10
0
Monday 11 Jul 2016 17:50

ڈیرہ اسماعیل خان واقعہ کے اندرونی حقائق

ڈیرہ اسماعیل خان واقعہ کے اندرونی حقائق
تحریر: سجاد آہیر

ڈیرہ اسماعیل خان میں گذشتہ دنوں شہید شاہد شیرازی ایڈووکیٹ کے جنازے پر جو کچھ ہوا، اس پر سوشل میڈیا کے ذریعے الزامات کا ایک نہ تھمنے والا طوفان شروع ہے اور اس تمام واقعہ کو قابل احترام علامہ رمضان توقیر کے خلاف سازش قرار دیکر اصل حقائق سے رخ موڑنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس تحریر کے ذریعے اس ساری صورتحال کی اصل حقیقت اور اندر کے حالات و واقعات بیان کئے جائیں گے، تاکہ اس غلط پروپیگنڈے کو ختم کیا جاسکے، قوم کے ساتھ خیانت کرنے والوں کے رخ سے پردہ اٹھایا جاسکے اور ہر علاقے میں موجود ایسے کرداروں کی بیخ کنی کی جاسکے۔ ڈیرہ اسماعیل خان ملت جعفریہ کا ایک اہم ترین محاذ ہے، جہاں ملت تشیع کے قیمتی افراد نے اس وطن کی سالمیت و استحکام کے لئے اپنا بے پناہ لہو پیش کیا، جس کی گواہی ڈیرہ میں موجود شہداء کے بھرے ہوئے قبرستان ہیں۔ ڈیرہ کے ہر گھر میں اس وقت کسی کا بھائی شہید ہے تو کسی کا بیٹا اور کسی کا شوہر تو کسی کا باپ شہید ہے۔ غرض یہ کہ اکثریت خانواداہ شہداء سے تعلق رکھتی ہے۔ ڈیرہ کے لوگ اپنے پیاروں کی لاشوں کو اٹھا اٹھا کر تھک چکے ہیں۔ جس کے نتیجے میں عوام کے اندر ایک لاوہ پک رہا ہے، جس کا مشاہدہ حالیہ احتجاج میں بالخصوص خواتین کو سڑکوں کو بند کرکے دھرنا دیتے ہوئے کیا گیا۔

ڈیرہ کے تمام شہداء بالعموم اور گذشتہ تین ماہ کے شہداء بالخصوص اس معاشرے کے نیک، متدین، موثر اور پڑھے لکھے افراد تھے، جن کی شرافت اور متانت کی گواہی اپنے پرائے سب دیتے ہیں۔ جب ہم شہید شاہد شیرازی کی شہادت پر ان کے گھر پہنچے تو ان کے والد کو نہایت حوصلہ مند پایا اور اپنے آباو اجداد کی سنت پر عمل کرتے ہوئے اس راستے پر قربانی دینے سے کو اپنے لئے شرف و عزت قرار دیتے ہوئے سنا۔ اپنے بیٹے کے بارے میں کہتے تھے کہ میرا بیٹا اس قوم پر قربان ہوا، یہ اسی ملت کی امانت تھا۔ ٹارگٹ گلنگ کی موجودہ لہر سے ڈیرہ اسماعیل خان میں ایک بار پھر خوف اور بے حسی کے بادل چھاتے نظر آرہے تھے، جس میں شہداء کے جنازے خاموشی سے دفن کرنے کی روایت دوبارہ سے زندہ ہوتی نظر آرہی تھی، لیکن شہید شاہد شیرازی کی شہادت سے علاقے کے لوگوں میں بے خوفی اور غم و غصے کی ایک واضح لہر دوڑتی نظر آئی۔ جنازہ جب کوٹلی امام حسین (ع) کے قبرستان کی جانب روانہ ہوا تو لوگوں کا ایک قافلہ بن گیا، جو موٹر سائیکلوں، گاڑیوں اور پیدل جنازہ کے ساتھ چلے اور یوں ایک جم غفیر قبرستان کے سامنے بنوں روڈ پر اکٹھا ہوگیا۔ جب شہید کا جسد خاکی قبرستان کے سامنے پہنچا تو لوگوں نے وہیں اجتجاجی دھرنے کا فیصلہ کیا۔

آئی ایس اور اور ایم ڈبلیو ایم کی مرکزی قیادت جن میں علامہ اعجاز بہشتی، ناصر عباس شیرازی، نثار علی فیضی، ملک اقرار حسین اور علی مہدی مرکزی صدر آئی ایس او وہاں موجود نظر آئے۔ ابتدائی تقریروں میں مقریرین نے میت کو سڑک پر رکھ کر بھرپور احتجاج شروع کیا اور چند لمحوں کے بعد پورا شہر بلاک ہوگیا، جس میں سات سے زیادہ مقامات پر احتجاج اور دھرنا شروع کیا گیا۔ اس موقع پر شیعہ علماء کونسل کے مرکزی رہنماء علامہ رمضان توقیر نے بھی خطاب کیا، لیکن احتجاج و دھرنا کی طوالت کے حوالے سے کہا کہ علاقے کے بزرگان اس کا فیصلہ کریں گے۔ اس کے بعد وہ اس کوشش میں مصروف ہوگئے کہ لوگوں کو بالخصوص شہداء کی فیملی کو راضی کریں کہ چونکہ اہل سنت کی بھی ایک تعداد جنازہ کے لئے آئی ہوئی ہے، اس لئے جلد جنازہ کرکے تدفین کی جائے۔ جس کو وہاں موجود شہداء کی فیملی اور تنظیمی مسئولین نے مسترد کیا۔ اس دوران علامہ صاحب ضلعی انتظامیہ سے رابطوں میں مشغول نظر آئے۔ پھر کچھ دیر بعد خبر آئی کہ ضلعی ڈی پی او اور پی ٹی آئی کے صوبائی وزیر علی امین گنڈاپور مذاکرات کے لئے آنا چاہ رہے ہیں، اس لئے مطالبات پر فوری کمیٹی تشکیل دی جائے۔ کمیٹی تشکیل دی گئی، جس میں علامہ رمضان توقیر، سید مستان زیدی، تحسین علمدار، نثار علی فیضی، ملک اقرار حسین، تنویر مہدی اور علی مہدی شامل تھے۔

کمیٹی کا اجلاس شروع ہوا اور مطالبات پر گفتگو کا آغاز ہوا۔ مطالبات میں سب سے پہلے اس بات پر اتفاق ہوا کہ یہ احتجاجی دھرنا میت کے ساتھ کم سے کم 48 گھنٹوں کے لئے جاری رہے گا، اس کے علاوہ دیگر نقاط جن میں دہشتگردوں کے خلاف فوج کی طرف سے فوری آپریشن، عمران خان کا فوری کے پی کے کا دورہ اور وہاں شہداء کے لواحقین سے اظہار ہمدردی اور حکومتی ذمہ داران کی سستی اور غفلت کے خلاف ایکشن، ڈی آئی خان پولیس میں موجود کالی بھیڑوں کی سکروٹنی اور گرفتاری، شہید وکلاء کی فیملیز کے لئے کمپنسیشن شامل تھے۔ ابھی ان مطالبات پر گفتگو جاری تھی کہ علامہ رمضان توقیر نے اطلاع دی کہ ڈی پی او اور علاقے کے ایم پی اے مدرسے پہنچ رہے ہیں۔ ان کی آمد کے بعد ان سے کمیٹی کی ملاقات ہوئی، جس میں طویل گفتگو کے بعد یہ نتیجہ نکلا کہ ڈی پی او صاحب فوج کے فوری آپریشن کے حوالے سے مطالبہ کو آگے پہنچائیں گے، جبکہ علی امین عمران خان اور صوبائی حکومت کو دیگر مطالبات کے حوالے سے آگاہ کریں گے۔

اس میٹینگ کے کچھ دیر بعد آئی ایس آئی کے کمانڈنڈٹ اور فوج کے سٹیشن کمانڈنٹ بھی مدرسے پہنچ گئے اور اپنی کارکردگی اور فوجی آپریشن کے حوالے سے مذاکراتی کمیٹی کو آگاہ کیا اور واضح کیا کہ فوج پہلے ہی بہت کچھ کر رہی ہے، مزید کسی اقدام کی ضرورت نہیں۔ مولانا رمضان توقیر، مستان زیدی اور تحسین علمدار نے اس میٹنگ کے بعد یوں خوشی کا اظہار کیا جیسے تمام مسائل حل ہوگئے ہیں اور اب مزید کسی مطالبے کی گنجائش نہیں، جبکہ یہ میٹنگ صرف بریفنگ تھی، نہ کہ کسی قسم کا کوئی معاہدہ۔ اس پر کمیٹی کے دیگر اراکین نے ان حضرات کو کہا کہ فوجی آپریشن اور دیگر مطالبات کے لئے ہمیں زیادہ بڑی سطح کے لوگوں سے مذاکرات کرنے چاہیے کیونکہ مسائل فقط علاقے کی حد تک تعلق نہیں بلکہ دیگر علاقوں سے بھی مربوط ہیں۔ اس پر علامہ رمضان توقیر نے کہا کہ آپ لوگ باہر کے ہیں، ہمارے معاملات کو خراب نہ کریں، ہم علاقے کی صورتحال کو زیادہ بہتر جانتے ہیں اور ایک بار پھر میت کی تدفین کے حوالے سے بات شروع کر دی کہ اب چونکہ ضلعی ڈی پی او، ایم پی اے، کرنل آئی ایس آئی اور سٹیشن کمانڈنٹ سب ہمیں مطمئن کرچکے ہیں، اس لئے مزید کسی احتجاج کی ضرورت نہیں اور شام 6.30 پر جنازے کا اعلان کیا جائے۔

اس بات سے خائف ہوکر کمیٹی کے دیگر اراکین اجلاس سے اٹھ کر باہر چلے گئے۔ جس دوران کمیٹی کے بعض دیگر علاقائی اراکین علی امین ایم پی اے کو بلوا لائے اور اسکے وعدوں پر اعتماد کرکے قوم کی شیرازہ بندی کا ایک بار پھر اسباب پیدا کرنے کی تیاری کرنے لگے۔ کچھ دیر بعد پھر مستان زیدی صاحب نے پیغام بھجوا کر مذاکراتی کمیٹی کے اراکین کو بلوایا اور اعلان سے پہلے میٹنگ کی۔ اس بار میٹنگ میں ایم ڈبلیو ایم کے نثار علی فیضی نے واضح طور پر کہا کہ مذاکراتی کمیٹی نے سب سے پہلے اس بات پر اتفاق کیا تھا کہ یہ احتجاج اپنے مطالبات کو آبرومندانہ اور حقیقی بنیادوں پر حل کرنے کے لئے کم سے کم 48 گھنٹے دھرنا دے گا اور جنازے کا عجلت میں فیصلہ کسی بھی طور پر عقلی و منطقی نہیں، مزید یہ کہ اس وقت ایک بھرپور پریشر صوبائی حکومت اور تحریک انصاف پر آچکا ہے، اس استقامت کے نتیجے میں ایپکس کمیٹی کا اجلاس بھی فوری طلب ہوچکا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم اپنے شہداء کے لہو کو ضائع ہونے سے بچائیں، پوری قوم اس دھرنے کے ساتھ یکجہتی کے لئے تیار ہوچکی ہے، علامہ راجہ ناصر عباس جعفری پریس کانفرنس کر کے پورے ملک میں احتجاجی دھرنے کا اعلان کرنے والے ہیں، ڈیرہ کے مسائل حقیقی بنیادوں پر حل ہونے کے قریب ہیں، آپ لوگ خدارا اپنی ذاتی مصلحتوں اور تعلقات پر قومی مصلحت اور شہداء کے خانوادوں کی مصلحت کو ترجیح دیں۔

اس وقت عوام جس جوش و جذبے کے ساتھ میت کے ساتھ احتجاج کر رہے ہیں، اس کا تقاضا ہے کہ ٹارگٹ کلنگ کا یہ بت ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اس سرزمین پر پاش پاش ہو۔ مگر اس پر علامہ رمضان توقیر نے کہا کے آپ اپنی سیاست سے ہمیں دور رکھیں، ان شہادتوں پر کوئی کچھ نہیں کرسکتا، ہم آپ سے زیادہ ان معاملات کو سمجھتے ہیں، آپ لوگ حالات خراب کرنے کا ایجنڈا لے کر آئے ہیں، ہمیں معاف کریں۔ اس بات پر مجلس وحدت مسلمین کے مرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل ناصر عباس شیرازی نے کہا کہ آپ لوگ پوری قوم سے کٹ کر ان مسائل کو حل نہیں کرسکتے، کوئٹہ کے دھرنوں کی کامیابی بھی اسی وقت ممکن ہوئی تھی، جب پورے ملک میں دھرنے دیئے گئے تھے، لیکن پھر بھی ہم اس بات کے پابند ہیں کہ شہداء کے خانوادوں کی مرضی سے ایک انچ آگے نہ بڑھیں، اگر وہ آمادہ ہیں کہ جنازے کو دفن کیا جائے تو ہمیں کوئی مسئلہ نہیں۔ اس کے بعد تمام لوگ اٹھے اور اعلان کی خاطر جلسہ گاہ کی طرف چلے۔ جلسہ میں پہنچ کر کچھ اراکین کمیٹی سٹیج پر گئے اور کچھ نہیں گئے اور ایک سائڈ پر کھڑے ہوگئے۔ سٹیج پر سب سے پہلے مستان زیدی نے گفتگو کی اور پھر مذاکرات کے کامیاب ہونے کے جھوٹے اعلان کے لئے علامہ رمضان توقیر کو دعوت دی۔

علامہ رمضان توقیر نے اپنی گفتگو کے آخر میں جیسے ہی اعلان کیا کہ ہمارے سارے مطالبات منظور ہوگئے ہیں اور علاقے کے ایم پی اے علی امین گنڈاپور نے ان مطالبات پر عمل درآمد کے لئے دس دن کی مہلت مانگی ہے اور اگر وہ اس میں کامیاب نہ ہوا تو ہم پھر احتجاج کریں گے۔ اس اعلان کا ہونا تھا کہ نیچے سے لوگوں نے نعرے لگانے شروع کئے اور پھر سٹیج پر جوتے پھینکنے، اس کے فوراً بعد تقریباً جلسے کے 70 فیصد شرکاء مقررین کی جانب بڑھے اور نہایت غصے کے ساتھ مولانا رمضان توقیر، مستان زیدی اور دیگر افراد پر مکوں، لاتوں، نعروں کے ساتھ حملہ آوور ہوئے۔ مجلس وحدت مسلمین اور آئی ایس کے قائدین نے عوام سے درخواست کی کہ مولانا رمضان توقیر کے ساتھ ایسا سلوک نہ کیا جائے، لیکن غصے میں غضبناک عوام نے ایک نہ سنی، اس کے بعد ایک بڑے دائرے میں عوام مجلس اور آئی ایس او کے قائدین کے گرد جمع ہوگئے اور مطالبہ کرنے لگے کہ وہ سٹیج پر جائیں اور اس دھرنے کو جاری رکھنے کا اعلان کریں، اس ساری صورتحال میں بہت آسان تھا کہ مجلس اور آئی ایس او کے مسئولین سٹیج پر جاتے اور عوامی کے غصے کو سنبھالتے ہوئے دھرنے کو جاری رکھنے کا اعلان کرتے۔ مگر انھوں نے یہ کہا کہ چونکہ شہداء کے لواحقین تدفین کا فیصلہ کرچکے ہیں، اس لئے مناسب نہیں کے دھرنا جاری رکھا جائے۔

اس کے بعد خواتین کی ایک بڑی تعداد نے علامہ شیخ اعجاز حسین بہشتی کو گھیر لیا اور تقاضا کیا کہ وہ خدارا اس دھرنے کو جاری رکھیں اور سٹیج پر اعلان کریں، ہم اس ہزیمت کے ساتھ اس احتجاج کو ختم نہیں کرنا چاہتے اور شدید غم و غصہ کا اظہار کیا، مجبوراً علامہ شیخ اعجاز بہشتی سٹیج پر تشریف لے گئے اور عوام سے خطاب کیا اور یہی کہا کہ ہم شہداء کے خانوادوں کی مرضی کے بغیر کچھ نہیں کرسکتے اور خدارا اپنے جذبات کو غلط سمت میں مت لے کر جائیں۔ مجلس کی لیڈر شپ جنازے میں شامل ہوئی اور تدفین تک شہید کے والد کے ساتھ موجود رہی، حتٰی اگلے روز کے پروگرام میں بھی شریک ہوئی۔ اس سارے واقعے پر بلاشبہ قلبی کیفیت نہایت رنجیدہ ہے، ایک اس احتجاج کے بے مقصد اختتام پر، دوسرا ایک عالم دین پر جو عوامی زدو کوب کا شکار ہوئے۔ البتہ اس ساری صورتحال سے یہ نتیجہ ضرور نکالا کہ اب عوام بیدار ہو رہے ہیں اور اپنے مسائل اور ان کے حل کے حوالے سے انھیں دھوکہ دینا آسان نہیں۔ خدارا اس قوم کو گمراہ کرنے میں حصہ دار نہ بنیں، تحقیق کے بغیر باتوں کو آگے نشر نہ کریں، خدا آپکا اور ہمارا حامی و ناصر ہو۔
خبر کا کوڈ : 551537
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Iran, Islamic Republic of
آهیر صاحب تم خدا را فوج اف سی مین واپس جاو اور قوم کی فکر مت کرو
syeda zahra
Satellite Provider
Wel said,haqeqat biyan krny ka shukria, shukr kisi ny tw sahi biyan kia.
United Kingdom
jhoot he jhoot
Iran, Islamic Republic of
کالم حقائق سے زیاده جھوٹ پر مبنی ھے اور قابل اعتبار نھیں۔
Iran, Islamic Republic of
kalam haqaiq sy ziadh jhoot pr mabni hay
Iran, Islamic Republic of
حوزہ علمیہ میں پڑھتے ھو کم از کم مال امام کا ہی خیال کرلو
Iran, Islamic Republic of
لکهائی سے واضح هے که لکهاری میں صحیح اور سچ لکهنے کی اهلیت نهیں۔
Iran, Islamic Republic of
اس اهم قومی افسوسناک واقعه پر محتاط قلم کی ضرورت هوگی۔
Zabar dast. Hamey jazbaat ki milawat se pakiza haqayq jan k khoshi hue. Albtta amamy ka taqaddos pamal ni hona chaye tha. Lekin awam k sabr ka imtehaan akhir kab tk?kab tak maslihat ki choorri se haqq zibha hota ry ga?kab tak...?
Iran, Islamic Republic of
علماء کی توهین کرنا، پاکیزه حقایق اور زبردست بات هے؟!!! اور عمامه کی توهین کرنا عین ولایت اور رهبری سے تمسک هے؟!!!!!! جذبات اور شدت پسندی کہاں تک ؟!!!!
ہماری پیشکش