0
Friday 22 Jul 2016 13:01

ٹل پارا چنار روڈ کی ایک بار پھر بندش

ٹل پارا چنار روڈ کی ایک بار پھر بندش
رپورٹ: قاری عبد الحسین

گذشتہ روز ٹل، درسمند کے بنگش اور خوائیداد خیل قبائل نے اپنے قانونی مطالبات کے حق میں ٹل کے مقام پر پشاور پاراچنار روڈ کو بلاک کر دیا۔ صبح ساڑھے سات بجے سے دوپہر ایک بجے تک تقریباً ساڑھے پانچ گھنٹے کے لئے یہ مین شاہراہ بند رہی، جسکی وجہ سے مسافروں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ مسافروں نے اپنے بیوی بچوں کے ہمراہ سڑک پر شدید گرمی کی مشکل جھیلی، تاہم اہلیان ٹل کے بھی اپنے کچھ قانونی مطالبات تھے، جنہیں انہوں نے اس سے قبل بیسیوں بار انتظامیہ کے سامنے پیش کیا تھا، مگر انتظامیہ کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے انکے مسائل کو کوئی توجہ نہیں ملی۔ بالآخر بنگش قبائل نے مجبور ہوکر سڑکوں پر آنے کا فیصلہ کیا۔ اہلیان ٹل سے جب رابطہ کیا گیا تو انکا کہنا تھا کہ وزیر قبائل نے انکے ایک بڑے رقبے پر قبضہ جمایا ہوا ہے، جبکہ ریونیو ریکارڈ کے مطابق یہ پورا علاقہ ٹل اور درسمند کے بنگش قبائل کا ہے۔ انہوں نے کہا کہ گذشتہ کئی سالوں سے یہ مسئلہ التوا کا شکار ہے، حکومت سے بار بار مطالبات کے باوجود مسئلے کے حل کے لئے کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی جا رہی، اس پر مستزاد یہ کہ اس وقت سرکار نے وزیر قبائل کیلئے ہمارے ہی علاقے سے بجلی کے کھمبے گزارنے کی حامی بھر لی ہے۔ لہذا ہم نے اس پر شدید احتجاج کیا ہے۔ جس کے بعد حکومت نے اصل مسئلے سے عوام کی توجہ ہٹانے کے لئے گذشتہ ماہ قبائلی عمائدین کا ایک جرگہ تشکیل دیا، جس کے ساتھ فریقین کی کئی نشستیں ہوچکی ہیں، لیکن مسئلے کا کوئی مناسب حل نظر نہیں آرہا۔

قبائلی عمائدین سے جب اس حوالے سے رابطہ کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ ٹل کمانڈنٹ نے حکم جاری کیا تھا کہ دس پندرہ روز میں مسئلہ کا حل نکالا جائے، جبکہ اتنے بڑے تنازعے کا حل ایک یا دو ہفتوں میں ممکن ہی نہیں، لہذا ہم نے جرگے سے استعفٰی دیا ہے۔ ٹل قبائل نے اپنے جائز مطالبات کے حق میں بدھ کو جب سڑک بلاک کی تو سرکاری مشینری فوراً حرکت میں آگئی اور انکے مسائل کو فوری حل کرنے کا وعدہ کیا۔ تاہم عوام نے انکی ایک بھی نہ سنی اور جو کھمبے لگے تھے انکو زمین بوس کر دیا جبکہ جن کھمبوں کے لئے کھدائی کی گئی تھی، انہیں مٹی سے بھر دیا گیا۔ عوام نے اپنے مسائل کو حل کرنے کے لئے قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے جمہوری طریقہ اپنایا اور روڈ کو چند گھنٹے بلاک کئے رکھا۔ خیال رہے کہ یہ ٹرانزٹ روٹ ہے اور اسی روڈ سے پاکستان اور افغانستان کی تجارت ہوتی ہے۔

افغان ٹریڈ روٹ بند کرنا جرم تو نہیں؟
دو ماہ قبل 11 مئی کو اسی روٹ پر پارا چنار کے مقامی قبائل نے اپنے مطالبات کے حق میں احتجاج کیا تو کئی گھنٹے نہیں بلکہ چند منٹ بھی نہیں گزرے تھے کہ مقامی سرکار نے ایف سی، لیوی فورس، فوج اور ایس او جی کی بھاری نفری کے ساتھ انکا محاصرہ کر لیا اور پھر ان پر اندھا دھند فائرنگ کرکے انکے 3 افراد کو قتل جبکہ 13 افراد کو زخمی کر دیا، جبکہ انکے 50 کے قریب افراد کو جیل بھیج دیا گیا۔ اہلیان کرم کے ساتھ جب رابطہ کیا گیا تو انکا کہنا تھا کہ گذشتہ تیس سالوں سے انکی زمینوں پر ناجائز قبضہ جاری ہے، کوئی سدباب تو کیا بلکہ اس میں مزید اضافہ ہو رہا ہے۔ یہی نہیں انکے مذھبی پروگرامات میں خلل ڈالنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ دوسرا کوئی راستہ تو ہے نہیں۔ ہمارے پاس تو صرف ایک ہی راستہ ہے اور وہ بھی جمہوری راستہ کہ اپنے مطالبات کے حق میں احتجاج کریں، روڈ پر جلوس نکالیں یا پریس کانفرنس کریں۔ لیکن حکومت کی ہٹ دھرمی کی حد یہ ہے کہ مطالبات کی منظوری تو کیا، ہم پر فائرنگ کی جاتی ہے، فائرنگ کے بعد ہمارے ہی افراد کو جیل بھیج دیا جاتا ہے۔

ان سے جب یہ سوال کیا گیا کہ روڈ کی بندش سے علاقے کا امن و امان خطرے میں تو نہیں پڑ سکتا، تو انکا کہنا تھا کہ احتجاج یا روڈ کی بندش سے امن و امان کو کوئی خطرہ نہیں، یہ عمل صرف کرم میں نہیں، بلکہ اسلام آباد جیسے حساس شہر کے حساس ترین علاقوں میں گھنٹوں کے لئے نہیں بلکہ مہینوں کے لئے احتجاج اور دھرنے ہوتے رہتے ہیں۔ آج تک تو وہاں احتجاج کرنے والوں پر کوئی بربریت نہیں ہوئی۔ یہ صرف پاراچنار ہے جہاں \'\'یک بام و دو ہوا\'\' والی ضرب المثل چلتی ہے۔ انکا کہنا تھا کہ ایسی باتوں سے حقیقت نہیں چھپ سکتی، انہوں نے کہا کہ حکومت مری معاہدے کا سہارا لیتی ہے، جبکہ مری معاہدہ شیعہ سنی فریقین کے مابین ہے اور ایک دوسرے کے خلاف دہشتگردی کی نیت سے روڈ بند کرنے پر جرمانہ ہے، جبکہ یہاں سڑک سنیوں کے خلاف بند نہیں کی گئی، بلکہ سرکار کی غلط پالیسیوں کے خلاف احتجاج کیا گیا تھا اور یہ کہ مری معاہدے کے مطابق اگر روڈ کی بندش ممنوع ہے تو مری معاہدے میں تو یہ شق بھی شامل ہے کہ تمام مسائل کو کاغذات مال کے مطابق حل کیا جائے گا، ناجائز قابضین کو بے دخل کیا جائے گا۔ اگر ایسا ہے تو بالش خیل میں غیر قانونی آباد کاری کے خلاف کوئی اقدام کیوں نہیں ہو رہا اور اگر روڈ بلاک کرنا یا احتجاج کرنا قابل مواخذہ ہے، تو کیا پاکستانی قانون کے مطابق مظاہرین پر فائرنگ کرنا جائز ہے؟ مظاہرین کو اپنے جائز مطالبات کی پاداش میں مہینوں تک قید کرنا کہاں کا انصاف ہے۔
خبر کا کوڈ : 554628
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش