1
0
Sunday 3 Jul 2016 12:20

اللہ حافظ اے بندگان خوب خدا

اللہ حافظ اے بندگان خوب خدا
تحریر: محمد حسن جمالی

گرچہ در مغفرت پروردگار ہمیشہ کے لئے کھلا ہے، مگر ماہ مبارک رمضان رحمت وبخشش کا منفرد مہینہ ہے، اس ماہ میں رب کریم نے انسان کے سونے اور سانس لینے تک کو عبادت قرار دیا ہے۔ خدا نے تیس دن مغفرت اور رحمت کا دروازہ کھلا رکھا ہے۔ انسان کو اپنا مہمان بنا رکھا ہے۔ ان ایام میں بجا لائے ہوئے اعمال و عبادات کا ثواب مضاعف دے رکها ہے۔ اخلاص سے بارگاہ الہی میں کی ہوئی دعاوں اور مناجات کی قبولیت کا وعدہ کر رکھا ہے۔ خوش نصیب ہیں وہ افراد کہ جنہوں نے ان ایام کی قدر کی۔ ماہ رمضان کی منزلت کو درک کیا۔ ماہ مبارک کے قیمتی لمحات سے خوب استفادہ کیا، روزے رکھے، قرآن مجید کی تلاوت کی، عبادات بجا لائے، دعاوں اور اپنے پروردگار کے ساتهہ مناجات میں وقت گزارا۔ بد نصیب ہیں وہ لوگ جو ضیافت الہی کے ایام سے غافل رہے، حرمت ماہ مبارک رمضان کی پاسداری نہیں کی، ایام رمضان کو بھی دوسرے عام دنوں کی مانند جانے، ماہ رمضان میں ان کے اندر کوئی تبدیلی نہیں آئی، نہ وہ گناہوں سے محفوظ رہے اور نہ ہی ان کو روزہ رکھنے کی توفیق ہوئی، نہ عبادات اور اپنے خدا سے رازونیاز کرنے کی سعادت حاصل ہوئی اور نہ ہی رمضان کے دروس، محافل اور مجالس سے کسب فیض حاصل کرسکے۔

ایام ماہ مبارک ہم سے جدا ہو رہے ہیں، وہ اپنی زبان بے زبانی سے کہ رہے ہیں، ہم جا رہے ہیں اللہ حافظ اے بندگان خوب خدا۔ اس پر رحمت، برکت اور مغفرت ماہ کے چند دن رہ گئے ہیں، جو لوگ اب تک بارگاہ خدا میں ندامت و پشیمانی کا مظاہرہ نہ کر سکے ہوں، اپنے گناہوں سے توبہ و استغفار کرنے سے قاصر رہے ہوں، وہ ان باقی ماندہ دنوں میں اپنے پروردگار کی جانب رجوع کرسکتے ہیں، توبہ و پشیمانی کا اظہار کرسکتے ہیں اور آدمی کتنا گنہگار ہی کیوں نہ ہو دل سے وہ توبہ کرے، واقعی معنوں میں اپنے گناہوں سے پشیمان ہوجائے، قطعی طور پر اللہ توبہ قبول کرتا ہے، گناہوں کو بخش دیتا ہے، اس کو اپنی رحمتوں، برکتوں کے زیر سایہ جگہ عطا کرتا ہے، ہمیں مایوس اور ناامید ہرگز نہیں ہونا چاہئے، مایوس ہونا گناہ کبیرہ ہے۔ نص قرآن ہے "هوالذی یقبل التوبہ عن عبادہ " اللہ وہ ہے جو بندوں کی توبہ کو قبول کرتا ہے۔ نیز فرمایا ہے "من یعمل سوء" او یظلم نفسہ ثم یستغفراللە یجد اللہ غفورا" رحیما" جو بھی برا کام کرتا ہے یا اپنے نفس پر ظلم کرتا ہے اس کے بعد توبہ کرتا ہے اور خدا سے مغفرت طلب کرتا ہے تو آللہ کو بخشنے والا اور رحم کرنے والا پائے گا- پیغمبر اکرم (ص) سے مروی ہے کہ گناہوں کا کفارہ پشیمان ہونا ہے۔ آنحضرت سے روایت ہے جو بھی مرنے سے ایک سال پہلے توبہ کرے اللہ اس کی توبہ کو قبول کرتا ہے۔ پهر فرمایا "جو بھی مرنے سے ایک ماہ پہلے توبہ کرے خدا اس کی توبہ کو قبول کرتا ہے۔ اس کے بعد فرمایا " مہینہ بھی ذیادہ ہے جو شخص مرنے سے ایک ہفتہ پہلے توبہ کرے خدا اس کی توبہ کو قبول کرتا ہے۔ اس کے بعد فرمایا ہفتہ بھی ذیادہ ہے جو شخص مرنے سے ایک دن پہلے بلکہ موت کے گلوگیر ہونے سے پہلے توبہ کرے اللہ اس کی توبہ کو قبول کرتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں لوگوں کی یہ سخت بھول ہے، جو سمجھتے ہیں کہ آدمی جب گنہگار ہوجاتا ہے، زندگی کے کسی حصے میں جب وہ کسی بڑی معصیت میں مرتکب ہوجاتا ہے تو توبہ کا دروازہ اس پر مسدود ہوجاتا ہے۔ بعض لوگوں خاص طور پر جوانوں کا یہ عقیدہ بنا ہوا ہے کہ اب پانی سر سے گزرچکا، جو نہیں ہونا چاہیے تھا سو وہ ہوچکا، مرنے کے بعد انسان کا ٹهکانہ یاجنت ہے اور یاجہنم اور جنت میں وہ لوگ جائیں گے جن کے اعمال اچھے ہوں، جن سے کوئی گناہ سرزد نہ ہوا ہو، جنہوں نے اپنی زندگی میں حقوق اللہ وحقوق العباد کی پوری رعایت کی ہوں، ہمارے تو نہ اعمال اچھے ہیں اور نہ ہی ہم گناہوں سے محفوظ رہے ہیں، نہ ہم نے اپنی حیات میں اللہ کے حقوق کا خیال رکھا ہے اور نہ ہی حقوق العباد کا۔ پھر وہ نتیجہ اخذ کرتے ہوئے یہ کہتے ہیں کہ ہمارا ابدی ٹهکانہ جہنم ہے۔ یوں وہ مایوسی کا شکار رہتے ہیں، اپنے اس غلط تصور و فکر کی بنیاد پر وہ یہ کہتے ہوئے مزید گناہ پہ گناہ کرتے ہیں کہ کم از کم دنیوی زندگی میں ہم مکمل آذاد تو رہیں، دنیا میں حداقل ہماری عیاشی ہوجائے، جب کہ حقیقت کا اس سے دور کا بھی تعلق نہیں۔ بلکہ قرآن ومعارف دین کی رو سے یہ ایک فاسد عقیدہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ انسان کتنا بڑا گنہگار ہی کیوں نہ ہو وہ توبہ کرکے اپنے سارے گناہ بخشوا سکتے ہیں۔ اپنا ابدی ٹھکانہ جنت بنواسکتے ہیں، لیکن توبہ کو خدا کی بارگاہ میں شرف قبولیت تب ملےگا جب توبہ توبہ حقیقی ہو۔

حضرت علی(ع) فرماتے ہیں کہ اگر کوئي شخص حقيقت ميں اپنے گناہوں پر پشيمان ہو جاۓ اور اس کي پشيماني گناہوں سے کنارہ کشي کے ساتھ ہو خواہ اس کے گناہ کتنے ہي زيادہ اور بڑے ہوں، اسے يقين سے يہ بات ذہن ميں رکھني چاہيے کہ اگر وہ سچے دل سے خدا کی بارگاہ میں توبہ کرے تو اس کے گناہ معاف ہو جائيں گے اور اس سے بڑي يہ بات ہے کہ اس کي برائيوں اور کوتاہيوں کو نيکيوں ميں تبديل کر ديا جاۓ گا۔ اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ توبہ زندگي کے کسي بھي حصہ ميں کي جا سکتي ہے، کيونکہ توبہ کا دروازہ کھولنے والے کا ايک يہ بھي لطف رہا ہے کہ اس نے توبہ کا دروازہ کبھي بھي اپنے بندوں پر بند نہيں کيا کيونکہ وہ يہ کبھي نہيں چاہيگا کہ اس کا بندہ دنيا سے معصيت کار اٹھے ’’ولا يفتح لعبد باب التوبہ و تعلق عنہ باب المغفرہ‘‘ آيا اس نے توبہ کا دروازہ کھول نہيں رکھا ہے کہ اجابت کا دروازہ بند کر دے گا، يعني اگر توبہ کا دروازہ کھولا ہے تو اجابت کي ضمانت بھي اس قادر مطلق پروردگار نے لي ہے، وہ تو منتظر ہے کہ کب ميرا بندہ مجھ کو پکارے اور ميں اس کي آواز پر لبيک کہوں-

قرآن ميں ارشاد باري تعالي ہے کہ
إِلَّا مَن تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا فَأُوْلَئِكَ يُبَدِّلُ اللَّهُ سَيِّئَاتِهِمْ حَسَنَاتٍ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَّحِيمًا
ترجمہ : مگر جنہوں نے توبہ کي اور ايمان لائے اور نيک عمل انجام ديا تو اللہ ان کي برائيوں کو نيکيوں ميں بدل ديتا ہے اور اللہ تو بڑا غفور و رحيم ہے۔ توبہ ايک ايسي حالت کا نام ہے جس ميں انسان اپنے برے اعمال پر شرمندہ ہوتا ہے اور اس کا ضمير اسے اس کے گناہوں پر ملامت کرتا ہے۔ خداوند متعال کا يہ اپنے بندے پر احسان ہے کہ جب بندہ گناہ کا مرتکب ہوتا ہے تو خدا تعالي اسے فورا سزا نہيں ديتا ہے بلکہ انسان کو مہلت دي جاتي ہے کہ وہ اپنے عمل پر پشيمان ہو اور خدا سے اس کي بخشش چاہے۔ نہج البلاغہ ميں ذکر ہے کہ
’’اس کا ايک احسان يہ بھي ہے کہ عذاب و سزا ميں تعجيل سے کام نہيں ليتا-‘‘ ( نامہ31-1ظ )۔ توبہ کے ارکان دل ميں ندامت، زباني استغفار، اصلاح کا عزم اور حقيقي معنوں ميں اصلاح کي طرف رغبت ہے۔ جس سے انسان کي توبہ قبول ہوتي ہے۔

توبہ قبول ہونے کے چار بنيادي شرط ہيں:
1- گناہ کو برا جانتے ہوئے ترک کرنا- ’’ترک الزنب لقبحہ‘‘
2- گناہ کي انجام دہي پر پشيمان ہونا- ’’والندم علي مافرط منہ‘‘
3- دوبارہ گناہ کي طرف نہ پلٹنا- ’’والفرمۃ علي ترک المعاورۃ‘‘
4- ترک شدہ وظيفہ کي قضا کرنا- ’’وتدارک ما امکنہ ان تبدارک من الاعمال بالاعادہ‘‘ (مفردات راغب 72)حضرت سیدالساجدین (علیہ السلام) دعائے وداعِ ماہ رمضان میں اللہ تعالی کی بارگاہ میں عرض کرتے ہیں کہ "وَ تَلَقَّيْتَ مَنْ عَصَاكَ بِالْحِلْمِ، وَ أَمْهَلْتَ مَنْ قَصَدَ لِنَفْسِهِ بِالظُّلْمِ، تَسْتَنْظِرُهُمْ بِأَنَاتِكَ إِلَى الْإِنَابَةِ، وَ تَتْرُكُ مُعَاجَلَتَهُمْ إِلَى التَّوْبَةِ لِكَيْلَا يَهْلِكَ عَلَيْكَ هَالِكُهُمْ، وَ لَا يَشْقَى بِنِعْمَتِكَ شَقِيُّهُمْ إِلَّا عَنْ طُولِ الْإِعْذَارِ إِلَيْهِ، وَ بَعْدَ تَرَادُفِ الْحُجَّةِ عَلَيْهِ، كَرَماً مِنْ عَفْوِكَ يَا كَرِيمُ، وَ عَائِدَةً مِنْ عَطْفِكَ يَا حَلِيمُ. أَنْتَ الَّذِي فَتَحْتَ لِعِبَادِكَ بَاباً إِلَى عَفْوِكَ، وَ سَمَّيْتَهُ التَّوْبَةَ، وَ جَعَلْتَ عَلَى ذَلِكَ الْبَابِ دَلِيلًا مِنْ وَحْيِكَ لِئَلَّا يَضِلُّوا عَنْهُ، فَقُلْتَ- تَبَارَكَ اسْمُكَ-: تُوبُوا إِلَى اللَّهِ تَوْبَةً نَصُوحاً عَسى‏ رَبُّكُمْ أَنْ يُكَفِّرَ عَنْكُمْ سَيِّئاتِكُمْ وَ يُدْخِلَكُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهارُ"[5]، "اور جس کسی نے تیری نافرمانی کی، تو نے اس سے بردباری کا رویّہ اختیار کیا اور جس کسی نے اپنے نفس پر ظلم کا ارادہ کیا، تو نے اُسے مہلت دی تو اُن کے واپس آنے تک اپنے حِلم کی بنا پر مہلت دیتا ہے اور توبہ کرنے تک انہیں سزا دینے میں جلدی نہیں کرتا تا کہ تیری منشاء کے خلاف تباہ ہونے والا تباہ نہ ہو اور تیری نعمت کی وجہ سے بدبخت ہونے والا بدبخت نہ ہو مگر اس وقت کہ جب اس پر اتمامِ حجّت ہوجائے۔ اے کریم! یہ (اتمامِ حجّت) تیرے عفو و درگزر کا کرم، اور اے بردبار تیری شفقت و مہربانی کا فیض ہے، تو ہی ہے وہ جس نے اپنے بندوں کے لئے عفو و بخشش کا دروازہ کھولا ہے اور اُس کا نام توبہ رکھا ہے اور تو نے اس دروازہ کی نشاندہی کے لئے اپنی وحی کو رہبر قرار دیا ہے تا کہ وہ اس دروازہ سے بھٹک نہ جائیں، چنانچہ اے مبارک نام والے تو نے فرمایا ہے کہ "خدا کی بارگاہ میں سچے دل سے توبہ کرو، امید ہے کہ تمہارا پروردگار تمہارے گناہوں کو محو کر دے اور تمہیں اس بہشت میں داخل کرے جس کے (محلّات و باغات کے) نیچے نہریں بہتی ہیں۔

یہ تهی امام سجاد کی دعا- تو ناگوار کيفيت و حالت ميں بھي باب توبہ کھلا رہتا ہے اور بندے کو اميد کي روشني ديتا رہتا ہے، يہ تو خدا کي ايک خاص عنايت ہے کہ تمام دروازوں کے بند ہونے کے باوجود بھي توبہ کا دروازہ کھلا رہتا ہے۔ خدا انسان کی توبہ کو قبول کرتا ہے۔ اس کے سارے گناہ صغائر و کبائر کو بخش دیتا ہے، بشرطیکہ انسان دل سے پشیمان ہو کر خدا کی بارگاہ میں رجوع کرے اور توبہ توبہ حقیقی ہو۔ انسان یہ تصور کرے کہ میں نے اپنے خالق ورازق کی نافرمانی کیوں کی ہے؟ مرنے کے بعد میں نے جس کے پاس جانا ہے۔ اس کو ناراض کیوں کیا ہے؟ جب اس درد سے آنسو نکلیں گئے تو یہ آنسو اتنی تاثیر رکھتے ہیں کہ جہنم کی آگ بھی ان سے بجھ سکتی ہے۔ رمضان کے چند دن جو باقی رہ گئے ہیں بہت ہی غنیمت کے ایام ہیں، ہمیں کوتاہی اور غفلت نہیں کرنی چاہئے، یہ ایام ہم سے جدا ہورہے ہیں اور ہم سے یہ کہرہے ہیں اللہ حافظ اے بندگان خوب خدا۔ خدائے منان ہم سب کو حقیقی معنوں میں توبہ کرنے کی توفیق دے( آمین)
خبر کا کوڈ : 550571
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Iran, Islamic Republic of
بہت خوب لکھا ہے برادر جمالی نے۔ ماشاءاللہ
نذر حافی
ہماری پیشکش