0
Tuesday 31 May 2016 17:00

غلامی انسانی وقار پر بدنما داغ

غلامی انسانی وقار پر بدنما داغ
تحریر: طاہر یاسین طاہر

اخبار نویس کا مسئلہ مگر یہ ہے کہ اس کے پاس موضوعات کا انبار ہوتا ہے، گاہے لکھنے کو کچھ بھی نہیں۔ لفظ گری سے کالم کا پیٹ تو بھرا جا سکتا ہے مگر ضمیر کا اطمینان نہیں ہوتا۔ اسی لئے موضوع کا انتخاب گاہے مشکل میں ڈال دیتا ہے۔ مقبول باتیں کرنے والا اخبار نویس جتنا جلدی مارکیٹ میں مشہور ہوتا ہے، اتنا ہی جلدی وہ قارئین کے لئے بوجھ بھی بن جاتا ہے۔ سنجیدہ قارئین ہمیشہ سے سنجیدہ موضوعات پر مدلل اور معلوماتی تحریریں پڑھتے ہیں۔ افسانہ گری یا ناول نویسی چیزِ دیگر ہے اور کالم کاری ایک اور شے۔ اس کالم کے لئے تو کئی ایک موضوعات موجود ہیں۔ وزیراعظم میاں نواز شریف صاحب کا آپریشن، آپریشن سے قبل میاں صاحب کا بھارتی وزیرِاعظم کو فون کرکے ’’دعائیں لینا‘‘، لندن کے اس ہسپتال کو ’’آف شور‘‘ رکھنا، جس میں میاں صاحب کا آپریشن ہو رہا ہے۔ ویڈیو لنک کے ذریعے انتہائی اہم اجلاس کی صدارت اور نون لیگی وزراء کے درمیان اختیارات کے حصول کے لئے تیز ہوتی جنگ۔

ایک موضوع دفاعِ پاکستان کونسل کو پھر سے فعال بنانے کے لئے ہونے والا اجلاس بھی ہے، جس میں کالعدم تحریکِ طالبان کے کئی حمایتی سر جوڑے بیٹھے ہوئے ہیں۔ یہاں سوال اٹھایا جا سکتا ہے کہ ایک ایٹمی ریاست کے پاس جب ایک پیشہ وارانہ فوج موجود ہے تو پھر ریاستی دفاع کے لئے ایسی نجی کونسل کی کیا ضرورت ہے؟ کہ جس کونسل میں شریک کئی ایسے افراد ہیں، جو اپنی اپنی تنظیموں کا دفاع نہ کر پائے اور انہیں کالعدم کرا بیٹھے؟ اگرچہ یہی لوگ بعد میں نئے ناموں سے تنظیمیں بنا کر پھر سے متحرک ہیں۔ میرا موضوع مگر آج یہ نہیں۔

انسان جب سے کرہ ارض کا باسی بنا، طاقت کے اصول اسی وقت لاگو ہونا شروع ہوگئے تھے۔ قابیل کے ہاتھوں ہابیل کا قتل لالچ اور طاقت کی اولین مثال ہے۔ دنیا کا پہلا قتیل، ہابیل اپنے ہی بھائی کی طاقت اور ہوس کا شکار ہوگیا۔ اختیار والا اپنے سے کم اختیار والے کو اپنا غلام ہی بنا کر رکھنا چاہتا ہے۔ انسانی ارتقاء کا مطالعہ انسان گردی کے کئی ادوار کی کہانی بتاتا ہے۔ پہلے پہل غلامی کی شکل انسانی توہین کی آخری حدوں کو چھوتی تھی۔ غلاموں سے جانوروں جیسا سلوک ہوتا تھا، مالک کو اپنے غلام کو مار دینے تک کا اختیار ہوتا۔ نسل در نسل غلامی، غلاموں کی منڈیاں لگتیں اور امیر زادے بولیاں لگاتے۔ کنیزیں اور غلام خریدے جاتے۔ مالک کو اختیار ہوتا کہ کنیز سے جنسی تعلقات قائم کرسکے۔

عہد رفتہ رفتہ ترقی کرتا گیا اور غلامی کی شکلیں بھی بدلتی چلی گئیں۔ پہلے افراد غلام بنائے جاتے تھے، اب اقوام اور ممالک غلام بنائے جا رہے ہیں۔ ہم جس عہد میں زندہ ہیں، اسے ترقی یافتہ عہد کہا جا رہا ہے اور انسان کو اس پر ناز ہے کہ اس نے اپنی توجہ، محنت اور لگن سے اپنے لئے زندگی کی اشکال سہل کر لی ہیں، مگر آج بھی کروڑوں انسان ملٹی نیشنل کمپنیوں، کفیلوں، سرداروں، گدی نشینوں، چوہدریوں، برہمنوں اور فیکٹری مالکان کی آمریت کا شکار ہیں اور جبری خدمت گذاری اور محنت کرنے پر مجبور ہیں۔ جہاں انہیں یا تو انتہائی کم معاوضہ دیا جاتا ہے یا پھر صرف دو وقت کی روٹی پر مزدوری کرائی جاتی ہے۔ جدید عہد کے غلام خواجہ حیدر علی آتش کے اس شعر میں اپنی قسمت کی لکیر دیکھ دیکھ کر خوش و مطمئن ہو جاتے ہیں کہ
جو بھی لکھا خوب لکھا دسترس ہوتا اگر
چومتا میں ہاتھ اپنے کاتبِ تقدیر کا


آسٹریلیا میں حقوق انسانی کے تحفظ کے لئے سرگرم تنظیم کے سروے کے مطابق دنیا میں اس وقت بھی ساڑھے چار کروڑ لوگ جدید دور کے غلام کی حیثیت سے کام کر رہے ہیں۔ سڈنی میں قائم واک فری فاونڈیشن کے 2016ء کے لئے غلاموں سے متعلق عالمی انڈیکس کے مطابق یہ وہ غلام ہیں، جن سے اس جدید دور میں بھی جبری طور پر فیکٹریوں، فارمز اور کانوں میں جبری مشقت کروائی جاتی ہے یا پھر انہیں جنسی مقاصد کے لئے زبردستی استعمال کیا جاتا ہے۔ ان میں مردوں کے علاوہ خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس قسم کی غلامی میں پھنسے ہوئے سب سے زیادہ افراد ایشیا میں ہیں اور اس سے متعلقہ فہرست کے پہلے پانچ ممالک اسی خطے سے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق انڈیا دنیا میں غلامی میں جکڑے ہوئے ایک کروڑ 80 لاکھ افراد کی وجہ سے پہلے نمبر ہے۔

دوسرے نمبر پر چین ہے، جہاں 30 لاکھ سے زیادہ افراد اس قسم کی جبری مشقت کر رہے ہیں جبکہ پاکستان 20 لاکھ سے زائد ایسے غلاموں کے ساتھ تیسرے نمبر پر ہے۔ اس کے علاوہ بنگلہ دیش بھی پہلے دس ممالک میں شامل ہے۔ یہ تنظیم ایک آسٹریلوی ارب پتی اور مخیر شخصیت اینڈریو فارسٹ نے 2012ء میں اس مسئلے کی جانب توجہ دلانے کے لئے قائم کی تھی۔ اس تازہ سروے کے لئے اس تنظیم نے 167 ممالک میں 53 زبانوں میں 42 ہزار انٹرویوز کی بنیاد پر رپورٹ تیار کی ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق دو سال قبل کے اندازوں کے مقابلے میں ایسے افراد کی تعداد میں 28 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ اس رپورٹ میں جدید غلامی کی تشریح کچھ اس طرح سے کی گئی ہے کہ ’’ایک شخص دھونس یا دھمکیوں، تشدد، طاقت کے غلط استعمال یا دھوکے کی وجہ سے کام نہیں چھوڑ سکے اور قرض دار ہونے کی وجہ سے اسے ذاتی ملازم بنا کر رکھا جائے۔‘‘

دنیا کے 124 ممالک نے انسانی سمگلنگ کو اقوام متحدہ کے پرٹوکول کے تحت غیر قانونی قرار دیا ہوا ہے اور قومی ایکشن پلان بھی بنائے ہوئے ہیں، لیکن فارسٹ کے مطابق یہ کافی نہیں ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ہم دنیا کی دس بڑی معیشتوں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ ایسے قوانین متعارف کروائیں جو کم از کم برطانوی ماڈرن سلیوری ایکٹ 2015ء جیسا سخت ہو، تاکہ اداروں کو اپنی سپلائی چین میں غلامی کے لئے جواب دہ بنایا جا سکے اور آزادانہ نگرانی کی جا سکے۔ اے کہ انسان کو دنیا میں بھیجنے والے رب العالمین اپنے بندوں کو بندوں کی غلامی سے آزاد کر، اے انسان کو آزاد پیدا کرنے والے، خدا انسان کو انسان کی غلامی سے نجات کے اسباب پیدا فرما اور انسانی وقار کا دامن داغدار ہونے سے بچا۔ اے ناخداؤں کے خدا، اے رب العالمین!!
خبر کا کوڈ : 542524
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش