1
Thursday 30 Jun 2016 23:37

انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کا بڑھتا ہوا رجحان

انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کا بڑھتا ہوا رجحان
ترتیب و تنظیم: ٹی ایچ بلوچ

سوشل میڈیا ہر گزرتے دن کے ساتھ ہماری زندگی میں اہمیت اختیار کر رہا ہے، جہاں خبروں اور معلومات کے لئے کروڑوں افراد آپس میں ایک دوسرے سے منسلک ہیں۔ ٹوئٹر اور فیس بک اس دور کی مقبول ترین ویب سائٹس ہیں، جن کے کروڑوں صارفین دنیا بھر میں موجود ہیں۔ ایرک قولمین کی کتاب سوشل نامکس کے مطابق ہر پانچ میں سے ایک تعلق انٹرنیٹ کی وجہ سے بنتا ہے اور کئی طلاقوں کی وجہ بھی سوشل میڈیا قرار دیا جاتا ہے۔ فیس بک پر موجود لوگوں کو اگر ایک ملک کی آبادی کے مطابق جانچا جائے تو یہ دنیا کا تیسرا بڑا ملک ہے اور سوشل میڈیا ویب پر حاوی ہے جبکہ جسٹن بیبر، کیٹی پیری اور لیڈی گاگا کے ٹوئٹر فالوورز جرمنی، ترکی، جنوبی افریقہ، ارجنٹائن، مصر اور کینیڈا کی آبادی سے زیادہ ہیں۔ سوشل میڈیا پر ہر قسم کی بات کی جاسکتی اور ہر نسل اور رنگ کے لوگ اپنی پسند کے مطابق لوگ ڈھونڈ سکتے ہیں، جن کے ساتھ تعلقات بہت بار حقیقی زندگی کے تعلقات میں بدل جاتے ہیں۔

امریکہ سے جاری ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق انٹرنیٹ پر صارفین کی 46.1 فیصد تعداد ہروقت آن لائن رہتی ہے اور فیس بک پر فی سیکنڈ 5 لوگ نیا اکاؤنٹ بناتے ہیں۔ اعداد و شمار کے مطابق انٹرنیٹ پر صارفین کی 46.1 فیصد تعداد ہروقت آن لائن رہتی ہے اور موبائل انٹرنیٹ کی وجہ سے ٹویٹس، فیس بک پوسٹس اور گوگل سرچز کی تعداد میں ہوش ربا اضافہ ہوتا جا رہا ہے، جس کے تحت فی سیکنڈ 54 ہزار 907 گوگل سرچز، 7 ہزار 252 ٹوئٹس، اڑھائی لاکھ سے زائد ای میلز اور یوٹیوب پر سوا لاکھ سے زائد ویڈیوز دیکھی جاتی ہیں۔ اس انٹرنیٹ سیکنڈ کو بڑھایا جائے تو ساڑھے تین لاکھ ٹوئٹس فی منٹ ہوتی ہیں اور اس طرح ایک سال میں 200 ارب ٹوئٹس کئے جا رہے ہیں، جبکہ پہلا ٹوئٹ 21 مارچ 2006ء کو کیا گیا تھا۔ لائیو اعداد و شمار کے مطابق فی سیکنڈ بھیجی جانے والی لاکھوں ای میلز میں سے 67 فی صد اسپیم یعنی اشتہاری اور فالتو ای میلز ہوتی ہیں۔ روزانہ کی بنیاد پر گوگل کو 3 ارب مرتبہ سرچ کے لئے استعمال کیا جاتا ہے جبکہ 1998ء میں گوگل سروس پیش کی گئی تو اس سال روزانہ صرف 10 ہزار سرچ ہوتی تھیں۔

ٹویٹس اور ای میل سے ہٹ کر ہر سیکنڈ میں انسٹاگرام پر 729 فوٹو اپ لوڈ کئے جا رہے ہیں اور اسکائپ پر 2,177 کالز کی جا رہی ہیں۔ ہر سیکنڈ میں 5 نئے لوگ فیس بک پر اپنا اکاؤنٹ بناتے ہیں۔ اس کے علاوہ ریڈیٹ اور ایلیکسا پر فی سیکنڈ 286 ووٹ کاسٹ کئے جاتے ہیں اور 23 کمنٹس پوسٹ ہوتے ہیں۔ دوسری جانب نیٹ فلکس نے حیرت انگیز اعداد و شمار پیش کئے ہیں کیونکہ اس کے 80 لاکھ صارفین فی سیکنڈ 1,450 گھنٹے کی ویڈیو اور ٹی وی شوز دیکھتے ہیں۔ واٹس ایپ کو موبائل میسیجنگ کی دنیا کا بادشاہ تصور کیا جاتا ہے اور اس بات کی تصدیق ایک حالیہ سروے میں بھی ہوئی ہے۔ ڈیجیٹل مارکیٹنگ انٹیلی جنس کمپنی سمیلر ویب کی جانب سے کئے گئے ایک سروے کے مطابق واٹس ایپ دنیا کے 109 ملکوں میں استعمال کی جانے والی سب سے بڑی اور بہترین موبائل میسیجنگ ایپ ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ہندوستان میں موجود 94.8 فیصد اینڈرائیڈ موبائل فونز میں واٹس ایپ موجود ہے، جہاں اس کا روزانہ 37 منٹ اوسطاً استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کمپنی نے 187 ملکوں میں سروے کیا اور 109 ملکوں میں یہ صف اول پر رہی دنیا میں 55.6 فیصد موبائل فونز میں اس کا استعمال کیا جاتا ہے۔

انڈیا کے علاوہ جن ملکوں میں سب سے زیادہ واٹس ایپ کا استعمال کیا جاتا ہے، ان میں برازیل، میکسکو، برطانیہ، روس اور جنوبی امریکا کے دیگر ملک شامل ہیں۔ اس فہرست میں دوسرے نمبر پر فیس بک کی میسیجنگ ایپ ہے، جس کا آسٹریلیا، کینیڈا اور امریکا سمیت دیگر 49 ملکوں سب سے زیادہ استعمال ہونے والی ایپ ہے۔ میسیجنگ ایپ کی فہرست میں تیسرا نمبر وائبر کا ہے، جو دس ملکوں میں انتہائی مقبول ہے، لیکن یہ مشرقی یورپی ملکوں جیسے یوکرین، بیلاروس، مولڈووا اور دیگر ملکوں میں سب سے زیادہ استعمال کی جاتی ہے۔ اپریل 2016ء تک صرف یوکرین میں 65فیصد اینڈرائیڈ موبائلز میں یہ ایپ موجود تھی اور اس کا روزانہ اسطاً 16 منٹ استعمال کیا جاتا ہے، اس کے علاوہ وائبر عراق، لیبیا اور سری لنکا میں بھی کافی مقبول ہے۔ لائن، وی چیٹ اور ٹیلی گرام جیسی بقیہ ایپ چین، ایران اور جاپان جیسے ملکوں میں کافی مقبولیت رکھتی ہیں، لیکن جاپان میں لوگ لائن کے اتنے عادی ہیں کہ وہ روزانہ اوسطاً 40 منٹ اس کا استعمال کرتے ہیں۔

تمام نشریاتی اداروں کی جانب سے انٹرنیٹ بلوگز، سماجی روابط کی ویب سائٹس، موبائل ایس ایم ایس کے ذریعے خبریں اور معلوماتی مواد کو فروغ دیا جاتا ہے۔ روایتی میڈیا سے تعلق رکھنے والے صحافی اور دیگر کاروباری کاروباری افراد معلومات کو عوام تک پہنچنے کے لئے بڑی تعداد میں سوشل میڈیا سائٹس جیسے فیس بک اور ٹوئٹر، مائی اسپیس، گوگل پلس ، ڈگ اور دیگر سے جڑے ہوئے ہیں۔ سوشل میڈیا الیکٹرونک اور پرنٹ میڈیا سے بھی زیادہ تیزی سے مقبول ہو رہا ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ عوام کا سوشل میڈیا سے منسلک ہونا ہے۔ اس الگ میڈیا میں خبروں اور معلومات کو تلاش کرنے کی ضرورت نہیں بلکہ معلومات کا ذخیرہ آپ تک خود بخود بذریعہ ای میل اور انٹرنیٹ بلوگ پوسٹس پہنچ جاتا ہے، آپ کو صرف کسی بھی بلوگ یا سائٹ میں اندراج کی ضرورت ہے۔ ایک چھوٹی سے چھوٹی خبر کو مقبول کرنے کے لئے کسی بھی سوشل سائٹ میں صرف ایک پوسٹ شیئر کرنے کی ضرورت ہے، پھر یہ خود بخود ایک سے دوسرے اور دوسرے سے تیسرے فرد تک پہنچ جائے گی۔ انفورمیشن ٹیکنالوجی نے انسان کو اتنا ترقی یافتہ بنا دیا ہے کہ انسان اپنا وقت ضائع کئے بغیر کہیں بھی بیٹھے بیٹھے پوری دنیا سے سوشل میڈیا کے ذریعے میل جول رکھ سکتا ہے۔

سوشل میڈیا کے باعث اردو زبان کے فروغ میں اضافہ ہوا ہے۔ یہ بات الگ ہے کہ اردو بلوگز کی تعداد انگریزی بلوگز کی نسبت بہت کم ہے، مگر ان میں وقت گزرنے کے ساتھ آہستہ آہستہ اضافہ ہو رہا ہے، جس سے اردو زبان کا فروغ ہو رہا ہے۔ گذشتہ چھ سے سات سال میں بلوگنگ کے ارتقاء کا جائزہ لیا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ جہاں انگریزی اور دوسری زبانوں کے بلاگز کی تعداد لاکھوں بلکہ کروڑوں کے اعتبار سے بڑھے ہیں، وہاں اردو بلاگز کی تعداد میں بھی کچھ نہ کچھ اضافہ ہوا ہے۔ ٹیکنالوجی کی پیش رفت کے ساتھ ساتھ اردو بلوگنگ سے وابستہ توقعات بھی کچھ بدل گئی ہیں۔ شروع میں کسی اردو بلوگ کا آغاز ہونا اور فعال رہنا ہی غنیمت جانا جاتا تھا، لیکن اب اردو بلاگرز سے یہ توقع رکھی جاتی ہے کہ وہ بھی اپنے بلاگ پر فکر انگیز اور معلوماتی تحریر پیش کریں گے اور گذشتہ کچھ عرصے میں اس اعتبار سے مثبت پیش رفت بھی ہوئی ہے اور کئی اچھے ادبی اور معلوماتی اردو بلاگز لکھے جانے لگے ہیں۔ آج سے تقریباً چار پانچ سال پہلے کمپیوٹر سوفٹ ویئرز کو خریدنے کے لئے یا تو سی ڈیز، ڈیویڈیز خریدنی پڑتی تھیں یا پھر انٹرنیٹ پر ان کو ڈھونڈنا پڑتا تھا، جو کہ وقت ضائع کرتا تھا۔ اب تقریباً زیادہ تر سوفٹ ویئرز بلوگرز ڈھونڈ کر کہیں نہ کہیں پوسٹ کر دیتے ہیں، جس سے آسانی پیدا ہوگئی ہے۔

ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں تقریباً دو کروڑ چار لاکھ اکتیس ہزار کے لگ بھگ لوگ انٹرنیٹ کا استعمال کرتے ہیں اور ان میں سے 30 سے 40 فیصد سوشل میڈیا سے کہیں نہ کہیں سے جڑے ہوئے ہیں۔ انٹرنیٹ پر اردو کی ترقی میں سستی کی وجہ انٹرنیٹ میں اردو مواد کی کمی ہے، جسے سوشل میڈیا کے استعمال سے پورا کیا جاسکتا ہے۔ اردو بلوگنگ کو فروغ دینے اور اس کی کریڈیبلیٹی بحال کرنے کے لئے ایک پائیدار اردو بلوگ ہوسٹنگ سروس بہت ضروری ہے۔ سوشل میڈیا سائٹس اسٹوڈنٹس کمیونیٹی یعنی تعلیم یافتہ طبقے کے لئے بھی نہایت مفید ہے۔ ویسے تو یہ طبقہ ان سوشل میڈیاسائٹس پر چیٹنگ کرتے ہوئے اپنا وقت ضائع کرتا ہے، مگر اگر یہ استعمال تعلیمی حصول کے لئے کیا جائے تو نہ صرف طالب علموں کا استادوں کے ساتھ اون لائن رابطہ رہے گا بلکہ طالب علم تعلیم سے متعلق تمام پریشانیوں کو باآسانی دور کرسکتے ہیں۔ اس کے علاوہ مختلف بلوگز سے پیچیدہ تعلیمی مواد کا حصول باآسانی کیا جا سکتا ہے۔

سوشل میڈیا کے ٹولز کسی کے لئے بھی کھلے ہیں، یعنی آپ ان کو با آسانی استعمال کرسکتے ہیں، جبکہ روایتی ذرائع ابلاغ تک پہنچنے کے لئے کافی پیسے درکار ہوتے ہیں اور اس کے علاوہ میڈیا صنعت کے رابطوں کے ایک اچھی نیٹ ورک کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ گوگل اور ورڈ پریس نے سوشل میڈیا کے فروغ میں نہایت اہم کردار ادا کیا ہے۔ روایتی ذرائع ابلاغ میں ہنر، مہارت، تربیت اور خاص آلات درکار ہوتے ہیں۔ اس کے مقابلے میں سوشل میڈیا نہایت آسان ہے۔ ایک عام کمپیوٹر اور انٹرنیٹ استعمال کرنے والا فرد سوشل میڈیا کا با آسانی استعمال کرسکتا ہے۔ سوشل میڈیا چینل میں بے مثال گاہکوں کے ساتھ بات چیت، تعلقات کا فروغ اور کاروباری لیں دین کے مواقع بھی فراہم کرتا ہے۔ سوشل میڈیا کے مواد کو شائع کرنا عام میڈیا کی نسبت زیادہ لچک دار ہے۔ تازہ خبر یا مضمون کو فوری کئی لوگوں میں عام کیا جا سکتا ہے، جبکہ روایتی میڈیا میں خبروں اور مواد کو شائع کرنے میں بہت وقت لگ جاتا ہے۔

جس طرح ہر چیز کے مثبت اور منفی دونوں پہلووں کو سامنے رکھنا چاہیے، اسی طرح ایک طرف سوشل نیٹ ورکنگ ویب سائٹس نے دوسروں کے ساتھ مربوط ہونے اور تعلقات بڑھانے کا ایک اضافی طریقہ فراہم کیا ہے، لیکن وہیں یہ ممکنہ طور پر سائبر غنڈہ گردی، سماجی رقابت اور تنہائی کا ایک ذریعہ بھی ہے۔ اس حوالے سے شائع ہونے والی ایک تازہ ترین رپورٹ سے ظاہر ہوتا ہے کہ سوشل میڈیا پر زیادہ وقت گزارنے والے بچوں کی جذباتی اور سماجی نشو و نما میں تاخیر ہوسکتی ہے، کیونکہ وہ زیادہ وقت مجازی دنیا میں گزارتے ہیں۔ بچوں کی فلاح و بہبود 2015' کے عنوان سے جاری ہونے والی رپورٹ میں ماہرین نے واضح کیا ہے کہ بچوں کے بیمار ذہنی صحت کا ان کی مجموعی صحت پر فوری یا طویل مدتی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اسمارٹ فون میں چونکہ ہر طرح کی دلچسپیاں اور سہولتیں موجود ہوتی ہیں، اس لئے یہ دور جدید میں ہر شخص کی ضرورت بن چکا ہے۔

گھر میں کھانا نہ بھی پکا ہو تو بچے صبر کر لیں گے، لیکن اگر WiFi میں خلل ہے تو وہ آسمان سر پر اٹھا لیں گے۔ اسی اسمارٹ فون کی بدولت معلومات کی فراہمی اور سوشل میڈیا کا استعمال بہت بڑھ گیا ہے۔ مگر جہاں اس کے مثبت پہلو ہیں، وہیں اس کے منفی پہلوؤں کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ دوسروں سے ملنے والی معلومات کو آگے پہنچانے اور مزید پھیلانے کے لئے صرف ایک بٹن دبانا پڑتا ہے۔ معلومات درست ہوں یا غلط، کوئی اس جھنجھٹ میں پڑتا ہی نہیں، بطورِ خاص جب معلومات مذہبی نوعیت کی ہوں، جن میں بہت سے ثواب کی نوید، یا پھر شیطان کے روکنے کا ذکر کیا گیا ہو، اس وقت تو سوشل میڈیا استعمال کرنے والے لوگوں کی بڑی تعداد بغیر تحقیق و تصدیق کے بس شیئر کئے جاتی ہے۔ مذہب، صحتِ عامہ، سماجی شعبہ، اور دیگر امور کے بارے میں بہت سی غلط معلومات باقاعدگی سے پھیلائی جا رہی ہیں اور قابلِ افسوس پہلو یہ ہے کہ اعلٰی تعلیم یافتہ خواتین و حضرات بھی اسی رو میں بہے چلے جا رہے ہیں، حالانکہ ہمارے رسول اکرم ﷺ نے بھی بغیر تصدیق کے بات آگے پھیلانے سے منع کیا ہے۔
خبر کا کوڈ : 550000
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش