0
Sunday 17 Jul 2016 23:50

مقبوضہ کشمیر کا جوان اور پاکستان

مقبوضہ کشمیر کا جوان اور پاکستان
تحریر: سید اسد عباس

ریاست جموں کشمیر کی حیثیت کا مسئلہ قریباً سات دہائیوں سے اقوام عالم کی توجہ کا منتظر ہے۔ برصغیر کی تقسیم کے وقت خطے میں موجود ریاستوں کو اختیار دیا گیا کہ وہ جس ملک سے چاہیں الحاق کریں، اگر اپنی جداگانہ حیثیت کو برقرار رکھنا چاہیں تو وہ ایسا بھی کر سکتی ہیں۔ ریاست کشمیر جو کہ موجودہ جموں کشمیر، آزاد کشمیر اور شمالی علاقہ جات پر مشتمل تھا، کے مہاراجہ نے علاقے میں موجود مسلم اکثریت کے سبب فیصلہ کیا کہ وہ کسی بھی ملک سے الحاق نہیں کرے گا، تاہم کچھ عرصے بعد ریاست کے وزیر اعظم رام چندر کاک کو معزول کر دیا گیا۔ معزول وزیراعظم کشمیر کی آزاد حیثت کا سب سے بڑا داعی تھا۔ اس اقدام نے مسلمانان پاکستان اور ریاست کشمیر کے باسیوں کو تشویش میں مبتلا کر دیا۔ ستمبر، اکتوبر 1947ء میں ڈوگرہ حکمرانوں نے جموں ڈویژن میں مسلمانوں کے قتل عام کا سلسلہ شروع کیا۔ اس قتل عام میں ڈوگرہ افواج، راشٹریا سوایم سیوک سنگھ اور مقامی ہندووں نے شرکت کی۔ برطانوی کمیشن کے مطابق ان فسادات میں قریباً ستر ہزار کشمیری مسلمان شہید ہوئے، جبکہ آزاد کشمیر حکومت کے اعداد و شمار کے مطابق قریباً دو لاکھ مسلمان شہید اور چار لاکھ مسلمانوں نے پاکستان کی جانب ہجرت کی۔ اس قتال کے خلاف پونچھ اور مغربی ریاست کے حصوں میں سردار ابراھیم کی قیادت میں بغاوت کا آغاز ہوا۔ 22 اکتوبر تک سردار ابراھیم نے مغربی ریاست کے اکثر حصے پر کنٹرول کر لیا اور پلندری میں آزاد کشمیر کی عبوری حکومت قائم کر دی گئی۔

کشمیر کے مہاراجہ نے 26 اکتوبر 1947ء کو ہندوستان کے ساتھ ایک معاہدہ کیا اور ریاست کا ہندوستان سے الحاق کر دیا، جس کی اگلے ہی روز ہندوستانی گورنر جنرل نے توثیق کر دی۔ نیشنل کانفرنس جس کی قیادت شیخ عبداللہ کر رہے تھے، نے اس الحاق کو قبول کیا اور ہندوستانی افواج کی کشمیر میں آمد کی تائید کی۔27 اکتوبر 1947ء کو ہندوستانی افواج سری نگر ایئرپورٹ پر اتریں۔ گلگت ایجنسی جو برطانیہ کے پاس لیز پر تھی آزادی سے قبل کشمیر کے مہاراجہ کے سپرد کر دی گئی۔ یہاں کی آبادی بھی ہندوستان کے ساتھ الحاق نہیں چاہتی تھی۔ نومبر 1947ء میں گلگت سکاوٹس نے مہاراجہ کی حکومت کے خلافت بغاوت کی اور 16 نومبر 1947ء میں گلگت میں مقامی حکومت کا قیام عمل میں لایا گیا۔ دسمبر 1947ء میں جواہر لال نہرو نے وزیراعظم پاکستان لیاقت علی خان کو بتایا کہ ہم کشمیر کا مسئلہ اقوام متحدہ کے فورم پر لے جانا چاہتے ہیں۔ قائداعظم محمد علی جناح ڈوگرہ راج کی موجودگی میں کشمیر میں کسی بھی قسم کی رائے شماری کے قائل نہ تھے۔ ان کا خیال تھا کہ بھارتی افواج کی موجودگی میں منصفانہ رائے شماری کی توقع نہیں کی جاسکتی۔

اس دوران میں وادی کشمیر میں بھارتی اور پاکستانی افواج کے مابین جنگ کا آغاز ہوگیا۔ 21 اپریل 1948ء کو اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل نے ایک قرارداد منظور کی، جس میں فریقین سے فوری جنگ بندی کا کہا گیا، نیز اس قرارداد میں پاکستان سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ اپنی افواج اور قبائلی لشکروں کو جو کشمیر کے شہری نہیں ہیں، وادی سے نکال لے، جبکہ بھارت سے کہا گیا کہ وہ اپنی افواج کو کم سے کم سطح پر لائے، تاکہ ریاست میں رائے شماری کروائی جا سکے۔ اس قرارداد کے ذریعے ریاست کشمیر کے الحاق کے مسئلہ کو کشمیری عوام کی رائے شماری کے ذریعے حل کرنے کا کہا گیا۔ دونوں اطراف سے فوج کی بے دخلی کا عمل مکمل نہ ہو سکا۔ اقوام متحدہ کے مندوبین نے وادی کے متعدد دورے کئے اور قابل عمل حل دینے کی کوشش کی، جس کے مطابق پہلے مرحلے میں پاکستانی افواج اور قبائل وادی چھوڑیں، دوسرے مرحلے میں ہندوستانی افواج کی تعداد کو کم کیا جائے اور تیسرے مرحلے میں رائے شماری ہو۔ ساٹھ کی دہائی میں ہندوستان نے اپنا موقف بدل لیا اور رائے شماری کا منکر ہوگیا، 1951ء میں بننے والی جموں اسمبلی کی جانب سے الحاق کی توثیق کو دلیل قرار دیتے ہوئے رائے شماری کی ضرورت سے انکار کر دیا گیا۔

47ء سے 2016ء تک جموں کشمیر کی تحریک آزادی مختلف مراحل سے گزری، کبھی ریاست میں مسلح جدوجہد کا آغاز ہوا تو کبھی پرامن سیاسی تحرک۔ ہر دو ریاستیں یعنی پاکستان اور بھارت اس علاقے پر اپنے حق کو جتانے کے لئے جواز رکھتی ہیں۔ پاکستان کا کہنا ہے کہ اقوام متحدہ کی قرارداد کی روشنی میں ریاست میں رائے شماری کروائی جانی چاہیے۔ ہندوستان جو پہلے پہل رائے شماری کا قائل رہا، اب جموں و کشمیر کے الحاق کو قانونی کہتا ہے اور ریاست میں ہونے والے مختلف انتخابات اور ان کے نتیجے میں قائم ہونے والی مختلف حکومتوں کی جانب سے الحاق کی توثیق کو دلیل کے طور پر پیش کرتا ہے۔ جہاں تک کشمیری عوام کا تعلق ہے تو یقیناً وہ تقسیم ہیں۔ کشمیری مسلمانوں کا ایک بڑا طبقہ پاکستان سے الحاق کا حامی ہے اور اس کے لیے نسلوں سے جدوجہد کر رہا ہے، تاہم ایک طبقہ ایسا بھی ہے جو ریاست کی آزادی یا بھارت سے الحاق پر خوش ہے۔ اگر ریاست کے عوام ایک موقف کے حامل ہوں تو بھارتی افواج کے لئے ریاست میں ایک دن بھی رکنا ممکن نہیں ہے۔

مسئلہ انتہائی گھمبیر اور پیچیدہ ہے۔ جموں کشمیر سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے مطابق بھارت مسلسل کشمیر میں حریت پسند جذبات کو کچلنے کے لئے سرگرم عمل ہے۔ ریاستی دہشت گردی جبر و تشدد سے لے کر، آبادی کے تناسب میں تبدیلی، تعلیمی و ثقافتی میدان میں اوچھے ہتھکنڈوں، کشمیر کے اعلٰی تعلیم یافتہ نوجوانوں کا برین ڈرین اور انہیں تحریک آزادی سے منحرف کرنے کی کوششیں، مقبوضہ وادی کے مسائل کو بدستور قائم رکھ کر لوگوں کو نان و نفقہ کی فکر میں مشغول کرنا اور اس قبیل کے اقدامات عام ہیں۔ پاکستان سے الحاق کی خواہش رکھنے والے مقبوضہ وادی کے عوام کا ایک اہم مسئلہ قیادت کا فقدان یا اس پر عدم اعتماد بھی ہے، گذشتہ دنوں ایک کشمیری نوجوان کا کالم نظر سے گزرا، جس میں نوجوان لکھاری وانی لکھتا ہے کہ ہمارے بڑے حریت پسند راہنما کشمیری نوجوانوں کو تو آزادی کا درس دیتے ہیں، تاہم ہندوستان کی جانب سے دی گئی سہولیات سے بھی پوری طرح مستفید ہیں۔ ان کی اولادیں ملک سے باہر تعلیم حاصل کر رہی ہیں۔ خود ان کا علاج ہندوستان کے بہترین ہسپتالوں میں کروایا جاتا ہے۔ نان و نفقہ سے محروم کشمیری عوام کیسے ان قائدین پر اعتماد کرے، جو کچھ نہ کرنے کے باوجود شان و شوکت سے زندگیاں گزار رہے ہیں۔

دوسری جانب برہان مظفر وانی جیسے نوجوان ہیں، جو آزادی اور الحاق پاکستان کو اپنی زندگی کا ہدف و مقصد سمجھتے ہیں۔ یہ نوجوان اپنی جانیں سبز ہلالی پرچم پر نچھاور کر رہے ہیں۔ ان کا خواب پاک سرزمین ہے، جو ان کی رگوں میں خون بن کر دوڑتا ہے۔ مشترکہ دین، ثقافت، تہذیب، اقدار کا رشتہ ان جوانوں کو اپنے سحر میں مبتلا کئے ہوئے ہے۔ مقبوضہ وادی کی قانونی حیثیت، وہاں بھارتی افواج کا تسلط، جبر، ظلم اور بربریت، قیادت کا فقدان، بے روزگاری، نان و نفقہ کے مسائل ان نوجوانوں کے سامنے اس وقت ہیچ ہو جاتے ہیں، جب ان کے ذہن میں یہ تصور آتا ہے کہ ہماری قربانی اپنی ثقافت، تہذیب اور اقدار کے لئے ہے۔ ہمارا لہو پاکستان سے محبت میں بہایا جائے گا۔ پاکستان ان جوانوں کا جنوں ہے۔
خبر کا کوڈ : 553464
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش