0
Tuesday 5 Jul 2016 19:29

آپ اپنے دام میں صیاد آ گیا

آپ اپنے دام میں صیاد آ گیا
تحریر: علی رضا کریمی

کل پیر کی صبح سعودی عرب کے شہر جدہ میں ایک خودکش بم دھماکہ ہوا۔ یہ حملہ امریکی قونصل خانہ کے قریب ہوا جس میں دو سیکورٹی اہلکار زخمی ہو گئے۔ سعودی وزارت داخلہ کے سیکورٹی ترجمان نے اس حملے کی وضاحت دیتے ہوئے کہا: "آج سوا دو بجے صبح فلسطین روڈ اور حائل روڈ کے چوراہے پر سلیمان فقیہہ اسپتال کے قریب سیکورٹی اہلکاروں نے ایک شخص کو مشکوک انداز میں دیکھا۔ جب وہ اس کے قریب جانے لگے تاکہ اس کی تفتیش کر سکیں تو اس نے خود کو دھماکے سے اڑا لیا"۔ اسی طرح بعض میڈیا رپورٹس کا کہنا ہے کہ خودکش بمبار نے اپنی گاڑی امریکی قونصل خانے کے قریب واقع ایک مسجد کے ساتھ پارک کی اور قونصل خانے پر مامور سیکورٹی اہلکاروں کی جانب بڑھنے لگا۔ اس نے یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی وہ کچھ تلاش کر رہا ہے۔ جب واپس پلٹا اور اپنی پارک شدہ گاڑی کے قریب پہنچا تو زوردار دھماکے کی آواز سنائی دی۔

لیکن پیر کے دن ہونے والے حملوں کا سلسلہ یہیں تک نہ رکا بلکہ پیر کی شام دو مزید خودکش دھماکے ہوئے۔ ایک سعودی عرب کے مشرقی حصے میں واقع شہر قطیف کی شیعہ مسجد کے قریب ہوا اور دوسرا مدینہ منورہ میں روضہ رسول ص کے قریب ہوا۔ قطیف میں کوئی جان نقصان نہیں ہوا لیکن مدینہ میں 6 افراد جاں بحق ہو گئے جن میں 4 سیکورٹی اہلکار بھی شامل ہیں۔ قطیف شیعہ اکثریتی شہر ہے جہاں ایک عرصے سے سعودی سیکورٹی فورسز نے عوام کے خلاف طاقت کا بیجا استعمال جاری کر رکھا ہے۔

دہشت گردی دنیا کے کسی حصے میں بھی رونما ہو مذموم ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران نے بھی ہمیشہ یہی موقف اپنایا ہے اور دہشت گردی کا خاتمہ ایران کی خارجہ پالیسی کے مستقل اصولوں میں شامل ہے۔ ایران کی نظر میں دہشت گردی چاہے سعودی عرب میں ہو یا بغداد میں جیسا کہ چند روز قبل 200 سے زائد بیگناہ شہری اس کی نذر ہو گئے اور چاہے شام میں ہو جہاں گذشتہ 5 برس سے تکفیری دہشت گرد عناصر دہشت گردانہ اقدامات میں مصروف ہیں، ہر صورت میں قابل مذمت ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران کی وزارت خارجہ نے کل پیر کی شام سعودی عرب میں ہونے والے خودکش دھماکوں کی مذمت کی۔ وزارت خارجہ کے جاری کردہ بیان میں آیا تھا: "جیسا کہ اسلامی جمہوریہ ایران کی جانب سے بارہا اعلان کیا جا چکا ہے، دہشت گردی ہر صورت میں اور دنیا کے ہر حصے میں قابل مذمت ہے اور دنیا کے تمام ممالک کو چاہئے کہ وہ بھرپور انداز میں دہشت گردانہ اقدامات اور دہشت گردی کو فروغ دینے والی قوتوں اور ان کے مالی حامیوں کا مقابلہ کریں"۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ سعودی عرب کو اپنی لپیٹ میں لینے والی دہشت گردی کی اس لہر میں سب سے زیادہ ذمہ داری خود سعودی عرب کی ہی ہے اور اس دہشت گردی کی پیدائش میں وہابی طرز تفکر سے زیادہ بنیادی اور گہرا کردار کسی اور نے ادا نہیں کیا۔ امریکہ کے نائب صدر جو بائیڈن نے حال ہی میں بلومبرگ کو دیئے گئے اپنے ایک انٹرویو میں واضح طور پر کہا تھا کہ سعودی عرب داعش سے مقابلے میں سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کر رہا۔ جو بائیڈن نے 2014ء میں بھی سعودی عرب سمیت خطے میں دیگر امریکی اتحادیوں کی پالیسیوں کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا تھا: "میرا ہمیشہ کا شکوہ یہ ہے کہ ہماری سب سے بڑی مشکل خود ہمارے اتحادی ہیں۔ خطے میں ہمارے اتحادی شام میں ہماری سب سے بڑی مشکل ہیں۔ ترک حکام ہمارے بہترین دوستوں میں سے ہیں اور میرے رجب طیب اردگان سے انتہائی خوشگوار تعلقات رہے ہیں اور میں نے ان کے ساتھ کافی وقت گزارا ہے۔ سعودی حکام، متحدہ عرب امارات کے حکام اور دوسرے۔ وہ کیا کر رہے ہیں؟ وہ ایک شیعہ سنی پراکسی وار میں صدر بشار اسد کو سرنگون کرنے میں اس حد تک مصمم ہیں کہ سینکڑوں ملین ڈالرز اور دسیوں بلکہ سینکڑوں ہزار ٹن اسلحہ ہر اس گروہ کیلئے بھیج رہے ہیں جو صدر بشار اسد کے خلاف لڑ رہا ہے۔ انہیں نے اس بات کی طرف بالکل توجہ نہیں دی کہ کون افراد یہ امداد وصول کر رہے ہیں۔ النصرہ فرنٹ، القاعدہ اور شدت پسند جہادی گروہ جن میں سرگرم عناصر دنیا کے مختلف حصوں سے آ کر وہاں جمع ہوئے ہیں"۔

جو بائیڈن ہارورڈ یونیورسٹی میں تقریر کر رہے تھے۔ انہوں نے اس حقیقت کا اعتراف کرتے ہوئے کہ ترکی اور بعض عرب ممالک کی اسی مالی اور فوجی امداد کے باعث خطے میں دہشت گردی کی آگ بھڑک رہی ہے، کہا: "داعش کی پیدائش نے سب کی نیندیں اڑا کر رکھ دیں۔ یعنی وہی القاعدہ عراق جو اس ملک سے باہر نکالے جانے کے بعد شام کے مشرقی حصے میں براجمان ہو گیا اور النصرہ فرنٹ کے ساتھ مل کر سرگرم عمل ہو گیا۔ یعنی وہی گروہ جنہیں ہم ابتدا سے دہشت گرد قرار دیتے آئے ہیں لیکن ہم اپنے اتحادیوں کو اس بات پر قائل نہیں کر سکے کہ وہ ان کی مدد نہ کریں"۔

اگرچہ امریکی نائب صدر جو بائیڈن نے بعد میں امریکی خارجہ پالیسی کے مفادات کو مدنظر قرار دیتے ہوئے اپنا موقف تبدیل کر لیا لیکن کوئی شخص ایسا کہنے کی جرات نہیں کر سکتا کہ ہارورڈ یونیورسٹی میں تقریر کے دوران انہوں نے جو کچھ کہا وہ محض مذاق تھا۔ یہ تقریر ایرانی حکام، شامی صدر یا حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل کی تقریر نہیں تھی بلکہ امریکہ کے دوسرے نمبر کے اعلی سطحی سیاسی رہنما کی تقریر تھی۔ کل پیر کے دن سعودی عرب میں انجام پانے والے خودکش دھماکے درج ذیل شواہد اور قرائن کی روشنی میں تکفیری دہشت گرد عناصر کی کارستانی دکھائی دیتی ہے:

1۔ یہ تمام دھماکے خودکش نوعیت کے تھے جو تکفیری دہشت گرد عناصر کا شاخسانہ سمجھا جاتا ہے،

2۔ جدہ میں خودکش دھماکہ امریکی قونصل خانہ کے سامنے ہوا۔ سلفی تکفیری دہشت گرد عموما یہ دعوی کرتے رہتے ہیں کہ وہ مغربی تہذیب و تمدن کے دشمن ہیں اور اس سے مقابلہ کر رہے ہیں۔ اگرچہ عمل کے میدان میں ان کے احمقانہ اقدامات کا سیاسی فائدہ مغربی حکومتیں ہی اٹھا رہی ہیں۔

3۔ قطیف اور مدینہ منورہ میں ہونے والے خودکش دھماکے ایک ہی وقت انجام پائے ہیں۔ قطیف ایک شیعہ اکثریتی شہر ہے اور تکفیری دہشت گرد شیعوں کے قتل کو اپنا دینی فریضہ سمجھتے ہیں۔ دوسری طرف تکفیری طرز تفکر سے آشنائی رکھنے والے افراد اچھی طرح جانتے ہیں کہ وہابی عقائد کے تحت قبر پر مزار کی تعمیر بہت بڑا گناہ اور ممنوعہ اقدام ہے۔ وہابی طرز تفکر کے تحت پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم، اہلبیت اطہار علیھم السلام اور دیگر تمام مذہبی بزرگ شخصیات کی قبروں پر تعمیر کئے گئے مزارات کو گرانا اور منہدم کرنا واجب ہے۔ اہم نکتہ یہ ہے کہ یہ سوچ صرف وہابی سلفی تکفیری عناصر سے مخصوص ہے جبکہ شیعہ، سنی اور دیگر مسلمان فرقے اس طرز تفکر کے شدید مخالف ہیں۔

مذکورہ بالا نکات کی روشنی میں کہا جا سکتا ہے کہ سعودی عرب اسی گڑھے میں گر چکا ہے جو اس نے خطے کے ممالک کیلئے کھود رکھا تھا۔ ہمیں نہیں بھولنا چاہئے کہ جدہ اور مدینہ کا شمار ان شہروں میں ہوتا ہے جہاں حج کے دوران حاجیوں کا آنا جانا بہت زیادہ رہتا ہے۔ اب جبکہ ان دو شہروں کی سیکورٹی صورتحال مخدوش ہو چکی ہے، سعودی رژیم کے زیر سایہ حج کی ادائیگی بھی مخدوش ہوتی جا رہی ہے۔ دوسری طرف خام تیل کی فروخت کے بعد سعودی حکومت کی درآمد کا سب سے بڑا ذریعہ حج ہے۔ لہذا بہتر یہ ہے کہ سعودی حکام یمن میں بیگناہ عوام کے قتل عام اور اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی خلاف ورزی اور بچوں کا قتل عام کرنے والی حکومتوں کی فہرست سے سے اپنا نام نکالنے کیلئے مالی دباو ڈالنے کی بجائے خطے اور ملک سے دہشت گردی کے خاتمے کیلئے موثر اور ٹھوس اقدامات انجام دیں۔
خبر کا کوڈ : 551206
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش