1
0
Saturday 28 May 2016 15:43

افغان طالبان کا پاکستانی امیر

افغان طالبان کا پاکستانی امیر
تحریر: عمران خان

بلوچستان کے ضلع نوشکی سے پچاس کلو میٹر دور دالبندین کے قریب سہ پہر کے وقت آر سی ڈی شاہراہ پر ایک موٹر کار گاڑی نمبر اے این این 570 کوئٹہ کی جانب روانہ تھی، جس کے متعلق پاکستان کا دعویٰ ہے کہ اس میں افغان طالبان کا ایران سے آنے والا امیر سفر کر رہا تھا۔ اس موٹر کار میں دو افراد موجود تھے، جن میں سے ایک اس موٹر کار ٹیکسی کا ڈرائیور محمد اعظم جبکہ دوسرا ولی محمد نامی شخص تھا، جس کے پاس موجود سفری و شناختی دستاویزات یہ ظاہر کرتے تھے کہ وہ قلعہ عبداللہ کا مستقل رہائشی ہے اور اس کے والد کا نام شاہ محمد ہے، جبکہ اس کا موجودہ پتہ سہراب گوٹھ کراچی میں بسم اللہ ٹیرس کا فلیٹ ہے۔ یہی گاڑی بعد ازاں اسی شاہراہ کے ساتھ تباہ حالت میں ملی۔ بعض موبائل فوٹیج میں یہ گاڑی جلتی ہوئی بھی دیکھی گئی، مگر جلتی گاڑی میں کوئی لاش نہیں دکھائی دی۔ گاڑی کی تباہی امریکہ نے قبول کی اور ہمارے وزیراعظم کو امریکی سیکرٹری سٹیٹ نے فون پر بتایا کہ ہم نے ڈرون حملے میں طالبان کے امیر کو مار ڈالا ہے۔

علاقہ مکینوں کے مطابق انہوں نے کسی ڈرون کو نہیں دیکھا، جبکہ زیادہ تر افراد نے تو سرے سے دھماکے کی آواز ہی نہیں سنی۔ گرچہ یہ مقام کوئی زیادہ گنجان نہیں مگر اس کے باوجود ڈرون حملے میں گاڑی کی پوزیشن پر فرق پڑے بغیر سڑک کے کنارے موجود ہونا، اور جلتی گاڑی میں سوختہ یا جلتی لاشوں کا دکھائی نہ دینا گرچہ ایک معمہ ہے، مگر اس پر بحث کئے بغیر ہم آگے بڑھتے ہیں۔ نوشکی ہسپتال میں دو جلی ہوئی ناقابل شناخت لاشیں لائی گئیں، جن کے متعلق بتایا گیا کہ ایک لاش ڈرائیور اعظم کی ہے اور دوسری اس ولی محمد کی ہے جسے امریکہ ملا اختر منصور کہہ رہا ہے۔ پاکستانی آفیشل ریکارڈ میں ولی محمد نامی ایک شخص موجود ہے، جو کہ کراچی ائیر پورٹ سے خلیجی ریاستوں کے کئی دورے کرچکا ہے۔ ایرانی ویزہ لے چکا ہے۔ اپنا پاسپورٹ اور شناختی کارڈ ری نیو کرا چکا ہے۔ ایسے شخص سے متعلق امریکہ نے دعویٰ کیا کہ وہ ملا اختر منصور ہے، جسے پاکستانی حکومت نے فوری طور پر یوں تسلیم کیا کہ واقعی ہمارے سسٹم کو چکمہ دیکر یہ دستاویز حاصل کی گئیں۔ واضح رہے کہ پاکستان میں ولی محمد نامی افغان طالبان کے امیر کی جائیداد بھی موجود ہے۔

وفاقی وزیر داخلہ نے کہا کہ نادرا ملازمین کو رشوت دیکر یہ کاغذات بنوائے گئے تو یہ سوال اپنی جگہ کہ جب بیرون ملک اس شخص نے کئی سفر کئے تو انگلیوں کے نشانات و دیگر شواہد سے اس شخص کو گرفتار کیوں نہیں کیا گیا، حالانکہ طالبان کا امیر تو پاکستان کے ہل سٹیشن مری میں امریکہ اور چین سے مذاکرات کرچکا ہے۔ اب ان مذاکرات میں شرکت کیلئے جب وہ آیا تو اس وقت سسٹم نے اسے کیوں نہیں پکڑا کہ طالبان کا امیر بن کر آنے والا شخص تو پاکستانی علاقے قلعہ عبداللہ کا رہائشی ہے۔ خیر وزارت داخلہ کو اس پکڑ سے آزاد کرکے آگے بڑھتے ہیں کہ غفلت و دھوکے کا شکار پاکستانی اداروں کو چکمہ دیکر ولی محمد نامی طالبان کا امیر پاکستان میں سفر کر رہا تھا تو امریکہ نے اسے نشانہ بنایا۔ سوال تو یہ بھی ہے کہ امریکہ کو اس بات کی خبر کس نے دی کہ پاکستانی پاسپورٹ اور شناختی کارڈ رکھنے والا شخص ہی طالبان کا امیر ملا اختر منصور ہے۔

ہسپتال میں جو دو لاشیں لائی گئیں وہ دونوں ناقابل شناخت تھیں مگر اس کے باوجود بھی ٹیکسی ڈرائیور کی لاش اس کے گھر والے لے کر چلے گئے، جبکہ ولی محمد کی لاش سے متعلق وزارت خارجہ کا دعویٰ ہے کہ ہمارے پاس محفوظ ہے، طالبان کہتے ہیں کہ ہم نے اپنے امیر کو سپن بولدک میں دفن کر دیا ہے، جبکہ غیر ملکی خبر رساں ادارے کا دعویٰ ہے کہ اس ناقابل شناخت لاش کا سرے سے سر ہی نہیں ہے۔ قبل ازیں وزیر داخلہ نے اعلان کیا تھا کہ وہ ڈی این اے سے پتہ لگائیں گے، ممکن ہے کہ ڈی این اے اور فرانزک کیلئے طالبان کے امیر کے پورے سر کی ضرورت ہو۔ پاکستان کی جانب سے امریکہ کے بتائے ڈرون حملے کے خلاف سخت احتجاج کیا گیا۔ حالانکہ زمینی شواہد، گاڑی کی پوزیشن، مقامی شہریوں کے بیانات اور ولی محمد کے محفوظ سفری دستاویزات یہ بتاتے ہیں کہ یہ گاڑی ڈرون حملے میں تباہ نہیں ہوئی، بلکہ راکٹ یا گاڑی کے اندر نصب بم دھماکے سے تباہ ہوئی ہے۔ ایسی صورت میں سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ آخر پاکستان امریکہ کے خلاف زبانی کلامی احتجاج کرکے اس کی ہاں میں ہاں کیوں ملا رہا ہے کہ واقعی بلوچستان میں ڈرون حملہ ہوا ہے۔ شائد پاکستان ثابت کرنا چاہتا ہے کہ اسامہ کی طرح ملا منصور کے قتل میں بھی اس کے ہاتھ صاف ہیں۔

موجودہ صورت حال کچھ ایسی ہے کہ نہ جائے رفتن نہ پائے ماندن، اگر یہ مانیں کہ امریکی ڈرون حملہ ہے تو شکیل آفریدی کس کو بنائیں (جس نے امریکہ کے سامنے ولی محمد کی شناخت ظاہر کی) اور زمینی حقائق کیسے تبدیل کریں۔ اگر یہ مانیں کہ ایف سولہ طیاروں کے حصول کیلئے بالآخر ولی محمد کو شاہرائے عام پر نامعلوم افراد نے روکا۔ اس کی تلاشی لی، کاغذات چیک کئے، اطمینان کیا۔ پھر راکٹ لانچر، یا گاڑی میں بم ڈال کر گاڑی کو اڑا دیا، اور سہرا سجایا، آخر وہاں بھی انتخابات قریب ہیں اور طالبان قیادت کی ہلاکت کا سہرا پوائنٹس میں اضافے کا باعث بھی ہے۔ کان کو چاہے جیسے بھی پکڑیں سکیورٹی و انٹیلی جنس اداروں اور سسٹم پر پوری دنیا کی انگلیاں اٹھ رہی ہیں۔ پاکستان کی دنیا بھر میں رسوائی ہوئی ہے۔ اس پر مرے کو سو درے کہ جو نئے امیر بنے ہیں ان کی بیعت کی وڈیو بھی سوشل میڈیا پر گردش کر رہی ہے، جس کے متعلق شنید ہے کہ یہ تقریب پاکستان میں سجی ہے۔ یعنی مستقبل قریب میں ایک اور کارروائی کی پیشگی تیاری۔

چھ ماہ قبل دسمبر 2015ء میں خبر آئی تھی کہ طالبان کے مختلف گروہوں کے درمیان جھڑپ میں ملا اختر منصور زخمی ہوگئے ہیں۔ افغان چیف ایگزیکٹیو عبداللہ عبداللہ نے دعویٰ کیا تھا کہ ملا منصور طالبان کے مابین ہونے والی ایک مسلح جھڑپ میں شدید زخمی ہوگیا ہے۔ اس طرح افغان میڈیا اور غیر ملکی خبر رساں اداروں نے اپنے ذرائع سے خبر دی تھی کہ بلوچستان میں افغان طالبان کا اجلاس مسلح جھڑپ میں تبدیل ہوگیا اور اس جھڑپ میں ملا اختر منصور شدید زخمی ہوگئے ہیں، جنہیں طبی امداد کی غرض سے نامعلوم مقام پر منتقل کیا گیا۔ افغانستان کی حکومت ان اطلاعات کی تصدیق کرتی ہے کہ ملا منصور اختر زخمی ہوئے ہیں لیکن ان کی ہلاکت کی خبروں سے متعلق حکومت کے پاس کوئی اطلاعات نہیں ہیں۔ اس طرح غیر ملکی خبر رساں ادارے نے ہی رپورٹ دی کہ فائرنگ کا واقعہ بلوچستان کے علاقے کچلاک میں پیش آیا، جبکہ اگلے دن بعض میڈیا ذرائع نے ان کی ہلاکت کی تصدیق کی تھی، جبکہ طالبان ترجمان نے ان تمام اطلاعات کو مسترد کیا تھا۔ حالیہ واقعہ کے بعد افغان پارلیمنٹیرین شنکئی خاور خیل نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ افغان طالبان کمانڈر کی ڈرون حملے میں مرنے کی خبر کسی طور درست نہیں ہے، بلکہ تین ماہ قبل ملا منصور افغانستان میں ہی مارا گیا تھا، جس کا افغان حکومت کو علم تھا، مگر اس نے اس کو چھپائے رکھا۔ چنانچہ ایسا نہیں کہ طالبان کا امیر کوئی پہلی بار پاکستان میں مرا ہے، یہی امیر خبروں میں پہلے بھی پاکستان کے اندر مر چکا ہے۔

البتہ حالیہ امریکی دعوے کے بعد پاکستان نے اس کی تردید نہیں کی بلکہ اپنے سسٹم میں خرابی کو تسلیم کیا اور یہ بھی تسلیم کیا کہ افغان قیادت پاکستانی پاسپورٹ پر غیر ملکی دوروں کے مزے لوٹ رہی ہے۔ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ قطر میں دفتر کے دورے و دیگر ممالک میں آنے جانے کیلئے بھی یہی پاسپورٹ استعمال ہوا ہوگا۔ جس سے ثابت ہوتا ہے کہ طالبان چاہے افغان ہیں، مگر ان کی قیادت پاکستانی شہریت رکھتی ہے۔ اس پورے قضیئے میں اس سوال کی اہمیت بہت بڑھ جاتی ہے کہ آخر ہم ان عناصر سے خطے یا پاکستان کے مفاد کیلئے آخر کونسا کام لینا چاہتے ہیں۔ کیونکہ جس وقت کوئٹہ کے قریب افغان طالبان کا پاکستانی شناخت رکھنے والا امیر مارا جارہا تھا تو اس وقت برادر ہمسائیہ ملک میں تینوں ہمسائے موجود تھے اور وہ خطے کی تعمیر و ترقی کیلئے نئے منصوبوں کا افتتاح اور معاہدے کر رہے تھے۔ جبکہ عین اسی وقت ہم جلی ہوئی دو ناقابل شناخت لاشوں کے سرہانے یہ سوچ رہے تھے کہ ان کی اصلیت دنیا کو بتائیں یا چھپائیں، بتائیں تو کس منہ سے اور چھپائیں تو کیسے کیونکہ کالک تو ہاتھ اور منہ دونوں پر لگ چکی ہے۔
خبر کا کوڈ : 541644
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

عبداللہ
Iran, Islamic Republic of
بہت اچھا کالم ہے عمران بھائی، پاکستانی اداروں کے ان افراد کا احتساب ہونا چاہیے جنہوں نے پاسپورٹ افغانی قیادت کو دیئے ہیں اندر کے لوگوں کے علاوہ یہ کام کوئی نہیں کرسکتا۔ آپ نے اچھا سوال اٹھایا طالبان پاکستانی پاسپورٹوں پر ہی قطر گئے تھے، اس وقت کیا ہوا اور مری مذاکرات میں فنگر پرنٹس امریکی شاگردوں نے آسانی سے لئے ہوں گے۔ پھر پیارے پاکستان کی بدنامی آخر کیوں۔۔ میرا یہ سوال امریکی تنخواہ داروں سے ہے، خواہ وہ سیاست دان ہوں یا پاکستان کے کسی ادارے کے لوگ ۔۔ خدا را پاکستان پر رحم کرو ۔۔ تمھارا اور تمھارے بچوں کو نہ سہی تمھارے آبائو اجداد کا وطن تو ہے پیارا پاکستان ۔۔۔ پاکستان پائندہ باد ۔۔۔
ہماری پیشکش