7
0
Tuesday 31 May 2016 04:15

ایران کا سرکاری میڈیا اور مغربی ذرائع ابلاغ

ایران کا سرکاری میڈیا اور مغربی ذرائع ابلاغ
تحریر: عرفان علی

مغربی ذرائع ابلاغ نے ایرانی پارلیمانی انتخابات کی کوریج میں جتنی تیزی دکھائی دی تھی، اب وہ اس سے زیادہ تیزی سے ایران میں منعقد ہونے والے دو الیکشن کی کوریج میں خود کو خاموشی پر مجبور پاتے ہیں۔ ان کے قلم، کمپیوٹر، ویب سائٹ پر اس حوالے سے مردنی چھائی ہوئی ہے۔ ایرانی پارلیمانی الیکشن کے بارے میں دو مقالے تحریر کئے، ان میں مغربی ذرائع ابلاغ کی خیانت آمیز کوریج اور ان کے منفی اور حقائق کے برعکس زاویہ نگاہ کے بارے میں لکھ چکا ہوں۔ یہ ان کی دروغ گوئی تھی کہ ایران کے پارلیمانی الیکشن میں اصلاح پسندوں کا پینل جیت چکا۔ اب ایرانی پارلیمنٹ یعنی مجلس شورائے اسلامی کے اسپیکر اور ایرانی سینیٹ یعنی مجلس خبرگان (ماہرین کی اسمبلی) کے سربراہ (چیئرمین) کے لئے ووٹنگ ہوئی تو دنیا پر یہ حقیقت خود بخود واضح ہوگئی کہ اصلاح طلبان کو مطلوبہ اکثریت حاصل نہیں تھی اور ان دونوں الیکشن میں اصول پسند پینل کے حمایت یافتہ امیدوار جیت گئے۔ مجلس خبرگان میں تو صورتحال یہ تھی کہ اعتدال پسند و اصلاح پسندوں کے طاقتور ترین رہنما ہاشمی رفسنجانی صاحب کو امیدوار بننے کی بھی جرات نہیں ہوئی حالانکہ پارلیمانی انتخابات کے موقع پر انہوں نے اپنے حمایت یافتہ امیدواروں کی فہرست جاری کی تھی۔ آیت اللہ جنتی کے مقابلے میں انہیں کوئی امیدوار ہی دستیاب نہیں تھا اور آیت اللہ احمد جنتی 51 ووٹ لے کر مجلس خبرگان کے بورڈ کے سربراہ (یعنی چیئرمین) بن گئے۔ آیت اللہ ابراہیم امینی اور آیت اللہ محمود شاھرودی نے ان کے مقابلے میں علی الترتیب 21 اور 13 ووٹ حاصل کئے۔

پارلیمنٹ میں اسپیکر کے عہدے کے لئے ووٹنگ ہوئی تو 290 کی پارلیمنٹ میں 281 اراکین اسمبلی موجود تھے۔ 173 نے ڈاکٹر علی لاریجانی کے حق میں اور 103 نے ڈاکٹر محمد عارف کے حق میں ووٹ کاسٹ کئے۔ پانچ ووٹ ضایع ہوگئے۔ اس طرح غالب اکثریت کے ساتھ لاریجانی ایک اور مرتبہ اسپیکر کے عہدے پر منتخب ہوگئے۔ دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ اعتدال پسند یا اصلاح طلبان میں سے بھی بعض اراکین نے ان کے حق میں ووٹ کاسٹ کئے۔ بہرحال یہ بات دنیا کے سامنے آشکار ہوئی کہ باوجود اس حقیقت کے کہ اصولگرایان کی تعداد پہلے کی نسبت کم ہے لیکن اس مرتبہ بھی پارلیمنٹ میں ان کا اور کے ہم فکر افراد کا پلڑہ بھاری ہے اور ان کی اس عددی برتری کا پہلا ثبوت اسپیکر کا الیکشن ہے۔ ایرانی الیکشن کے بارے میں ماضی میں لکھ چکا ہوں کہ ’’مائیکرو سطح پر جائزہ لیں تو صدر حسن روحانی اعتدال گرا ہیں۔ یہ اصطلاح سابق صدر ہاشمی رفسنجانی کے نظریاتی رجحان کی وجہ سے مشہور ہوئی۔ پہلی مرتبہ ان کے نظریئے کو اعتدال گرائی (یعنی اعتدال پسندی) کہا گیا۔ حسن روحانی بھی اسی رجحان کے حامی ہیں۔ اصلاح طلبان کی اصطلاح صدر محمد خاتمی کے دور حکومت میں سامنے آئی اور اصولگرایان کی اصطلاح محمود احمدی نژاد کے دورصدارت میں۔ ابھی یہ تینوں اصطلاحیں ایرانی پارلیمانی سیاست میں زیر استعمال ہیں۔ اب اراکین پارلیمنٹ کی اکثریت ایسے اراکین پر مشتمل ہے کہ جو موجودہ حکومت کے ناقدین ہیں، یعنی ان پر تنقید کرتے رہتے ہیں۔‘‘

مغربی ذرائع کو ایران سے ان کے مطلب کی خبر نہیں ملی بلکہ ایرانیوں نے ایسے افراد کو منتخب کر لیا کہ جنہیں مغربی ذرائع ابلاغ تندرو، قدامت پسند اور اسی طرح کے خود ساختہ القابات سے شناخت کرکے مغربی رائے عامہ کو ایران کے سیاسی نظام اور سیاستدانوں سے متنفر کرنے کی سازشوں میں امریکہ اور صہیونی حکومت کے مقاصد کی تکمیل کرتے ہیں۔ حالانکہ ایران کے یہ سیاستدان ایران کی استکبار دشمن اسلامی انقلابی شناخت پر سختی سے کاربند رہنے کی تاکید کرتے ہیں اور یہی موقف امریکی اتحاد کی نظر میں ان کا جرم ہے۔ لیکن صحافت ایک مقدس پیشہ ہے اور اس میں معروضی حقائق کو خبر اور تبصروں کی شکل میں پیش کرنا ایک دیانتدار صحافی کے لازمی فرائض میں شامل ہے۔ لیکن ایران کی کوریج کے وقت مغربی ذرایع ابلاغ صحافتی اقدار کی بجائے امریکہ کی سامراجی و صہونی اقدار کو مقدم رکھتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ ان کے توسط سے دنیا کو جو خبر یا تجزیہ حاصل ہوتا ہے، اس کی بنیاد پر ایران کے معروضی حقائق دنیا تک پہنچ ہی نہیں پاتے۔

دوسری طرف ایرانی حکومتی نظام یا ابلاغیاتی اداروں میں بعض نااہل افراد کی ناقص پالیسیوں کی وجہ سے بھی ایران اس پروپیگنڈا جنگ میں دنیا تک ایران سے متعلق حقائق کی بروقت ترسیل نہیں ہوپاتی۔ یوں دنیا کے بہت سے اچھے لوگ بھی مغربی ذرایع ابلاغ کے بے بنیاد اور جھوٹ پر مبنی ایران مخالف پروپیگنڈا کا شکار ہوجاتے ہیں۔ ایران کے حکومتی و ریاستی نظام کو ان خامیوں کی اصلاح کرنے کی ضرورت ہے۔ ماضی میں اردو ذرائع ابلاغ کی بعض خامیوں کی طرف میں نے اشارہ کیا تھا، لیکن تاحال اس پر بھی کوئی خاص مثبت ردعمل اور اصلاح دیکھنے میں نہیں آئی۔ ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ دنیا میں پروپیگنڈا کے لئے مغربی ذرائع ابلاغ کی موثر زبان انگریزی ہے۔ پاکستان، ہندستان جیسے ممالک میں اردو زبان میں پروپیگنڈا موثر ہوتا ہے۔ وائس آف امریکہ اور بی بی سی اردو اپنا پروگرام دوسروے نیوز چینل سے نشر کرواتا ہے۔ ایران کا کوئی پروگرام اس طرح نشر نہیں ہوتا۔ سحر اردو ٹی وی یا پریس ٹی وی بہت حد تک خدمات انجام دے رہے ہیں لیکن سحر اردو ٹی وی مکمل طور پر خبروں اور تبصروں کا چینل نہیں ہے۔ پریس ٹی وی کی نسبت اس کا حالات حاضرہ اور خبروں کا وقت بہت کم ہے۔

پھر یہ کہ ایران کے سرکاری نشریاتی ادارے صدا و سیما جمہوری اسلامی ایران میں الگ سے بھی انگریزی نشریات کا سحر چینل ہے، لیکن اس کی عوام میں پذیرائی کتنی ہے؟ اس پر وہاں کی انتظامیہ کو غور کرنا چاہئے۔ پھر یہ کہ ایران میں دینی تعلیم حاصل کرنے کے لئے آنے والے افراد کو ان اداروں میں بھرتی کرکے کام چلانے کی جو پالیسی اپنائی جا رہی ہے، وہ کس حد تک خبر اور تبصروں یا حالات حاضرہ کے پروگراموں کے لئے سود مند ثابت ہوئی ہے؟ کیا ضرورت اس بات کی نہیں تھی کہ ہر سال پروفیشنل صحافیوں میں سے کسی ایک یا دو کو ان کاموں کے لئے ایران بلا کر تعینات کیا جاتا۔ اس طرح وہ تازہ ترین معلومات کے ساتھ وہاں وارد ہوتا اور اس کی معلومات اور تجربئے سے ناظرین مستفید ہوتے۔ علمائے کرام کو اگر دین سے متعلق پروگراموں میں ترجیح دی جاتی تو زیادہ بہتر تھا۔ پھر یہ کہ یہ افراد اپنے علاقوں سے دین کا علم لے کر اپنے علاقوں میں واپسی کے لئے ایران گئے تھے، پس ان کی غیر موجودگی کی وجہ سے وہاں جو خلا پیدا ہوا، اس کو پر کون کرے گا؟ اور اس خلا کو پیدا کرنے کا اصل ذمے دار کون ہے؟ حالانکہ احمدی نژاد کی صدارت میں یہ بات ثابت ہوگئی کہ اسلامی کردار کی مضبوطی اور سادہ زیستی کے لئے سر پر عمامے کا ہونا ضروری نہیں۔

چونکہ موضوع ذرائع ابلاغ سے ہی متعلق ہے تو موقع کا فائدہ اٹھا کر اپنے ان دوستوں سے جو وہاں اردو نشریات میں خدمات انجام دے رہے ہیں، ان سے دست بستہ عرض کر دوں کہ اس فورم کے ماحول کو پاکستان ہندوستان کے تعلقات کی طرح نہ بنا دیں کہ یہ پاکستانی اور وہ ہندستانی یا یہ ہندستانی اور وہ پاکستانی ہوجائیں۔ ایک ٹیم ورک اور مومنانہ کردار کی ضرورت ہے۔ قربتوں کی ضرورت ہے۔ آپ وہاں خود کو بی بی سی، وائس آف امریکہ کا رقیب سمجھیں، ٹیم کے اراکین ایک دوسرے کو حریف نہ بنا بیٹھیں۔ حسن ظن رکھتا ہوں کہ وہاں ایسا ہی آئیڈیل ماحول ہوگا جیسے ہم یہاں اپنے نیوز روم میں دیکھتے ہیں۔ مغربی ذرائع ابلاغ کے جھوٹے پروپیگنڈے کے جواب میں ایران سے محبت کرنے والے آپ کے توسط سے حقائق سننے کے منتظر ہیں۔ آپ کی ذہنی سطح کو اتنا بلند ہونا چاہئے کہ آپ ان سارے پہلوؤں کو ذہن میں رکھتے ہوئے حالات حاضرہ کے پروگروام منعقد کریں۔ ایران کے اس نشریاتی ادارے کے نظام میں اصلاح کی بہت ضرورت ہے۔ اگر ان کے اعلٰی حکام تک میری بات پہنچے تو ایک جملے میں یہ کہوں گا کہ آپ اتنے بڑے ادارے کو صرف مترجموں کے ذریعے ہی چلا رہے ہیں اور آپ اسی پر خوش ہیں۔ حالانکہ صرف ترجمے سے دنیا میں کہیں کوئی چینل نہیں چل رہا۔ پھر یہ دیکھیں کہ ایران کی غیر سرکاری نیوز ویب سائٹ آپ سے انتہائی کم بجٹ کے ساتھ آپ سے کئی گنا زیادہ موثر ثابت ہو رہی ہیں۔ ایسا کیوں ہے؟ خدا کرے کہ یہ تجاویز ذمے داروں تک پہنچیں اور مغربی ذرایع ابلاغ کی پروپیگنڈا جنگ کا سدباب کرنے کے لئے ٹھوس اقدامات کئے جائیں۔
خبر کا کوڈ : 542363
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Pakistan
یاد رہے کہ علی لاریجانی کے مذکورہ بالا ووٹ وقتی طور پر اسپیکر رہنے کے لئے تھے۔ آج بروز منگل ۴ سالہ مدت کے لئے اسپیکر کا انتخاب ہوا تو علی لاریجانی نے 237 ووٹ لئے اور اصلاح پسندوں کے امیدوار مصطفی کواکبیان نے صرف 11 ووٹ حاصل کئے جبکہ 28 ووٹ ضایع ہوئے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اصلاح طلبان جس طرح ڈاکٹر محمد عارف کے لئے 103 ووٹ کے ساتھ میدان میں آئے تھے، کواکبیان کے لئے ان کی حمایت نہ ہونے کے برابر رہی۔
Iran, Islamic Republic of
سلام عرفان بھائی
آپ کا مستقل قاری ہوں۔ لہذا آپ کی خدمت میں چند گزارشات عرض کرنا چاہتا ہوں۔
1۔ آپ نے اسلامی جمہوری ایران کے جن جریانات یا سیاسی گروہوں یعنی اصلاح پسند، اعتدال گرا اور اصول گرا کی تقسیم کو نمایاں کرنے کی کوشش کی ہے، مغربی ذرائع ابلاغ کی بھی یہی کوشش ہے کہ اس تقسیم کو زیادہ سے زیادہ نمایاں کیا جائے اور یوں ایرانی معاشرے کو مستقل بنیادوں پر مختلف دھڑوں میں تقسیم کر دیا جائے۔ جبکہ اسلامی جمہوری ایران میں بالعموم اور سرکاری ذرائع ابلاغ میں باالخصوص یہ کوشش کی جاتی ہے کہ اس تقسیم کو کم رنگ ہی رہنے دیا جائے اور الیکشن کے اگلے روز ہی تمام منتخبین اپنی اس گروہی سیاست کو پیچھے چھوڑ کر صرف اور صرف ملک کی بہتری کی فکر میں لگ جائیں۔ لہذا اگر آپکو ایران کے سرکاری ذرائع ابلاغ میں ان موضوعات پر زیادہ مواد نہیں مل رہا ہوتا تو وہ کسی کوتاہی کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ مذکورہ بالا پالیسی کے مطابق ایسا ہے۔
2۔ اسلامی جمہوری ایران کے دیگر داخلی مسائل کے بارے میں بھی مذکورہ بالا فارمولا ہی موثر ہے۔ لہذا آئندہ کیلئے بھی ایران کے سرکاری ذرائع ابلاغ سے ایسی کوئی توقع نہ رکھی جائے کہ مغربی ذرائع ابلاغ کی پالیسی کے مطابق اس شگاف کو مزید گہرا کرے گا۔
3۔ لہذا اس طرح کے داخلی امور کے حوالے سے شفاف سازی آپ جیسے مخلص اور دلسوز غیر سرکاری مہربانوں کے ہی ذمے رہے گی۔
4۔ معاملات کو صرف سرسری، ادھوری اطلاعات یا ظاہری طور پر نہ لیا جائے۔ اصلاح پسند امیدوار مصفٰی کواکبیان نے اسپیکر کی ووٹنگ شروع ہوتے ہی انصراف دے دیا تھا، اس لئے اس کو صرف 11 ووٹ پڑے ہیں۔
salam. asp aik or martaba article parhaen. aisi koi baat nahi ki gai jo aap ne samjhi
Pakistan
جناب عالی، اعتدال گرا، اصلاح طلبان اور اصولگرا یہ ایران کی اپنی اصطلاحات ہیں۔ یہ مغربی ذرایع ابلاغ کا کارنامہ نہیں۔ آپ ذرا اخبارات کے اسٹال سے کوئی بھی اخبار خرید کر کوریج دیکھ لیں۔ انقلابیوں کا روزنامہ کیھان ہی پڑھ لیں۔ اس لئے آپ سے مودبانہ گذارش ہے کہ جو تقسیم ایرانیوں نے خود پیدا کر رکھی ہے اس کا الزام کسی اور کو نہ دیں۔ دوسری بات یہ کہ آخری کے تین پیراگراف میں بہت وضاحت سے لکھ دیا گیا ہے کہ مسائل کیا ہیں۔ آپ نے جس طرف اشارہ کرنا چاہا ہے یہ نکات اس تحریر کا موضوع ہی نہیں ہیں، کہاں لکھا ہے کہ داخلی سیاست پر سرکاری میڈیا کا کردار درست نہیں۔ کہاں سے آپ نے یہ اخذ کر لیا۔ یہاں واضح لکھا گیا ہے اور آپ دوبارہ پڑھیںۛ کہ سحر اردو ٹی وی یا پریس ٹی وی بہت حد تک خدمات انجام دے رہے ہیں، لیکن سحر اردو ٹی وی مکمل طور پر خبروں اور تبصروں کا چینل نہیں ہے۔ پریس ٹی وی کی نسبت اس کا حالات حاضرہ اور خبروں کا وقت بہت کم ہے۔ کیا ایسا نہیں ہے؟ کیا محض ترجموں کے ذرہعے سحر نہیں چلایا جا رہا؟ کیا پروفیشنل صحافیوں کے لئے سحر نو گو ایریا نہیں ہے؟؟؟ اصل مطلب کی طرف آئیں محترم، ادھر ادھر کی بات نہ کریں۔ یہ پروپیگنڈا کا دور ہے، سحر کو ضیاء دور کا پی ٹی وی نہیں بننا چاہئے کہ جہاں سے بھٹو کی پھانسی کی خبر بھی نشر نہیں ہونے پائی۔ ایران ایک پختہ و متمدن معاشرہ ہے، یہاں اظہار رائے کی آزادی ایران کی فارسی نشریات کے سیاسی پروگراموں میں صاف نظر آتی ہے، امیدوار ایک دوسرے پر تنقید کرتے ہیں تو پوری دنیا دیکھ رہی ہوتی ہے ، یہ ایک نارمل سیاسی روش ہے، اس کا تذکرہ ایران جیسے معاشرے میں شگاف کیسے ڈال سکتا ہے؟؟
Pakistan
یہ لیجیے ثبوت پریس ٹی وی بھی صدا و سیما جمھوری اسلامی ایران کا ہی چینل ہے۔ اس کی رپورٹ پڑھ لیں

Most of the votes throughout the country are shared among Principlists while Reformists achieved a landslide victory in the capital.
اب یہ پریس ٹی وی کیوں انہیں اصلاح پسند اور اصول پسند لکھ رہا ہے؟ http://www.presstv.com/Detail/2016/02/29/452893/Iran-elections-results-announced
Pakistan
لیجیے ایک اور خبر روزنامہ کیھان فارسی کی پڑھ لیں اس لنک پر http://kayhan.ir/fa/news/76461/%D8%A7%DA%A9%D8%AB%D8%B1%DB%8C%D8%AA-%D9%BE%D9%86%D8%AF%D8%A7%D8%B1%DB%8C-%D9%85%D8%AF%D8%B9%DB%8C%D8%A7%D9%86-%D8%A7%D8%B5%D9%84%D8%A7%D8%AD%D8%A7%D8%AA-%D8%B9%D8%A7%D8%B1%D9%81-%D8%B1%D8%A7-%D9%82%D8%B1%D8%A8%D8%A7%D9%86%DB%8C-%DA%A9%D8%B1%D8%AF
اب بتائیں کیا یہ انقلابی اسلامی اخبار بھی مغربی ذرایع ابلاغ کی طرح داخلی سیاست کی غلط عکاسی کر رہا ہے؟ یہ بھی اصلاح طلبان اور اصولگرایان گروہوں کو انہی ناموں سے شناخت کر رہا ہے۔ یاد رہے کہ اس اخبار کے مدیر حسین شریعتمداری کو خود رھبر معظم انقلاب اسلامی نے یہاں نصب کیا ہے۔
یہ لیجیے امام خامنہ ای کا حکمنامہ بھی پڑھ لیں۔ http://farsi.khamenei.ir/message-content?id=11205
پیارے بھائی غلط بیانی نہ کریں۔ آپ کے علاوہ بھی لوگوں کو تھوڑا بہت علم ہے کہ سرکاری پالیسی کیا ہے؟ امید ہے ناراض نہیں ہوں گے۔
Pakistan
http://urdu.sahartv.ir/news/%D8%A7%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D9%86-i226654
اسلامی جمہوریہ ایران کے ریڈیو اور ٹیلیویژن کے نئے سربراہ عبدالعلی علی عسکری نے اسلامی انقلاب کی ہاؤسنگ فاؤنڈیشن میں ولی فقیہ کے نمائندے حجۃ السلام سید ہاشم رسولی محلاتی سے اپنا حکم نامہ حاصل کرنے کے بعد اپنی مختصر تقریر میں اسلامی جمہوریہ ایران کے ریڈیو اور ٹی وی کے ادارے کو نظام کے لئے بہت زیادہ اہمیت کا حامل قرار دیا۔۔۔۔ہوئے کہا کہ ایرانی قوم، نوجوانوں اور ایرانی گھرانوں کے خلاف مغربی ذرائع ابلاغ کا پروپیگنڈہ ایران کی عظیم و مجاہد قوم سے ایک طرح سے انتقام لینے کے مترادف ہے اور اس پروپیگنڈے کو ناکام بنانا ایران کے ریڈیو ٹی وی کی بھاری ذمہ داری ہے۔}}} جناب اس بھاری ذمے داری کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟؟؟
دبیرکل حزب مردم سالاری
کواکبیان: رئیس مجلس باید یک اصلاح طلب باشد
http://www.irna.ir/fa/News/82089751/ ۔۔۔۔۔۔یہ خبر ایران کی سرکاری نیوز ایجنسی ارنا نے دی ہے، کواکبیان ایران کی حزب مردم سالاری کا سیکریٹری جنرل لکھا ہوا ہے؟ کیا یہ لکھنے سے ایران کے معاشرے میں شگاف پڑگیا؟ کیا فارسی میں اس طرح لکھنے سے شگاف پڑنے کا امکان زیادہ ہوگا یا اردو میں؟؟؟
ہماری پیشکش