0
Tuesday 21 Jun 2016 15:17

اقبال اور تصورِ امامت (2)

اقبال اور تصورِ امامت (2)
تحریر: فدا حسین بالہامی

داستانِ حرم اور قربانئی امامت:
علامہ اقبالؔ متذکرہ بالا نظم میں یہی پیغام دیتے ہیں۔ کوئی نااہل شخص تمام ذرایع کا استعمال کر کے اور گلہ پھاڑ کر اپنی امامت کا دعوایٰ کیوں نہ کرے۔ وہ اُس مختصر گروہ کی پچھلی صف میں بھی شامل نہیں ہوتا ہے۔ جو اپنے امام کی رہنمائی مین ’’شہادت گہۂ اُلفت ‘‘ کی جانب گامزن ہوتا ہے۔ دوسرے الفاظ مین دینِ حق کی حفاظت گلہ پھاڑ کر دعوایٰ امامت کرنے سے نہیں بلکہِ گلہ کٹا کر شہادت پیش کرنے سے ہوتی ہے۔ ’’نیل کے ساحل سے لیکر کا شغر تک ‘‘ مسلمانوں کا ایک جگہ جمع ہونا ہی کافی نہیں ہے جب تک نہ اُنہیں کسی ایسے قائد کی قیادت نصیب ہو۔ جو حرم کی حفاظت کے لئے ان کا جذبہ قربانی اُبھارے۔ کیونکہ حرم کی حفاظت اصل میں قربانی اور شہادت سے ہی عبارت ہے ؂
غریب و سادہ و رنگین ہے داستانِ حرم
نہایت اس کی حسینؑ ابتداء ہے اسماعیلؑ


مرحوم ڈاکٹر اسرار احمد نے نہایت ہی سطی انداز میں علامہ اقبالؔ کے اس شعر کو مور دِاعتراض ٹھہرایا ہے وہ کہتے ہیں ’’محتاط ترین لوگ بھی جب شاعری کی ترنگ میں آتے ہیں تو ان کی زبان و قلم سے بھی غیر محتاط اور غلط باتیں نکل جاتی ہیں۔ مثلاً آپ علامہ اقبالؔ کے اس شعر پر غور کیجئے،
غریب و سادہ و رنگین ہے داستانِ حرم نہایت اس کی حسینؑ ابتداء ہے اسماعیلؑ

غور طلب بات یہ ہے کہ شہادت حسین ؑ اور ذبحِ اسمٰعیلؑ میں کون سی چیز مشترک ہے ! حضرت اسمٰعیل ؑ کو ذبح کرنے کے لئے آمادہ کون ہوئے؟ اﷲ کے جلیل القدر پیغمبر! کیا حضرت حسین ؑ کی شہادت بھی کسی ایسے ہی ایک جلیل القدر شخص کے ہاتھ ہوئی ہے؟ معاذ اﷲ، ثم معاذاﷲ کون سی قدر مشترک ہے ؟ حضرت اسمٰعیل ؑ نے تو ذبح ہونے کے لئے خود ہی اپنی گردن پیش کی تھی۔ حضرت حسین ؑ نے دادِ شجاعت دیتے ہوئے جام شہادت نوش فرمایا۔ وہاں تو ارادۂ ذبح بالفعل ہوا نہیں۔ یہاں حضرت حسین ؑ بالفعل شہید کئے گئے ہیں۔ لہٰذا ان واقعات میں آپ کو کوئی قدرِ مشترک نہیں ملے گی ‘‘ ۱۲ ؂

مرحوم ڈاکٹر اسرار کا یہ غیر منطقی اعتراض اس قرآنی آیت سے سراسر چشم پوشی کا نتیجہ ہے۔ جو ہر دو قربانیوں کے مابین ایک محکم ربط کا کام کرتی ہے۔ قرآن کے مطابق حضرت اسمٰعیل ؑ کی قربانی کو ایک عظیم قربانی کی خاطر ٹالا گیا۔۔ ’’وفَدَیْنَاہُ بِذِحِِ عَظِْیم‘‘(سورہ والصّٰفٰت۔آیت نمبر ۱۰۷)۔ اس آیت کا اگر ڈاکٹر صاحب امامت کے تاریخی اور قرآنی سیاق سباق میں مطالعہ کرتے تو ان پر بھی علامہ اقبالؔ کی طرح ’’سرِ ابراہیمؑ و اسمٰعیل ؑ ‘‘ واضح ہوجاتا چنانچہ حضرت ابراہیم ؑ نے سورہ بقرہ آیت نمبر124،128کے مطا بق خدا سے التجا کی کہ ان ہی کی ذریّت سے اُمتِ مسلمہ نیز اس اُمت کی امامت قرار دے ۔ چنانچہ یہ دونوں دعائیں قبول ہوئیں۔ لیکن امامت کے لئے ایک اہم شرط مقرر ہوئی کہ امام کو ہر حال میں نہایت ہی مشکل گزار امتحان میں سے گزرنا پڑے گا۔ البتہ یہ بات طے نہیں ہوئی کہ قربانی کا انداز یکساں ہونا چاہئے ۔ امامتِ ابراہیمی ؑ اور امامتِ علوی ؑ میں قدر مشترک کے طور خدا کی راہ میں مصائب و آلام جھیلنے کی مسلسل روایت چلی آرہی ہے جسکی نظیر اور کہیں نہیں ملتی۔ قربانی کا انداز زمانے کے تقاضوں کے عین مطابق ہونا ہی اِسے رائیگان ہونے سے بچاتا ہے ۔ لہٰذا زمانی و مکانی بُعد کے باوجود حضرت اسمٰعیل کی قربانی اور شہادت امام عالی مقام کے مابین ظاہر ی اور سطحی مماثلت ڈھونڈنا کہاں کی عقلمندی ہے ؟ شاید ڈاکٹر صاحب مرحوم نے علامہ اقبالؔ کے ان اشعار کو مسلکی حد بندیوں سے بلند ہوکر نہیں پڑھا ہے۔ ورنہ واقعات کی ظاہری مشابہت تلاش کرنے کے بجائے ان واقعات کے پیچھے کا ر فرما ’’مشترکہ روحِ شہادت‘‘ کا مشاہدہ کرتے ۔
آں امام عاشقاں پور بتول

سروِ آزادے ز بستانِ رسولؐ
اللہ اللہ بائے بسم اللہ پدر

معنی ذبحِ عظیم آمد پسر
ؑ بہر آں شہزادۂ خیر الملل

دوشِ ختم المرسلینؑ
درمیانِ امت آں کیواں جناب

ہمچو حرف ’’قُل ھُوَاللہ‘‘ در کتاب
موسیٰؑ و فرعون و شبیرؑ و یزید

ایں دو قوّت از حیات آید پدید
زندہ حق از قوّت شبیریؑ است

باطل آخر داغ حسرت میری است
چوں خلافت رشتہ از قرآں گسیخت

حریّت را زہر اندر کام ریخت
خاست آں سر جلوۂ خیرالامم

چوں سحابِ قبلہ باراں در قدم
بر زمینِ کربلا بارید و رفت

لالہ در ویرانہ ہا کارید و رفت
تا قیامت قطع استبداد کرد

موجِ خونِ اُو چمن ایجاد کرد
سرِ ابراہیم واسمٰعیلؑ بود

یعنی آں اجمال را تفصیل بود
نقش الااللہ بر صحرا نوشت

سطرِ عنوانِ نجاتِ مانوِ شت
رمز قرآں از حسینؑ آمو ختیم

زِ آتشِ او شعلہ ہا اندوختیم

کلیات اقبال ؔ فارسی (صفحہ ۱۰۹، ۱۱۰)

اقبالؔ باغِ امامت کے خوشہ چین:
پیامی شاعر کی حیثیت سے علامہ اقبالؔ نے جہاں مختلف شعری و فنی محاسن کا استعمال کیا۔ وہاں تلمیحات کے ذریعے مختلف تاریخی کرداروں کے حسن و قبح کو دلکش پیرایہ میں پیش کیا۔ ماضی کے نہاں خانوں سے خام مواد حاصل کرکے انہوں نے اُسے اپنے فکر و فن کے قالب میں ڈھالا۔ اور پھر عصری تقاضوں کے مطابق اچھوتی اصطلاحوں ، ترکیبوں اور استعاروں کا ایک منفرد نظام قائم کیا۔ اقبال جیسا بے لاگ او ر قدر شناس مفکر تاریخ کے ایک تابناک باب یعنی بابِ امامت سے صرفِ نظر کیسے کرتا؟
اپنے فکرو پیام کی اثرپذیری کے لئے انہوں نے بارہا درِ امامت پرد ستک دی ؂
جہاں سے پلتی تھی اقبال روح قنبر کی
مجھے بھی ملتی ہے روزی اسی خزینے سے
ہمیشہ وردِ زبان ہے علیؑ کا نام اقبالؔ
کہ پیاس بجھتی ہے دل کی اسی نگینے سے


اس والہانہ عقیدت کو شاعرانہ تعّلی سمجھنا سراسر غلط فہمی ہے۔ کیونکہ اقبال محض شاعر ہی نہ تھے بلکہ سنجیدہ مفکر ، عظیم مصلح، حکیم الاامت ، دریائے فلسفہ کے شناور ، خودی کے نقیب ، عشق و جذبہ کے پیامبر اور دین و مذہب کے رمز شناس بھی تھے۔ وہ جانتے تھے کہ امتِ مسلمہ کی اصلاح اور عظمتِ رفتہ کی بحالی ان نابغۂ روزگار ہستیوں کی فیض رسانی کے بغیر ممکن ہی نہیں۔ یہ عظمتِ رفتہ جن کی جدو جہد اور ایثار کا نتیجہ تھی۔ یہی وجہ ہے کہ وہ امت کی زبوں حالی اور تنگدستی کا مداوا شفا خانۂ امامت میں ہی پاتے ہیں ؂
دلوں کو مرکز مہر وفا کر
حریم کبریا سے آشنا کر
جسے نانِ جویں بخشی ہے تو نے
اُسے بازوے حیدرؑ عطا کر


اقبالؔ امام العصر کا منتظر:
عالمِ تصوّر میں اقبال، ابلیس کو خدا کے حضور یوں شکوہ سنج پاتے ہیں۔
اے خداوندِ صواب و ناصواب
من شدم از صحبت آدم خراب
ہیچ گہ از حکم من سربرنہ تافت
چشم از خود بست و خود را دریافت
صید خود صیاد را گوید بگیر
الاماں از بندۂ فرماں پذیر
اے خدا یک زندہ مردِ حق پرست
لذتے شاید کہ یابم در شکست


ابلیس کی شکایت دراصل عالم آدمیت کا مرثیہ ہے۔ جس سے یہ حقیقت مترشح ہوتی ہے کہ اولادِ آدم ابلیس کی ریشہ دوانیوں اور قہر سامانیوں کے آگے بے بس ولاچار دکھائی دیتے ہیں۔ انہیں زیر کرنے کے لئے ابلیس کو زور آزمائی کی ضرورت نہیں پڑتی ہے بلکہ شکار خود ہی تہہ دام آجاتاہے۔شیطان کی سر شت میں مقابلہ آرائی او رپنجہ آزمائی ہے۔ لہٰذا وہ کسی ایسے قوی تر دشمن کی تلاش میں ہے جو اسے پچھاڑنے کی قوت رکھتا ہو۔ اقبال کا یہ انوکھا اندازِ تکلّم ہمیں اس جانب متوجہ کراتا ہے ۔ کہ پورے عالم انسانیت پر ابلیس کی حاکمیت عیاں ہے وہ ابلیس کی زبان سے اپنی تمنا کا اظہار کردیتا ہے کہ خدایا ! کسی ایسے بندۂ مولاصفات کو بھیج دے۔ جو خیبر کشائی اور مشکل کشائی کا ہنر رکھتا ہو۔ گو یا دُشمن کی زبان سے دوست کو پکار اجاتا ہے۔ قرآنی اصطلاح کے مطابق ’’عدوٌمبین‘‘ کی کار فرمائی دیکھ کر ’’امامِ مبین‘‘ کی آمد کا انتظار ہے ؂
ہزار خیبر و صدگونہ اژدر است اینجا
نہ ہرکہ نانِ جویں خورد حیدریؑ است
بڑھ کے خیبر سے ہے یہ معرکۂ دین وطن
اس زمانے میں کوئی حیدرِکرار بھی ہے؟
یہ دور اپنے براہیم کی تلاش میں ہے
صنم کدہ ہے جہاں لا اِلٰہ الّا اللہ
قافلۂ حجاز میں ایک حسینؑ بھی نہیں
گرچہ ہے تابدار ابھی گیسوئے دجلہ و فرات



اس طرح کے دسیوں اشعار کلام اقبال میں ملتے ہیں۔ جوایک مردِ حق کا پتہ دیتے ہیں۔ جسکی قوتِ بازو سے عالمِ باطل زیر و زبر ہو۔ عدلِ الٰہی کا تقاضا بھی یہی ہے کہ توانا، زبردست ، سریع الرفتار ، زیرک اور لطیف ’’عدوٌ مبین‘‘ کے مقابل کسی ایسے’’امامٌ مبین‘‘ کا وجود لابدی ہے۔ جو جملہ حق پرستوں کی تمام تر توانائیوں کا مرکز ہو۔ کیونکہ دشمن کو زیر کرنے کے لئے ارتقازِ قوت کے بغیر کوئی چارۂ کار نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن جس سورے میں کھلے دشمن سے بچنے کی تلقین کرتاہے اُسی سورے میں مسلمان کو حوصلہ دیتاہے کہ ہر زمانے میں ہر شئے کو ایک روشن امام میں جمع کردیا گیا ہے۔ ۱۴؂

فغانِ ماضی، عصری کرب، اور تابناک مستقبل کے خواب کا اظہار اقبال ؔ کے یہاں جگہ جگہ ملتا ہے ۔ کہیں پر خدا سے دِل مسلم کو زندہ تمنّا عطا کرنے کی دعا کرتے ہیں تو کہیں’’وادئ فاراں‘‘ کو اُسکی کھوئی ہوئی شان و شوکت لوٹانے کے آرزومند ہیں ۔ جوانانِ ملت کو جب عیش کوشی او رآرام طلبی کا ر سیا پاتے ہیں توا نہیں’’قوتِ حیدری‘‘ اور ’’استغنائے سلمانی‘‘ کے روبرو کرنا چاہتے ہیں۔ یہاں تک ان کی افلاس زدگی کا علاج بھی اسی دربار سے کروانا چاہتے ہیں ؂
تیری خاک میں ہے اگر شرر تو خیال فقر و غنا نہ کر
کہ جہاں میں نانِ شعیر پر ہے مدار قوتِ حیدریؑ


انہیں اس بات کا یقین محکم تھا کہ اُمت کسی بھی دور میں امامت کے ماضی، حال اور مستقبل سے فیض یاب ہوسکتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ وہ کبھی امامت کے مبدا تو کبھی امامت کے موّخر کو اپنی امیدوں کا مرکز مانتے ہیں۔ یہاں وہ ایسے کردار پاتے ہیں جن کی اتباع سے امت کی تقدیر ہی بدل سکتی ہے ۔ امامِ برحق کی مدح سرائی کا مقصد اقبال کے یہاں اُمت سازی بھی ہے ۔ ڈاکٹر علی شریعتیؔ کہتے ہیں۔ ’’ میں جب اقبال کے بارے میں سوچتا ہوں۔ میں ان کو ’’علی ؑ گونہ‘‘ (علی ؑ نما) پاتاہوں ۔یعنی ایک ایسا انسان جو علیؑ کی سنت کا پیرو ہے لیکن وہ انسان بیسویں صدی کی انسانی استعداد کے کیف و کم کا بھی مکمل نمونہ ہے۔

کیوں؟ اس لئے کہ علیؑ کی شخصیت وہ شخصیت ہے جو صر ف اپنے کلمات اور افکار ہی سے نہیں بلکہ اپنے وجود اور اپنی زندگی کے ذریعے ہر دور کے تمام انسانوں کے دکھ درد، مسائل اور کثیر الابعاد بشری حاجتوں کے حل کی راہ بتاتی ہے ‘‘ ۱۵ ؂ علامہ اقبال اُمت کے ہر فرد کو ’’علی نما‘‘ دیکھنے کے متمنی تھے ۔ تاکہ یہ ’’دنیا کی امامت‘‘ کے اہل ہوسکیں ۔ نیز عدالتِ علوی، صداقت مرتضوی ، اور شجاعت حیدری کا پر تو ان میں دکھائی دے۔ پھر عجب نہیں اگر ان سے بھی محیر العقول امور کا صدور ہو ۔ ؂
زحیدر یم من و تو ز ماعجب نبود
گر آفتاب سوئے خاوراں بگردانیم


بہ حیثیت مجموعی اقبال نے اپنے گردو پیش اور معاصر عالمی حالات کا بہ نظر غائر مشاہدہ کیا تو اُس نے محسوس کیا۔ شرق و غرب میں انسانیت کی مٹی پلید ہورہی ہے ۔ جو انسان خالقِ کائنات کا شاہکار تھا۔ ’’وہی اب بے بصر ہو چلا ہے۔ وہ خود شناس ہے نہ خدا شناس اور نہ ہی جہاں بین‘‘ مسلمانوں کی یہ حالت ہے کہ ان پر عالم کفر خندہ زن ہے۔ انہیں مسلکی اور گروہی افتراق و انتشار نے پراگندہ کیا ہے۔ مادیت کا غلبہ چاروں اور روز بروز مستحکم ہوتا جارہا ہے اورروحانیت اپنی بساط لپیٹے جارہی ہے ’’آتشِ عشق اُمت مسلمہ میں خاموش ہوچکی ہے ۔ نتیجتاً حرارت، حریّت، حرکت اور بصیرت جیسی نعمتیں مفقود ہوچلی ہیں اور چار سواندھیرا ہی اندھیرا ‘‘ ؂
بجھی عشق کی آگ اندھیر ہے
مسلماں نہیں راکھ کاڈھیر ہے


دنیا میں ’’اہرمن‘‘ ارزاں اور ’’یزداں ‘‘ دیر یاب ہے۔’’ رقص بدن‘‘ کے ہر جگہ چرچے ہیں اور’’رقص روح‘‘ کودیکھنے والی آنکھ کب کی سوچکی ہے۔ کعبہ کے پاسبان غلاف کعبہ اوڑھے غفلت کی نیند میں مست ہے۔اُنہیں استعماری قوتوں کے، مرکز اسلام کی جانب اُٹھتے قدموں کی چاپ ، خواب میں بھی سنائی نہیں دے رہی ہے ؂
بُت صنم خانوں میں کہتے ہیں کہ مسلماں گئے ہے خوشی ان کو کہ کعبے کے نگہبان گئے

اقبال ؔ یہ سب کچھ دیدہ ور اور خیر خواہِ ملت کی نظر سے دیکھ رہے تھے۔ اور ہزاروں کوفی وشامی خصلت لوگوں کے درمیان خود کو تنہا پاتے ہیں ؂
بے خبر مرداں زردزمِ کفرو دیں
جانِ من تنہا چو زین العابدین ؑ


ایسے میں اگر وہ قنوطیت کا شکار ہو کر گو شہ نشین ہو بھی جاتے تو کوئی حیرا نگی کی بات نہیں تھی۔ لیکن وہ کبھی بھی نا اُمید نہیں ہوئے۔اور نہ ہی کسی کو دعوتِ یاس دیتے ہیں ؂
نہ ہو نااُمید ، نااُمیدی زوالِ علم و عرفان ہے
اُمیدِ مردِ مومن ہے خدا کے رازدانوں میں


اُن کا پُر اُمید ہونا اس بات کا غماز ہے کہ وہ پختہ یقین رکھتے ہیں کہ شبِ تیرہ و تار کے بعد ایک نہ ایک دن طلوع انقلاب ہوگا۔ اپنی کائنات کو بچانے کے لئے خالقِ کائنات کسی ہادئ برحق کو ضرور بھیجے گا۔ اقبالؔ اُسی ہادیِ برحق کو پکارتا ہے ؂
اے سوارِ اشہبِ دوراں بیا
اے فروغِ دیدہ امکاں بیا


یہی وجہ ہے جہاں وہ پوری دنیا سے شکوہ سنج ہیں۔ وہاں وہ اس دنیا میں نمایاں حیثیت رکھنے والے ’’پیران کلیسا‘‘ ’’شیخان حرم‘‘ ’’شاعرو اہل سیاست‘‘ سے بھی نالاں ہیں ۔ وہ مہدی برحق کی آمد سے آس لگائے بیٹھے ہیں۔
سب اپنے بنائے ہوئے زندان میں ہیں محبوس
خاور کے ثوابت ہوں کہ افرنگ کے سیّار
پیرانِ کلیساہوں کہ شیخانِ حرم ہوں
نے جدّتِ گفتار ہے، نے جدت کردار
ہیں اہل سیاست کے وہی کہنہ خم و پیچ
شاعر اسی افلاسِ تخیل میں گرفتار
دنیا کو ہے اس مہدی ؑ برحق کی ضرورت
ہوجسکی نگہ زلزلۂ عالمِ افکار

کلیات اقبالؔ اردو ص ۵۰۶، ضرب کلیم ۴۴

اقبالؔ کی تلاش و جستجو:
ائمہ اہلبیتؑ کی محبت ومؤدت شاعر مشرق کو وراثت میں ملی۔ مولوی میر حسن ( استادِ اقبال) نے ا س محبت کو جلا بخشی۔اس محبت نے اقبال کو ان ذوات مقدسہ کی مدحت و توصیف کیلئے اُبھارا ۔ قرآن و احادیث میں ائمہ ہدیٰ کا جو مقام ومرتبہ متعین تھا اس پر علامہ اقبال کو یقین تھا ہی، اُنہوں نے مزید تحقیق و جستجو کے لئے تاریخ اسلام کا بہ نظر غائر مطالعہ کیا۔ صوفیائے کرام کے کلام سے استفادہ کیا۔ فلسفۂ امامت کی مزید تفہیم کے لئے مسلکِ امامیہ کے مختلف علماء ومجتہدین سے بالمشافہ گفتگو کی۔ ان علماء و مجتہدین میں خاص طور سے علامہ عبدلعلی ہروی او رشیخ عبدالکریم زنجانی قابلِ ذکر ہیں چنانچہ علامہ اقبال ؔ نے۳۱اکتوبر ۱۹۱۴ء کو مہاراجہ کشن پرشاد ؔ وزیرا عظم دکن کو ایک خط میں علامہ ہرویؔ سے فیض یابی کا تذکرہ بھی کیا ہے۔ پروفیسر اکبرحیدری کشمیری نے اس خط کا خلاصہ اپنی کتاب اقبالؔ اور شیخ زنجانی میں یوں درج کیا ہے۔ ’’علامہ ہروی عالم متبحر ہیں۔ مذہباً شیعہ ہیں جو کچھ فرماتے ہیں وہ قرآن سے ثابت کرتے ہیں۔ ان کی خدمت میں حاضر ہوتاہوں‘‘ ۱۶ ؂

علاوہ ازیں مشہور شاعر اکبرؔ الٰہ آبادی کے ساتھ اقبال کے قریبی مراسم رہے ہیں ۔ ان دونوں میں دوستی کی حد تک قربت پائی جاتی تھی۔ اکبرالٰہ آبادی نے خواجہ حسن نظامی کو ۲۳نومبر۱۹۱۶ء اپنے خط میں لکھا۔ ’’اقبال ؔ صاحب نے مجھ کو خط میں لکھا ہے کہ مسئلہ امامت انہوں نے قبول کیا ہے لیکن یہ اقرار نہیں کیا کہ میں شیعہ ہوگیا۔ ۱۷؂

پرو فیسر اکبر حیدری کے مطابق علامہ شیخ عبدالکریم زنجانی غالباً ۱۹۲۷ء کے بعد لاہور آئے ۔ اقبال ؔ کے ایک دوست سید حسن جعفری نے اقبال اور علامہ زنجانی کے درمیان ہوئی گفتگو کو قلمبند کیا ہے اقبالؔ کے سوال اور علامہ زنجانی کے جواب کو کتابی شکل میں اقبالؔ کی حیات میں ہی۱۹۳۵ء کو چھا پا گیا۔ اس کتاب کو وحی والہام اور برہان امامت کا عنوان دیاگیاہے۔ علامہ اقبال ؔ نے دو سوال علامہ زنجانی سے کئے پہلا سوال وحی والہام کے مابین تفا وت سے متعلق تھا اور دوسرا سوال امام زمانہ کے ظہور کے تعینِ وقت کے متعلق ہوا تھا۔ علامہ موصوف نے مسلسل تین گھنٹے تک تمام علمی صلاحیتوں کے ساتھ اقبال ؔ کے ان سوالات کا جواب دیا۔ وحی الہام کے متعلق جو کچھ شیخ زنجانی نے فرمایا اس کا پرتو اقبال کے خطبہ ’’اسلامی ثقافت کی روح‘‘ میں صاف طور جھلکتا ہے۔ اس کے علاوہ علامہ زنجانی نے قرآن و احادیث کی روشنی میں نیز عقلی استدلال کے ساتھ مسئلہ امامت اور ظہورِ امام زمانہ کو ثابت کیاہے ۔ غرض اقبال کو امامت کے متعلق جو عرفان حاصل ہوا تھا وہ محض وراثتی عقیدت ہی تک محدود نہ تھا۔ بلکہ انہوں نے اپنی علمی کدو کاوش ، محققانہ تجسّس ، طالب علمانہ استفسار ، ضمیرو وجدان کی ضیاء پاشی سے خاموشی کے ساتھ زندگی بھر منزل بہ منزل طے کرکے عرفانِ امامت تک رسائی حاصل کرلی تھی۔ اقبال کے فکری دنیا میں مختلف انقلابات رونما ہوئے ۔ ابتداعاً وطنی محبت ، مظاہر فطرت اور جمالیات سے بے حد متاثر دکھائی دیتے ہیں۔ اور پھر کچھ مدت تک فلسفۂ وحدتَ الوجود کے قائل رہے۔ مشرق سے مغرب کی طرف ہجرت کی تو وہاں کے فلاسفہ برگساں، گوئٹے ، نطشے، فٹشے ، ڈیکارٹ وغیرہ کا بھی اثر قبول کیا۔ وطنی قومیت کو رد کرکے اسلامی قومیت کے پر ستار ہوئے۔تصوّف کو بھی سراہا تو کبھی اس پر زبردست چوٹ کی۔ المختصر اقبالؔ کی سیمابی طبیعت نے انہیں ایک جگہ اطمینان سے ٹکنے نہ دیا ۔ ان کے فکری ارتقاء کے میں رد و قبول کی کئی جھلکیاں دیکھنے کو ملتی ہیں۔ البتہ یہ بات وثوق کے ساتھ کہی جاسکتی ہے ۔ کہ اوائل عمری سے لیکر موت تک تین چیزیں اقبال کی حرزِ جان بنی رہیں۔۱)عشقِ رسولؐ ۲)قرآن کے ساتھ بے حد لگاؤاور ۳)محبتِ اہلبیتؑ ۔ آپ کسی بھی دور کا کلام اُٹھا کر دیکھ لیں آپ ان تین جذبوں کی کارفرمائی ضرور درک کرسکتے ہیں۔ بلکہ محبت و رغبت کا یہ مثلث ہر مقام پر حاوی نظر آئے گا۔فی الحقیقت ان تینوں کے درمیان ایک اٹوٹ رشتہ ہے۔ جسے حق کا متلاشی چشم پوشی نہیں کرسکتا۔ اقبال محبت اہلبیتؑ کو عشق رسول کا ہی جزوِ لا ینفک سمجھتے تھے۔ اور قرآن کی تفہیم کے لئے مکتب امامت سے تمسک لازمی سمجھتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ بحیثیتِ حق گو معترف ہیں ؂
رمزِ قرآن از حسینؑ آموختیم

اختتامیہ پر یہ بات بلا خوفِ تردید کہی جاسکتی ہے کہ اقبال ؔ کا پیغام اصل میں پیغامِ امامت و اہلبیت جسکو قرآن و رسالت کے سیاق وسباق میں سمجھنے کے ساتھ ساتھ دوسروں تک پہنچانے کی ضرورت ہے۔
۱۔ فکرِ اقبال ۔ خلیفہ عبدالحکیم صفحہ۹
۲۔ رموز بے خودی معہ شرح از یوسف سلیم چشتی صفحہ۴
۳۔ سورۂ بقرہ آیت ۱۴۳تفسیر سید علی نقن نقی صفحہ۲۶۰
۴۔خطبۂ پنجم ۲۱۵/۲۱۶۔اسلامی ثقافت کی روح ’’تشکیل جدید الہیات اسلامیہ‘‘
۵۔ سورہ مائدہ آیت نمبر ۵۵ترجمہ علامہ جوادیؔ
ٍ۶۔ The Hundredصفحہ۲۵مترجم عاصم بٹ۔ قاری پبلیکیشنز دہلی
۷۔ مسلمانوں کے سیاسی افکار اور ان کا انتظامِ حکومت صفحہ ۱۸۸از ہارون خان شیروانی
۸۔ اقبال ؔ اور مغربی فکرصفحہ۴۴۔ پروفیسر سید وحید الدین ۔ کشمیر یونیورسٹی ۔
۹۔ ذکر وفکر صفحہ۵۱علامہ جوادیؔ ۱۰۔ نہج البلاغہ صفحہ۱۸۔ ترجمہ از مفتی جعفر حسین
۱۱۔ دانائے راز کے مولف سید نذیر نیازی کے مطابق یہ چند اشعار اُس نظم سے ماخوذ ہے جو سپاسِ امیر کے عنوان سے، حضرت علیؑ کی منقبت میں لکھی گئی ہے۔ کلیاتِ اقبال فارسی میں یہ نظم شامل نہیں ہے البتہ یہ نظم ’’مخزن‘‘ لاہور کے جلد۸نمبر ۴جنوری۱۹۰۵ء میں چھپی تھی۔ بحوالۂ اقبالؔ اور علامہ شیخ زنجانی صفحہ ۱۸۲/۱۸۳
۱۲۔سانحہ کربلا۔ ڈاکٹر اسرا راحمد صفحہ۱۷
۱۳۔ دانائے رازصفحہ۲۹۰از سید نذیر نیازی
۱۴۔ سورۂ یاسین آیت نمبر۱۲
۱۵۔ علامہ اقبالؔ مصلح قرنِ آخر۲۵مترجم کبیر احمد جائسی
۱۶۔اقبالؔ اور شیخِ زنجانی صفحہ۱۳
۱۷۔ ایضاً
خبر کا کوڈ : 547366
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش