0
Saturday 25 Jun 2016 02:04

بحرین، اِنسانی حقوق کی پامالی

بحرین، اِنسانی حقوق کی پامالی
تحریر: طاہر عبداللہ

ہیومن رائٹس واچ نے بحرین کے بزرگ،معززاورمقبول ترین مذہبی رہنما،سب سے بڑی اپوزیشن پارٹی الوفاق کے رُوحانی سرپرست اور سابق پارلیمانی رُکن آیت اللہ شیخ عیسیٰ احمدقاسم کی شہریت منسوخی کوبحرین کوتاریک دورمیں دھکیلنے کے مترادف قرار دیا ہےاور کہاہے کہ بحرین کواِس اقدام کے بھیانک نتائج کا جلد سامنا کرنا پڑے گا۔ بین الاقوامی طور پر آل خلیفہ کے اِس غیرمنصفانہ اور گھناﺅنے اقدام کی پرزور مذمت کی جا رہی ہے، لیکن امریکہ نے اِس ظالمانہ اقدام پرکوئی خاص ری ایکشن نہیں دیا، کیونکہ مشرق وسطی میں اپنی موجودگی کویقینی بنانے کیلئے اُسے بحرین اور سعودی عرب کی حمایت کی فی الحال ضرورت ہے اور وہ اِسے کسی صورت میں کھونا نہیں چاہتا۔ یاد رہے کہ امریکہ کا پانچواں بحری بیٹرا اِسی نام نہاداسلامی جمہوری ملک بحرین میں لنگرانداز ہے اور یہیں سے امریکہ نے عراق پر 1991ء اور 2003ء میں حملہ کیا تھا۔ اسلام کی آمد سے پہلے آج کا بحرین، قطر، کویت، متحدہ عرب امارات، شمالی عراق اور سعودی عرب کے دو علاقے الاحساء اور قطیف پر مشتمل تھا اور یہاں کے باسی بتوں کی پوجا کیا کرتے تھے۔

ساتویں صدی عیسوی میں جب اِسلام آیا تو 628ء میں رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ابوالاعلی الحضرمیؓ یمنی کو حکمران منذربن سلوی التمیمی کے پاس اسلام قبول کرنے کیلئے اپنا خط دے کر بھیجا۔ اس خطہ کے لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے بھیجی گئی اسلام کی دعوت کو قبول کرلیا اور وہ تاریخی خط آج بھی بحرین کے حوراشہر کے بیت القران میوزیم میں محفوظ ہے۔ اِس علاقے پر 1541ء تک عربوں کا کنٹرول رہا۔ پھر پرتگالیوں نے حملہ کر کے اِس پر قبضہ کرلیا۔ ایک بار پھر 1602ء میں ایرانیوں نے حملہ کر کے اِس پر اپنی حکومت قائم کرلی۔ پھر 1783 ء میں احمدبن آل خلیفہ نے قبضہ کر لیا اور یہ قبضہ آج تک جاری وساری ہے۔ اِس خاندان کی بادشاہت کے دوران برطانیہ نے 1820ء میں اِسے اپنی کالونی بنالیا، لیکن بادشاہ اِنہیں کو برقرار رکھا اور پھر 14اگست 1971ء کو مکمل طور پر آزاد کردیا۔ موجودہ بحرین 33 جزیروں پر مشتمل ایک چھوٹا سا ملک ہے۔ مغرب میں سعودی عرب ہے، جسے 25 کلومیٹر طویل سمندری پُل کے ذریعہ جوڑا گیا ہے۔ شمال میں 300کلومیٹر کے فاصلے پر ایران واقع ہے اور جنوب میں قطر کا مُلک ہے۔ اِس کا رقبہ صرف 665 مربع کلومیٹر اور آبادی 13لاکھ افراد پر مشتمل ہے۔ جس میں  70فیصدمسلمان، 15 فیصد عیسائی، 10 فیصد ہندو، 3 فیصد بُدھ مت اور باقی یہودی اور دوسرے مذاہب ہیں۔ اِن ستر فیصد مسلمانوں میں 70فیصد شیعہ اور 30 فیصد سنی ہیں۔ اِس ملک پر حکومت کرنے والاخاندان آل خلیفہ کہلاتا ہے، کیونکہ 233سال پہلے اِس ملک پر احمد بن آل خلیفہ حکم ران بنے تھے۔ اِس شیعہ اکثریتی ملک پر سُنی مسلک کی بادشاہت ہے۔ حکمران پارٹی امام مالک کی پیروکار ہے اور سرکاری طور پر سکولوں کے نصاب میں بھی اِس مسلک کو باقی مذاہب پر ترجیح دی جاتی ہے۔ ملک میں مذہبی اجتماعات اجازت کے ساتھ مشروط ہیں، لیکن بادشاہت پر تھوڑی اور معمولی سی تنقید بھی برداشت نہیں کی جاتی۔

اُنیس سواِکہترمیں برطانیہ کے بحرین سےچلے جانے کے دوسال بعد بحرین کا آئین بنا اور خلیفہ عیسیٰ بن سلیمان نے اپنے چھوٹے بھائی خلیفہ بن سلمان کو بحرین کا بلامنتخب وزیراعظم نامزد کر دیا۔وہ موصوف عرصہ ۴۳ سال سے اِس ملک کے مستقل اور مسلسل وزیراعظم چلے آرہے ہیں۔ 1994ءسے اہل تشیع نے نماز، مجلس اور ماتم جیسے فرائض کی ادائیگی کے بعد اپنے بنیادی جمہوری حقوق کے بارے میں پرزور آواز بلند کرنا شروع کی، جو دو سو سال سے معطل اور غصب تھے۔ بحرین میں امتیازی صورتحال یہ ہے کہ فوج، سیکورٹی اداروں، وزارت تعلیم، وزارت داخلہ وخارجہ، وزارت خزانہ، وزارت ثقافت واِنصاف، اقتصادی بورڈ اور سپریم کونسل میں اہل تشیع کو ایک منظم منصوبہ بندی کے ذریعے اعلیٰ عہدوں پر نہیں آنے دیا جاتا۔ یہاں تک کہ 13سو سال سے اِس ملک میں رہنے والے شیعہ باسیوں کو ملک کے بڑے شہر "رِفا"میں رہنے کیلئے کرائے پر مکان لینے اور زمین خریدنے تک کی اجازت نہیں۔ حالانکہ حکومت کی طرف سے شہریوں کو سرکاری طور پر رہائشی فلیٹ فراہم کئے جاتے ہیں، لیکن اہل تشیع مِلت اِس شہری سہولت سے محروم ہیں۔امتیازی سلوک اور ظلم کی اِنتہایہ ہے کہ اِس ملک کی سترفیصد اکثریتی شیعہ مِلت کو حکومتی سطح پر نمائندگی سے بالکل نظرانداز کیا گیا ہے، لیکن 15فیصد عیسائیوں کی نمائندگی کیلئے ایلس ٹامس بحرین کی طرف سے برطانیہ میں سفیر ہیں اور پورے ملک بحرین میں صرف 37 یہودی افراد آباد ہیں، لیکن یہودیوں سے اظہاریکجہتی کیلئے بحرین کی طرف سے امریکہ میں جو سفیر 'ہودابراہیم نونو'مقرر ہیں، وہ یہودی ہیں۔ آل خلیفہ صدیوں سے ایک منظم اور کامیاب چال چل رہے تھے کہ شیعہ قوم مجلس، ماتم اور نمازمیں مشغول رہے، لیکن سیاست، اپنے حقوق اور مستقبل کی طرف اُن کا دھیان نہ جائے، تاکہ آل خلیفہ ملک وقوم کے سیاہ و سفیدکے مالک اور بلاشرکت غیرےحکمران بنے رہیں۔

اِس لئے بحرین میں جہاں جہاں اہل تشیع کی اکثریت ہے، وہاں بڑی بڑی مساجد اورامام بارگاہیں تو موجود ہیں، لیکن اِن شیعہ اکثریتی علاقوں میں نہ تو روزگار فراہم کرنے والی فیکٹریاں ہیں اور نہ کارخانے، نہ کوئی آسمان کو چھوتی بلڈنگ ہے اور نہ کوئی بین الاقوامی ائرپورٹ اور نہ ہی انٹرنیشنل لیول کا کوئی سکول ہے، نہ کالج اور نہ ہی کوئی یونیورسٹی۔ مثال کے طورپر سب سے بڑے شیعہ اکثریتی شہر 'عالی' کو اگر دیکھیں تو وہ ایک لاکھ آبادی پر مشتمل شہر ہے، جو بحرین کے بالکل وسط میں ہے اور سب سے قدیم شہر ہے۔ لیکن یہاں کے قابلِ دید مقامات میں صرف 3ہزار سال پرانے قبرستان ہیں اور بس۔ "السِترہ 40 ہزار شیعہ آبادی پر مشتمل ایک الگ جزیرہ ہے۔ جس میں صرف کھیت اور کھجوروں کے باغات اور تیل ذخیرہ کرنے کے ڈپو کے علاوہ کچھ بھی نہیں۔ "جدحفص" شیعہ شہرکی آبادی تو 11ہزار ہے لیکن اِس میں 3 دینی حوزے، 28 مساجد اور 21 امام بارگاہ ہیں، جس میں خواتین کے 8 امام بارگاہ بھی شامل ہیں۔ اِسی طرح   14ہزار آبادی پر مشتمل شیعہ شہر "دِراز" ہے، جو آیت اللہ عیسی احمد قاسم کا آبائی گائوں ہے، اِس میں 14 جامع مساجد اور 18 امام بارگاہ ہیں، لیکن اِس کے سوا اور کچھ بھی نہیں۔

ایران میں آئے اسلامی انقلاب نے غلامی، گمنامی اور پسماندگی میں زندگی گزارنے والی شیعہ بحرینی قوم کی قسمت کے دروازے پر جب زوردار دستک دی، تو سابق جج شیخ عبدالامیرالجمری (فاضلِ نجف) نے 1988ء میں شیعہ قوم کیلئے کچھ کر گزرنے کا فیصلہ کیا۔ حالانکہ وہ اِسی بادشاہت کی ربڑ سٹیمپ پارلیمنٹ کے 2سال ممبر رہے تھے اور عدالتوں میں 11سال جج کے فرائض بھی سرانجام دیتے رہے تھے۔ لیکن جونہی اُنہوں نے انسانی بنیادی حقوق کی بحالی کا سوچا، شیعہ قوم کی پسماندگی کے خاتمے کی بات کی اور حکومت وقت کی امتیازی پالیسیوں پر تنقید شروع کی تو اُن کو فوری طور پر گرفتار کر لیا گیا۔ وہ ملک میں جمہوری حقوق کی بحالی اور شیعوں سے امتیازی سلوک کے خاتمے کی جدوجہد میں کئی بار گرفتار ہوئے، نظر بند ہوئے اور آخر بحرین کے امیر عیسیٰ بن سلمان نے 1996ء میں اُن کو 10سال قید اور 15ملین ڈالر کی خطیر رقم کے جرمانے کی سزا سُنا دی۔ بحرین کی اِس جمہوری اور آئینی حقوق کی بحالی کی جدوجہد میں ایک نوجوان عالم دین شیخ علی سلمان (بی ایس سی +فاضلِ قم) نے بہت اہم کردار ادا کیا ہے، جِنہیں چند ماہ پہلے نوسال قید تنہائی کی سزا سنائی گئی ہے۔ کہانی کچھ یوں کہ غیر ملکی ثقافتی ٹھیکیداروں نے 1994ء میں حکمرانوں کے ساتھ مل کر بحرین میں" ایک میراتھن ریس" کا اہتمام کیا۔ اِس فحاشی اور عریانی پھیلانے کے پروگرام سے شیخ علی سلمان نے بحرینی عوام کے ساتھ مل کر حکمرانوں کو روکا، لیکن وہ میراتھن ریس کے انعقاد پر بضدرہے۔ پس اِس ریس میں نیکر اور شارٹ شرٹ میں شریک مرد و خواتین جب شیعہ شہروں سے گزرے تو شیعہ نوجوانوں نے منصوبے کے تحت اُن کی ریس میں خلل ڈالا اور پتھراﺅ کیا۔ جس پر حکومتی پولیس اور فورس کی جانب سے فائرنگ کی گئی۔ جس کے نتیجے میں درجنوں شیعہ نوجوان مارے گئے، سینکڑوں زخمی ہوئے اور شیخ علی سلمان کونہ صرف گرفتار کر لیا گیا بلکہ اگلے سال 1995ء میں اُنہیں دبئی جلاوطن کر دیا گیا۔ وہاں سے وہ لندن چلے گئے اور وہیں سے اپنے ملک میں انسانی حقوق کی بحالی کی تحریک کوجاری و ساری رکھا۔

پھر بحرین کے امیرعیسیٰ بن سلیمان 1999 ء میں فوت ہوگئے اور اُن کے بیٹے حماد بن عیسیٰ امیر بنے، تو اُنہوں نے بادشاہ بننے کی خوشی میں ملک میں جمہوری اصلاحات کا وعدہ کیا اور تمام سیاسی قیدیوں کو رہا کر دیا اور ساتھ ہی تمام جلاوطن رہنماﺅں کو ملک واپس آنے کی اجازت دے دی۔ جس پر شیخ عبدالامیر الجمری بھی خرابی صحت کی بنا پر جیل سے رہا ہو گئے اور شیخ علی سلمان لندن سے جلاوطنی ترک کر کے اپنے ملک بحرین واپس آگئے۔ 7نومبر2001ء میں اہل تشیع نے 'الوفاق نیشنل اسلامک سوسائٹی 'کے نام سے سیاسی پارٹی کی بنیاد رکھی، جس کے پہلے سیکرٹری جنرل شیخ علی سلیمان بنے اور شیخ عبدالامیر الجمری کو پارٹی کا مذہبی رہنما بنا دیا گیا۔ اِس پارٹی کا نعرہ 'ہم اپنے ملک کاتحفظ کریں گے 'قرار پایا۔ " الوفاق "نے قوم میں سیاسی بیداری اور اپنے انسانی بنیادی حقوق کے حصول کے بارے میں شعور و آگاہی پر دن رات ایک کر دئیے۔ 2006ء میں عبدالامیر الجمری کافی عرصہ علیل رہنے کے بعد خدا کو پیارے ہوگئے اور آیت اللہ عیسی احمد قاسم کو جو فاضل نجف اور شہید باقر الصدرکے براہ راست شاگرد ہیں، پارٹی کامذہبی سربراہ بنا دیا گیا۔

2006ءمیں"الوفاق" نے اِس سال الیکشن میں حصہ لے کر پارلیمنٹ کے ذریعے ملک اور قوم کی ابترحالت میں تبدیلی لانے کا فیصلہ کیا گیا اور  40 سیٹوں میں سے 18 پر اپنے نمائندے کھڑے کر دئیے۔ الوفاق پارٹی کے رہنمائوں اور کارکنان کی محنت رنگ لائی اور 18میں سے 17سیٹیں جیت کر بحرین کی سب سے بڑی سیاسی پارٹی بن گئی۔ قوم کے حوصلے اور بلند ہوئے پھر 2010 ءکے الیکشن میں 18 سیٹوں پر امیدوار کھڑے کئے گئے۔ اِس بار 18کی 18سیٹیں الوفاق نے جیت کراپنے کامیابی کے سفرکونہ صرف جاری رکھا بلکہ پوری دُنیا کو اپنی طرف متوجہ کر لیا۔ کیونکہ مالکی سنی حکمران پارٹی نے صرف 2 سیٹیں، سلفی سُنی پارٹی نے تین اور آزاد ارکان نے 17سیٹیں جیتی تھیں۔ دو ہزار گیارہ میں عرب ممالک میں آئی تبدیلی کی بہار نے بیدار اہل تشیع کے ساتھ ساتھ اہل سنت برادران کو بھی جگا دیا۔ شیعہ اور اہلِ سنت افراد نے مل کر جمہوری حقوق کی بحالی کی تحریک کا آغاز بحرین کے دارالحکومت مانامہ کے "پرل اسکوائر"پر دھرنا دے کر کیا۔ ایک لاکھ سے زائد افراد کئی دن تک وہاں پر ڈٹے اور جمے رہے۔ جب مظاہرین کی وفاداریاں خریدنے کیلئے بادشاہ نے ہر بحرینی شہری کو 2لاکھ 70ہزار روپے اور ملازمت دینے کا وعدہ کیا تو اپوزیشن جماعتیں مزید ڈٹ گئیں۔ مظاہرین کو منتشر کرنے کیلئے پولیس نے آنسوگیس کی شیلنگ اور فائرنگ کی۔ جس کے نتیجے میں دو افراد شہید اور درجنوں مظاہرین زخمی ہوگئے۔ اگلے دن تدفین کے موقع پر پھر پولیس نے حملہ کر دیا۔ جس پر مظاہرین اور مشتعل ہوگئے اور عوام کی تعداد میں اضافہ ہونے لگا اور یہ دھرنا ہفتوں جاری رہا۔

لیکن اِس عوام بیداری تحریک کو کچلنے کیلئے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے 2ہزار فوجی آ گئے ۔(غیر مصدقہ اطلاعات کے مطابق پاکستان سے بھی کرائے پر فوجی مانگے گئے اوربھیجے بھی گئے)۔ غیرملکی فوجوں کے داخلے پر الوفاق پارٹی نے شدید احتجاج کیا اور اِس اقدام کو کھلی دہشت گردی اور جارحیت قرار دیا۔ الوفاق پارٹی کے 18 پارلیمانی ممبران نے احتجاجاً استعفی دے دیا۔ حالات بگڑتے دیکھ کر بادشاہ نے مارشل لگا کر الوفاق پر ریلی نکالنے، پریس کانفرنس کرنے، بیان جاری کرنے اور دفتر استعمال کرنے پر پابندی لگا دی۔ کئی بے گناہ افراد کو جیلوں میں ڈال کر کوڑے مارے گئے، الیکٹرک شاک لگائے گئے بلکہ ہر قسم کا ظلم و تشدد روا رکھاگیا اورخواتین کو بھی جیلوں میں ڈال دیا گیا۔ کئی افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ پھر عالمی دباﺅ پر 3ماہ بعد ایمرجنسی ہٹا دی گئی اور 146 افراد کی موت کو تسلیم کیا گیا اور ساتھ ہی اہل تشیع کی مساجد کو غیرقانونی اور تجاوزات کے بہانے گرائے جانے کا سلسلہ شروع کر دیا گیا۔ اِس جمہوری اور آئینی مطالبے کو شیعہ بغاوت کا نام دیا جانے لگا۔ حکومت کی طرف سے ملک بھر میں شیعہ اور سنی تفرقہ بازی کی تشہیر شروع کر دی گئی اور اِس کے پیچھے ایران پر پشت پناہی کا الزام تواتر سے دہرایا جانے لگا۔

شیعہ اکثریت کو کم کرنے کیلئے پچھلے دو عشروں سے جاری مہم جس میں شام، اُردن، یمن اور پاکستان سے اہل سنت خاندانوں کو شہریت اور مفت گھر جو دئیے جارہے تھے، کو مزید تیزتر کر دیا گیا، جیسے گلگت، بلتستان اور کرم ایجنسی میں جنرل ضیاء نے شیعہ آبادی کو کم اور کمزور کرنے کیلئے وہاں ہزاروں افغان مہاجرین اور متشدد سوچ رکھنے والے اہل سنت افراد کو منصوبہ بندی سے آباد کرایا تھا۔ ساتھ ہی اِن ہزاروں غیرملکی افراد کو فوج اور سیکورٹی اداروں میں ملازمت دے دی گئی۔ ملک بھر میں مظاہروں پر پابندی لگا دی گئی اور ہزاروں شیعہ افراد کو جیل میں ڈال دیا گیا۔ اپوزیشن کے پاس نہ توٹی وی چینل ہے، نہ ریڈیو اور نہ ایف ایم ہے، جس کے ذریعے وہ اپنی حقوق کی آواز عوام اور بین الاقوامی اداروں تک پہنچاسکے۔ رہ جاتا ہے یہ سوشل میڈیا جس پرحکمرانوں کی سخت کڑی نگرانی ہے۔ مشرق وسطی میں انسانی حقوق کمیشن کی سربراہ سارہ لے واٹسن کا موقف ہے کہ بحرین میں امتیازی سلوک، فرقہ واریت، تشدد اور قتل کے واقعات میں سرکاری مشینری ملوث ہے۔ اُن کاموقف ہے کہ جب تک سیاسی اور مذہبی شخصیات جیل میں ہیں، تب تک بحرین میں اِنسانی حقوق کی بحالی کا کوئی اِمکان نہیں۔

سیدالوداعی جو بحرین میں برطانوی ادارہ برائے حقوق اور جمہوریت کے ڈائریکٹر ہیں، نے الوفاق پارٹی کے بزرگ ترین سیاسی و مذہبی رہنما کی شہریت منسوخی کو مستقبل میں بحرینی عوام میں بے چینی، تناﺅ اور تشدد کا باعث بننے کا موجب قرار دیا ہے۔ الوفاق پارٹی کے سیاسی اور انقلابی رہنما شیخ علی سلمان جو اِس وقت جیل میں ۹برس کی بے جرم و بے خطا سزا بھگت رہے ہیں، نے اپنے پیغام میں کہا ہے کہ ہماری جدوجہد اُس وقت تک جاری رہے گی، جب تک اہل تشیع سے امتیازی و غیرانسانی سلوک ختم نہیں کیا جاتا اور صحیح معنوں میں ملک میں جمہوری حکومت قائم نہیں کی جاتی۔ ایرانی حکومتی عہدیداران اور مراجع عظام نے سخت الفاظ میں آیت اللہ شیخ عیسی احمد قاسم کی شہریت منسوخی کے اِس مکروہ اقدام کی بھرپور مذمت کی ہے اور اِس کے بھیانک نتائج سے بحرینی حکومت کو آگاہ کیا ہے، جبکہ سعودی عرب کی اعلی مجلس شوری نے حسب توقع اِس اقدام کوخوش آمدید کہاہے۔لیکن اُمیدکامل ہے کہ آل خلیفہ، آل سعودکی فرقہ وارانہ اورظالمانہ تھپکی کو دانش مندانہ انداز میں نظرانداز کرتے ہوئے بین الاقوامی تشویش کو خاطرمیں لائے گی اور بحرینی عوام کی بے چینی و محرومی کو ختم کرنے کیلئے اِس فیصلہ سمیت تمام غیرمنصفانہ، غیرانسانی، غیرجمہوری اور غیر اسلامی فیصلوں پر نظرثانی کرے گی۔
خبر کا کوڈ : 548403
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش