0
Thursday 21 Jul 2016 15:30

ترکی، جمہوریت کے کرشمات

ترکی، جمہوریت کے کرشمات
تحریر: ثاقب اکبر

ترکی میں ناکام جزوی فوجی بغاوت کے بعد مختلف طرح کے تبصروں اور خبروں کی گرم بازاری ہے۔ کوئی ترک صدر کی ہوش مندی اور جرأت مندی کو خراج تحسین پیش کر رہا ہے اور کوئی عوام کی جمہوریت دوستی کے مظاہروں کو ستائش پیش کر رہا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ترک فوج کے ایک حصے کی غیر منظم فوجی بغاوت چند گھنٹوں میں ناکام ہوگئی اور اس کے لئے ترکی کی منتخب حکومت اور خاص طور پر ترکی کے صدر رجب طیب اردگان کے بروقت، جرأت مندانہ اور قائدانہ اقدامات نے پوری دنیا کے عوام سے بجا طور پر خراج تحسین وصول کیا ہے، لیکن دوسری طرف اس کامیابی کے بعد وہ جس طرح کے اقدامات کر رہے ہیں، انھیں ’’انتقامی‘‘ قرار دیا جا رہا ہے۔ یہاں تک کہ ان کے خیر خواہ بھی انسانی حقوق کے عنوان سے ان پر تنقید کر رہے ہیں۔ پاکستان کا میڈیا جو عام طور پر ترکی کی حکومت کے ساتھ اسی طرح سے محبت اور دوستی کا اظہار کرتا ہے، جیسے چین کی حکومت کے ساتھ، پھر بھی ترکی سے موصول ہونے والی خبروں کے پیش نظر وہ ’’سب اچھا ہے‘‘ کو قبول کرنے کے لئے تیار نہیں۔ آیئے پہلے چند خبروں پر نظر ڈالتے ہیں:

روزنامہ جنگ راولپنڈی اپنی 20 جولائی 2016ء کی اشاعت میں لکھتا ہے:
’’ترکی کے سرکاری ذرائع ابلاغ کے مطابق اعلٰی تعلیم کے ادارے نے یونیورسٹیوں کے 15 سو سے زائد ڈینز کو مستعفی ہونے کا حکم دیا ہے، ترک محکمہ تعلیم کے مطابق نجی اداروں میں کام کرنے والے 21 ہزار اساتذہ کے لائسنس منسوخ کر دیئے گئے ہیں، ترک حکام نے فتح اللہ گولن سے تعلق رکھنے والے 24 ٹی وی چینلز اور ریڈیو اسٹیشن بھی بند کر دیئے ہیں، ترکی میں فوجی بغاوت کے بعد سے فوج، پولیس، ججوں، سرکاری ملازمین اور اساتذہ سمیت 50 ہزار افراد کے خلاف کارروائی کی گئی ہے، جنھیں گرفتار یا نوکریوں سے معطل کیا جا چکا ہے، ترک صدر رجب طیب اردگان نے کہا ہے کہ وہ باغیوں کو سزائے موت دینے کو تیار ہیں، عوامی مطالبہ نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ہے۔"

روزنامہ نوائے وقت راولپنڈی اپنی 21 جولائی 2016ء کی اشاعت میں لکھتا ہے:
’’انقرہ (نیٹ نیوز 228 ایجنسیاں) ترک حکام نے حکومت کے خلاف بغاوت کی ناکام کوشش کے الزام میں گرفتار کئے گئے 99 جرنیلوں کے خلاف باقاعدہ فرد جرم عائد کر دی ہے۔ ترک حکام کے مطابق ملک بھر سے ماہرین تعلیم اور دانشوروں کے بیرون ملک جانے پر عارضی طور پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ صدر رجب طیب اردگان آج قومی سلامتی کونسل کے ہنگامی اجلاس میں ملک میں استحکام لانے کے منصوبے بھی پیش کر رہے ہیں۔ ترکی کے محکمہ مذہبی امور نے باغیوں کی نماز جنازہ ادا کرنے پر پابندی عائد کر دی ہے۔ سعودی اخبار ’’مکہ‘‘ کی رپورٹ کے مطابق ترک محکمہ مذہبی امور کی طرف سے جاری بیان میں واضح کیا گیا ہے کہ منتخب حکومت کا تختہ الٹنے کی سازش کے دوران ہلاک ہونے والے باغیوں کی نماز جنازہ ادا کی جائے نہ ہی نماز جنازہ اور تدوفین میں شرکت کی جائے۔"

عالمی نیوز ایجنسیاں اور ترک آزاد ذرائع بھی مندرجہ بالا اعداد و شمار کی تائید کر رہے ہیں۔ اس سلسلے میں مندرجہ ذیل خبر پر نظر ڈالی جا سکتی ہے:
What are government critics saying?
Many critics are asking how so many government employees or appointees could have been involved in a coup without the government getting wind of it. They say Erdogan is using the attempted coup as a way to justify getting rid of his opponents.
Some 15,200 people have been fired from the education ministry and 257 were fired from the prime minister's office. Judges and prosecutors have been fired and detained, 1,577 deans of private and public universities were asked to resign, 1,500 people from the finance ministry were dismissed, 877 people from the interior ministry, 100 from the intelligence agency.
And the list goes on. Some local media outlets put the numbers of those dismissed or detained at some 50,000 people.
http://www.npr.org/sections/parallels/2016/07/19/486624842/turkeys-post-coup-attempt-purge-widens-as-arrests-and-firings-grow

اس میں بیان کی گئی بیشتر اطلاعات پاکستان کے قومی اخبارات کے حوالے سے مندرجہ بالا دو پیروں میں آپ ملاحظہ کرچکے ہیں۔ اس میں مزید بتایا گیا ہے کہ وزیراعظم کے دفتر سے بھی 257 اہلکاروں کو نکالا جا چکا ہے۔ وزارت داخلہ سے 877 افراد کو ملازمت سے برطرف کر دیا گیا ہے۔ انٹیلی جنس ایجنسی سے 100 افراد نکل چکے ہیں۔ اس رپورٹ کے مطابق یہ سلسلہ آگے بڑھتا چلا جارہا ہے۔ پاکستان کے قومی اخبارات یہ خبر بھی دے چکے ہیں کہ ترک عدلیہ سے بھی تقریباً 2700 ججز فارغ کیے جا چکے ہیں۔ ترکی کے حوالے سے اس سے قبل مختلف ایسی خبروں پر پاکستان میں کم ہی اظہار خیال کیا گیا ہے، جن کے مطابق داعش اور دیگر دہشت گرد تنظیموں کے ساتھ موجودہ ترک حکومت کے قریبی تعلقات رہے ہیں۔ ترکی کی اپوزیشن کے علاوہ بہت سے عالمی مبصرین اور حکومتیں دہشت گردی کے حوالے سے ترکی کے کردار کو ہدف تنقید بناتی رہی ہیں۔ فتح اللہ گولن جو اس وقت امریکا میں قیام پذیر ہیں، کی مذہبی اور سماجی تحریک پر ترکی کی موجودہ حکومت پہلے بھی تنقید کرتی رہی ہے، لیکن ان دنوں یہ تنقید خاصی بڑھ گئی ہے۔ ہمارے بعض تجزیہ نگاروں نے اس پہلو کا بھی جائزہ لیا ہے۔

ہم اپنے چند نامور تجزیہ کاروں کی آراء کا خلاصہ ذیل میں اپنے قارئین کی خدمت میں پیش کرتے ہیں، جنھوں نے نہ فقط تازہ ترین حالات پر تبصرہ کیا ہے بلکہ ایسی دوستانہ اور ماہرانہ تجاویز بھی دی ہیں، جنھیں اگر ترکی اپنی خارجہ اور داخلہ پالیسیوں میں ملحوظ نظر رکھ لے تو وہ داخلی استحکام کے علاوہ عالمی سطح پر بھی مزید بہتر پوزیشن میں آسکتا ہے اور عالم اسلام میں بھی بھی اپنے وقار میں اضافہ کرسکتا ہے اور ہم ایک مسلمان پاکستانی کی حیثیت سے یہی چاہتے ہیں۔ ہم نے ان افکار کو اس لئے پیش کیا ہے، تاکہ ہمارے قارئین ترکی کے بارے میں رائے قائم کرتے ہوئے دونوں طرف کے پہلوؤں کو ملحوظ نظر رکھیں۔ البتہ اس سلسلے میں انھیں مزید تحقیقات کرنا چاہئیں۔

ایازا میر لکھتے ہیں:
’’صدر اردوغان کے ناقدین کی کمی نہیں اور ان کی تنقید ہر مرتبہ غلط بھی نہیں ہوتی۔ وہ آمریت کی راہ پر گامزن ہیں، انھوں نے میڈیا کی زباں بندی کر رکھی ہے اور تنقید برداشت کرنے کا یارا نہیں رکھتے۔ خارجہ پالیسی میں انھوں نے خاص طور پر شام کے حوالے سے انتہائی غلط فیصلے کرتے ہوئے بشار الاسد کی مخالفت میں انتہا پسندوں کا ساتھ دیتے ہوئے داعش جیسے عفریت کو سر اٹھانے کا موقع دیا۔ دوسری طرف ان کی کامیابیوں سے بھی انکار ممکن نہیں۔ وہ ایک ایسے مضبوط اور مقبول لیڈر ہیں، جن کی قیادت میں ترک معیشت اپنے قدموں پر کھڑی ہوگئی اور عوام تک اس کے ثمرات پہنچے۔ جب انھوں نے قوم کو آواز دی تو ان کے پاس اخلاقی جرأت موجود تھی۔‘‘(روزنامہ جنگ، ادارتی صفحہ، 20 جولائی 2016)

ڈاکٹر منظور اعجاز لکھتے ہیں:
’’ترکی میں صدر اردوان کی حکومت کی پاکستان سے کافی مماثلت ہے بلکہ بعض اوقات تو یہ لگتا ہے کہ کافی پہلوؤں سے ترکی میں پاکستانی اسکرپٹ پر کام ہو رہا ہے۔ صدر اردوان نہ صرف اپنے مخالفین کے خلاف انتقامی کارروائیاں کرنے میں مصروف ہیں بلکہ ان کے بیٹوں پر ویسے ہی بدعنوانی کے الزامات ہیں جیسے وزیراعظم کے بچوں پر ہیں۔ صدر اردوان نے شاہانہ ٹھاٹھ باٹھ کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہزاروں کمروں کا صدارتی محل تعمیر کروایا ہے، جس پر کئی سو ملین ڈالر خرچ ہوئے ہیں اور جس کا سائز امریکا کے وائٹ ٹاؤس سے نو دس گنا سے بھی زیادہ ہے۔ صدر اردوان اپنے معترضین کو فوراً جیل بھیج دینے کے لئے تیار رہتے ہیں۔ انھوں نے فیس بک اور ٹوئٹر پر پابندیاں عائد کرکے بھی غیر جمہوری رویوں کا ثبوت دیا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان منفی اوصاف کے باوجود عوام نے کیوں ان کا ساتھ دیا اور ان کی حکومت کو بچایا؟

سب سے اہم بات یہ ہے کہ ترکی نے صدر اردوان کے دور میں معاشی طور پر کافی ترقی کی ہے۔ ملک کے اندر بھی سرمایہ دارانہ طاقتوں نے اپنے آپ کو مضبوط کیا ہے اور ترکی میں بیرونی سرمایہ کاری میں بھی کافی اضافہ ہوا ہے۔ ملک میں درمیانے طبقے میں خوشحالی کی نئی لہر آئی ہے اور کچھ پہلوؤں سے گورننس کا نظام بھی بہتر ہوا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عوام نے فوجی بغاوت کے خلاف صدر اردوان کی حمایت کی۔ امریکا اور دوسرے مغربی ممالک میں صدر اردوان کی معتدل اسلام پسندی کو ایک ماڈل کے طور پر پیش کیا جارہا تھا، لیکن صدر اردوان کی شام میں عسکریت پسندوں کی حمایت سے امریکا اور مغربی ممالک کافی مایوس ہوئے ہیں۔ ترکی پر ویسے ہی الزامات لگائے جاتے ہیں، جیسے پاکستان پر افغان طالبان کو پناہ گاہیں مہیا کرنے کی تہمت لگائی جاتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ بہت سے جہادی گروہ ترکی کو پناہ گاہ کے طور پر استعمال کرتے ہیں اور برملا علاج معالجے کے لئے آتے جاتے ہیں۔ غرضیکہ امریکا اور یورپی ممالک سمجھتے ہیں کہ ترکی جہادی کلچر کو پروان چڑھا رہا ہے، جس سے شام اور عراق میں داعش اور دوسرے عسکری گروہوں کے خلاف فوجی اقدامات کامیاب نہیں ہوتے۔

صدر اردوان بودی قسم کی فوجی بغاوت کو کچلنے میں تو کامیاب ہوگئے ہیں، لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا وہ مستقبل میں بھی ترکی کو ترقی اور خوشحالی کے راستے پر گامزن رکھنے میں کامیاب ہوں گے یا نہیں۔ مبصرین کا خیال ہے کہ فوجی بغاوت کی ناکامی کے بعد صدر اردوان کے غیر جمہوری رویوں میں اضافہ ہوگا۔ انھوں نے کئی ہزار ججوں کو نوکری سے برخاست کر دیا ہے اور توقع کی جا رہی ہے کہ وہ فوج اور حکومت کے دوسرے اداروں سے اپنے مخالفین کو نکال باہر کریں گے۔ اس سے ان کے دشمنوں کی تعداد میں اضافہ ہوگا اور مستقبل میں ترکی کا سیاسی استحکام متاثر ہوگا۔ ہمارا خیال ہے کہ ترکی کے لئے اہم ترین مسئلہ انتہا پسند کلچر کا ہے۔ ابھی تک تو ترکی میں اکا دکا دہشت گرد حملے ہوئے ہیں، لیکن اگر صدر اردوان نے جنرل ضیاء الحق جیسی پالیسیاں اپنائے رکھیں تو آخر کار ترکی کا بھی وہی حال ہوگا جو چند برس پیشتر پاکستان کا تھا۔ ترکی کو چاہئے کہ وہ پاکستان کے تجربات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی پالیسیاں ترک کرکے معاشی ترقی کی طرف توجہ دے۔‘‘(روزنامہ جنگ، ادارتی صفحہ، 20 جولائی 2016)

حفیظ اللہ نیازی لکھتے ہیں:
’’امریکی دھاک کو مستحکم کرنے والی سیاسی ریورس انجینئرنگ الٹی اور اوندھی پڑ چکی۔ ترکی نے شام میں مداخلت سے لے کر، روسی طیارہ گرانے تک امریکا کی خوشامد میں حدود و قیود کا پاس نہ رکھا۔ دوسری طرف امریکا نے کسی چاپلوسی کا پاس نہ رکھا۔ منظور نظر اردوان کو نظروں سے نہ صرف گرایا بلکہ اقتدار سے گرانے میں کمی نہ چھوڑی۔ ایف بی آئی لیڈی سبل ایڈمنڈ 2014ء سے ترکی میں امریکی عزائم اور فوجی انقلاب کی نشاندہی میں ڈرم پیٹ رہی ہے۔ 16 دسمبر 2015ء میں واضح طور پر کہا کہ امریکا جلدی میں ہے۔ اردوان کو سبق سکھائے گا، سبق بنائے گا۔ مارچ میں انہی خدشات کا صدر اردوان نے جب اظہار کیا تو تمام معتبر امریکی اخباروں نے تمسخر اڑایا کہ ’’اردوان اپنی کرپشن، بدانتظامی، شخصی آمریت اور دہشت گردوں سے معاونت پر دنیا کی توجہ ہٹانا چاہتے ہیں۔‘‘ یہ چاروں الزامات بھی کمال ہیں، جب بھی کسی کو اقتدار سے علیحدہ کرنا ہو کام آتے ہیں۔ کاسترو، شاویز، صدام حسین، قذافی، صدر مرسی، بشار الاسد اور درجنوں دوسرے حکمرانوں کو جب آڑے ہاتھوں لیا یہی الزامات کام آئے۔

آج جب صدر اردوان نے امریکا سے بظاہر فتح اللہ گولن کی حوالگی کا مطالبہ کیا ہے تو اصل الزام کی زد میں امریکا ہی تو ہے۔۔۔آج ٹائیگر زخمی حالت میں بھپر چکا، بہت خطرناک ثابت ہوگا۔ اچنبھا نہ ہوگا اگر روس سے تعلقات بڑھائے اور شنگھائی بلاک کا حصہ بن جائے، نیٹو کو خیر باد کہہ دے۔ اسلامی بلاک کو مضبوط کرے؟ ایران، سعودی عرب، پاکستان کو قریب لائے۔ شام، ایران بارے اپنی پالیسی پر نظر ثانی کرے۔ روس، شام، ایران، قطر کا تیل اور گیس، یورپ تک پہنچائے، کیا نیا ترکی سامنے آچکا؟‘‘ (روزنامہ جنگ، ادارتی صفحہ، 20 جولائی 2016)

طیبہ ضیاء چیمہ لکھتی ہیں:
’’حق بے نقاب کرنا آسان نہیں۔ اس پاداش میں تین سو صحافی پہلے ہی ترک جیلوں میں قیدوبند کی صعوبتیں گزار رہے ہیں۔ لوگوں کو سوچنا چاہیے کہ ایک انسان اپنے خاندان میں ہونے والی سیاست کو ساری عمر نہیں سمجھ سکتا تو ملکوں کے سیاسی داؤ پیچ کیوں کر سمجھ آئیں گے؟ طاقت کا نشہ اندھا ہوتا ہے۔ حسد اور عداوت انسان کو اس سطح پر پہنچا سکتی ہے، جہاں حضرت آدم علیہ السلام کے بیٹوں نے ایک دوسرے کا قتل کر دیا۔ ترک سلطانوں کا یہ اصول رہا کہ بغاوت کی بو خواہ سگے بیٹے سے آئے، اسے قتل کر دیا جائے۔ صدر اردگان کو اپوزیشن سے خطرہ لاحق ہے۔ ترک تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ اردگان نے خود کو مزید طاقتور ثابت کرنے اور اپوزیشن کا مکمل قلع قمع کرنے کے لئے بغاوت کا کھیل رچایا۔ یاد رہے کہ ترک صدر نے بنا تصدیق و شواہد بغاوت کا الزام اپنے دیرینہ مذہبی رہنما فتح اللہ گولن پر ڈال دیا، جبکہ نوائے وقت کے فرنٹ پیج کی خبر کے مطابق فتح اللہ گولن نے اس الزام کی تردید کرتے ہوئے دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ ترکی میں بغاوت کے پیچھے خود صدر اردگان کا ہاتھ ہے، لیکن اس میں انھیں کس قوت کا تعاون حاصل ہے، اس کی تحقیق ناگزیر ہوچکی ہے۔

پاکستان میں کچھ، جہلاء فتح اللہ گولن کو طاہر القادری سے ملانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ قادری اور گولن میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ گولن مولانا رومی کے عملی پیروکار ہیں۔ ان کی خدمت موومنٹ دنیا بھر میں بطور مثال پیش کی جاتی ہے۔ مسلم و غیر مسلم کروڑوں کی تعداد میں ان کے معتقد ہیں۔ امن اور محبت کے داعی ہیں۔ سیاست سے لاتعلق ہیں۔ جمہوریت کے سب سے بڑے داعی ہیں۔ طیب اردگان کے حامی رہے ہیں۔ پاکستان سے بے پناہ محبت کرتے ہیں۔ پاکستان رومی فورم اور پاک ترک اسکول کے بانی ہیں۔ صدر اردگان کی مسٹر گولن سے سیاسی اختلافات کی بنا پر عداوت یہاں تک پہنچ گئی کہ گولن تحریک پر کریک ڈاؤن کیا گیا اور اب اردگان چاہتے ہیں کہ ان کا دوست نواز شریف پاکستان میں خدمت تحریک کے تحت چلنے والے رفاہی و فلاحی اداروں کا بھی کریک ڈاؤن کرے؟ پاکستان میں کوئی حکومت ایسے اقدام کا تصور نہیں کرسکتی۔ پاکستان میں خدمات پیش کئے جانے والے بے ضرر تعلیمی و فلاحی اداروں پر پابندی پاکستان کو نقصان پہنچانے کے مترادف ہے۔‘‘ (روزنامہ نوائے وقت راولپنڈی، 20 جولائی 2016)

خلق خدا ترکی کی حکومت اور اس کی قیادت کے بارے میں اور اس سے اور بھی بہت کچھ کہہ رہی ہے۔ دوسری طرف رجب طیب اردگان تیز رفتاری سے اپنے اقدامات کئے جا رہے ہیں۔ بعض خبروں کے مطابق وہ شام اور عراق کے بارے میں اپنی پالیسیوں کو تبدیل کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ روس کے ساتھ وہ پہلے سے ہی صلح کرچکے ہیں۔ ایک اطلاع کے مطابق عراق میں داعشیوں کی تربیت پر مامور ترک فوجی واپس بلائے جا چکے ہیں۔ خود داعشی شام کے دوسرے بڑے شہر حلب میں گِھر چکے ہیں۔ عراق میں فلوجہ ان کے ہاتھ سے نکل چکا ہے۔ سرکاری فوج عوامی رضاکاروں کے ہمراہ دوسرے بڑے شہر موصل کی طرف پیش رفت کر رہی ہے۔ حالات کی تبدیلی کے نقارے مشرق وسطٰی کے علاوہ پاکستان میں بھی بج رہے ہیں۔ دیکھیں حوادث کی صراحی سے کیا کیا قطرے ٹپکتے ہیں۔ علامہ اقبال کے اس شعر پر ہم اپنی آج کی معروضات کا اختتام کرتے ہیں۔
مری صراحی سے قطرہ قطرہ نئے حوادث ٹپک رہے ہیں
میں اپنی تسبیحِ روز و شب کا شمار کرتا ہوں دانہ دانہ
خبر کا کوڈ : 554500
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش