1
0
Wednesday 8 Jun 2016 16:55

عظمت شہداء کانفرنس ڈی آئی خان کا احوال( آخری حصہ)

عظمت شہداء کانفرنس ڈی آئی خان کا احوال( آخری حصہ)
تحریر: آئی اے خان

شیعہ علماء کونسل پاکستان کے سربراہ علامہ سید ساجد علی نقوی نے کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ملک بھر میں قانون کی حکمرانی کہیں بھی دکھائی نہیں دیتی۔ پاکستان کو اس کے آئین نے جوڑا ہوا ہے، قانون کی حکمرانی ہی استحکام و امن کی ضامن ہے۔ انہوں نے ڈی آئی خان میں ہونے والی ٹارگٹ کلنگ پر انتہائی افسوس کا اظہار کیا اور شہداء کے خانوادوں سے اظہار تعزیت و یکجہتی کیا۔ انہوں نے کہا ہے کہ خیبر پختونخوا میں عرصے سے تسلسل کے ساتھ اہل تشیع کی ٹارگٹ کلنگ جاری ہے۔ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ قاتلوں، دہشت گردوں، سہولت کاروں کو کیفر کردار تک پہنچائے، مگر قاتلوں کو سزا کی جانب لے جانے کا عمل سرے سے شروع ہی نہیں ہوا۔ انہوں نے بتایا کہ امن و امان کی صورتحال اور انتظامیہ، پولیس و حکومت کے رویہ پر ان کی گہری نظر ہے۔ انہوں نے حکومت کو اس حوالے سے آڑے ہاتھوں لیا کہ تمام تر وسائل و نظام کے باوجود شہداء کے قاتل تاحال گرفتار نہیں ہوئے۔ علامہ ساجد نقوی نے مزید کہا کہ اگر حکومت شہداء کے قاتلوں کو گرفتار کرنے کی اپنی ذمہ داری ادا نہیں کرسکتی تو تسلیم کرے، ہمارے پاس دیگر ذرائع بھی موجود ہیں۔ گرچہ ہم قانون کی حکمرانی پر یقین رکھتے ہیں، تاہم جو لوگ ان ذرائع کو درست سمجھتے ہیں، وہ اس پر عمل کریں۔

علامہ ساجد نقوی نے سنٹرل جیل ڈی آئی خان کے ٹوٹنے اور اس میں سے دہشتگردوں کے فرار اور اہل تشیع نوجوانوں کی ٹارگٹ کلنگ کی شدید مذمت کرتے ہوئے پوچھا کہ کیا دہشتگردوں کے ساتھ یہی طے ہوا تھا کہ دہشت گرد فرار ہوں گے اور اہل تشیع کو قتل کیا جائے گا۔؟ کیونکہ آج تک یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ جیل توڑنے والے کون تھے، کہاں سے آئے، کہاں گئے، جن کو ساتھ لے گئے، وہ کہاں ہیں۔؟ انہوں نے مزید کہا کہ خیبر پختونخوا حکومت کا دعویٰ ہے کہ اس نے پولیس کو غیر سیاسی کر دیا ہے، مگر پورے پاکستان میں مجلس عزا پر ایف آئی آرز کا اندراج صرف کے پی کے پولیس نے ہی کیوں کیا ہے۔؟ کیا پولیس کو اس حد تک غیر سیاسی نہیں کیا گیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ چودہ سو سال سے مجالس و عزاداری جاری ہے، تاہم مجالس پر ایف آئی آرز صرف کے پی کے میں دائر کی گئی، جو کہ کسی لحاظ سے قانونی نہیں۔ انہوں نے متنبہ کیا کہ اگر مجالس پر درج ایف آئی آرز واپس نہ لی گئیں تو یہ حکومت کے گلے کا پھندا بن جائیں گی۔ انہوں نے کہا کہ شیعہ علماء کونسل کے صوبائی صدر کو ہدایت دی ہے کہ وہ وزیراعلٰی سے فوری ملاقات کرکے مسائل حل کریں۔ انہوں نے یہ بھی اعلان کیا کہ قاتلوں کی گرفتاری تک یہ احتجاج جاری رہے گا۔

علامہ ساجد علی نقوی کا کہنا تھا کہ اس ملک کو آئین نے جوڑا ہوا ہے، عملاً قانون کی حکمرانی دکھائی نہیں دیتی۔ پاکستان میں اہل تشیع طاقتور ترین طبقہ ہیں، دنیا کی کوئی طاقت ہم سے بالاتر نہیں ہے، ہم حکمت و تدبر کے ساتھ اپنی توانائیاں صرف کریں گے۔ شہداء کے قاتل فی الفور گرفتار کرکے کیفر کردار تک پہنچائے جائیں۔ آئین و قانون کی عملداری کو یقینی بنایا جائے۔ علامہ ساجد نقوی نے یہ بھی کہا کہ کچھ نوجوانوں کو ماورائے قانون و عدالت اٹھایا گیا، ان نوجوانوں کا تعلق ڈی آئی خان سے ہے، اس حوالے سے قانون پر عملدرآمد کیا جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ شہداء کی قربانیوں کو کبھی فراموش نہیں کریں گے۔ یہ شیعہ سنی مسئلہ نہیں ہے، اگر اسے شیعہ سنی مسئلہ بنانے کی کوشش کی گئی تو یہ بھی حقیقت سے عاری ہوگا۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہم نے اتحاد و وحدت کیلئے بانی کردار ادا کیا ہے، وحدت اور اتحاد کے حوالے سے قومی جماعتوں کے دائرے میں مرکزی حیثیت رکھتے ہیں، جبکہ اس حوالے سے تشیع اور ہماری کاوشوں پر طنز و تشنیع کرنے والے آج خود گندگی کا ڈھیر بن چکے ہیں۔ انہوں نے جے ایس او کے جوانوں کی حوصلہ افزائی کی اور کانفرنس کے انعقاد کے حوالے سے ان کی کوششوں کو سراہا۔ آخر میں ان کا کہنا تھا کہ شعور کی بیداری اور آگہی کے لئے ہماری جدوجہد تسلسل سے جاری رہیگی، ان شاء اللہ۔

کانفرنس کے اختتامی سیشن میں جے ایس او کے ڈویژنل صدر وسیم عباس نے مندرجہ ذیل قراردادیں پیش کیں۔ ٹارگٹ کلنگ اور اس کے خلاف صوبائی حکومت کے غیر سنجیدہ رویے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہیں۔ صوبائی حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ ڈیرہ سے پشاور تک جاری شیعہ قتل عام کی روک تھام کیلئے اپنا کردار ادا کرے۔ شہداء کے کیسز فوجی عدالت میں چلائے جائیں۔ کوٹلی امام حسین (ع) کی زمین قبضہ گروپوں سے واگزار کرائی جائے۔
1۔ عظمت شہداء کانفرنس کا انعقاد کوٹلی امام حسین کی مسجد امام زمان (ع) کی چار دیواری میں کیا گیا، جبکہ ڈیرہ میں شیعہ ٹارگٹ کلنگ کے خلاف احتجاجی مظاہرے و ریلیاں مرکزی شاہراؤں اور بازاروں میں ہوئیں، چنانچہ اس کانفرنس کا انعقاد چار دیواری سے باہر کیا جاتا تو شہریوں کی شرکت زیادہ تعداد میں ہوتی۔
2۔ ایس یو سی کی مرکزی قیادت کی شرکت کے باوجود کانفرنس میں شرکاء کی تعداد توقع سے کم تھی، جس کا شکوہ ایس یو سی کے صوبائی صدر علامہ حمید حسین امامی نے اپنے خطاب میں بھی بجا طور پر کیا۔

3۔ ایس یو سی کے ضلعی جنرل سیکرٹری ہیبت اللہ صدیقی نامی شخص نے چند روز قبل شیعہ کلنگ کے خلاف ہونے والے احتجاج سے متعلق نقص امن کا خدشہ ظاہر کیا تھا اور نہ صرف اس سے لاتعلقی کا اظہار کیا تھا، بلکہ ایم ڈبلیو ایم اور آئی ایس او کا باقاعدہ نام لیکر انہیں نقص امن کا ذمہ دار قرار دیا تھا۔ جبکہ سربراہ ایس یو سی علامہ ساجد نقوی نے ٹارگٹ کلرز کی گرفتاری تک عظمت شہداء کانفرنس کی صورت میں احتجاج جاری رکھنے کا اعلان کیا۔
4۔ ایس یو سی کے صوبائی صدر نے اپنے خطاب میں بجا طور پر ڈی آئی خان پولیس و انتظامیہ کے تعاون کا نہ صرف شکریہ ادا کیا بلکہ ان کی کارکردگی پر اطمینان کا اظہار بھی کیا، جبکہ مرکزی صدر علامہ ساجد نقوی نے اپنے خطاب میں صوبائی حکومت، پولیس و اداروں کی کارکردگی کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا اور واضح اعتراف کیا کہ شہداء کے قاتلوں کی گرفتاری کے حوالے سے کوئی پیش رفت نہیں ہوئی، جس سے کانفرنس کے شرکاء شبہات کا شکار ہوئے۔

5۔ ایس یو سی کے عہدیدار مولانا اظہر ندیم نے اپنے خطاب میں کوٹلی امام حسین کی زمین پر ناجائز قبضہ مافیا کے وجود کا شکوہ کیا اور واگزار کرانے کی درخواست کی، مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ ایک طویل عرصہ سے پوری کوٹلی امام حسین ایس یو سی کے زیرانتظام ہے، چنانچہ قبضہ گروہ کے خلاف قانونی کارروائی کا اصولی اقدام ایس یو سی کی جانب سے ہونا چاہیئے تھا، مگر نہیں ہوا، البتہ زبانی اور اخباری بیانات تک یہ سلسلہ محدود ہے۔
6۔ عظمت شہداء کانفرنس کے دوران اگر سٹیج سے یہ اعلان ہو جاتا ہے کہ کانفرنس کا پنڈال مسجد کے صحن میں ہے تو مسجد کی بیحرمتی کی باتوں سے بچا جاسکتا تھا۔ یہاں تک کہ ایس یو سی کے مرکزی نائب صدر ننگے پیر پی ٹی آئی حکومت کے وزیر مال کے استقبال کیلئے مسجد کے صحن کے وسط تک آئے جبکہ صوبائی وزیر مال نے مسجد میں جوتے پہنے ہوئے تھے۔

7۔ چند ماہ قبل کوٹلی امام کی زمین واگزار کرانے کیلئے وکلاء کی ایک کمیٹی تشکیل دی گئی تھی، جس نے اس ناجائز انتقال اراضی کو عدالت میں چیلنج کرنا تھا، مگر تاحال یہ جعلی انتقال اراضی چیلنج نہیں کیا گیا اور نہ ہی کسی وکیل نے درخواست دائر کی۔
8۔ عظمت شہداء کانفرنس سے قبل اور بعد میں یہاں تک کہ دوران کانفرنس ایس یو سی کے مرکزی صدر علامہ ساجد نقوی کے پہلو میں وہی ضلعی سیکرٹری جنرل موجود رہا، جس نے اتحاد بین المومینین کی فضا پارہ پارہ کرنے کیلئے متنازعہ اخباری بیان جاری کیا تھا، جبکہ مرکزی قیادت نے خود ٹارگٹ کلنگ اور قاتلوں کی عدم گرفتاری کے خلاف احتجاج جاری رکھنے کا اعلان کیا۔
9۔ عظمت شہداء کانفرنس میں شہداء کے خانوادگان کی نمائندگی مناسب تعداد میں موجود نہیں تھی، جبکہ مرکزی قیادت کی خصوصی شرکت کے باعث شہداء کے نصف سے زائد خانوادگان یا عزیز و اقارب کی موجودگی متوقع تھی۔
10۔ ڈیرہ کے مقامی افراد کی شرکت انتہائی کم تھی، جبکہ مضافاتی علاقوں سے آئے ہوئے لوگ زیادہ تعداد میں شریک تھے، کانفرنس میں کوئی لائحہ عمل نہیں دیا گیا۔
خبر کا کوڈ : 544023
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

tajamalhussain
United Kingdom
aj first time likh raha hoon daily ye akhbar prta hoon aj samj ska k ye akhbar be qaiud milt e jafiria say bughz rkhta hae
ہماری پیشکش