0
Saturday 18 Jun 2016 15:06

دورِ حاضر کی جنگ

دورِ حاضر کی جنگ
تحریر: سید سرفراز علی نقوی

تاریخِ انسانیت گواہ ہے۔ ابتداء دنیا سے لے کر آج تک قوموں اور قبیلوں کا ایک دوسرے پر تسلط و غلبہ کی جنگ رہی ہے۔ دوسری قوموں پر تسلط اور توسیع اقتدار کیلئے مختلف حربے اور طریقے اپنائے گئے۔ میدانِ جنگ میں تلوار کا استعمال و جنگی آرائش فتح و شکست کی کلید تھی۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انسانی ذہن کی تخلیقات کا رجحان بڑھتا گیا اور شکست و فتح کے تقاضے بھی بدلتے گئے۔ جنگی ہتھیار تلوار سے بندوق، توپ، فاسفورس بمب، ایٹمی بمب اور پھر ہائیڈروجن بمب میں تبدیل ہو گیا اورساتھ ہی میدانِ جنگ بھی وسیع ہوگیا۔ آج کے دور میں سائنسی ترقی جہاں انسانیت کی فلاح و سکونت کا باعث بنی وہیں ذہنِ شیطانی نے انسانیت کی تباہی کا سامان بھی خلق کیا۔ جنگی ہتھیاروں کی دوڑ میں انسانیت کی تباہی کیلئے ایٹمی ہتھیاروں سے بیشتر ممالک نے اپنے آپ کو لیس کیا۔ ان ہتھیاروں کے استعمال کے نتیجے میں بڑی تباہی کے پیشِ نظر، موجودہ دور میں جنگی آرائش جنگِ نرم میں تبدیل ہو گئی۔ آج کے دور میں اگر کوئی قوم تسلط چاہتی ہے، تو وہ مدِمقابل قوم کے افراد کی سوچ و فکر پر غلبہ حاصل کرنے کی کوشش کرتی ہے۔

آج بیشتر قومیں آزاد فکر نہ رکھنے کے باعث غلامی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ بلاشبہ جس معاشرے اور قوم کی سوچ جتنی بلند ہو گی وہ معاشرہ یا قوم اتنی ترقی کرے گا۔ خصوصاً معاشرے کے نوجوانوں ملکی و قومی ترقی کیلئے اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ نوجوانوں کا اندازِ فکر قوم و ملک کی ترقی کا زینہ ہوتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ کسی بھی ملک یا قوم کے مستقبل کا اندازہ اس معاشرے کے نوجوانوں کی سوچ سے لگایا جا سکتا ہے۔ آج توسیع پسند ممالک نے میڈیا کی بدولت سوچ وفکر کے دائرہِ کار کو محدود اور افراد کی سوچ کو اجتماعیت سے انفرادیت میں بدل رہے ہیں۔ سوشل میڈیا اور خصوصاً ہالی ووڈ کو استعمار معاشرے کے لوگوں کے نظریات کو بدلنے و خودساختہ نظریات کے پرچار اور ذہنوں پر حکومت کرنے کیلئے بڑے ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہا ہے۔ اس جنگی حربے کا سب سے بڑا ہدف نسلوں کو اسلام سے دور کرنا ہے۔ امریکہ کی فلم انڈسٹری کے بیشتر پروڈیوسرز اور اداکاروں کا کہنا ہے کہ وہ یہودی لابی کی رضا مندی کے بغیر کچھ بھی نہیں کر سکتے۔ یہ ظاہر کرتا ہے کہ ہالی ووڈ فلم انڈسٹری یہودیوں کے زیرِ اثر ہے۔ جہاں اسلام دشمن طاقتوں نے القاعدہ و داعش کو تخلیق کیا تاکہ اسلام کو دہشتگر دین ظاہر کیا جائے وہاں ان دہشتگرد گروہوں کے کارناموں کا میڈیا کے ذریعے پرچار کیا تاکہ اسلام ناب کو چھپایا جا سکے۔

مغرب میں اسلام کی بڑھتی ہوئی مقبولیت نے دشمن طاقتوں کو یہ سوچنے میں پر مجبور کیا کہ ایسے حربے استعمال کئے جا ئیں، کہ جن سے اسلام کے فروغ اور مقبولیت سے روکا جا سکے۔ اس مقصد کے حصول کی خاطر فلم پروڈکشن انڈسٹری پہ اربوں ڈالرز کی سرمایہ گزاری کی گئی۔ اسلام کے خلاف مختلف فلمیں اور سریل ریلیز کئے گئے۔ دورِ حاضر میں مسلمانوں کے بنیادی عقائد کو غلط ثابت کرنے کیلئے نظریاتی جنگ لڑی جا رہی ہے۔ آج جس معاشرے میں ہالی ووڈ پروڈکٹس رائج ہیں، اس معاشرے کے افراد اور خصوصاً نوجوانوں میں سیکولر سوچ پائی جاتی ہے۔ نوجوانوں کے بنیادی نظریات اسلام اور اسلام کے بنیادی اصولوں کے خلاف مضبوط ہو رہے ہیں۔ اور دوسری طرف مغربی معاشرے میں اسلام کا خوفناک چہرہ پیش کرکے دین اسلام سے نفرت کو پروان چڑھایا جا رہا ہے تاکہ اسلام مقبولیت رجحان کو ذائل کیا جائے۔

دوسرا بڑا ہدف مدِمقابل قوموں میں غلامانہ سوچ کو پروان چڑھانا ہے۔ جس معاشرے میں ہالی ووڈ پروڈکٹس کی مقبولیت ہے، اس معاشرے کے افراد احساسِ کمتری کے شکار ہیں۔ خصوصاً نوجوانوں میں اپنی صلاحیتوں پر اعتماد ختم ہو رہا ہے اور مغرب کو دنیا کا رہنماء و مسیحا سمجھا جا رہا ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ آج ہمارے معاشرے مں سائنسی ایجادات کا رجحان معدوم ہے۔ یہ غلامانہ سوچ معاشرے کو ترقی سے روکتی ہے۔ نوجوانوں اپنی تمام تر صلاحیتوں کو بروئے کار نہیں لاتے۔ غیروں کی دی ہوئی سوچ سے آزاد، خوداعتماد و خود مختار معاشرہ ہی ترقی کر سکتا ہے۔
اغیار کے افکار و تخیل کی گدائی
کیا تجھ کو نہیں اپنی خودی تک بھی رسائی؟

(اقبال)

تیسرا بڑا ہدف امریکی اسٹیبلیشمنٹ کا اپنی پالیسیوں کی دنیا میں مقبولیت بڑھانا اور لاگو کروانا ہے۔ اس کی ایک مثال سوویت یونین کے خلاف لڑنے والے طالبان کو اُس دور میں ہیرو اور حق کی جنگ لڑنے والے مجاہدین قرار دیا گیا ہے۔ دنیا کو طالبان گروہ کی حمایت کیلئے تیار کیا گیا۔ لیکن اپنے اہداف حاصل کرنے کے بعد طالبان کو دہشتگرد گروہ قرار دیا اور دیگر ممالک اور ان کے خلاف جنگ کیلئے آمادہ کیا گیا۔ یہ استعمار کی شیطانی سازش کی ہلکی سی جھلک تھی۔ جس کے ذریعے معاشرہ کی سوچ و اندازِ فکر اور نظریات کو تبدیل کیا جاتا ہے۔ پاکستان میں بھی اس کے اثرات موجود ہیں۔ ثقافت میں تبدیلی، اسلام مخالف نظریات کی ترویج، لبرل ازم کی تبلیغ، غلامانہ سوچ، اسلامی نظام کی مخالف، اسلام دشمن طا قتوں کی کارستانیوں کا نتیجہ ہے۔ اس سوچ اور طرزِ فکر کی بدولت نوجوان کو اسلام کی ترویج اور سربلندی کیلئے صلاحیتوں کے استعمال سے روکنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس نرم جنگ میں بھرپور ترقی کی جائے اور خدائی پیغام کو ہر انسان تک پہنچا کر فطرتِ انسانی کو بیدار کیا جائے۔ تاکہ انسانیت عدلِ الہٰی کے قیام کیلئے اٹھ کھڑی ہو۔
خبر کا کوڈ : 546632
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش