0
Thursday 9 Jun 2016 23:11

امریکہ کی اقوام متحدہ اور عالمی قوانین سے بے اعتنائی

امریکہ کی اقوام متحدہ اور عالمی قوانین سے بے اعتنائی
تحریر: کرسٹوفر بلیک (Christopher Black)

کرسٹوفر بلیک کینیڈا کے شہر ٹورنٹو میں مقیم بین الاقوامی فوجداری وکیل ہیں، جو جنگی جرائم اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی سے متعلق کئی مقدمات کی پیروی کرچکے ہیں۔ انہوں نے حال ہی میں ایک آنلائن مجلے “New Eastern Outlook” میں امریکہ کی جانب سے عالمی قوانین اور اقوام متحدہ سے بے اعتنائی کے بارے میں ایک مقالہ شائع کیا ہے، جس کا ترجمہ اسلام ٹائمز اردو کے قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔
1945ء میں جرمن فاشسٹ فورسز کے مقابلے میں سابق سوویت یونین کی فتح کی سالگرہ کے موقع پر امریکی مجلے "نیشنل سکیورٹی نیوز" میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے: "مشرقی خطرے (روس کی طرف اشارہ ہے) کے لحاظ سے مشرقی یورپ سے متعلق امریکی کمانڈ ایک ممکنہ جنگ میں داخل ہونے کیلئے ضروری اقدامات انجام دے گی۔" رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے: "اس کا یہ مطلب نہیں کہ امریکہ روس کے خلاف جنگ کی منصوبہ بندی میں مصروف ہے، بلکہ وہ محض اپنی مسلح افواج میں ایسی اسٹرکچرل تبدیلیاں پیدا کر رہا ہے، جن کا مقصد ماسکو کو کنٹرول کرنا اور نیٹو اور اپنے ایسے یورپی اتحادیوں کا دفاع کرنا ہے، جن کے خلاف صدر ولادیمیر پیوٹن کے ایسے ممکنہ اقدام کا خطرہ پایا جاتا ہو، جو انہوں نے یوکرائن کے خلاف انجام دیا ہے۔"

البتہ اس رپورٹ میں "یوکرائن کے خلاف روس کے اقدام" کی مزید وضاحت نہیں کی گئی، کیونکہ اس جملے کو بیان کرنے کا مقصد درحقیقت اس بغاوت پر پردہ ڈالنا تھا، جو امریکہ نے یوکرائن میں انجام دی ہے اور اس کے نتیجے میں امریکہ نواز حکومت کیف میں برسراقتدار آئی۔ اس کے بعد یہ امریکہ نواز حکومت مشرقی یوکرائن کے عوام پر حملہ آور ہوئی، جس کی واحد وجہ یہ تھی کہ وہ عوامی مینڈیٹ کے حامل اپنے جمہوری صدر کے خلاف امریکی حمایت سے کامیاب ہونے والی بغاوت کو ماننے اور اپنی ثقافت کے پاوں تلے کچلے جانے پر تیار نہ تھے۔ جب امریکی یہ کہتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ "وہ کسی جنگ کی منصوبہ بندی میں مصروف نہیں" تو اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ وہ ایسا کرنے میں مصروف ہیں۔ اگر یوکرائن اور شام میں جاری جنگ اور یوگوسلاویہ اور لیبیا کی نابودی روس کے خلاف ان کی ممکنہ جنگ کا حصہ نہیں تو پھر اسے کیا عنوان دیا جا سکتا ہے؟

اس کے بعد مذکورہ بالا رپورٹ میں "امریکہ اور روس کے درمیان تعلقات میں کشیدگی اور ماسکو کی جانب سے امریکہ کے جنگی بحری جہازوں کے خلاف دشمنانہ اقدامات" کی جانب اشارہ کیا گیا ہے۔ یہ بھی درحقیقت ایک کوڈ ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ روس ہمیں ہرگز اس بات کی اجازت نہیں دے گا کہ ہم اسے بالٹیک، یوکرائن، شام یا کسی دوسری جگہ مکمل طور پر شکست سے دوچار کر سکیں۔ یہ رپورٹ اس امر کی تصدیق کرتی ہے کہ جنگ کی تیاریاں عروج پر ہیں۔ یہ رپورٹ مشرقی یورپ میں نیٹو کی سرگرمیوں اور تیاری کو جرمن نازی فورسز کی جانب سے 21 جون 1941ء کو سابق سوویت یونین پر اچانک حملے (بارباروسا آپریشن) سے قبل ان کی سرگرمیوں اور جنگی تیاریوں سے موازنہ کرتی نظر آتی ہے۔ جیسے جیسے مہینے گزر رہے ہیں، ان دونوں میں شباہت اور مماثلت بھی بڑھتی جا رہی ہے۔ روسی حکومت نے تمام امریکی سرگرمیوں پر دقت سے نظر رکھی ہوئی ہے۔ روسی جنگی طیاروں نے بالٹک میں داخل ہو کر لینن گراد، سینٹ پیٹرز برگ اور بحر اوقیانوس میں روس کے داخلے کو خطرات کا شکار کرنے والی امریکی جنگی کشتیوں کو قریب سے شناخت کرکے اپنے ردعمل کا اظہار کیا ہے۔ اسی طرح روس نے تین نئے فوجی یونٹس کی تشکیل دی ہے، جن میں سے دو یونٹس مغربی محاذ اور نیٹو فورسز سے مقابلے جبکہ تیسری یونٹ جنوبی محاذ کیلئے تشکیل دی گئی ہے۔

حال ہی میں امریکہ نے کوریا میں تعینات تجربہ کار جنرل ایسکاپاروتی کو وہاں سے ہٹا کر نیٹو میں امریکی فورسز کے کمانڈر کے طور پر تعین کیا ہے۔ ان سے پہلے یہ ذمہ داری جنرل بریڈلاو کے پاس تھی۔ جنرل بریڈلاو ائیرفورس کے کمانڈر تھے جبکہ موجودہ نیٹو کمانڈر جنرل ایسکاپاروتی بری فوج کے جنرل ہیں، جو کئی خود مختار ریاستوں پر امریکی جارحیت میں شریک رہے ہیں اور اس لحاظ سے کافی تجربہ رکھتے ہیں۔ لہذا یہ تبدیلی کوئی معمولی یا سجاوٹی تبدیلی نہیں۔ دوسری طرف کوریا میں میجر جنرل ایسکاپاروتی کا جانشین بھی جنرل بروکس کو مقرر کیا گیا ہے۔ ان کا تعلق بھی امریکہ کی بری فوج سے ہے اور وہ عراق پر امریکی فوجی حملے کے دوران نائب کمانڈر کے طور پر خدمات انجام دے چکے ہیں۔ اسی طرح وہ یوگوسلاویہ، افغانستان اور مشرق وسطٰی میں "دہشتگردی کیخلاف جنگ" یعنی عراق اور شام میں جاری جنگ میں بھی شامل رہے ہیں۔ یہ دونوں افراد میز کے پیچھے بیٹھنے والے فوجی افسر نہیں بلکہ فوجی کارروائیوں میں شریک ہونے والے جنرل ہیں۔ ان افراد کا تقرر درحقیقت امریکہ کی جانب سے جزیرہ نما کوریا اور روس کی سرحد کے قریب جاری امریکی جارحانہ سرگرمیوں میں مزید شدت آنے کی نوید دلاتا ہے۔ جنرل ایسکاپاروتی نے اپنا عہدہ سنبھالتے ہوئے تقریر کے دوران کہا: "نیٹو کو ہوشیار اور ہر روز جنگ کیلئے مکمل تیار رہنا چاہئے۔" یہ جملہ ایک انتباہ سے کم نہیں۔

صدر ولادیمیر پیوٹن نے امریکہ کی جانب سے مسلسل دباو کا مقابلہ کرنے کی کوشش کرتے ہوئے 9 مئی کو "عالمی دہشتگردی" کا مقابلہ کرنے کیلئے ایک بین الاقوامی غیر وابستہ سکیورٹی سسٹم تشکیل دینے کا مطالبہ کیا ہے۔ اس مطالبے سے ان کا مقصد واضح نہیں۔ کس لحاظ سے غیر وابستہ؟ ایک غیر وابستہ سسٹم کس شکل صورت کا ہوگا؟ ہمیں ہرگز نہیں بھولنا چاہئے کہ غیر وابستہ تحریک (Non Aligned Movement) اب تک موجود ہے۔ اس تحریک کی بنیاد 1961ء میں بھارتی وزیراعظم نہرو، انڈونیشیا کے صدر سوکارنو، مصر کے صدر جمال عبدالناصر، گھانا کے صدر نیکرومے اور یوگوسلاویہ کے صدر ٹیٹو نے مل کر رکھی۔ اس تحریک نے سرد جنگ کا حصہ نہ بننے اور مشرقی اور مغربی بلاک سے ہٹ کر خود مختار پالیسی اختیار کرنے کا فیصلہ کیا۔ کیوبا کے صدر فیڈل کاسترو نے 1979ء میں ایک تقریر کے دوران غیر وابستہ تحریک کے بارے میں وضاحت پیش کرتے ہوئے کہا: "غیر وابستہ تحریک کا مقصد استعمار، نو آبادیاتی نظام اور سامراجیت کے خلاف مقابلے اور ہر قسم کی جارحیت، فوجی قبضے، تسلط، بیرونی مداخلت اور طاقت کے استعمال کے دوران غیر وابستہ ممالک کی قومی سلامتی، خود مختاری اور حق خود ارادیت کی حفاظت کو یقینی بنانا ہے۔" البتہ اس نکتے کی جانب اشارہ کرنا ضروری ہے کہ یہ تمام اہداف سابق سوویت یونین کے حق میں تھے، لیکن دوسری طرف مکمل طور پر امریکی پالیسیوں سے متضاد تھے، چونکہ امریکہ سامراجیت کے ذریعے پوری دنیا پر اپنا تسلط جمانے کا ارادہ رکھتا تھا۔

روسی حکومت نے صدر فیڈل کاسترو کے بیان کردہ اہداف کی مکمل حمایت کا اعلان کر دیا جبکہ دوسری طرف امریکی حکومت نے بارہا اپنے بیانات اور اقدامات کے ذریعے ثابت کر دیا کہ وہ ہرگز ان اہداف کو پایہ تکمیل تک نہیں پہنچنے دے گی۔ لہذا ایسا دکھائی دیتا ہے کہ غیر وابستہ تحریک کا احیاء جو سرد جنگ کے خاتمے کے بعد اپنے اہداف کھو چکی تھی، اس ہدف کے حصول میں ایک انتہائی اہم قدم ثابت ہوسکتا ہے، جو صدر ولادیمیر پیوٹن کے ذہن میں ہے۔ فوجی طاقت کی حامل ایک غیر وابستہ تحریک۔ اس وقت غیر وابستہ تحریک کے رکن ممالک کی تعداد 120 ہے۔ کیا یہ تمام ممالک ایک مشترکہ سکیورٹی سیٹ اپ کی تشکیل میں روس کا ساتھ دینے کیلئے تیار ہیں؟ اس بارے میں انتہائی دلچسپ سوالات اور احتمالات پائے جاتے ہیں۔ کیا ان ممالک کے لیڈران میں یہ صلاحیت موجود ہے کہ کوئی بڑا انسانی سانحہ رونما ہونے سے پہلے جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے کوئی موثر اقدام انجام دیں؟

چاہے صدر ولادیمیر پیوٹن کا مقصد غیر وابستہ تحریک کے تمام ممالک پر مشتمل ایک مشترکہ سکیورٹی سیٹ اپ تشکیل دینا ہو یا صرف "برکس" کے رکن ممالک پر مشتمل ایسا سیٹ اپ بنانا ہو، دونوں صورتوں میں ایک مشترکہ آئیڈیالوجی کے بغیر ان ممالک کا آپس میں متحد ہونا بہت مشکل نظر آتا ہے۔ لیکن آج کی صورتحال کے پیش نظر ممکن ہے، اس کام کیلئے مشترکہ آئیڈیالوجی کی ضرورت نہ ہو بلکہ صرف مشترکہ خوف ہی اس کیلئے کافی ہو۔ صدر ولادیمیر پیوٹن ایک انتہائی ذہین شخص ہیں اور قوی امکان ہے کہ انہوں نے اپنے اس نظریئے کو عملی جامہ پہنانے کیلئے منصوبہ بندی کر رکھی ہوگی۔ لیکن اس بارے میں صرف امید ہی قائم کی جاسکتی ہے اور امیدواری کے علاوہ ہمارے بس میں اور کچھ نہیں۔ جب روسی صدر اپنی 9 مئی کی تقریر میں یہ کہتے ہیں کہ: "دہشت گردی ایک عالمی خطرے میں تبدیل ہوچکی ہے" تو وہ اور ہم سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ ان کی مراد یہ ہے کہ امریکہ ایک عالمی خطرے میں تبدیل ہوچکا ہے۔

واضح ہے کہ وہ "دہشتگرد" جن سے دنیا کو سامنا ہے درحقیقت امریکہ کی پراکسی فورس ہے، جو امریکی مفادات کے حق میں دنیا کو عدم استحکام کا شکار کرنا چاہتی ہے۔ حلب میں دہشت گردوں کے خلاف جاری جنگ دراصل شام میں سرگرم امریکی فورسز کے خلاف جنگ ہے۔ اب کوئی بھی "دہشتگرد" جیسی مبہم اصطلاح سے دھوکے میں نہیں آتا۔ گذشتہ چند ہفتوں کے دوران امریکی فورسز کی جانب سے شام پر حملہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ ایک بڑے اقدام کا زمینہ فراہم کرچکا ہے۔ جب صدر پیوٹن اپنی تقریر میں کہتے ہیں کہ "جدید مجرمانہ اور دہشتگرد منصوبوں کی مدد کرنے والوں سے دوغلا معیار اپنانا اور ان کے مقابلے میں نرمی کا مظاہرہ کرنا ہرگز قابل قبول نہیں" تو ان کی مراد بھی یہی ہے۔ ان کا اشارہ بالخصوص نیٹو اور امریکی اتحاد کی طرف ہوسکتا ہے۔

ایک "غیر وابستہ سکیورٹی سسٹم" کی تشکیل کی دعوت کی اس طرح وضاحت کی جا سکتی ہے کہ عالمی امن کے قیام اور بین الاقوامی قوانین میں اقوام متحدہ کے کردار کی کوئی اہمیت باقی نہیں رہی۔ ہر گزرنے والے سال میں اقوام متحدہ اور اس کے ہمراہ بین الاقوامی قوانین کی ساکھ مزید خراب ہوتی جا رہی ہے۔ امریکہ اور اس کے اتحادی ان دونوں سے مکمل بے اعتنائی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ دوسری طرف امریکہ کے نئے صدارتی انتخابات کے بعد صورتحال مزید پیچیدہ ہو جانے کا امکان ہے کیونکہ دونوں ممکنہ صدارتی امیدوار ایک انداز میں "امریکی شان و شوکت کی واپسی" یعنی دنیا پر امریکی تسلط میں اضافے پر زور دیتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔ کیونکہ ان کے پاس امریکی عوام کی مشکلات حل کرنے اور ملک کو درپیش شدید اقتصادی و سماجی بحرانوں سے مقابلہ کرنے کیلئے کوئی منطقی راہ حل موجود نہیں، لہذا ان کے سامنے صرف جنگ کا راستہ باقی بچ جاتا ہے۔

اب ایک نئی بانڈونگ کانفرنس کے انعقاد کا وقت آن پہنچا ہے۔ 1955ء میں انڈونیشیا کے شہر بانڈونگ میں منعقد ہونے والی یہ کانفرنس غیر وابستہ تحریک کی تشکیل کا مقدمہ ثابت ہوئی۔ اس کانفرنس میں افریقی اور ایشیائی ممالک کے سربراہان صدر سوکارنو کے مہمان تھے۔ رکن ممالک نے عالمی امن اور تعاون کے فروغ کیلئے ایک بیانیہ متفقہ طور پر منظور کیا، جس میں نہرو کے پانچ نکات شامل تھے: دوسرے ممالک کی ملکی سالمیت اور خود مختاری کا احترام، عدم جارحیت، اندرونی معاملات میں عدم مداخلت، برابری اور مساوات اور پرامن تعاون۔ ان اصولوں کو دوبارہ سے زندہ کرنے کی ضرورت ہے اور ایک بین الاقوامی مشترکہ سکیورٹی سسٹم کی صورت میں ایک حقیقت کے طور پر ابھر کر سامنے آنے کی ضرورت ہے۔ نوبل انعام جیتنے والے ہیرالڈ پینٹر نے انعام حاصل کرتے وقت اپنی تقریر کے دوران کہا: "امریکہ اقوام متحدہ، بین الاقوامی قوانین یا اپنے مخالفین کی تنقید کو کوئی اہمیت نہیں دیتا کیونکہ اس ملک کی نظر میں ان کی کوئی حیثیت نہیں۔" انہوں نے ایک بار مجھ سے پوچھا: "اس سے پہلے کہ ہم سب کو قتل کر دیا جائے، ہم اپنی حکومت کو کیسے اس بات پر قانع کر سکتے ہیں کہ وہ ان چیزوں کو اہمیت دے۔؟" یہ ایک بنیادی سوال ہے۔
خبر کا کوڈ : 544032
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش