0
Thursday 30 Jun 2016 17:43

فلسطین کی جغرافیائی تاریخ اور بیت المقدس کی حیثیت

فلسطین کی جغرافیائی تاریخ اور بیت المقدس کی حیثیت
تحریر: طاہرعبداللہ

بانئ پاکستان قائد اعظمؒ نے فلسطین پر اسرائیلی قبضے کےخلاف اُس وقت آواز اٹھانی شروع کی تھی جب پاکستان قائم بھی نہیں ہوا تھا اور قیام پاکستان کے بعد اقوام متحدہ کی طرف سے تقسیم فلسطین کے فیصلے پر نکتہ چینی کرتے ہوئے بانی پاکستان نے بی بی سی کے نمائندے کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ برصغیر کے مسلمان تقسیم ِفلسطین کے متعلق اقوام متحدہ کے ظالمانہ، ناجائز اور غیر منصفانہ فیصلے کے خلاف شدید ترین لب و لہجہ میں احتجاج کرتے ہیں۔ ہماری حس انصاف ہمیں مجبور کرتی ہے کہ ہم فلسطین میں اپنے عرب بھائیوں کی ہر ممکن طریقے سے مدد کریں۔ رائٹر کے نمائندے کو اُنہوں نے انٹرویو میں کہا تھا کہ مجھے اب بھی اُمید ہے کہ تقسیم فلسطین کا منصوبہ مسترد کر دیا جائے گا ورنہ ایک خوفناک ترین اور بے مثال چپقلش کا شروع ہو جانا ناگزیر اور لازمی اَمر ہے۔ یہ چپقلش صرف عربوں اور منصوبہ تقسیم کو نافذ کرنے والوں کے مابین نہ ہوگی بلکہ پوری اسلامی دنیا اِس فیصلے کے خلاف عملی طور پر بغاوت کرے گی، کیونکہ ایسے فیصلے کی حمایت نہ تاریخی اعتبار سے کی جا سکتی ہے اور نہ سیاسی اور اخلاقی طور پر۔ ایسی صورت حال میں پاکستان کے پاس اِس کے سوا اور کوئی چارۂ کار نہ ہوگا کہ عربوں کی مکمل اور غیرمشروط حمایت کرے اور خواہ مخواہ کے اِشتعال اور ناجائز دست درازیوں کو روکنے کے لیے جو کچھ اُس کے بس میں ہے پورے جوش و خروش اور طاقت سے بروئے کار لائے۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ پاکستان نے اپنے قیام سے لے کر اب تک قائداعظم کے فرامین کی روشنی میں عرب فلسطینی بھائیوں سے اظہاریکجہتی کیلئے اسرائیل کو نہ صرف تسلیم نہیں کیا، بلکہ پاکستانی سبز پاسپورٹ پر لکھ دیا کہ یہ پاسپورٹ اسرائیل کے سوا تمام ممالک کیلئے کارآمد ہے۔ لیکن مصر اور ترکی جیسے نامور ممالک اسرائیل کو تسلیم کر چکے اور کمزور مسلمان عرب ملک یمن پر چڑھائی کرنے والے سعودی عرب اور دبئی، شارجہ جیسے نام نہاد سرخیل عرب ممالک اندرون خانہ اسرائیل سے محبت کی پینگیں ڈال کر اپنے لے پالک داعش اور درجنوں شدت پسند لشکروں کے زخمیوں کا علاج اسرائیل کے ہسپتالوں میں کرا رہے ہیں۔

بدقسمتی سے فلسطین اب صرف دوحصوں میں بچ گیا ہے ایک حصے کا نام غزہ پٹی اور دوسرے حصے کا نام مغربی کنارہ ہے جس میں بیت المقدس واقع ہے۔ قبلہ اول جس شہر میں واقع ہے اُسےصدیوں پہلے عبرانی زبان میں بیت ہمقدش کہا جاتا تھا جو عربی زبان میں بیت المقدس بنا اور یورپی زبان میں اِسے یروشلم کہتے ہیں۔ بیت المقدس یہودیوں، عیسائیوں اور مسلمانوں کیلئے بہت ہی مقدس اور لائق تکریم مقام ہے۔ یہودیوں کیلئے اِس لئے مقدس ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کا تعمیر کردہ معبد یہیں پر موجود ہے، جو بنی اسرائیل کے انبیاء کا قبلہ تھا اور اِسی شہر سے یہودیوں کی تاریخ اور ابتداء بھی وابستہ ہے۔ ہیکل سلیمانی اُس خیمہ نما عمارت کو کہتے ہیں جہاں یہودی حضرت موسٰی علیہ السلام اور حضرت ہارون علیہ السلام کے مقدس تبرکات والا تابوت ِسکینہ رکھا کرتے تھے۔ ہیکل سلیمانی بیت المقدس پر قبضے کی مختلف جنگوں میں تباہ و مسمار کر دیا گیا اور اب اُس کی صرف ایک دیوار باقی ہے، جسے دیوارِگریہ کہا جاتا ہے اور اِن جنگوں میں تابوتِ سکینہ بھی چوری کر لیا گیا، جس کا لاکھ جتن کرنے کے باوجود کہیں نام و نشان اور سراغ نہیں ملا۔ یہ وہ تابوت ِسکینہ ہے جس کو یہودی ہرجنگ میں آگے آگے لے کر چلتے تھے اور اس کی برکت اور فیض سے فتح حاصل کیا کرتے تھے۔ یہودیوں کا یہ بھی عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی تمام دُنیا کے مقابلے میں یہاں پر موجودگی زیادہ ثابت ہوتی ہے اور دوسرا یہ وہی جگہ ہے، جہاں پر اللہ تعالی نے زمین کی پرت کی ہر قسمی مٹی کو اکٹھا کر کے آدم علیہ السلام کو تخلیق کیا تھا۔ یہودیوں کی تاریخ اور تورات کے مطابق سب سے پہلے حضرت ابراہیم علیہ السلام اور اُن کے بھتیجے حضرت لوط علیہ السلام نے عراق سے بیت المقدس کی طرف ہجرت کی تھی۔ مسجد اقصی کی بنیاد حضرت یعقوب علیہ السلام نے ڈالی اور پھر یہ شہر آباد ہوا۔ کافی عرصہ گزر جانے کے بعد حضرت سلیمان علیہ السلام نے مسجد اور شہر کی دوبارہ تجدید کرائی۔ حضرت عزیر علیہ السلام کا بھی اِسی مقدس شہر سے گزر ہوا تھا اور آپ نے شہر کو برباد اور کھنڈرات میں دیکھ کر تعجب کا اظہار کیا تھا کہ یہ ویران اور برباد شہر کیسے آباد ہوگا؟ اِسی تعجب اور حیرانگی پر اللہ تعالی نے آپ کو سوسال کیلئے موت دے دی تھی اور جب آپ دوبارہ اُٹھائے گئے تو یہ شہر پھر آباد اور پررونق بن چکا تھا۔ عیسائیوں کیلئے یہ شہر اِس لئے مقدس ہے کہ یہاں حضرت عیسی علیہ السلام کی پیدائش گاہ، اُن کی تبلیغ کا مرکز اور وہ چرچ یہیں پر واقع ہے، جہاں آپ ؑ کو پھانسی دی گئی تھی (اُن کے بقول)۔ مسلمانوں کیلئے یہ شہر اِس لئے وجہ ءِ تکریم وتحریم ہے کہ پہلے پہل مسلمان اِسی قبلہ اوّل کی طرف رُخ کرکے نماز ادا کرتے رہے۔ دوسرامسجد اقصی وہ عظیم تاریخی اور مقدس مسجد اور قبلہ اول ہے، جہاں پر رسول پاک ؐ نے شب معراج تمام انبیا و مرسلینؑ کو باجماعت نماز پڑھائی تھی۔ مکہ مکرمہ سے بیت المقدس کا زمینی فاصلہ تقریباً تیرہ سو کلومیٹر بنتا ہے اور اِسی دُوری کی وجہ ہے کہ قران کریم میں جب معراج النبی ؐ کا ذکر ہوا تو اِسے مسجدِ اقصٰی (بہت دُورمسجد) کہا گیا۔ یہاں پرایک اور مسجد قبتہ الصخرہ بھی ہے، جو سنہرے گنبد والی مسجد ہے اور اکثر مسلمان اسی کو قبلہ اول سمجھتے ہیں، حالانکہ یہ مسجد اُموی دور میں اُس چٹان پر بنائی گئی تھی، جہاں سے رسول پاک ؐبراق پر سوار ہو کر حضرت جبرائیل علیہ السلام کے ہمراہ عازم معراج ہوئے تھے۔

اِسرائیل کے ناجائز قیام کے وقت ۱۹۴۸ء میں بیت المقدس کی آبادی ایک لاکھ ۶۵ہزار تھی اور آج اِس کی آبادی ۹لاکھ سے زیادہ ہے، جس میں ۱۵ہزار عیسائی، تین لاکھ مسلمان اور باقی چھ لاکھ یہودی آباد ہیں۔ بیت المقدس شہر پہاڑی علاقےمیں آباد ہے، جس میں سے ایک پہاڑی کا نام کوہِ صیہون ہے، جس پر مسجد اقصٰی اور قبتہ الصخرہ واقع ہیں۔ اِسی پہاڑی کی مناسبت سے یہودیوں کو صیہونی کہا جاتاہے اور اُن کی عالمی تحریک کا نام بھی تحریکِ صیہنونیت اسی پہاڑ اور علاقے کی وجہ سے ہے۔ بیت المقدس شہر اسرائیل کا دارالحکومت ہے، کیونکہ یہودیوں کے بقول حضرت دائود ؑاور حضرت سلیمان علیہ السلام کی حکومتوں کا دارالحکومت بیت المقدس تھا۔ توجہ طلب بات یہ ہے کہ اسرائیلی حکومت کے تمام تر انتظامی ادارے، بلکہ اسرائیلی پارلیمنٹ، وزیراعظم اور صدرکی رہائش گاہ اور سپریم کورٹ بھی بیت المقدس میں واقع ہیں، سوائے وزارت دفاع و آبپاشی کے جو تل ابیب میں ہیں۔ بین الاقوامی برادری مشرقی یروشلم کو اسرائیل کا حِصہ نہیں مانتی، اِس لئے اسرائیل کو تسلیم کرنے کے باوجود کسی بھی مُلک کا سفارتخانہ یروشلم میں نہیں ہے۔ یہی بات اسرائیل کے متنازعہ ہونے کیلئے کافی ہے کہ پوری دُنیا اِس متنازعہ مقدس شہر میں اپنا سفارتخانہ یا قونصل خانہ کھولنے کو تیار نہیں۔ جبکہ فلسطینی اتھارٹی بھی بیت المقدس کوہی اپنے دارالحکومت کے طور پر دعویٰ کرتی ہے اور مذاکرات کی شرائط میں سے ایک شرط یہ بھی ہے کہ وہ بیت المقدس کے بغیر کوئی بھی معاہدہ قبول کرنے کو تیار نہیں ۔یہی وجہ ہے کہ یروشلم یا القدس کی اِس طویل تاریخ میں یہودیوں، عیسائیوں اور مسلمانوں میں اِس پر قبضے کیلئے لاتعداد جنگیں ہو چکی ہیں۔ جس میں بیت المقدس شہر دوبار مکمل طور پر تباہ ہوا، ۲۳ بار اِس کا محاصرہ ہوا اور ۵۲ بار اِس پر حملہ کیا گیا۔ قبضے کی اِن خونی جنگوں میں بیت المقدس شہرپر ۴۴ بار قبضہ یادوبارہ قبضہ کیا گیا۔

فلسطین 1948 ء تک بس فلسطین تھا، لیکن اسرائیلی ریاست کے بزور طاقت قیام کے بعد فلسطین اب تین حصوں اسرائیل، مغربی کنارے اور غزہ پٹی میں تقسیم ہو چکا ہے۔ شروع شروع میں یہودی بیت المقدس میں روحانی سفر یا زیارت کا بہانہ بنا کر آتے رہے اور وہیں پر رہائش پذیر ہوتے گئے اور مسلمان بے خبر غفلت کی نیند سوتے رہے، لیکن پہلی جنگ عظیم کے بعد فلسطین پر برطانیہ کا قبضہ ہوگیا اور یہ قبضہ ۱۹۱۷ ءسے ۱۹۴۸ء تک برقرا رہا۔ اِسی دوران یہودیوں کو فلسطین میں آبادکاری کی اجازت دے دی گئی۔ پہلی جنگ عظیم کے وقت فلسطین میں صرف تین فیصد یہودی آباد تھے۔ جس وقت برطانیہ ۱۹۴۸ ءمیں فلسطین سے دستبردار ہوا اور اسرائیل نے اپنے قیام کا اعلان کیا، تو اُس وقت فلسطین میں یہودیوں کی آبادی بمشکل سات فیصد تھی اور آج اِس وقت ۷۵فیصد یہودی فلسطین میں نہ صرف آباد ہیں بلکہ پورا فلسطین اِن کے رحم وکرم پر زندگی گزارنے پر مجبور اور لاچار ہے۔ اسرائیل کے قیام کے وقت فلسطین کی آبادی ۱۳ لاکھ تھی، اب صرف اسرائیل کی آبادی ۸۵ لاکھ اور فلسطینی علاقوں میں مسلمانوں کی آبادی ۴۴لاکھ کے قریب ہے۔ صیہونیوں نے بڑی منصوبہ بندی سے فلسطینیوں کے مال، جائیداد اور وسائل پر قبضے پر ہی اکتفا نہ کیا، بلکہ ساتھ ہی قریبی ممالک مصر، اردن، لبنان اور شام کے وسائل پر بھی قبضہ کرنا شروع کردیا، اور یہ قبضہ آج اِس حدتک پہنچ گیا ہے کہ فلسطین بس زمین کے دو ٹکڑوں پر باقی رہ گیا ہے۔ ۱۹۴۸ کی اسرائیل عرب جنگ میں سات لاکھ تیرہ ہزار فلسطینی مسلمان گھربار چھوڑنے، دربدر ہونے اور پناہ گزینوں کی زندگی لبنان، اُردن، شام، عراق، غزہ پٹی اور مغربی کنارے میں گزارنے پر مجبور ہوئے اور تازہ اعدادوشمار کے مطابق تیس لاکھ سے زائد فلسطینی دربدر کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔ یہودیوں کا ایک ہی مقصد ہے کہ اسرائیل کو مزید وسعت دی جائے اور مسجد اقصی کو گرا کر دوبارہ ہیکل سلیمانی تعمیر کیا جائے۔

اب اسرائیل 20,770 مربع کلومیٹر رقبے پر مشتمل ہے۔ پچاسی لاکھ پر مشتمل آبادی والے ملک اسرائیل کے پاس زرمبادلہ کے 272 ارب ڈالر کے ذخائر ہیں اور بیس کروڑ آبادی والے ایٹمی ملک پاکستان کے پاس صرف 20 ارب ڈالر کے ذخائر ہیں۔ فلسطینی علاقہ 6220 مربع کلومیٹر پر مشتمل ہے۔ مغربی کنارے کو بحیرہ مردار اور اردن کی سرحد لگتی ہے۔ اردن جانے کیلئے دریائے اردن پر شاہ حسین پل بنا کر جوڑا گیا ہے، جو اسرائیل کے کنڑول میں ہے۔ جبکہ غزہ پٹی کو بحٰیرہ روم اور مصر کی سرحد لگتی ہے۔ مصر نے ۱۹۸۰میں غزہ پٹی پر قبضہ کر لیا تھا، پھر ۱۹۶۷ میں اسرائیل نے قبضہ واپس لے لیا تھا۔ پھر مصرکی جانب سے اسرائیل کو تسلیم کرنے کے بعد ۱۹۸۰میں مصر اور اسرائیل میں بانٹ دیا گیا تھا۔ غزہ پٹی کو ستمبر 2005 میں فلسطینی اتھارٹی کو دے دی گئی۔ مصر کی سرحد کے ساتھ رفاح کراسنگ پوائنٹ ہے جواب یورپی یونین کی نگرانی میں ہے، جبکہ قریبی بیس سے اسرائیل تمام نقل وحمل کی حرکات کاجائزہ ویڈیولنک سےکرتاہے۔مغربی کنارے اور غزہ پٹی کا آپس میں چالیس کلومیٹر سے پچاسی کلومیٹر ہے۔ لیکن ایک سے دوسری جگہ جانے کیلئے اسرائیل سے اجازت کی ضرورت ہوتی ہے۔

اسرائیل کے ساتھ سعودی عرب اور عرب ریاستوں کے تعلقات پہلے بھی خفیہ طور پر استوار تھے، لیکن اب ایران اور شیعہ دشمنی میں واضح طور پر آشکار ہوگئے ہیں۔ اسرائیل سے ایران کی کوئی ذاتی، ملکی یا سرحدی دشمنی نہیں، بلکہ صرف اور صرف فلسطین کاز کیلئے ایران نے انسانی، اخلاقی اور اسلامی بنیادوں پر اُس کی حمایت کی ہے اور اسرائیلی جارحیت کی مذمت کی ہے اور دامے درمے سخنے قدمے فلسطینی مجاہدین اور عوام کی ہرفورم پر بھرپور مدد کر رہا ہے۔ اِسی بات سے واضح طور پر پتہ چلتا ہے کہ ایران فرقہ پرست ملک نہیں، کیونکہ فلسطین مکمل طور پرسنی سلفی اور عرب ریاست ہے۔ اِسی سنی سلفی اور عرب ریاست کے کمزور مسلمانوں کیلئے امام خمینی نے۷اگست ۱۹۷۹ء کو تاریخی قدم اُٹھا کر ماہ رمضان کے آخری جمعہ کو بین الاقوامی طور پر یوم القدس کا نام دیا تھا، جس کی وجہ سے آج پوری دُنیا میں اسرائیلی صیہونی مکروہ عزائم کے خلاف مسلم اور غیرمسلم ۸۰ ممالک میں روزہ دار فلسطینی عرب مسلمان بھائیوں سے اظہار یکجہتی کرتے ہیں اور اسرائیلی ناجائز اور زبردستی قبضے پر احتجاج کرتے ہیں اور باآواز بلند دنیاکے کونے کونے میں یہ اعلان کرتے ہیں کہ یوم القدس، مستضعفین کا مستکبرین کے ساتھ مقابلے کا دن ہے۔ یوم القدس، اُن اقوام کے مقابلے کا دن ہے جو امریکہ اور غیرامریکہ کے ظلم تلے دبی ہوئی ہیں۔ اِس دن آزادپسند اور غیرت مند روزہ دار بلند آواز میں دُنیا کو بتاتے ہیں کہ یوم القدس فلسطین کا نہیں بلکہ اسلام کادن ہے۔ یہ وہ دن ہے جس میں تمام سپر طاقتوں کو وارننگ دی جاتی ہے کہ اب اسلام آپ کے خبیث ہتھکنڈوں کی وجہ سے آپ کے زیر تسلط نہیں آئیگا۔ وہ یہ بات پورے یقین کے ساتھ دہراتے ہیں کہ یوم القدس اسرائیل کی جیلوں میں قید فلسطینی بھائیوں اور بہنوں سے اظہاریکجہتی کا دن ہے۔ یوم القدس فلسطین کے مسئلے کو بھلانے اور جغرافیائی نقشے سے فلسطین کا نام ختم کرنے کے خلاف نہ صرف بھرپور احتجاج کا دن ہے، بلکہ یوم القدس اُمت مسلمہ کی رگوں میں خون پھونکنے کادن ہے۔ یوم القدس نہ صرف ظالموں کے خلاف صف آرائی کادن ہے، بلکہ یوم القدس فلسطینی عوام کو احساس دلاتا ہے کہ دُنیا کی دوسری اقوام اُن کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑی ہیں اور حق و باطل کے اِس معرکے میں شہید ہونے والا ہر فلسطینی بچہ، خاتون اور مرد اسرائیل کے اپنے بھیانک انجام کی جانب سفر کی رفتار کو تیز تر کرتا جا رہا ہے۔
خبر کا کوڈ : 549873
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش