0
Tuesday 1 Mar 2011 13:20

مصر اور عرب دنیا کا مستقبل

مصر اور عرب دنیا کا مستقبل

تحریر: پروفیسر حمید مولانا
ایک ماہ سے کم عرصے میں مصر اور تیونس میں امریکہ اور مغربی دنیا کے حمایت یافتہ دو آمر حکمرانوں کا تختہ الٹ چکا ہے۔ تیونس میں صدر زین العابدین بن علی کے خلاف عوامی انقلاب اور اسکے ملک سے فرار ہو جانے کے بعد مصر کے صدر حسنی مبارک بھی اسی سرانجام سے دوچار ہو گئے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ مصر میں حسنی مبارک کی سرنگونی اسی دن واقع ہوئی جس دن ایران میں اسلامی انقلاب کو فتح نصیب ہوئی تھی۔ مصری عوام نے 18 دنوں میں ہی اپنے مظاہروں اور احتجاج کے ذریعے صدر حسنی مبارک کو ملک سے نکال باہر کیا۔
امریکہ اور مغربی ممالک کی جانب سے آمرانہ حکومتوں کی حمایت اور انکا عوامی احتجاج اور مظاہروں کے نتیجے میں سرنگون ہو جانے کی تاریخ کافی طولانی ہے جو مختلف ممالک میں امریکی پالیسیوں کی ناکامی کو ظاہر کرتی ہے۔ ایسی حکومتوں کی فہرست پر ایک مختصر نظر دوڑانا جو سالہای سال امریکہ کی مالی، سیاسی اور فوجی حمایت سے برخوردار رہیں اور عوامی احتجاج کے نتیجے میں ساقط ہو گئیں باعث عبرت ہے۔ مصر میں حسنی مبارک اور انور سادات، انڈونیشیا میں سوہارتو، چلی میں جنرل پینوشہ، ایران میں محمد رضا پہلوی، پاکستان میں جنرل پرویز مشرف اور جنرل ضیاءالحق، کونگو میں موبوٹو سسکو، فلپائن میں مارکوس، ہائٹی میں ڈوالیہ اور دوسری عالمی جنگ سے آج تک دنیا کے مختلف براعظموں میں دسیوں دوسری حکومتیں۔
حقیقت یہ ہے کہ فوجی، آمرانہ اور بیرونی قوتوں کی نوکر اور پٹھو حکومتیں سب سے

بڑھ کر مشروعیت اور جواز کے بحران سے روبرو ہیں۔ عوام، غیر جمہوری حکومتوں اور مغربی طاقتوں کے درمیان عدم اعتماد کا ایک عظیم خلیج اور فاصلہ پیدا ہو چکا ہے۔ مغربی راہنماوں اور سیاسی ماہرین اور انکی تمام نوکر حکومتوں میں شدید بوکھلاہٹ دیکھنے میں آ رہی ہے اور ظلم و ستم، ناانصافی اور تسلط پسندی کی بنیادیں ہل کر رہ گئی ہیں۔
چند ماہ قبل جب قاہرہ کے التحریر چوک میں صدر حسنی مبارک کے خلاف عوامی مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوا تو تل ابیب کے ایک ریٹائرڈ اسرائیلی افسر نے نیویارک ٹائمز کے کالم نگار تھامس فریڈمین کو کہا: "ہم نے گذشتہ 30 برس میں جتنی منصوبہ بندی کی ہے اب بیکار ہو چکی ہے، وہ چیز جو ہماری دنیا کو گھما پھرا رہی تھی اب ہمارے ہاتھ سے نکل چکی ہے"۔ (نیویارک ٹائمز، 3 فروری 2011)۔
مصر میں انجام پانے والی سیاسی تبدیلیوں نے نیویارک ٹائمز کے مستقل کالم نگار اور امریکی ریزرویٹو گروپ کے حامی ڈیوڈ بروکس کو مجبور کر دیا کہ وہ خارجہ پالیسی میں "احترام اور عزت نفس" کی بات کرے: "ہم نے مصر میں انجام پانے والی حالیہ تبدیلیوں سے جو سبق حاصل کیا ہے وہ یہ ہے کہ امریکہ عام طور پر ہر میدان میں غلط طور پر عمل پیرا ہے"۔ (نیویارک ٹائمز، 2 فروری 2011)۔
گذشتہ چند دہائیوں میں مصری عوام کے مطالبات انتہائی واضح اور جائز رہے ہیں۔ اپنے سیاسی نظام اور مستقبل کو تعیین کرنے میں آزادی، فوجی آمرانہ حکومت سے رہائی، ملکی امور میں خودمختاری، تمام اسلامی اور ہمسایہ ممالک
کے ساتھ تعاون اور ہمکاری، مقبوضہ فلسطین کی آزادی، بیرونی قوتوں کے اثر و رسوخ کا خاتمہ، معاشرتی عدالت، معاشی ترقی، حقیقی اور مقامی جمہوریت اور ملکی اور بین الاقوامی سطح پر قومی سلامتی کا حصول۔ لیکن واشنگٹن کی جانب سے مصر میں حکمفرما سیاسی نظام کی حمایت ہمیشہ ان مطالبات کے پورا ہونے میں رکاوٹ رہی ہے۔ بہتر ہے اس غلط پالیسی کو خود امریکی حکام، سیاسی ماہرین اور میڈیا کی زبانی سنا جائے۔
حسنی مبارک کے مستعفی ہونے سے قبل امریکی وزیر دفاع رابرٹ گیٹس نے اپنے انٹرویوز اور کانگریس میں تقاریر کے دوران کئی بار واضح طور پر مصری جرنیلوں، افسروں اور فوج کے امریکہ کے ساتھ تعاون اور ہمکاری کی جانب اشارہ کیا ہے اور کہا ہے کہ امریکہ مصری فوج کے عہدیداروں کے ساتھ مکمل رابطے میں ہے اور انکی کارکردگی سے مطمئن ہے۔
بوسٹن گلوب کے کالم نگار ایچ ڈی ایس گرین وے "مصر کی موت اور نئی زندگی کا وقت" کے عنوان سے اپنے مقالے میں لکھتا ہے کہ "امریکہ اس وقت تک جمہوریت کا خواہاں ہے جب تک انتخابات کے نتائج اسکے حق میں ہوں۔۔۔۔۔۔امریکہ کو چاہئے کہ وہ آج کے زمانے میں زندگی گزارے نہ اپنی دلخواہ خیالی دنیا میں"۔ (انٹرنیشنل ہرالڈ ٹرائبیون، 5 اور 6 فروری 2011)۔
ری ٹاکی امریکہ کی خارجہ تعلقات کونسل کا اعلی رکن اور سابق مشیر امور خارجہ مصر اور جمہوریت کے بارے میں کہتا ہے: "ممکن ہے جمہوریت مشرق وسطی میں سیاسی پائداری اور اقتصادی ترقی کا باعث بنے لیکن اس خطے کو امریکی مفادات
کے خلاف متحد کر دے گی"۔ (نیویارک ٹائمز، 5 فروری 2011)۔
مصر کے اقتدار پسند صدر حسنی مبارک سیاسی میدان سے باہر نکل چکے ہیں لیکن وہ سیاسی نظام جو انہیں برسر اقتدار لایا تھا اور انکا حامی تھا ابھی تک ملک میں موجود ہے۔ اب مصری عوام کے سامنے سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ وہ کس طرح اس کینسر کے پھوڑے کا خاتمہ کرتے ہیں اور اپنے ملک میں ایک ایسا خودمختار اور آزاد سیاسی نظام لاتے ہیں جو حقیقی اور مقامی جمہوریت کا شاخصہ اور بیگانی قوتوں کے اثر و رسوخ سے عاری ہو۔ یہ کام آسان نہیں لیکن ممکن ہے۔
"فرعون مصر کی سرنگونی"، "فرشتہ آزادی کا ظہور"، "مصر کا جمہوریت کی جانب سفر" اس وقت حقیقی معنا پیدا کرے گا جب خود مصری عوام مکمل آزادی اور خودمختاری کے ساتھ ملک میں اپنا پسندیدہ سیاسی نظام لانے کے قابل ہو جائیں گے۔ حسنی مبارک کے استعفے اور صدارت سے برکناری پر عرب دنیا میں مختلف قسم کے ردعمل دیکھنے میں آئے۔
شاید جکارتا پوسٹ کی پہلے صفحے پر یہ سرخی کہ "مصری امیدوار ہیں لیکن مبہم مستقبل سے روبرو ہیں" حقیقت سے زیادہ دور نہیں ہے۔ ایسا دکھائی دے رہا ہے کہ تمام وہ قوتیں جو گذشتہ 30 سال کے دوران حسنی مبارک کی حمایت کرتی آئی ہیں آج سخت شرمندہ ہیں اور اس کوشش میں مصروف ہیں کہ مصر میں برپا ہونے والے عوامی انقلاب کو ہائی جیک کریں اور پروپیگنڈے کی مدد سے ملک میں بنیادی تبدیلیاں آنے سے روکیں۔ لیکن یہ مصری عوام ہیں جنہیں تاریخ کی آواز پر لبیک کہنا چاہئے۔

خبر کا کوڈ : 55271
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

متعلقہ خبر
ہماری پیشکش