0
Tuesday 14 Jun 2016 17:32

کعبة اللہ اور اسرائیل نواز آل سعود

کعبة اللہ اور اسرائیل نواز آل سعود
تحریر: عابد حسین

کئی سالوں سے سعودی حکام نے مسلسل کوشش کے ذریعے حج کے اعمال کو علاقے کے ملکوں، تنظیموں اور نامور عالمی شخصیتوں سے انتقام گیری، سیاسی رقابت اور رسہ کشی کی علامت میں تبدیل کر دیا ہے۔ ایسا پہلی بار نہیں ہو رہا ہے، کہ سعودی عرب نے حج بیت اللہ الحرام کا راستہ مسلمانوں کے لیے بند کیا ہو یا پہلے سے منصوبہ بند طریقے سے آزار و اذیت کے ذریعے مسلمانوں کو حج کے مناسک سے دور رکھنے کی کوشش کی ہو۔ ہر سال جب حج کا زمانہ آتا ہے، تو ہم دیکھتے ہیں کہ سعودی عرب والے ایک ملک یا چند ملکوں سے خراج وصول کرنے کے لیے طرح طرح کے روڑے اٹکاتے ہیں، اسی لیے جو مسلمان حج کے لیے جاتے ہیں ان کا بھی شایان شان استقبال نہیں ہوتا۔

حکومتوں کے ساتھ اختلاف کی وجہ سے حاجیوں کی راہ میں رکاوٹ ڈالنا، جو لوگ آل سعود کے خلاف تنقید کرتے ہیں ان کے بارے میں تحقیق کرنا، بیہودہ دلائل کی بنا پر حاجیوں کی توہین کرنا اور انہیں جیل میں بند کر دینا اور حالت احرام میں زائرین خانہء خدا کو لگاتار ہر سال قتل کرنا، یہ سب صرف جمہوری اسلامی ایران کیخلاف سعودی اقدامات سے مخصوص نہیں ہے، بلکہ حج کے سلسلے میں سعودی عرب کی یہ سیاست کئی سال سے چلی آ رہی ہے۔ ایرانی حاجیوں کو ویزا نہ دینے کی دھمکی نے بہت سارے اہل نظر کو اس بات پر مجبور کیا ہے کہ وہ اس کا مقایسہ اس خونی جمعہ کے بعد کے حالات سے کریں، کہ جس میں مشرکین سے برائت کے پروگرام میں بہت سارے حاجیوں کو خاک و خون میں غلطان کر دیا گیا تھا، یہ اس لیے بھی درست ہے کہ آل سعود کی طرف سے حاجیوں کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے کی یہ حرکت بھی بڑے پیمانے پر حاجیوں کو قتل کرنے کے بعد انجام پا رہی ہے۔ اس کے باوجود فقط ایرانی حاجی ہی نہیں ہیں، کہ جن کو خادم الحرمین شریفین، وہ خادم کہ جس نے مسلمانوں کے مقدس شہروں کو ان سے چھین لیا ہے اور اس مقام پر ان کے داخلے کے سلسلے میں شرائط رکھے جا رہے ہیں، مسلمانوں کو خانہء خدا کے حج کے لیے جانے سے روک دیا ہے۔

اگر اس سال سعودیوں نے ایرانی حاجیوں پر حج کی بجا آوری میں پابندی لگائی ہے، تو گذشتہ سال یمن کے حاجیوں کو سعودی حکام نےحج سے محروم کر دیا تھا۔ یمن کی وزارت اوقاف نے ایک بیان میں اعلان کیا ہے کہ جنگ کے باوجود ہر طرح کی کوشش کرنے کے بعد بھی ریاض کے حکام نے یمن کے حاجیوں کو سال ۱۴۳۶ میں ویزا دینے کی اجازت نہیں دی تھی۔ اس سال بھی خبریں موصول ہو رہی ہیں کہ بے وطن فلسطینیوں کو حج و عمرہ بجا لانے کی اجازت نہیں دی جا رہی ہے۔ فلسطینی ذرائع نے لکھا ہے کہ سعودی عرب جو تل ابیب کے نزدیک ہونے کی کوشش کر رہا ہے اور صہیونی ناجائز ریاست اسرائیل کیساتھ خود ساختہ صلح کے منصوبے پر عمل کر رہا ہے، جس میں بے گھر فلسطینیوں کے وطن واپسی کے حق سے بھی چشم پوشی کی گئی ہے، اب بے گھر فلسطینیوں کو حج کی سعادت سے بھی محروم رکھنے کی پالیسی پہ عمل پیرا ہے۔ تحریک فتح کے ایک رہبر جہاد الحرازین کا اس سلسلے میں کہنا ہے کہ اس اقدام کے سلسلے میں سعودیہ کی حج و عمرے کی وزارت کا بہانہ یہ ہے کہ ریاض کو معلوم نہیں کہ اگر یہ افراد مدت مجاز سے زیادہ سعودی عرب میں رہتے ہیں، تو اس صورت میں ان کو نکال کر کہاں بھیجا جائے!

شام کے مسلمان بھی کئی سال سے آل سعود کی طرف سے اسی قسم کی مشکل کا سامنا کر رہے ہیں۔ شام کی وزارت اوقاف نے سال ۲۰۱۴ میں تاکید کی تھی کہ آل سعود کی حکومت لگاتار تین سال سے اس ملک کے مسلمانوں کو حج کا فریضہ ادا کرنے سے روک رہی ہے اور صرف ان لوگوں کو سفر کی اجازت دی جا رہی ہے کہ جن کی سفارش بشار اسد کے مخالف دہشت گردوں کی طرف سے ہوتی ہے۔ وہ ذرائع ابلاغ کہ جو سعودی پیسے پر پلتے ہیں ان کے دعوے کے مطابق ان کی تعداد کم نہیں ہے، اس سال کے حج میں ایرانی حاجیوں کو نہ جانے دینے کی وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ ایران حج کو سیاسی بنانا چاہتا ہے! لیکن جو یمن کے مسلمانوں پر ایک سال سے زیادہ ہو گیا ہے کہ شب و روز سعودی جنگی طیارے ان پر بمباری کر رہے ہیں، ان نہتے، بے چاروں کو کس سیاسی فعالیت کی وجہ سے روکا جا رہا ہے۔ فلسطین کے مسلمانوں کا کیا قصور ہے؟ جن کے بارے میں اعلان کیا گیا ہے کہ دنیا کے مختلف ملکوں میں بسنے والے بے گھر فلسطینی حج کے کوٹے سے محروم کیے جا رہے ہیں۔ ریاض نے شام کے لوگوں کو بشار اسد کے حکومت سے بر طرف کر دیے جانے تک حج سے روکا ہے، اس کی کیا وجہ ہے؟ کیا جن لوگوں کی داعش کے مراکز اور جبہۃ النصرہ کی طرف سے معرفی کی جا رہی ہے، وہ حج کے سلسلے میں شام کے دوسرے لوگوں پر ترجیح رکھتے ہیں؟

آل سعود کی حکومت خود ہمیشہ مکہ اور مدینے کو تمام مسلمانوں کے شہر بتاتے ہیں، پھر کس طرح سعودی عرب کے بادشاہ عبد اللہ اور معمر قذافی کے درمیان کھینچا تانی کی وجہ سے، لیبیا کے لوگوں کو حج سے محروم کیا جانا قابل توجیہ ہے؟ صدام کی بعثی حکومت کے ساتھ مقابلے کے سلسلے میں جب عراق کا محاصرہ چل رہا تھا، تو ان دنوں میں ان عراقی حاجیوں کو حج سے کیوں روکا گیا، کیا ان کے پاس صدام کے خوف سے بھاگے ہوئے اپنے رشتے داروں سے ملنے کا صرف وہی ایک موقعہ تھا؟ سعودیہ کے یہ کرتوت اور اس نوعیت کے دسیوں واقعات باعث ہیں، کہ دنیائے اسلام کے علماء نے مطالبہ کیا ہے کہ حرمین شریفین کے انتظامات کی ذمہ داری سے سعودی عربیہ کو الگ کیا جائے اور اس کام کو اسلامی تعاون کونسل کے سپرد کیا جائے۔ حرمین شریفین کے سفر کے مصائب ان مشکلات کا نقطہء آغاز ہے کہ جو سعودیہ کی حکومت نے حاجیوں کے لیے پیدا کر رکھے ہیں، یہ بھی ممکن ہے کہ آئندہ جب خانہء خدا کے زائرین، سر زمین وحی پر قدم رکھیں تو انہیں اس سے بھی بڑی مشکلوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
خبر کا کوڈ : 545750
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش