1
Friday 22 Jul 2016 17:10

خلیفہ اردگان اور نجات دہندہ گولن کا تصادم؟

خلیفہ اردگان اور نجات دہندہ گولن کا تصادم؟
تحریر: عرفان علی

ترکی میں ایک ناکام فوجی بغاوت کے بارے میں بین الاقوامی ذرائع ابلاغ میں بہت کچھ لکھا جا چکا ہے، کچھ زاویے ایسے ہیں جن کے بارے میں ترک صحافیوں اور دانشوروں نے بھی اپنی رائے کا اظہار کیا ہے اور اس تحریر میں بھی ان پہلوؤں سے جائزہ لیا جائے گا۔ برطانوی روزنامہ دی انڈی پینڈنٹ نے سازشی مفروضوں پر بھی خبریں دی ہیں، جس کے تحت ترک صدر رجب طیب اردگان نے خود ہی ایک جعلی بغاوت کا ڈرامہ رچایا ہے، تاکہ ترک ریاست کے ہر ادارے میں موجود اپنے سیاسی مخالفین کا صفایا کر دیں۔ ترک صدر نے اس کا الزام حزمت تحریک کے سربراہ فتح اللہ گولن پر عائد کیا تو انہوں نے بھی جواباً یہی الزام اردگان کی طرف لوٹا دیا کہ ممکن ہے اردگان نے خود ہی اپنے خلاف ایک جعلی بغاوت کروائی ہو۔ ترک صحافی و دانشوروں نے جو لکھا اس کے مطابق اس بغاوت کی حمایت ترکی کی کسی بھی سیاسی جماعت نے نہیں کی۔ اس بغاوت کے کھوکھلے پن کا سب سے بڑا ثبوت یہ تھا کہ باغیوں نے ترک صدر کو پکڑنے کی کوشش ہی نہیں کی، جبکہ بغاوتوں کی روایت یہی رہی ہے کہ سب سے پہلے اس شخصیت کو گرفت میں لیا جاتا ہے، جس کے خلاف بغاوت کی جاتی ہے۔ رجب طیب اردگان بحر متوسط کے ساحلی ترک شہر میں تعطیلات منانے گئے ہوئے تھے۔ نہ تو وہ استنبول میں تھے اور نہ ہی انقرہ میں۔ بغاوت کا کھوکھلا پن یہ بھی تھا کہ ترکی کے اہم ذرائع ابلاغ پر باغیوں نے قبضہ نہیں کیا۔ اگر سارے اہم ذرائع ابلاغ پر قبضہ ہوتا اور ترک صدر کو حراست میں لے لیا گیا ہوتا تو بغاوت کی کامیابی کے امکانات زیادہ ہوجاتے۔

بغاوت کی ٹائمنگ بھی دو حوالوں سے بہت اہم ہے۔ ایک یہ کہ اردگان کی حکومت نے اپنی خارجہ پالیسی میں تبدیلی کے دو ایسے اشارے دیئے تھے، جو ان کے مخالفین کی نظر میں بھی مثبت تھے۔ ایک اردگان کا روس کی حکومت سے معافی مانگنا۔ یہ معافی انہوں نے شام میں روس کا طیارہ مار گرانے پر مانگی تھی اور معافی کا خط روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کو لکھا تھا، جس کے بعد روس نے ترکی پر عائد پابندی ختم کرتے ہوئے اپنے شہریوں کو سیاحت کے لئے ترکی جانے کی اجازت دی تھی۔ دوسرا مثبت اشارہ شام کی حکومت سے سفارتی تعلقات کی بحالی کا تھا۔ ایک منفی اشارہ بھی تھا کہ انہوں نے فلسطین پر قابض جعلی ریاست اسرائیل کے ساتھ بھی تعلقات بحال کر لئے ہیں، لیکن ترکی ایک ایسا مسلم اکثریتی ملک ہے، جس نے اسرائیل کو سب سے پہلے ہی تسلیم کر لیا تھا اور اس کے ساتھ بہت اچھے تعلقات بھی استوار کر رکھے تھے۔ ترکی میں فوجی بغاوت کی ٹائمنگ اس حوالے سے بھی اہم تھی کہ ماہ اگست میں ترک افواج کی ترقی و تنزلی کا ایشو زیر غور آنا تھا اور ترک انٹیلی جنس کی رپورٹس کی بنیاد پر کئی ترک فوجی افسران کے خلاف تادیبی کارروائی ہونا تھی۔ اردگان کے حامیوں کا دعویٰ ہے کہ اس کارروائی سے بچنے کے لئے باغیوں نے بغاوت کی کوشش کی، لیکن بعض ترک دانشوروں کا کہنا ہے کہ اس تادیبی کارروائی کے بعد کے ردعمل سے بچنے کے لئے اردگان نے خود ہی پہلے ہی ایک ڈرامہ رچا کر وہ کارروائی کر ڈالی، جو بعد میں کی جاتی تو بہت زیادہ ردعمل دیکھنے میں آتا۔ بغاوت کا الزام لگا کر ترکی میں کم و بیش پچاس ہزار سے زائد افراد کو یا ملازمتوں سے برطرف کر دیا گیا ہے یا گرفتار کر لیا گیا ہے۔

یہاں اس نکتے کا تذکرہ بھی اہمیت کا حامل ہے کہ ترکی میں خود اردگان پر مالی بدعنوانیوں کے الزامات پر مقدمات چل رہے تھے، لہٰذا ججوں کو فارغ کرنے کا مطلب یہ ہوا کہ اس بغاوت کی آڑ میں ان ججوں کو بھی فارغ کر دیا گیا ہے جو اردگان یا اس کے قریبی افراد کے خلاف فیصلہ سنا سکتے تھے۔ یہاں اس حوالے سے ایک اہم نکتہ یہ بھی ہے کہ ترک صدر کے مخالفین میں فوج کے جرنیلوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے بلکہ یہ بریگیڈیئر اور کرنل کی سطح کے افسران تھے، جن پر بغاوت کا الزام عائد کیا گیا۔ ترک مسلح افواج کا 65 فیصد زمینی فوج پر مشتمل ہے جبکہ بغاوت کرنے والوں کی تعداد کا جائزہ لیا جائے تو فیصدی اعتبار سے ان کا تعلق اس لینڈ فورس سے نہیں بلکہ مسلح افواج کے اس یونٹ gendarmeri سے بنتا ہے کہ جو کل مسلح افواج کا 15 فیصد ہے۔ یہ یونٹ فوج سے تعلق رکھنے کے باوجود فرائض منصبی کے لحاظ سے پولیس جیسا ہوتا ہے، جو سویلین آبادیوں مین تعینات ہوتا ہے۔ ایک مفہوم میں ہم اسے کراچی میں تعینات پاکستان رینجرز (سندھ) جیسا یونٹ بھی کہہ سکتے ہیں۔ لہٰذا اگر واقعاً یہ بغاوت جعلی نہیں تھی تب بھی ان وجوہات کی بنیاد پر ناکامی اس کا مقدر تھی کہ باغیوں نے ترک صدر اور دیگر حکمران شخصیات کو گرفتار نہیں کیا، معاشرے پر اثر انداز ترک ذرائع ابلاغ کو اپنے کنٹرول میں نہیں لیا، اس بغاوت کو ترک فوج کے جرنیلوں اور زمینی فوج کی حمایت حاصل نہیں تھی۔

اگر یہ بغاوت جعلی نہیں تھی تو اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا واقعی فتح اللہ گولن کے حامیوں کی طرف سے برپا کی گئی۔ فتح اللہ گولن جنوبی اناطولیہ میں ارضروم کے ایک گاؤں میں 1941ء میں پیدا ہوئے۔ وہ خود سعید نورسی کی تعلیمات سے متاثر ہوئے۔ آئمہ و خطباء کے سرکاری امتحان میں کامیاب ہوکر اہم سرکاری نوکریوں پر فائز رہے۔ 1961ء میں انہیں جبری فوجی خدمات کے لئے اسکندرون بھیجا گیا۔ ان کے لیکچرز سے بہت سے افسران متاثر ہوئے۔ نوجوان بھی ان سے متاثر ہوئے۔ 1970ء کے فوجی انقلاب کے دوران بھی انہیں گرفتار کیا گیا۔ گولن نے اساتذہ کی ایک تنظیم قائم کی اور اسکولوں کا نیٹ ورک بھی قائم کیا، جو ابھی تک چل رہا ہے اور پاکستان میں بھی ان اسکولوں کی شاخیں کھولی گئی ہیں۔ 1980ء کے فوجی انقلاب کے دوران انکی تلاش میں چھاپے مارے گئے اور بالآخر 6 گھنٹے حراست میں رکھ کر رہا کیا گیا۔ باوجود اس حقیقت کے کہ گولن خود ایک مذہبی مبلغ اور عالم ہیں، 1990ء کے عشرے میں کچھ عسکریت پسند مسلمانوں اور چھوٹے چھوٹے نظریاتی گروہوں نے انہیں قتل کرنے کی کئی بار سازش کی۔ گولن کی حزمت تحریک ترکی میں بہت زیادہ اثر و رسوخ رکھتی ہے۔ گولن نے امریکا میں خود ساختہ جلاوطنی اختیار کر رکھی ہے اور اب رجب طیب اردگان نے انہیں بغاوت کا ذمے دار قرار دے کر امریکا سے باضابطہ طور پر مطالبہ کیا ہے کہ انہیں ترک حکومت کے حوالے کیا جائے۔ امریکی حکومت کا موقف ہے کہ اگر ان پر الزامات کا ثبوت پیش کیا گیا تو وہ ترک حکومت کے ساتھ امریکی معاہدے کے تحت تعاون کریں گے۔

یہاں یہ نکتہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ ترکی نیٹو اتحادی ہے اور نیٹو یا امریکا کو ترک فوج کی سیکولر حیثیت سے دلچسپی ہے۔ اردگان اور ان کے ہم فکر عبداللہ گل مذہبی سیاست کے قائل ہیں، لیکن انہوں نے سیکولر فوج کے ساتھ سمجھوتہ کر رکھا ہے اور نیٹو اتحاد نے جب افغانستان کی جنگ میں امریکی حکومت کی آواز پر لبیک کہا تو ترک افواج بھی افغانستان میں ان کے شانہ بشانہ تھیں۔ پاکستان میں جماعت اسلامی سمیت جو بھی جماعتیں اور علمائے دین امریکا کے مقابلے میں طالبان کی حمایت کرتے رہے ہیں اور اردگان حکومت کے بھی حامی ہیں، وہ یہ نکتہ عوام الناس سے چھپاتے ہیں۔ اگر ترکی میں یہ بغاوت گولن کی حزمت تحریک نے کروائی ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ ترکی میں مذہبی فکر کے افراد باہم دست و گریباں ہوئے ہیں۔ حالانکہ 2002ء سے ترکی سمیت پوری دنیا میں یہ تاثر پایا جاتا تھا کہ اردگان اور ان کی عدالت و انصاف جماعت کی کامیابی کے پیچھے گولن کی حزمت تحریک کا ہاتھ تھا۔ ترکی کے اسلام پسند مذہبی افراد اور جماعتیں ترکی کی سیکولر شناخت کے خلاف قدم بقدم جدوجہد کے لئے کوششیں کرتے رہے ہیں، لیکن اردگان کی حکومت نے مخلص مذہبی طبقے کو مایوس کیا ہے، کیونکہ انہوں نے ترکی کو دنیا کی سیاست میں مکمل طور پر سامراج کا اتحادی بنا دیا۔ شام کی فلسطین دوست بشار الاسد حکومت کے خلاف انہوں نے مسلح دہشت گرد گروہوں کی حمایت کی اور آج ترکی خود دہشت گردی کی زد پر آگیا۔ ترکی کے ساتھ اردگان نے بالکل وہی کیا جو پاکستان کے جنرل ضیاء نے افغانستان پالیسی کے تحت کیا تھا اور پاکستان آج تک دہشت گردی کی زد پر ہے۔

اردگان کی حکومت کو اس وقت پچاس فیصد سے بھی کم مینڈیٹ حاصل ہے، یعنی 51 فیصد سادہ اکثریت بھی حاصل نہیں ہے۔ ترکی کا سیکولر طبقہ تو ویسے ہی ان سے نالاں تھا، لیکن اب ان کے فطری اتحادی بھی ان کے خلاف صف آرا ہوچکے ہیں۔ ترکی نے اگر اپنی خارجہ پالیسی کو مجموعی طور پر امریکا و سعودی اتحاد کے تابع رکھا اور داخلہ پالیسی میں ان کی مطلق العنانیت جاری رہی تو ترکی اپنے پڑوس میں تنہائی کا شکار تو ویسے بھی ہوچکا ہے، داخلی سطح پر بھی مزید بحران کا شکار ہوجائے گا۔ جس طرح انہوں نے روس سے معافی مانگی اور شام کی حکومت سے تعلقات کی بحالی کا اعلان کیا، اسی طرح مجموعی طور پر داخلہ اور خارجہ پالیسی کو متوازن بنانے میں بھی انہیں تیزی دکھانی چاہئے۔ داخلی استحکام کے لئے اردگان کو مفاہمت کی پالیسی پر عمل کرنا ہوگا، ورنہ اگر منظم فوجی بغاوت ہوئی تو ان کا دھڑن تختہ ہونے میں دیر نہیں لگے گی۔ یہاں یہ یاد رکھنا ہوگا کہ اردگان چاہنے والوں کی نظر میں خلیفہ ہیں جبکہ گولن اپنے مریدوں کی نظر میں مسیحا، نجات دہندہ یا امام ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ گولن ترکی کو خلیفہ سے نجات دلواتے ہیں یا خلیفہ ترکی کو ان کی مسیحائی کی پہنچ سے دور رکھنے میں کامیاب ہوتے ہیں؟ فرقہ پرستوں کے لئے یہ جملہ لکھنا مناسب ہوگا کہ ترکی میں سنی بمقابلہ سنی سیاست میں شدت آچکی ہے۔ ہر جگہ سنی شیعہ کا شور مچانے والے اس زاویے سے ترکی کی صورتحال کا تجزیہ کیوں نہیں کر رہے۔؟
خبر کا کوڈ : 554666
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش