2
0
Monday 11 Jul 2016 15:55

ڈی آئی خان احتجاجی دھرنے کا غیر متوقع انجام(2)

ڈی آئی خان احتجاجی دھرنے کا غیر متوقع انجام(2)
تحریر: آئی اے خان

مذاکرات کے پہلے دور کو اس حوالے سے کامیاب کہا جاسکتا ہے کہ اس دور کے نتیجے میں وزیراعلٰی نے ڈی آئی خان کی سکیورٹی سے متعلق نہ صرف ایپکس کمیٹی کے اجلاس کی کال دی بلکہ بعض مقامات پر گرفتار ہونے والے مظاہرین کی رہائی کے احکامات بھی ڈی پی او نے دوران مذاکرات جاری کئے۔ ہر قسم کے تعاون کی یقین دھانی کے ساتھ ساتھ صوبائی وزیر مال نے شہداء کے خانوادوں کی سرکاری ملازمتوں یا مالی تعاون کی بھی یقین دھانی کرائی۔ اسی طرح عمران خان کی آمد سے متعلق بھی یقین دلایا کہ وہ جلد دورہ کریں گے۔ کچھ توقف سے پاک فوج کے ڈی آئی خان میں سٹیشن کمانڈر اور آئی ایس آئی کے کرنل بھی مذاکرات کیلئے آن حاضر ہوئے۔ دونوں افسران نے نیشنل ایکشن پلان، ڈی آئی خان میں ضرب عضب اور سکیورٹی کے انتظامات سے متعلق سیر حاصل بریفنگ دی۔ انہوں نے بتایا کہ جو مطالبات آپ پیش کر رہے ہیں, ان پر پہلے سے ہی عملدرآمد جاری ہے۔ صحیح معنوں میں دہشت گردوں کے خلاف ایکشن جاری ہے، جس کے ردعمل میں پولیس افسران اور آپ لوگ نشانے پر ہیں۔ ہمیں ڈیرہ میں اہل تشیع پر جاری ظلم کا احساس و ادراک ہے، جلد ہی یہ سلسلہ تھم جائیگا۔ کئی قاتلوں اور سہولتکاروں کی گرفتاری عمل میں آچکی ہے۔

اس دوران ایک کمیٹی رکن نے تیز لہجے میں احتجاج جاری رکھنے اور تدفین نہ کرنے کا عندیہ ظاہر کیا تو سٹیشن کمانڈر نے کہا کہ احتجاج آپ کا حق ہے اور کام ہے، آپ اپنا کام کریں، ہم اپنا کام کریں گے۔ مذاکرات کا یہ دوسرا دور بھی احسن طریقے سے اختتام پذیر ہوا۔ ان دونوں سیشن کے درمیان وقفے میں شہید کے والد سید مشتاق شیرازی نے پوری کمیٹی کی توجہ شہید کے جنازے کی جانب مبذول کرائی اور کہا کہ شدید گرمی ہے، چوبیس گھنٹے گزرنے کو ہیں، لہذا کوئی ایسی صورت نکالی جائے کہ ان مذاکرات کو یا تو مکمل طور پر کامیابی سے تعبیر کیا جائے، اگر تمام معاملات طے نہیں بھی ہوتے تو تدفین کے بعد احتجاج جاری رکھا جائے۔ (واضح رہے کہ اس دوران مذاکرات والے کمرے میں تشکیل دی گئی کمیٹی کے اراکین کے علاوہ بھی شہر کی کئی نمایاں شخصیات وارد ہوچکی تھیں، جو نہ صرف مذاکراتی سیشن میں موجود رہی بلکہ مشاورت میں بھی شامل تھیں) شہید کے والد کی اس تجویز کے جواب میں ایک شخص نے کہا کہ تدفین کے بعد احتجاج جاری نہیں رہ سکتا، تو وہاں موجود ضلعی جماعت سے تعلق رکھنے والے شخص نے سوال کیا کہ آخر آپ لوگوں کو احتجاج جاری رکھنے کیلئے مقدس لاش کیوں درکار ہے۔؟ علامہ رمضان توقیر نے ماضی کے ایک سانحہ کا حوالہ دیا کہ جنازوں کی تدفین کے بعد بھی کامیاب احتجاج ہوا تھا۔

مذاکرات کے دوسرے سیشن کے بعد ماحول ایسا بن چکا تھا کہ جس میں شہید کا خانوادہ اور مقامی لیڈر شپ تدفین پر مصر تھے، جبکہ احتجاج و دھرنے کا فیصلہ کرنے والے احباب کا اصرار تھا کہ ابھی تدفین میں تاخیر کی جائے اور دھرنے کو کم از کم اگلے روز یعنی نماز جمعہ تک جاری رہنا چاہیئے۔ مذاکرات کے دوسرے دور کے بعد زیادہ تر افراد اس بات پر رضامند تھے کہ مذاکرات اور حکومتی رویہ و ردعمل ہماری ناکامی نہیں بلکہ کامیابی ہے، چنانچہ شہید کے ورثاu، ضلعی رہنماؤں اور بزرگان کی خواہش اور حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے تدفین کر دینی چاہیئے۔ اس موقع پر نثار علی فیضی نے بھی اس بات سے اتفاق کرتے ہوئے تجویز پیش کی کہ چونکہ اب شہید کی تدفین زیادہ لوگ اصرار کر رہے ہیں، چنانچہ میرا خیال ہے کہ اب پہلے والے وفد کو دوبارہ بلایا جائے اور ان پر احسان کیا جائے کہ آپ کے کہنے پر احتجاج موخر کرکے تدفین کر رہے ہیں، اگر چند روز کے اندر یہ مطالبات پورے نہ ہوئے تو ہم دوبارہ احتجاج کی کال دینگے۔ اس تجویز سے سب نے اتفاق کیا۔

ڈی پی او اور صوبائی وزیر مال علی امین خان کو علامہ رمضان توقیر نے فون کیا کہ آپ واپس آئیں۔ کچھ دیر بعد دونوں دوبارہ آئے، مختصر نشست کے بعد وہ واپس گئے، ان کے جانے کے بعد ایم ڈبلیو ایم کے مرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل ناصر شیرازی نے درخواست کی اس میں کوئی شک نہیں کہ ہم نے بہت کچھ حاصل کر لیا ہے، لیکن ہم اگر مزید کچھ توقف کریں تو اس کو مثال بنا کر ہم پورے پاکستان میں جہاں جہاں اہل تشیع کو مشکلات درپیش ہیں، انہیں اپنے حقوق کیلے کھڑے رہنے پر آمادہ کر سکتے ہیں، جبکہ تھوڑی دیر میں علامہ راجہ ناصر پریس کانفرنس بھی کرنے والے ہیں، تاہم علامہ رمضان توقیر نے اسے رد کیا، جس پر ناصر شیرازی نے حق میزبانی ادا نہ کرنے کا شکوہ بھی کیا، مگر اس دوران کمیٹی کے اراکین یکے بعد دیگرے باہر آتے گئے۔ مذاکراتی کمرے میں تدفین اور احتجاج ختم کرنے اور انتظامیہ کو دس روز کی مہلت دینے کا فیصلہ ہوچکا تھا، جبکہ سٹیج سے انتہائی پرجوش تقاریر کا سلسلہ جاری تھا۔ یہاں تک کہ آخری مقرر کے الفاظ تھے کہ آپ بیٹھے ہیں، تو ہم بھی بیٹھے ہیں، چاہے مطالبات کی منظوری اور حکومت کے مستعفی ہونے تک کتنی ہی دیر کیوں نہ ہو جائے۔

فیصلہ سنانے کیلئے کمیٹی کے اراکین میں مقامی افراد، شہید کے ورثا سٹیج پر آئے جبکہ معزز مہمانان اور رہنماء سٹیج سے ہٹ کر موجود تھے۔ اختلافی یا ناپسندیدہ سہی مگر نمائندہ کمیٹی کا یہ فیصلہ علامہ رمضان توقیر نے ترجمان کی حیثیت سے سنایا کہ احتجاج دس روز کے لئے موخر کر رہے ہیں، جسے نامنظور، نامظور کی صداوں سے قبول نہیں کیا گیا، فوری ردعمل بالخصوص دست درازی اور ہاتھا پائی میں علامہ رمضان توقیر سمیت چار افراد مزید بھی زخمی ہوئے۔ شدید ہنگامے میں ادا کی جانے والی نماز جنازہ میں کئی افراد شرکت ہی نہیں کرسکے۔ علاج اور ابتدائی طبی امداد کی غرض سے چند اراکین کمیٹی کو ہسپتال جانا پڑا۔ انتہائی پرامن احتجاج کے ایسے انجام پر ملت کا درد رکھنے والا ہر شخص انتہائی مایوس ہوا ہے، مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ اس انجام کا سب سے زیادہ فائدہ حکومت و اداروں کو حاصل ہوا ہے۔ ڈیرہ کی تاریخ میں اپنی نوعیت کا شائد یہ پہلا اور انتہائی پرامن اور کامیاب احتجاجی مظاہرہ تھا، جس میں کسی ایک تنظیم کی چھاپ نہیں تھی اور یہ پہلا موقع تھا کہ تمام تنظیمیں، ماتمی سنگتیں، مقامی ذاکرین ایک پلیٹ فارم پر اکھٹے تھے، چنانچہ اس احتجاجی مظاہرے و دھرنے کا اختتام پرامن طور پر بطریق احسن ہوتا تو نہ صرف ڈی آئی خان میں بلکہ پاکستان میں ایک مثال روش بن جاتی، جو کہ حکومت اور اداروں کیلئے کسی طور قابل قبول نہیں تھی۔

یہ بھی حقیقت ہے کہ اس احتجاج کے غیر متنازعہ انجام کے بعد ڈیرہ میں کسی شہید کا جنازہ خاموشی یا گمنامی کا شکار نہ ہوتا۔ عینی شاہدین کے مطابق سادہ کپڑوں میں ملبوس وہ اہلکار جو کہ پہلے انتہائی دور دور تھے، اختتامی اعلان سے پہلے سٹیج کے بالکل سامنے آگئے تھے۔ چند تصاویر میں وہ چہرے نمایاں ہیں۔ ابھی مذاکرات کا دوسرا سیشن جاری تھا کہ فریش کاٹن کے سوٹ زیب تن کئے، پرفیوم لگائے، پاؤں میں پشاوری و چارسدہ کی چپلیں پہنے ہوئے دو، دو تین تین افراد پر مشتمل گروپ احتجاجی مظاہرے میں داخل ہوئے، ان میں سے ایک گروپ خواتین کی پچھلی طرف موجود رہا۔ علامہ محمد رمضان نے جب احتجاج کے اختتام کا اعلان کیا تو اس سے پہلے انہوں نے واضح الفاظ میں کہا کہ یہ میرا فیصلہ نہیں ہے بلکہ نمائندہ کمیٹی کا مشترکہ فیصلہ ہے، جبکہ میں اس کا اعلان ترجمان کی حیثیت سے کر رہا ہوں۔ واضح رہے کہ شہید کے والد اور بھائی بھی اس دوران سٹیج پر موجود تھے۔ اعلان کے بعد سب سے پہلے جن افراد نے نامنظور کے نعرے لگائے، وہ مقامی نہیں تھے۔ اس کے بعد سٹیج پر جوتا پھینکے جانے کے بعد جب لوگ سٹیج کی جانب بڑھے تو ان کا راستہ روکنے کیلئے مقامی اور حاجی مورہ سے تعلق رکھنے والے نوجوان آگے بڑھے اور سٹیج کے دفاع کی کوشش کی، مگر اس دوران خواتین کی پچھلی طرف موجود نامعلوم افراد کے گروہ نے سائیڈ سے سٹیج اور خواتین پر دھاوا بول دیا۔ حملہ آور گروپ نے علامہ رمضان توقیر کو  شدید زدوکوب کیا۔

شیعہ علماء کونسل اور جامعۃ النجف سے تعلق رکھنے والے تمام افراد جامعۃ النجف میں چلے گئے اور دروازوں کو بند کر لیا۔ ایم ڈبلیو ایم سے تعلق رکھنے والے افراد کیمپ میں موجود رہے، جبکہ چاہ سید منور سے تعلق والے پارکنگ ایریا میں موٹر سائیکل پر بیٹھے رہے۔ ڈیوالہ، حاجی مورہ، سٹی، مریالی سے تعلق رکھنے والے اہل تشیع اور شہید کے خانوادے نے نماز جنازہ ادا کرکے شہید سید شاہد شیرازی کی تدفین کی۔ تدفین کے بعد شہید کے والد سید مشتاق شاہ شیرازی اپنے دوست پی آئی ڈی کے سابق ڈائریکٹر کے ساتھ حسرت و یاس کی تصویر بنے تنہا دیکھائی دیئے۔ اس تمام تر سانحہ کے بعد سوشل میڈیا پر پہلے یہ مہم چلائی گئی کہ علامہ رمضان توقیر نے ٹیکنیکل کالج کی مد میں ایک کروڑ پینسٹھ لاکھ روپے حکومت سے لئے ہیں، اس لئے انہوں نے یہ دھرنا ختم کرایا۔ دوسری جانب سے یہ الزام ہے کہ چونکہ ایم ڈبلیو ایم کی وہ ضلعی لیڈر شپ جس کا تعلق چاہ سید منور سے ہے، پہلے پی ٹی آئی کے ساتھ تھی اور اب مولانا کیساتھ ہے، لہذا اس نے جے یو آئی کے قائد کی ایما پر یہ مطالبہ کیا کہ صوبائی وزیر مال علی امین خان عہدے سے مستعفی ہو، حالانکہ اس مطالبے کی توثیق نہ کمیٹی نے کی تھی اور نہ ہی شہید کی فیملی نے۔

الزامات کا یہ سلسلہ سوشل میڈیا پر زور شور سے جاری ہے، مگر حقیقت یہ ہے کہ اس کامیاب پرامن احتجاج اور مثالی احتجاج کا ثمر اس ایک واقعہ سے مکمل طور پر نہ صرف ضائع ہوگیا ہے بلکہ رہبریت سے متمسک ملی تنظیموں کی بدنامی کا باعث بنا ہے۔ شہید شاہد شیرازی ڈیرہ کی تاریخ کا شائد پہلا ایسا شہید تھا کہ جس کا جنازہ دن بھر کی شدید گرمی میں پرہجوم مظاہرین کے درمیان اتحاد و وحدت کی علامت بنا رہا اور نماز جنازہ ادا کرنے کیلئے اس ہجوم میں سے محض چند لوگ نکلے، ڈی آئی خان کے تشیع کی کامیابی ایک واقعہ سے ایم ڈبلیو ایم، آئی ایس او اور ایس یو سی کی ناکامی میں تبدیل ہوئی ہے، سوشل میڈیا پر جاری جنگ بتا رہی ہے کہ اس ناکامی سے ہم نے یہی سیکھا ہے کہ ہم نے کچھ نہیں سیکھا۔
خبر کا کوڈ : 551673
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

syeda zahra
Satellite Provider
Iss sari mehnat ko nakam bnany waly alama ramzan touqeer hain. Logoun ka radd e amal yaqeeni tha. Log ramzan toqeer ki out ptang policiyoun sy tang hain.
Iran, Islamic Republic of
عزیز علامه توقیر صاحب سے لوگ تنگ نهیں بلکه ایک خاص قسم کی فکر اور شدت پسند قسم کے لوگ شاید تنگ هوں کیونکه علامه صاحب قیادت کے حامی هیں
ہماری پیشکش