0
Wednesday 15 Jun 2016 13:11

زینبیہ میں دھماکے!

زینبیہ میں دھماکے!
تحریر: طاہر یاسین طاہر

حضرتِ زینب ؑکا تعارف اس قدر ہی کافی ہے کہ آپ حضرت علیؑ اور حضرت فاطمہ ؑ کی بیٹی اور پیغمبر ِ اکرم(ص) کی نواسی ہیں۔ کیا صرف بیٹی اور نواسی ہی ہیں؟ نہیں بلکہ حضرت امام حسین ؑ کی ہمشیرہ بھی ہیں اور آپؑ کے ساتھ میدان ِ کربلا میں ہم رکاب بھی تھیں۔ یہ آپ ؑکا فیض ہے، آج ہم واقعہ کربلا سے آشنا ہیں، آپ نے ظالموں کا چہرہ آشکار کیا۔آپ کا ارشاد کیا گیا خطبہ جرات، بہادری، حریت، غیرت اور بلاغت کا اعلیٰ نمونہ ہے اور ہو بھی کیوں نہ؟ صاحب ِ نہج البلاغہ کی بیٹی اور صاحب ِ قرآن کی نواسی ہیں۔ یہ مگر میرا مقصود نہیں کہ بی بی کا تعارف پیش کروں؟ کون نہیں جانتا کہ آپ کون ہیں؟ اور جو نہیں جانتا وہ کائنات کا سب سے بدبخت انسان ہے۔ اس سے بھی بڑھ کر جو جان کر آپ کے روضہ مبارک کی توہین و بے حرمتی پر آمادہ ہے اسے یزید(لع) جیسا نہ کہا جائے تو کیا کہیں؟ زندہ اور چلتے پھرتے انسانوں سے دشمنیاں بھی ہوتی ہیں اور دوستیاں بھی۔ مگر وہ جو شہید ہو کر شہادت کا ناز ٹھہرے ہیں، ان کے مزار کو ٹارگٹ کرنا سوائے اسلام دشمن قوتوں کی خوشنودی کے اور کچھ بھی نہیں۔

خوارج ہر عہد میں رہے اور یزید بھی ہر دور میں موجود رہا۔ آج بھی یہ دونوں کردار ہمارے اردگرد موجود ہیں۔ داعش ایسا ہی ایک کردار ہے۔ القاعدہ، النصرہ، طالبان اور داعش نے سب سے زیادہ نقصان اسلام اور اسلامی ممالک کو پہنچایا۔ داعش تو اسلامی شعائر تک کو مٹانے پر تلی ہوئی ہے۔ جناب ِ سیدہ کے روضہ اقدس پر اس سے پہلے بھی داعش کے دہشت گرد حملہ آور ہو چکے ہیں۔ اصحاب ِ رسول(ص) کے مزار اور انبیا ؑکے مزارات کی بے حرمتی داعش والے کر چکے ہیں۔ داعش کے امیر، ابو ابکر البغدادی کا بیان ریکارڈ پر ہے کہ وہ خانہ کعبہ پر بھی حملہ آور ہوں گے۔ مگر کیوں؟ اس لیے کہ ان کا فہم ِ اسلام ہی اس قدر ہے۔ یہ کہنا کہ وہ اسرائیل و امریکہ کا ایجنٹ ہے پورا سچ نہیں۔ وہ عرب شہنشاہوں اور ترکی کے بھی ایجنٹ ہیں۔ اگرچہ ترکی میں جب دھواں اٹھنا شروع ہوا تو اس نے برملا داعش سے بیزاری کا اعلان کیا، لیکن آج بھی ترکی کا سرحدی علاقہ داعش کی کمک کا محفوظ راستہ ہے۔

ایک غیر ملکی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق ”سیدہ زینب ؑکے مزار کے قریب ایک خود کش بم حملے کے ساتھ کار بم دھماکہ بھی ہوا ہے۔ اس سے قبل خبر رساں ادارے سانا نے ان حملوں میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد 12 اور زخمیوں کی تعداد 55 بتائی تھی۔ (جبکہ یہ تعداد سے سے زیادہ ہے) خود کو دولت اسلامیہ کہلانے والی شدت پسند تنظیم کا کہنا ہے کہ یہ حملے اس کے تین جنگجووں نے کیے۔ ان میں سے دو نے خودکش بمبار تھے، جبکہ ایک دھماکہ خیز مواد سے بھری گاڑی لے کر داخل ہوا۔ خبر رساں ادارے سانا کے مطابق سنیچر کو پہلا دھماکہ ایک خود کش بمبار نے کیا، جو اس علاقے میں داخل ہونے کی کوشش کر رہا تھا، جبکہ دوسرا دھماکہ ایک کار بم کا نتیجہ تھا، جو مزار سے کچھ فاصلے پر ہوا۔ زخمیوں میں بڑی تعداد عورتوں اور بچوں کی بھی شامل ہے جن میں سے بعض کی حالت نازک ہے۔سیدہ زینب ؑکے مزار کو پہلے بھی شدت پسند گروہوں کی جانب سے نشانہ بنانے کی کوشش کی جاتی رہی ہے۔ اس برس کے اوائل میں مزار کے قریب ہونے والے دو دھماکوں کے نتیجے میں 150 افراد ہلاک ہوئے تھے“۔

یہ مگر ایسا کیوں کرتے ہیں؟ کب سے یہ رواج ہے کہ آل ِ رسول اور انبیا ؑ کے مزارات کی بے حرمتی کی جائے؟ چیزیں اپنی بنیاد سے کبھی بھی نہیں ہٹتیں۔ جو چیز اپنی بنیاد چھوڑ دیتی ہے اس کا ذکر ختم ہو جاتا ہے۔ داعش کا ذکر زندہ ہے اور ایسا کیوں ہے؟ اس کی بنیاد کیا ہے؟ مزارات اورشعائر اسلام کی بے حرمتی کا وظیفہ انھوں نے کہاں سے لیا؟ نہایت مختصر اگر دیکھا جائے تو”1207 ہجری میں محمد بن سعود کا بیٹا سعود احسا پر حملہ آور ہوا اور وہاں خونریزی اور ہلاکت کا بدترین مظاہرہ کیا۔ عثمان بن بشر نجدی لکھتے ہیں کہ جب اہلِ احسا پر مظالم کی انتہا ہوگئی تو سعود نے احسا کے پانی کے ذخیرہ پر مقامِ طف پر قبضہ کر لیا یہاں تک کہ اہلِ احسا کے سردار مجبور ہو کر سعود کے پاس آئے اور (ناچار) اہلِ احسا کی طرف سے بیعت کی پیش کش کی۔ سعود شہر کے باہر ایک چشمہ کے پاس بیٹھ گیا اور لوگوں نے اس کے ہاتھ پر بیعت کی۔ پھر نجدی افواج نے احسا کا رخ کیا اور وہاں جس قدر مزارات پر گنبد بنے ہوئے تھے ان سب کو گرا دیا اور تمام آثار مٹا ڈالے۔ اسی سال سعود نے حضرت امام حسنؑ، حضرت طلحہ اور دیگر صحابہ کے مزارات کو بھی منہدم کر دیا اور اس سلسلہ میں بے شمار مسلمانوں کا بے دریغ قتل عام کیا۔

کیا آج داعش کا طریقہ کار بھی یہی نہیں؟؟ عثمان بن بشر نجدی مزیدلکھتے ہیں کہ پھر سعود جامعہ زبیر پر حملہ آور ہوا اور جامع مسجد کے قرب و جوار میں جس قدر مزارات اور گنبد تھے وہ سب منہدم کرا دیئے۔ حتی کہ امام حسنؑ اور حضرت طلحہ کے مزارات کے گنبد بھی گرا دیئے۔ سقوط درعیہ کے بعد حضرت امام حسن اور حضرت طلحہ کے مزارات پر پھر گنبد بنا دیئے گئے۔ سعود نے دوبارہ نجدی فوجوں کو حکم دیا، انھوں نے دوبارہ تمام قبور کو منہدم کر دیا اور سینکڑوں مسلمانوں کو قتل کر دیا۔ عثمان بن بشر نجدی آگے لکھتے ہیں کہ1216ہجری میں سعود اپنی طاقتور فوجوں کے ساتھ سر زمین ِ کربلا پر حملہ آور ہوا اور ذیقعدہ میں نجدیوں نے بلاد حسین کا محاصرہ کر لیا ۔ قتلِ عام سے فارغ ہونے کے بعد امام حسین ؑ کی قبر مبارک کا قبہ منہدم کر دیا۔ روضہ مبارک کے اوپر جو زمرد، ہیرے، جواہرات اور یاقوت کے نقش و نگار تھے وہ سب لوٹ لئے۔ اس کے علاوہ شہر میں لوگوں کے گھروں میں جو مال و متاع، اسلحہ، کپڑے حتی کہ چارپائیوں سے بستر تک اتار لئے۔ یہ سب مال و متاع لوٹ کر اور تقریبا 2 ہزار مسلمانوں کا قتل کرکے سعود کا لشکر واپس نجد کو لوٹ آیا۔شیخ نجدی اپنے مسلک کے پیروکاروں کے سوا تمام مسلمانوں کو کافر قرار دیتا تھا اور ان کے قتل اور مال لوٹنے کو جائز قرار دیتا تھا۔

مسلمانوں کی تکفیر اور ان کے قتل عام کے جواز میں شیخ نجدی خود لکھتا ہے کہ اور تم کو معلوم ہوچکا ہے کہ ان لوگوں (مسلمانوں) کا توحید کو مان لینا انھیں اسلام میں داخل نہیں کرتا اور ان لوگوں کا نبیوں اور فرشتوں سے شفاعت طلب کرنا اور ان کی تعظیم سے اللہ تعالی کا قرب چاہنا وہ سبب ہے جس نے ان کے قتل اور اموال کے لوٹنے کو جائز کر دیا ہے، یہ وہی شیخ نجدی ہے جس نے اپنے حواریوں کے ہمراہ 1205 ہجری میں حرمین کریمین پر حملہ کر دیا تھا، یہاں تک کہ حرمین کریمین پر نجدیوں کا قبضہ ہو گیا تھا۔ شیخ نجدی کہا کرتا تھا کہ کسی فاحشہ عورت کے کوٹھے پر ستار بجانے میں اس قدر گناہ نہیں، جس قدر گناہ مسجد کے میناروں میں حضور (ص) پر درود پاک پڑھنے میں ہے، اس نے ایک خوش الحان نابینا موذن کو اس لئے قتل کرا دیا کہ وہ بلند آواز میں درود شریف پڑھا کرتا تھا“۔

کیا آج داعش والے بھی اپنے سوا ہر کسی کو کافر نہیں سمجھتے؟؟ یا وہ بھی عام شہریوں کا قتل عام نہیں کرتے اور عورتوں کی عصمت دری نہیں کرتے؟ مزارات اور شعائر اسلام پر حملے آج سے نہیں داعش کے آبا واجداد سے جاری ہیں۔ کیا خلیفہ متوکل کا ظلم تاریخ اپنے صفحات سے مٹا سکتی ہے؟ بے شک مومنین بی بی پاک کے حرم کی حفاظت کرتے کرتے حوض ِ کوثر تک جائیں گے مگر ہمیں تاریخی حقائق بھی اپنے قارئین تک پہنچانے ضروری ہیں کہ یہ ہماری ذمہ داری ہے۔یہ امر بھی حیرت افروز نہیں جب غیر ملکی میڈیا یہ جملہ لکھتا یا نشر کرتا ہے کہ ”یہ مزار شیعہ مسلمانوں کے لیے بہت اہمیت کا حامل ہے اور یہاں پر پیغمبر اسلام کی نواسی کی قبر موجود ہے جہاں بڑی تعداد میں شیعہ مسلمان حاضری دیتے ہیں“۔ اس جملے کا مقصد مسلمانوں کے درمیان لکیر کو مزید گہرا اور سیاہ کرنا ہے۔ حالانکہ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔ جناب سیدہ کا مزرا نہ صرف شیعہ مسلمانوں بلکہ سنی مسلمانوں کے لیے بھی قابل تکریم و تعظیم ہے۔ ہاں البتہ تکفیری اور نام نہاد موحدین ہر شعائر اسلام کاایسا انہدام چاہتے ہیں جیسا جنت البقیع کا ہوا۔ جناب سیدہ زینب کے مزار کے قریب دہشت گردی داعش کی اسلام دشمنی کی واضح دلیل ہے۔ ہاں جان لیجیے کہ ہم ایک نئی کربلا میں ہیں۔ استعماری کھیل کے سب پردے کھلتے جا رہے ہیں۔ یا صاحب الزمان ادرکنی ادرکنی
خبر کا کوڈ : 546022
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش