0
Friday 20 May 2016 16:21

سعودی عرب کا مالی بحران

سعودی عرب کا مالی بحران
تحریر: ثاقب اکبر

پوری دنیا میں آج کل سعودی عرب کے مالی بحران پر سیاسی، تزویراتی اور اقتصادی حلقوں میں گفتگو کا سلسلہ جاری ہے۔ گذشتہ برس تیل کی قیمتوں میں مسلسل کمی کے باعث سعودی عرب کو 98 ارب ڈالر بجٹ خسارے کا سامنا کرنا پڑا۔ رواں سال میں سعودی معیشت کی شرح نمو 1.2% رہنے کی توقع ظاہر کی گئی ہے۔ سعودی معیشت میں یہ شرح نمو گذشتہ 14 سال کے مقابلے میں کم ترین سطح پر ہے۔ 2015ء میں یہ شرح نمو 3.4% تھی۔ تیل کی قیمت جو 100 ڈالر فی بیرل تک پہنچ چکی تھی، کم ہوتے ہوتے آج جب ہم یہ سطور تحریر کر رہے ہیں (20 مئی 2016ء) 48.33 ڈالر فی بیرل ہے۔ ماہرین کے نزدیک اس بات کا امکان نہ ہونے کے برابر ہے کہ تیل پھر 100 ڈالر فی بیرل تک جا پہنچے بلکہ اس کے 70 ڈالر فی بیرل تک پہنچنے کا بھی امکان دکھائی نہیں دیتا۔ اس طرح سے عالم اسلام کی ایک بظاہر مضبوط اقتصادی طاقت دن بدن کمزور سے کمزور تر ہوتی چلی جا رہی ہے۔ یہ بات نہایت اہم ہے کہ سعودی عرب کی اصل آمدن کا انحصار گذشتہ کئی دہائیوں سے تیل کی فروخت پر رہا ہے۔ اس کی آمدنی کے دیگر ذرائع اس کے مقابلے میں نہ ہونے کے برابر ہیں۔

امریکا کے ایک نامور اقتصاددان کی رائے ڈیلی پاکستان نے ایک رپورٹ میں بیان کی ہے، جس کے مطابق انھوں نے پیشینگوئی کی ہے کہ تیل کی قیمتوں میں کمی عارضی نہیں ہے بلکہ اسے مستقل سمجھنا چاہیے۔ انھوں نے سعودی عرب کو خبردار کیا ہے کہ اگر اس نے تیل کی پیداوار میں کمی نہ کرکے اپنی متوقع آمدن پر انحصار جاری رکھا تو یہ اس کی بہت بڑی غلطی ہوگی۔ دبئی میں منعقد ہونے والی عرب اسٹرٹیجی فورم کانفرنس کے موقع پر نیو یارک یونیورسٹی کے مشہور معیشت دان نوری الروبینی کا کہنا تھا کہ تیل کی قیمتوں میں کمی کے بارے میں سعودی عرب کا ردعمل ایسا ہے کہ گویا یہ کمی عارضی ہو۔ ان کا کہنا تھا کہ اہم بات یہ ہے کہ یہ کمی عارضی نہیں ہے بلکہ یہ مستقل ہے اور اس لئے سعودی عرب کو اس کے ساتھ مطابقت اختیار کرنا ہوگی۔ انھوں نے مزید کہا کہ سعودی عرب یہ توقع نہ کرے کہ تیل کی قیمتیں دوبارہ پہلے والی سطح پر آجائیں گی۔ ماہرین اقتصاد کے مطابق اگر صورت حال اسی طرح جاری رہی تو سعودی عرب اقتصادی لحاظ سے دیوالیہ ہو جائے گا۔

تیل کی آمدن میں کمی کے بعد بہت سے عالمی اداروں نے سعودی عرب کو مشورہ دیا ہے کہ وہ اپنے اخراجات اور آمدنی کے ذرائع کا نئے سرے سے جائزہ لے اور معیشت کی اساس کو تبدیل کرے، جو تیل کی آمدنی پر استوار ہے۔ جبکہ سعودی عرب ان دنوں اپنی ضروریات پوری کرنے کے لئے اپنے ریزروز میں سے رقم نکال کر استعمال کر رہا ہے۔ گذشتہ دسمبر میں مینجمنٹ مشاورت فراہم کرنے والے ادارے میک کنسے کی طرف سے بھی سعودی عرب کو مشورہ دیا گیا ہے کہ اسے اپنی معیشت میں تنوع پیدا کرنا ہوگا، ٹیکس بڑھانے ہوں گے، جبکہ سرکاری اخراجات میں کمی کرتے ہوئے عوام کو دی جانے والی سبسڈی میں بھی کمی لانا ہوگی۔ انہی مشوروں کے پیش نظر سعودی عرب اپنے عوام کو فراہم کی گئی کئی طرح کی سبسڈیز میں کمی کے لئے اقدامات کر رہا ہے۔

یہ بات قابل ذکر ہے کہ سعودی عرب نے رواں سال میں اپنے بجٹ تخمینے میں تیل کی قیمت 60 ڈالر فی بیرل فرض کی تھی۔ جبکہ عملی طور پر تیل کی قیمت اس سے کہیں کم رہی ہے، جس کی وجہ سے سعودی معیشت پر بوجھ بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ اسی سبب سے سعودی حکومت نے ایک بار پھر 20 ارب روپے کے بانڈز جاری کئے، تاکہ اس کے ذریعے حاصل ہونے والے سود کو اپنی معیشت میں شامل کرسکے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ اگر یہ بانڈز پانچ سال کے لئے جاری کئے جائیں تو اس کا سود 1.92 فیصد اور سات سال کے لئے ہوں تو 2.65 فیصد ہوگا۔

مالی بحران کے نتائج داخلی اور خارجی پالیسیوں اور وعدوں پر بھی اثر انداز ہو رہے ہیں۔ سعودی عرب نے مالی بحران کی وجہ سے یمن کے وزرائے پیٹرولیم، توانائی اور منصوبہ بندی اور صوبہ مآرب کے گورنر سمیت مفرور کابینہ کے کئی وزیروں کو اپنے ہاں سے نکال دیا ہے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ یہ عہدیدار اس حکومت کے ہیں، جسے سعودی عرب جائز تسلیم کرتا ہے، لیکن اب مالی مشکلات کی وجہ سے ان کی پہلے کی سطح پر مدد جاری رکھنے میں مشکلات محسوس کر رہا ہے۔ عرب اخبار رائے الیوم کے مطابق یہ یمنی حکام سعودی عرب کے بدلے ہوئے سلوک کی وجہ سے خاصے مایوس ہوچکے ہیں اور وہ دوسرے ملکوں میں پناہ حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ داخلی طور پر یہ بحران بہت گہرا ہوتا چلا جا رہا ہے۔ اس گہرائی کو سمجھنے کے لئے یہ خبر بڑی اہم ہے کہ مئی کے آغاز میں سعودی عرب کی عالمی شہرت یافتہ بن لادن کمپنی نے اپنے 77 ہزار کارکنوں کو کام سے فارغ کر دیا ہے اور امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ 12 ہزار مزید کارکنوں کو سعودی عرب سے نکل جانے کا حکم جاری کیا جائے گا۔

تیل کی قیمتیں کم ہو جانے کی وجہ سے سعودی عرب میں بڑے بڑے پراجیکٹ نامکمل رہ گئے ہیں، جس کی وجہ سے کمپنیاں مجبور ہوگئی ہیں کہ وہ بوجھ بن جانے والے کارکنوں کو فارغ کر دیں۔ سعودی عرب کی داخلی صورت حال پر نظر رکھنے والے جانتے ہیں کہ وہاں اپنے حقوق کے لئے احتجاجی مظاہروں کا تصور ایک نہایت خطرناک تصور سمجھا جاتا ہے، لیکن بن لادن کمپنی سے فارغ ہونے والے مزدوروں نے مکہ میں احتجاج کیا اور مطالبہ کیا کہ ان کے باقی ماندہ واجبات ادا کئے جائیں۔ احتجاج کرنے والے اتنے بپھرے ہوئے تھے کہ انھوں نے بن لادن کمپنی کی دو بسوں کو آگ لگا دی۔ بن لادن کمپنی میں 2 لاکھ کارکن کام کرتے تھے۔ دیگر کمپنیوں کی طرف سے بھی بڑی تعداد میں کارکنوں کو فارغ کرنے کے منصوبے بنائے جا رہے ہیں۔

سعودی عرب کی داخلی مشکلات کو سمجھنے کے لئے یہ جاننا بھی اہم ہے کہ 1969ء میں سعودی عرب کی کل آبادی پچاس لاکھ تھی۔ 2014ء میں یہ آبادی بڑھ کر تین کروڑ ہوگئی، جن میں ایک کروڑ غیر ملکی ہیں۔ سعودی حکومت نے تعلیم یافتہ سعودی نوجوانوں کو ملازمتیں دینے کے لئے جو پروگرام چند سال پہلے تشکیل دیا تھا، اب اس کی گنجائش ختم ہوگئی ہے۔ پرائیویٹ کمپنیاں 80فیصد غیر ملکیوں کو ملازم رکھتی ہیں اور جن تنخواہوں پر یہ غیر ملکی دستیاب ہو جاتے ہیں، اس پر سعودی تعلیم یافتہ افراد ملازمت قبول نہیں کرتے۔ اس وقت 15 سے 24 سال تک کے سعودی نوجوانوں میں سے 30 فیصد بے روزگار ہیں۔ مزید برآں سعودی عرب کی 37 فیصد آبادی 14 سال سے کم عمر کی ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آبادی میں تیزی سے اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ 2020ء تک روزگار کے 30 لاکھ نئے مواقع درکار ہوں گے۔ 2003ء سے 2013ء تک تقریباً 17 لاکھ ملازمت کے مواقع پیدا کئے گئے تھے۔ اب یہ تمام مواقع پُر ہوچکے ہیں، لیکن بیروزگاری کا طوفان بڑھتا چلا جارہا ہے۔

سعودی معیشت کے بحران کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ ایران جس کے تیل کی فروخت پر بے پناہ پابندیاں عائد تھیں، اس کا تیل بھی اب مارکیٹ میں دستیاب ہو رہا ہے۔ لہٰذا سعودی تیل کے لئے مقابلے کی فضا بھی پہلے سے مشکل ہو رہی ہے۔ دنیا میں تیل کے متبادل ذرائع بھی تیزی سے مقبول ہو رہے ہیں۔ خود سعودی عرب کے تیل کی پیداوار کا ایک چوتھائی سعودی عرب کے اندر ہی خرچ ہو جاتا ہے۔ مثال کے طور پر 60 فیصد میٹھا پانی حاصل کرنے کے لئے سعودی عرب کو تیل اور گیس مہیا کرنا پڑتا ہے۔ سعودی عرب کی نئی قیادت کیا اس ساری صورت حال سے نمٹنے اور سعودی عرب کو بڑھتے اور گہرے ہوتے ہوئے مالی بحران سے نکالنے کی صلاحیت رکھتی ہے؟ یہ سوال بہت اہم ہے۔ حسن ظن کرنے میں تو کوئی حرج نہیں، لیکن خارجی حقائق کو اس حسن ظن کا کچھ تو ساتھ دینا چاہیے۔

سعودی بادشاہ سلمان بن عبدالعزیز کے جواں سال بیٹے محمد بن سلمان نے اپنا 2030ء کا جو اقتصادی ویژن پیش کیا ہے، اس نے امید کے خلاف امید پیدا ہونے کا امکان کم کر دیا ہے۔ ہم اپنے آئندہ کسی تجزیے میں شہزادہ محمد بن سلمان کے اس ویژن کا تفصیل سے جائزہ لیں گے۔ نیز سعودی مالی بحران کے مشرق وسطٰی، عالم اسلام اور پوری دنیا پر پیدا ہونے والے متوقع اثرات پر بھی ایک نظر ڈالیں گے۔ یہ بھی دیکھیں گے کہ خود سعودی عرب کے مستقبل پر اس مالی بحران کے کیا اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ سعودی عرب کا موجودہ مالی بحران اپنے اندر بہت سے سبق رکھتا ہے۔ اے کاش قومیں ایک دوسرے سے سیکھنے کے لئے تیار ہوں۔
خبر کا کوڈ : 539819
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش