0
Thursday 30 Jun 2016 17:07

مسئلہ قدس و فلسطین امام و شہید کی نگاہ میں

مسئلہ قدس و فلسطین امام و شہید کی نگاہ میں
تحریر: ارشاد حسین ناصر

بت شکن ،مرد قلندر،امید مستضعفین جہاں امام خمینی رح نے اسرائیل کی ناجائز ریاست ،اس کی خیانتوں اور مظلوم فلسطینیوں کی پکار ،آہ و بکا سنتے ہوئے اس مسئلہ کو خوب اجاگر کیا اور اپنے خطابات،اقوال و فرامین نیز پیغامات کے ذریعے اسرائیل کے ناجائز وجود بارے کھل کر گفتگو کی ،رمضان المبارک کے آخری جمعہ کو یوم القدس قرار دیا،اور پوری دنیا میں اس روز مظلوم فلسطینیوں کے حق میں آواز بلند کرنے اور گھروں سے باہر نکلنے کا حکم صادر فرمایا۔ہم ذیل میں امام خمینی رح کے مختلف اقوال و فرامین جو آج بھی رہنما اصولوں کی حیثیت رکھتے ہیں،قارئین کے استفادہ کیلئے پیش کر رہے ہیں،یوم القدس کے عظیم موقع پر اس مرد قلندر اور اس کے حقیقی فرزند و نائب قائد شہید کے دورہ لبنان و حزب اللہ کی قیادت سے ملاقاتیں و تاثرات بھی پیش کریں گے امید ہے قارئین کیلئے رہنمائی کا ذریعہ ثابت ہوگا۔انشا اللہ

امام رح فرماتے ہیں:
1۔ اسرائیل کے خلاف مسلمانوں کی مزاحمت کی ضرورت:
میرے لئے ایک بات معما کی طرح ہے اور وہ یہ ہے کہ تمام اسلامی حکومتیں اور مسلم اقوام جانتی ہیں کہ درد کیا ہے! جانتی ہیں کہ اجنبیوں کے ہاتھ ہیں جو انہیں منتشر کرتے ہیں؛ دیکھتی ہیں کہ ان اختلافات کی وجہ سے کمزوری اور نابودی ان کے حصے میں آتی ہے، دیکھتی ہیں کہ اسرائیل کی کھوکھلی حکومت امت کے خلاف آکھڑی ہوئی ہے اور اگر مسلمان متحد ہوتے اور ہر مسلمان پانی کی ایک بالٹی اسرائیل پر انڈیلتا تو اسرائیل سیلاب میں بہہ جاتا، لیکن اس کے باوجود وہ اسرائیل کے سامنے زبوں اور بے بس ہیں؛ معما یہ ہے کہ وہ یہ سب جاننے کے باوجود فیصلہ کن علاج جو کہ اتحاد اور اتفاق ہے کا سہارا کیوں نہیں لیتے؟ وہ سامراجیوں کی طرف سے انہیں کمزور کرنے کی سازشوں کو ناکام کیوں نہیں بناتے؟ یہ معما کب حل ہوگا؟ کس کے ہاں حل ہوگا؟ کس کو یہ سازشیں ناکام کرنی چاہئیں اسلامی حکومتوں اور اسلامی اقوام کے سوا؟ اگر آپ نے یہ معما حل کیا اور اگر آپ کے پاس اس کا جواب ہے تو ہمیں بھی یادآوری کرائیں۔
شامی وزیر خارجہ کی ملاقات کے دوران امام خمینی (ر ح)کے بیانات، صحیفہ نور ،ج 8 ،25//58 ، ص 236 -
235

2۔ فلسطینی مجاہدین کی پشت پناہی اور صہیونیت اور اسرائیل کا مقابلہ کرنے کی ضرورت: بعض اسلامی ممالک کے سربراہوں کے درمیان اختلاف رائے اور ان کی وابستگی، ستر کروڑ مسلمانوں کو وسیعی معادن، سرمایوں اور قدرتی وسائل کے باوجود استعمار اور صہیونیت کے ہاتھ کوتاہ کرنے اور اجنبیوں کے اثر و رسوخ محدود کرنے، کی فرصت نہیں دے رہی ہے۔ خودغرضی، کٹھ پتلی پن اور اجنبیوں کے زیر اثر ممالک میں بعض عرب حکومتوں کے تسلیم محض ہونا، اس بات کا سبب ہوا ہے کروڑوں عرب سرزمین فلسطین کو اسرائیل غصب اور قبضے سے نہیں چھڑا سکے ہیں۔ سب کو جان لینا چاہئے کہ بڑی طاقتوں کی جانب سے اسرائیل کی تاسیس کا مقصد، فلسطین پر قبضے تک ہی محدود نہیں ہے، ان کا منصوبہ ہے کہ (پناہ بر خدا) تمام عرب ممالک کو فلسطین کے انجام سے دوچار کریں اور آج ہم فلسطین کے مقدرات فلسطینیوں کے سپرد کرنے کی راہ میں فلسطینی مجاہدین کے جہاد کا مشاہدہ کررہے ہیں؛ ہم ایسے مجاہدین کو دیکھ رہے ہیں جو جان ہتھیلی پر رکھ کر فلسطین اور مقبوضہ سرزمینوں کی آزادی کی خاطر قبضے اور جارحیت کے خلاف جہاد کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے ہیں؛ ہم ان مظالم اور جارحیتوں کا مشاہدہ کررہے ہیں جو کل اردن میں اور آج لبنان میں ان مجاہدین پر ڈھائے گئے اور ڈھائے جارہے ہیں؛ اس تشہیری مہم اور سازشوں کا مشاہدہ کررہے ہیں جو استعمار کے گماشتوں کی تحریک پر فلسطینی جماعتوں کو فلسطینی مجاہدین سے الگ کرنے اور جدوجہد کو اہم اور سوق الجیشی علاقوں سے (جو اسرائیلی افواج اور صہیونیت اس غاصب دشمن کو نقصان پہنچانے کے لئے مناسب ہیں)، ہورہی ہیں۔
فلسطین کی پشت پناہی کے سلسلے میں امام خمینی (ر ح)کا پیغام۔ صحیفہ نور ، ج1، صص 192 - 194، 19/8/51

3. اسرائیل کے خلاف تمام مسلمانوں کی جدوجہد کی ضرورت: آج مسلمانوں کا قبلہ اول، اسرائیل مشرق وسطی میں اس سرطانی پھوڑے کے زیر قبضہ چلا گیا ہے۔ آج وہ پوری طاقت سے ہمارے عزیز فلسطینی اور لبنانی بھائیوں کو نشانہ بنا رہا ہے اور خاک و خون میں تڑپا رہا ہے۔ آج اسرائیل تمام تر شیطانی وسائل کے ذریعے تفرقہ اندازی کررہا ہے۔ ہر مسلمان کا فرض ہے کہ اپنے آپ کو اسرائیل کے خلاف (ضروری وسائل سے)لیس کرے۔ جب ایک ارب مسلمان نعرہ لگاتے ہیں، اسرائیل کچھ بھی نہیں کرسکتا، وہ اسی فریاد سے بھی خوفزدہ ہے۔ اگر تمام مسلمان یوم القدس کو "امریکہ مردہ باد، اسرائیل مردہ باد اور سوویت یونین مردہ باد" کے نعرے لگائیں یہی سوویت یونین مردہ باد ان کے لئے موت کا پیغام لاتا ہے۔ ان (مسلمانوں) کی آبادی ایک ارب، وسائل اتنے سارے کہ تمام حکومتیں ان کے محتاج ہیں اس کے باوجود وہ تمہیں مجبور کرتے ہیں کہ تم آپس میں منتشر اور متفرق رہو، اختلاف کرو اور تمہارے وسائل کو وہ لے جائیں، اور تم میں سے کوئی کچھ نہ بولے!۔
عالمی یوم القدس سبیانات امام بہ مناسبت روز جہانی قدس ، صحیفہ نور ، ج 12 ، ص 276 ، اگست 1980۔

4۔ علاقے میں اسرائیل کے فلسف وجو کے خلاف جدوجہد کی ضرورت: جو کچھ بہت زیادہ باعث افسوس ہے یہ ہے کہ بڑی طاقتوں بالخصوص امریکہ نے صدام کو فریب دے کر اور حملہ کروا کر، ایران کی مقتدر حکومت کو اپنے دفاع میں مصروف کر دیا تا کہ غاصب و جرائم پیشہ اسرائیل کو فرصت دے کہ وہ اپنے منحوس منصوبے پر جو نیل سے فرات پر قبضے سے عبارت ہے عمل درآمد کرے۔
صحیفہ نور ، ج 18، 21/مئی/1983۔
آج اسرائیل اور علاقے میں اس کا مخلص دوست مصر، مسلمانوں اور ان کی اعلی فکری اقدار کو تباہ کرنے کے لئے ایک مرکزی قوت تشکیل دینے کے درپے ہیں؛ حال ہی میں عراق اور خطے کے بعد دوسرے ممالک کے حکمرانوں نے بھی اس منصوبے سے اتقاق کیا ہے۔ میں تقریبا 20 برسوں سے بین الاقوامی صہیونیت کے خطرات کے بارے میں خبردار کرتا رہا ہوں اور آج میں اس کے خطرے کو دنیا کے تمام حریت پسند انقلابات اور ایران کے حالیہ اسلامی انقلاب کے لئے نہ صرف ماضی سے کم نہیں سمجھتا بلکہ آج یہ جہان خوار جونکیں مختلف فنون کے ذریعے مستضعفین کو شکست دینے کے لئے قیام و اقدام کرچکی ہیں۔ اقوام عالم کو اس خطرناک سازش کے مقابلے میں شجاعت اور مکمل آگہی کے ساتھ استقامت کرنی چاہئے۔ صحیفہ نور ، ج 14، ص 63، 11/02/1981

قائد شہید علامہ عارف حسین الحسینی نے اپنے لبنان کے دورے سے متعلق اظہار خیال فرمایا: اس کے علاوہ ہم شام اورلبنان گئے۔شام میں ہمارا مقصد توزیارات مقدسہ اہل بیت اطہار ؑ اور صحابہ کبار کی زیارتیں تھیں لیکن لبنان میں ہمارا جانے کا اصل مقصد یہ تھا کہ چونکہ اس وقت آپ کو پتہ ہے کہ اندرونِ فلسطین ایک عوامی اور اسلامی انقلاب کی لہر اٹھ چکی ہے۔انہوں نے اس عوامی اوراسلامی انقلاب کے ذریعے عرب سربراہوں کاجو مذاکرات کا رویہ تھا جو انہوں نے اسرائیل کے ساتھ ملنا اور اس کے ساتھ صلح کرنے کا رویہ اختیار کیا تھا، ان سب کو ایک قسم کا رد کیا ہے تو یہ مسلمانوں کے لئے خوشی کا باعث ہے۔ اس لحاظ سے کہ انہوں نے ثابت کر دیا کہ قدس کا مسئلہ اور فلسطین کا مسئلہ صرف عربوں کا نہیں ہے۔ عالمِ اسلام کا مسئلہ ہے تو ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ عرب سربراہان اور دوسرے اسلامی ممالک کی حکومتیں کبھی بھی قدس کے مسئلے کو حل کرنا نہیں چاہتے تو اب ہم اس نتیجے پر پہنچ گئے کہ ہمیں عوامی طور پر اسرائیل کے خلاف اور قدس کے آزاد کرنے کے لئے تحریک چلانی چاہئے۔ اس کے لئے ضروری تھا کہ ہم اس وقت لبنان کے وہ مجاہدین جو اسرائیل کے ساتھ لڑ رہے ہیں اور آپ کو پتہ ہے انہوں نے امریکہ اور اسرائیل کو لبنان سے نکال دیا۔وہ اسلامی مجاہدین کہ جو سارے مسلمانوں کے لئے مایہ نازہیں،ان کے ساتھ ملنے کے لئے گئے اور وہ ہمیں رات کے گیارہ بجے فرنٹ کے مورچوں پر بھی لے گئے۔جہاں سے اسرائیل کے مقبوضہ فلسطین کی لائٹس بھی ہم دیکھ رہے تھے۔ زمین بھی دیکھ رہے تھے اور انہوں نے ہمیں بتایا کہ ہمارا یہ جہاد اس وقت تک جاری رہے گا جب تک ہم فلسطین کو آزاد نہیں کرا لیتے تو ہم نے یہ مناسب سمجھا کہ ہمیں ایسے افراد کے ساتھ اسرائیل کے خلاف اور قدس کو آزاد کرنے کے لئے رابطہ قائم کرنا چاہئے اور آئندہ کے لئے کوئی لائحہ عمل بنانا چاہئے۔ اس کے علاوہ خود لبنان میں جو عملی شخصیات ہیں۔ اہل سنت و الجماعت یا شیعوں یا بعض فلسطینی علماء تھے، ان سے بھی ہماری ان مسائل پر گفتگو ہوئی اور ہم سمجھتے ہیں کہ ہمارا یہ دورہ جو تقریباً پچاس روز کا تھا۔ انشاء اللہ! بابرکت ہو گا اور اس سے اچھے اثرات مرتب ہوں گے۔ ( اسلوب سیاست سے اقتباس)

ان الہی شخصیات کی محنت اور خلوص کا نتیجہ ہے کہ آج دنیا بھر کیساتھ ساتھ پاکستان کے گلی کوچوں میں بھی قدس کی پکار سنی جا رہی ہے اور امریکی و اسرائیلی مظالم آشکار کرتے ہوئے ان کے پرچموں کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتے ہوئے جلایا جا رہا ے۔یہ سلسلہ جاری رہیگا، تاوقتیکہ ہم وقت کے امام کی امامت میں بیت المقدس الشریف میں نماز ادا نا کر لیں۔
خبر کا کوڈ : 549874
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش