0
Wednesday 22 Jun 2016 13:53

پی پی کو سندھ میں نئے سرے سے مضبوط و متحرک کرنے کیلئے پہلے ذیلی تنظیموں کی تنظیم سازی مکمل کرنیکا فیصلہ

پی پی کو سندھ میں نئے سرے سے مضبوط و متحرک کرنے کیلئے پہلے ذیلی تنظیموں کی تنظیم سازی مکمل کرنیکا فیصلہ
رپورٹ: ایس جعفری

پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی ہدایت پر ملک بھر کی تنظیموں کو معطل کرکے نئے سرے سے پارٹی کو مضبوط اور متحرک کرنے کیلئے نئی تنظیم سازی کے سلسلہ میں پہلے مرحلے میں پارٹی کی ذیلی تنظیموں کو مکمل کرنے کا فیصلہ کا گیا ہے، لیکن ایک اہم شخصیت کی تنظیم پر گرفت مضبوط رکھنے کی خواہش کے باعث تنظیم نو کا سلسلہ التوا کا شکار ہوسکتا ہے۔ پیپلز پارٹی کے ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ پیپلز پارٹی سندھ کی کوارڈینیشن کمیٹی کی جانب سے سندھ میں تنظم سازی کے سلسلہ میں حیدرآباد ڈویژن کے ضلع سے شروع کئے گئے ورکرز مشاورتی اجلاسوں سے پیدا ہونے والی صورتحال اور مختلف گروپوں میں اختلافات میں شدت کے بعد پیپلز پارٹی کی قیادت نے تنظم سازی کے پہلے مرحلے میں پیپلز پارٹی کی ذیلی تنظیموں پیپلز یوتھ، پیپلز اسٹوڈنٹس فیڈریشن، خواتین ونگ، اقلیتی ونگ کے علاوہ لیبر اور ہاری ونگ، کلچر ونگ اور پیپلز ڈاکٹر فورم کی تنظم سازی کو مکمل کرنے کیلئے مختلف سطح پر مشاورتی عمل کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔

بلاول بھٹو زرداری نے تنظیموں کو مضبوط اور کارکنوں کو متحرک اور سرگرم کرنے کیلئے واضح گائیڈ لائن دی ہے، جس میں انہوں نے نوجوانوں، خواتین اور اقلیت کی ہر سطح پر شرکت کو یقینی بنانے کی ہدایت کی ہے۔ اس سلسلے میں معلوم ہوا ہے کہ بینظیر بھٹو کی پالیسی کو اپنانے ہوئے ذیلی تنظیموں میں نوجوان سرگرم خواتین کو نائب صدر، انفارمیشن و سوشل سیکرٹری اور سوشل میڈیا کوارڈینیٹر کے عہدوں پر نامزد کرنے کے علاوہ پیپلز یوتھ اور پی ایس ایف کے سابق عہدیداروں کو پیپلز پارٹی کے اہم عہدوں پر نامزد کرنے کی حکمت عملی اپنانے کی ہدایت کی گئی ہے۔ اس سلسلے میں پارٹی ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ پیپلز یوتھ سندھ کے سابق صدر سنیٹر عاجز مختیار دہامرہ، پی ایس ایف کے مرکزی صدر میر سہراب خان مری، سلمان دستی، ڈویژنل صدور پیپلز یوتھ احسان ابڑو، اقبال ساند، ٹھارو خان پنہور، قاضی ندیم سمیع کو پیپلز پارٹی کی صوبائی اور ڈویزن سطح پر اہم عہدوں پر نامزدگی کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

پیپلز پارٹی اور ذیلی تنظیموں کی تنظیم سازی کے سلسلے میں اب تک ہونے والی تمام سطح کی مشاورت اور ملنے والی تجویزوں اور سندھ بھر کے سابق صوبائی ڈویژن اور ضلع سطح کے عہدیداروں اور کارکنوں کی حمایت کے مطابق پیپلز پارٹی کی ذیلی تنظیم پیپلز یوتھ سندھ کی صدارت کیلئے مضبوط امیدوار پیپلز یوتھ کے سابق صوبائی سیکرٹری اطلاعات پیپلز پارٹی بلاول ہاوس میڈیا سیل کے سابق انچارج اور بلاول بھٹو میڈیا ٹیم کے اہم رکن فدا حسین ڈکن ہیں، ان کے علاوہ پی ایس ایف کے سابق مرکزی صدر میر سہراب مری اور سابق صدر سندھ سلمان دستی بھی پیپلز یوتھ سندھ کی صدارت کے امیدوار ہیں، جبکہ صوبائی سیکٹری جنرل کیلئے لاڑکانہ ڈویژن کے صدر شفقت میرانی، سابق صوبائی عہدیدار اور حیدرآباد کے صدر سید اکرم شاہ اور پی ایس ایف میرپور خاص ڈویزن کے صدر اور جگ دیش کمبار کے فرزند شوشیل جگ دیش کمار امیدوار ہیں، جبکہ بلاول بھٹو کی ہدایت کے مطابق نئی تنظیم سازی میں خواتین اور اقلیتوں کو ترجیح دینے کی روشنی میں پیپلز یوتھ کے صوبائی سطح کے مختلف عہدوں کیلئے جو نام سامنے آئے ہیں، ان میں روما مشتاق مٹو، جو مینارٹی ونگ کراچی ڈویژن کے صدر مشتاق مٹو کی بیٹی ہیں اور اقلیتی برادری کو پیپلز پارٹی میں سرگرم رکھنے اور پیپلز پارٹی کی تنظیمی پروگرام کو آرگنائزر کرنے اور سوشل میڈیا میں انتہائی سرگرم ہیں، اس کے علاوہ پارٹی سرگرمیوں اور سوشل میڈیا میں اہم اور متحرک سندھو ملک اور کرن آفتاب خان کے نام نمایاں ہیں۔

پیپلز اسٹوڈنٹس فیڈریشن کی صوبائی صدارت کیلئے جاوید نایاب لغاری، فقیر ذاکر ہسبانی، میر رزاق بروہی اور سوشیل جگ دیش ملانی کے نام قیادت کی منظوری کیلئے سامنے آئے ہیں۔ خواتین ونگ سندھ کی صدارت کیلئے رکن قومی اسمبلی نفیسہ شاہ، وزیراعلٰی سندھ کی مشیر حنا دستگیر، سابق رکن صوبائی اسمبلی شمیم آرا پنہور، کلثوم چانڈیو، کراچی ڈویژن کی صدر اور رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر شاہدہ رحمانی کے نام سامنے آئے ہیں، جبکہ خواتین ونگ سندھ کی صدارت کیلئے اہم خواتین رہنماؤں سابق وفاقی وزیر اور صوبائی صدر خواتین ونگ شگفتہ جمانی، ڈپٹی اسپیکر سندھ اسمبلی سیدہ شہلا رضا اور صوبائی مشیر نادیہ گبول کو پارٹی کی اہم شخصیات کی جانب سے تو حمایت حاصل ہے، لیکن سندھ بھر کی خواتین عہدیداران اور کارکنان کی اکثریت کی سخت محالفت کا سامنا ہے، ان عہدیداروں اور کارکن خواتین کا الزام ہے کہ ان خواتین رہنماؤں نے اہم عہدوں پر ہوتے ہوئے بھی سینیئر کارکنوں کو نظر انداز کیا اور پارٹی مفاد کی بجائے انہوں نے ذاتی مفاد حاصل کئے۔ جبکہ ایک اور اہم خواتین رہنما اور صوبائی مشیر شرمیلہ فاروقی بھی امیدوار ہیں، لیکن آج کل وہ چند اہم معاملات کی وجہ سے ملک سے باہر موجود قیادت کی حمایت اور قربت کھو بیٹھی ہیں، جس کے باعث کسی اہم پارٹی عہدے پر آنا ممکن دکھائی نہیں دے رہا۔

ایک اور مضبوط امیدوار شازیہ مری ہیں، جن کی اسلام آباد میں اہم مصروفیات کے باعث سندھ میں تنظیمی ذمہ داری دینا ممکن دکھائی نہیں دے رہا۔ سندھ خواتین ونگ کی صدارت کیلئے سسی پلیجو کا نام بھی مضبوط امیدوار کے طور پر سامنے آ رہا ہے، پر ان کو سنییٹر بننے کے علاوہ ان کے والد غلام قادر پلیجو کو ٹھٹھہ ضلع کونسل کی چیئرمین شپ دیئے جانے کے باعث تیسری اہم ذمہ داری نہیں دی جا رہی۔ بلاول بھٹو زرداری اور سینیئر پارٹی رہنما ذوالفقار علی بھٹو اور بینظیر بھٹو کی حکمت عملی اور پالیسی کے تحت کارکنوں اور سابق عہدیداروں کی مشاورت اور ملنے والی تجویزات کی روشنی میں تنظم سازی کو حتمی شکل دینا چاہ رہے ہیں، لیکن سندھ کی ایک اہم شخصیت مشاورت کی بجائے تنظیم پر گرفت مضبوط رکھنے کیلئے اپنے اعتماد کے لوگوں کی نامزدگی کرنا چاہتی ہے، جس کے باعث سندھ میں تنظیم نو کا سلسلہ التو کا شکار ہوسکتا ہے۔
خبر کا کوڈ : 547830
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش