0
Sunday 17 Jul 2016 22:56

ترکی میں فوجی بغاوت تاریخ کے آئینے میں

ترکی میں فوجی بغاوت تاریخ کے آئینے میں
خصوصی رپورٹ
 
ترکی کی فوج کو دنیا کی مضبوط افواج میں شمار کیا جاتا ہے، جو ملکی سیاست میں بھی اثرورسوخ رکھتی ہے لیکن ترکی میں فوجی بغاوت کوئی پہلا واقعہ نہیں کیونکہ اس سے پہلے بھی متعدد بار حکومتوں کا تختہ الٹنے کی کوشش کی گئی۔ ترکی کی فوج خود کو ان آئیڈیاز کا محافظ سمجھتی ہے جو کمال اتاترک نے ماڈرن ترکی بنانے کے لیے نافذ کیے تھے۔ گزشتہ 50 سال میں ترک فوج نے 3 بڑی بغاوتیں کیں، جس کے نتیجے میں ہزاروں افراد جاں بحق ہوئے اور ملک کو کئی بار سیاسی بحران کا سامنا کرنا پڑا۔ 1960 اس وقت کے وزیراعظم عدنان میندیرس اور صدرسیلال بیئر کی حکومت میں مخالف پارٹیوں اور فوج میں سیاسی تناؤ بڑھنے پر ملک میں مارشل لاء لگا دیا گیا اور حکومت کا تختہ الٹ کر وزیراعظم سمیت کابینہ کے کئی اراکین کو حراست میں لے لیا گیا جب کہ وزیراعظم عدنان میندیرس کو ملٹری کورٹ سے سزائے موت کا حکم ہونے پر پھانسی دے دی گئی۔

1970 میں بھی سیاسی بحران کے شدت اختیار کرنے کے بعد اس وقت کے وزیراعظم سلیمان دی میرل کو استعفیٰ دینا پڑا اور ترکی میں عبوری حکومت قائم کردی گئی۔ 70 کی دہائی میں بھی ترکی کو سیاسی بحران کا سامنا رہا، جس کی وجہ سے ہزاروں افراد جاں بحق اور 11 وزیراعظم تبدیل ہوئے۔ ستمبر 1980 میں ملک میں مارشل لاء لگا دیا گیا اور اس مارشل لاء کے بعد ملک کے سیاسی بحران کی شدت میں کمی آئی لیکن ہزاروں افراد کو تختہ دار پر لٹکایا گیا۔ 1997 میں اسلامک ویلفیئر پارٹی نے اقتدار سنبھالا تو اسی سال فوج نے حکومت کو پالیسی گائیڈ لائن دی، جسے اگلے ہی سال نافذ کردیا گیا۔ اس گائیڈ لائن کے تحت جامعات میں سر پر اسکارف لینے پر پابندی اور 8 سالہ تعلیمی پروگرام شامل تھا تاکہ کم عمر نوجوان مذہبی اسکولوں میں داخلہ نہ لیں سکیں جس کے بعد وزیراعظم نے استعفیٰ دے دیا اور ان پر 5 سال تک سیاست کرنے پر پابندی لگا دی گئی۔

ترکی میں ابھی تک حالات مکمل طور پر معمول پر نہیں آسکے ہیں، ایک تلاطم ہے، ناکام فوجی بغاوت کے بعد کریک ڈاؤن کا سلسلہ بھی جاری و ساری ہے، مجموعی طور پر ساڑھے 45 ہزار سے زائد فوجیوں، پولیس اہلکاروں، ججوں اور دیگر سرکاری ملازمین کو اپنے عہدوں سے برطرفیوں، معطلیوں اور تحقیقات کا سامنا ہے، جب کہ امریکا میں مقیم مبلغ فتح اللہ گولن کی حوالگی کا معاملہ بھی زور پر ہے۔ صورتحال روز بروز خاصی گمبھیر ہوتی جا رہی ہے۔ اس ضمن میں متضاد موقف بھی سامنے آرہے ہیں۔ پہلا موقف تو ترک صدر رجب طیب اردگان کا ہے، ان کے مطابق ترکی ایک جمہوری ریاست ہے جہاں قانون کی بالادستی ہے، اگر عوام یہ مطالبہ کرتے ہیں اور پارلیمان اس قانون سازی کی منظوری دے دیتی ہے تو وہ سزائے موت بحال کرنے کے لیے تیار ہیں۔ سزائے موت کی بحالی کے حوالے سے یورپی یونین نے اپنے ردعمل میں کہا ہے کہ اگر ترکی نے ایسا کوئی اقدام کیا تو اسے یورپی یونین میں شامل نہیں کیا جائے گا۔

دوسری جانب ترک فوج کے ترجمان نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ جن فوجی اہلکاروں نے بغاوت کی تھی ان کی تعداد انتہائی کم تھی اور فوج کی اکثریت عوام کے شانہ بشانہ کھڑی رہی ہے، کیونکہ ہم اپنے عوام سے محبت کرتے ہیں۔ قوم اور قومی پرچم کا احترام ہمارے فرائض میں شامل ہے، جب کہ ترک وزیراعظم بن علی یلدرم نے متنبہ کیا ہے کہ ملک میں قانون کی حکمرانی کو یقینی بنانے کے لیے ناکام بغاوت کے بعد کسی کو بھی انتقامی کارروائی نہیں کرنے دی جائے گی۔ فوجی بغاوت ناکام ہونا خوش آئند امر ہے، فوج اور جمہوریت پسند قوتوں کا موقف بھی درست ہے لیکن فوجی بغاوت کے بعد کیے جانے والے اقدامات سے دنیا مطمئن نظر نہیں آرہی۔ اتنے بڑے پیمانے پر سرکاری اور نجی شعبوں سے شک کی بنیاد پر برطرفیاں بھی ایک مزید بغاوت کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتی ہیں۔
خبر کا کوڈ : 553453
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش