ ملت جعفریہ روز اول سے سراپا احتجاج رہی کہ دہشت گردوں کیخلاف کارروائی عمل میں لائی جائے، لیکن حکومت کی جانب سے مسلسل سردمہری کا مظاہرہ کیا جاتا رہا۔ پاکستان میں اہل تشیع کی مظلومیت میں اہلسنت نے بھی اہل تشیع کا بھرپور ساتھ دیا۔ پاکستان میں شیعہ اور سنی کے اتحاد نے دہشتگردوں کا راستہ روکنے میں اپنے تئیں ہر ممکن کوشش کی، لیکن اس معاملے میں 100 فیصد کامیابی حاصل نہ ہوسکی۔

دہشتگردی میں ایک مخصوص گروہ ملوث ہے، جس کے عقائد اور تانے بانے عرب ملکوں میں ملتے ہیں۔ اس حوالے سے امریکہ نے عربوں کے ذریعے دہشتگردوں کے گروہ بنوائے، انہیں اسلام کے نام پر افغانستان میں استعمال کیا اور جب ضرورت ختم ہوگئی تو ٹشو پیپر کی طرح ڈسٹ بن میں پھینک دیا گیا۔ (سابق امریکی سیکرٹری خارجہ ہیلری کلنٹن اعتراف کرچکی ہیں کہ طالبان بنانے میں انہوں نے اہم کردار ادا کیا) اب سانحہ آرمی پبلک سکول پشاور کے بعد پوری قوم دہشتگردی کیخلاف ایک پیج پر آگئی۔ اس موقع پر حکومت کو (مجبوری میں ہی سہی) دہشتگردوں کیخلاف ایکشن لینا پڑا۔ پنجاب حکومت میں موجود وزیر قانون رانا ثناء اللہ کے حوالے سے یہ ریکارڈ پر موجود ہے کہ ان کہ دہشتگرد گروہوں کیساتھ قریبی تعلقات ہیں۔ ملک میں دہشتگرد کی لہر نے اب دوبارہ سر اٹھایا ہے۔ کراچی میں خرم ذکی کی شہادت، پشاور میں کالج کے پرنسپل اور ڈیرہ اسماعیل خان میں 4 اہم شخصیات کے قتل کیساتھ پارا چنار میں ایف سی کے ہاتھوں 4 افراد کی شہادت نے پاکستان کے اہل تشیع کو ایک بار پھر سڑکوں پر نکلنے پر مجبور کر دیا ہے۔

پاکستان کے اہل تشیع ملک کے تمام بڑے شہروں میں دھرنوں پر ہیں اور بھوک ہڑتالی کیمپوں میں بیٹھ کر اپنا احتجاج ریکارڈ کروا رہے ہیں۔ پارا چنار میں ایف سی کے ہاتھوں 4 اہل تشیع افراد کی شہادت کے بعد آرمی چیف نے اس پر ایکشن لیا ہے اور ایف سی سے پارا چنار میں ہونیوالے واقعہ کی رپورٹ طلب کر لی ہے۔ آرمی چیف کے حوالے سے عوام میں یہ تاثر بہرحال موجود ہے کہ وہ پاکستان کے بارے میں سوچتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ قوم ان کی طرف امید بھری نگاہوں سے دیکھ رہی ہے۔ ملت جعفریہ کے افراد کی ٹارگٹ کلنگ کیخلاف حکومت کے ایکشن نہ لینے کی وجہ رانا ثناء اللہ نے بتا دی ہے۔ صوبائی وزیر قانون رانا ثناء اللہ نے کہا ہے کہ "جماعت الدعوۃ اور جیش محمد جیسی جماعتوں کیخلاف قانونی کارروائی اس لئے ممکن نہیں کہ ان معاملات میں ریاست خود شامل رہی ہے۔" رانا ثناء اللہ کا کہنا ہے کہ دہشتگرد بنانے میں خود ریاست ملوث تھی۔ بی بی سی کو دیئے گئے ایک خصوصی انٹرویو میں اسٹیبلشمنٹ نواز تنظیموں کیخلاف پنجاب میں کارروائی نہ ہونے سے متعلق سوال کے جواب میں رانا ثناء اللہ نے کہا کہ جماعت الدعوۃ اور جیش محمد جیسی جماعتوں پر اب پابندی عائد ہے، انھیں کسی قسم کی سرگرمیوں کی قطعاً کوئی اجازت نہیں، تاہم ان کا کہنا تھا کہ جب ریاست خود کسی معاملے میں شامل رہی ہو تو اس بنیاد پر ان کالعدم تنظیموں کیخلاف قانونی کارروائی کیسے ہوسکتی ہے۔؟

وزیر قانون نے کہا کہ ان کی حکومت پر صوبے میں شدت پسندی سے پہلو تہی کرنے کا الزام بے بنیاد ہے۔ صوبائی وزیرِ قانون نے کہا کہ ضرب عضب کے بعد ہماری سیاسی اور عسکری قیادت نے اپنا موقف واضح کیا ہے کہ پاکستان کی سرزمین کسی بھی ہمسایہ ملک کیخلاف استعمال نہیں کرنے دی جائیگی اور کسی بھی قسم کی دہشتگردی اور پرتشدد اقدام کو وہ چاہے کسی کی مدد یا کسی کے حق خود ارادیت کی حمایت کیلئے ہو، قابل قبول نہیں ہوں گے۔ انھوں نے کہا کہ اس وقت پورا ملک ہی مذہبی انتہا پسندی کی کیفیت میں مبتلا ہے اور یہ تاثر درست نہیں کہ جنوبی پنجاب فرقہ واریت کا گڑھ ہے۔ (جب جنوبی پنجاب میں لال مسجد سے مربوط بہت سے مدارس دہشتگردوں کے ٹھکانے اور گڑھ ہیں) رانا ثناء اللہ نے کہا کہ ملک کے دوسرے حصوں میں بھی مذہبی جنونیت کے واقعات عام ہیں، تاہم انھیں جنوبی پنجاب سے منسوب پیپلز پارٹی کے گذشتہ دور حکومت میں کیا گیا۔

جنوبی پنجاب کے کچے کے علاقے میں حالیہ آپریشن کے بارے میں بات کرتے ہوئے رانا ثناء اللہ نے کہا کہ چھوٹو گینگ کے ہتھیار ڈالنے کے بعد آپریشن مکمل ہوچکا ہے اور سرچ آپریشن کے بعد علاقے کو کلیئر قرار دے دیا گیا ہے، تاہم باقی ڈاکو دریا کے راستے فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔ (وزیر قانون تسلیم کر رہے ہیں کہ سکیورٹی اداروں کی ناکامی ہے کہ چاروں طرف سے محاصرے کے باوجود ڈاکو فرار ہوگئے ہیں) رانا ثناء اللہ نے کہا کہ پنجاب میں جاری کارروائیاں ضرب عضب کا حصہ ہیں، جس میں فوج، پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنیوالے ادارے مشترکہ طور پر حصہ لے رہے ہیں۔ پنجاب میں ضرب عضب کے تحت ملک بھر میں سب سے زیادہ لوگوں کو گرفتار کیا گیا اور مقدمات قائم کئے گئے اور یہی وجہ ہے کہ پنجاب میں امن و امان کی صورتحال باقی ملک سے بہتر ہے۔ انھوں نے بتایا کہ لاہور میں گلشن اقبال میں ہونیوالے دھماکے کے بعد صوبے میں 10 ہزار کارروائیاں کی گئیں اور 50 ہزار سے زیادہ افراد سے پوچھ گچھ کی گئی۔ وزیر قانون نے اس آپریشن کے خاتمے کیلئے کوئی ٹائم فریم دینے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ جب تک دہشتگردوں کے محفوظ ٹھکانے ختم نہیں ہوں گے، کارروائیاں جاری رہیں گی اور اس میں چند برس اور لگیں گے۔
خبر کا کوڈ : 539465
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش