0
Sunday 31 Jul 2016 17:15

علی عبداللہ صالح اور انصار اللہ کے درمیان تاریخی معاہدہ، سعودی عرب کیلئے واضح پیغام

علی عبداللہ صالح اور انصار اللہ کے درمیان تاریخی معاہدہ، سعودی عرب کیلئے واضح پیغام
رپورٹ: مہدی خان

حوثیوں اور سابق صدر علی عبداللہ صالح نے ’’صدراتی کونسل‘‘ تشکیل دے دی ہے۔ یمن میں جاری بحران کے خاتمے کے لئے سابق صدر علی عبداللہ صالح اور یمن کا بااثر ترین قبیلہ اور سیاسی و عسکری قوت ’’حوثیوں‘‘ نے ایک اعلٰی ترین سیاسی کونسل کی تشکیل پر باہم اتفاق کر لیا ہے، جو یمن کے امور کی دیکھ بھال کرے گی۔ طرفین کی جانب سے مساوی تعداد یعنی دس دس ممبران پر مشتمل کونسل کی صدارت (rotating presidency) باری باری دونوں فریقین کے پاس ہوگی۔ تجزیہ کار اس معاہدے کو ’’اندرونی محاذ کی مضبوطی‘‘ قرار دینے کے ساتھ ساتھ سعودی اتحاد کے حملوں کے مقابلے کے لئے ایک ’’طویل المدت تیاری‘‘ سے تعبیر کر رہے ہیں۔ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ سعودی اتحاد خطے کے بہت سے بحرانوں میں اپنے اہداف کے حصول میں مسلسل ناکامی کے سبب اس وقت عالمی و علاقائی سطح پر ’’حکمت عملی کے انہدام ‘‘ کے ساتھ ساتھ (collapse of strategy) ’’کمزوری و کنفیوژن ‘‘ کا شکار ہے۔

یمن کے بحران کے حل کی تلاش میں کویت میں جاری مذاکرات چند ماہ گذرنے کے باوجود اب تک بےنتیجہ رہے ہیں، حوثیوں کا کہنا ہے کہ سعودی اتحاد جن اہداف کو ایک سال سے زائد عرصے کی مسلسل بمباری اور عسکری کوششوں سے حاصل کرنے میں ناکام رہا ہے، اسے مذاکرات کی میز سے حاصل کرنا چاہتا ہے اور مذاکرات کی ناکامی کی اصل وجہ یہی چیز ہے۔ جبکہ مبصرین کا کہنا ہے کہ کویت میں ہونے والے مذاکرات خود کو قانونی حکومت کہلانے والے گروہ کمزور پوزیشن کے باوجود بالادستی کی خواہش رکھتے ہیں۔ سعودی عرب سمیت متعدد عرب ممالک کی حمایت یافتہ خود کو یمن کی قانونی حکومت کہلانے والا گروہ عملی طور پر یمن کے ایک چھوٹے سے حصہ پر اپنا اثر و رسوخ رکھتا ہے جبکہ یمن کے اکثر علاقے اس گروہ کے مخالفین کے کنٹرول میں ہیں۔ واضح رہے کہ یمن پر سعودی اتحاد کی جانب سے بمباری کا آغاز اسی گروہ کے عبوری صدر ’’عبدہ ربہ منصور‘‘ کی حکومت کی بحالی کے عنوان سے ہوا تھا، لیکن آج تقریباً ڈیڑھ سال گذرنے کے باوجود نہ صرف اس گروہ کی حکومت بحال نہ ہو پائی بلکہ اب ایک اندازے کے مطابق یمن میں اس گروہ کے لئے موجود گنجائش بھی ختم ہوچکی ہے۔ ایک سال سے زائد عرصے سے جاری بمباری نے یمن جیسے غریب ملک کی معیشت اور ملکی انفرا اسٹرکچر کو بری طرح تباہ کرکے رکھ دیا ہے۔

یمن کے بااثر ترین دو گروہوں کے درمیان معاہدے کے بعد ممکنہ صورتحال کے بارے میں ماہرین کچھ یوں اظہار خیال کرتے ہیں
غیر متوقع طور پر سامنے آنے والا یہ معاہدہ کیا صرف ایک ’’ٹیکنیک ہے یا پھر اسٹریٹجک معاہدہ‘‘ ہے، کیا یہ ایک عارضی معاہدہ ہے جو موجودہ بحران کے خاتمے تک چلے گا یا پھر ایک مستقل معاہدہ جو یمن کی تقدیر کو معین کرے گا۔؟ کیا اس معاہدے کا مقصد صرف دباو بڑھانا ہے یا پھر ریاستی امور کو چلانے کا ایک جامع منصوبہ؟، بظاہر یمن کے امور کے بارے میں گہری نظر رکھنے والے ماہرین کے ایک بڑے حصے کا خیال ہے کہ یہ ایک اسٹریٹجک معاہدہ ہے جو یمن کے مستقبل کا تعین کرنا چاہتا ہے۔

اس معاہدے کے سعودی اتحاد پر کیا اثرات مرتب ہوسکتے ہیں اور انکے پاس کس قسم کے آپشن بچتے ہیں۔؟

الف:
سعودی اتحاد بمباری کے سلسلے کو تیز تر کرتے ہوئے دارالحکومت سمیت اہم یمنی شہروں پر کنٹرول حاصل کرنے کی کوشش کو جاری رکھے گا، جس کا مطلب یہ ہوگا کہ سعودی عرب کو عسکری میدانوں میں مزید نقصانات برداشت کرنے پڑینگے، نیز اس کے شہروں خاص کر سرحدی علاقے بھی میزائلوں اور راکٹوں کی زد میں ہونگے، جبکہ بمباری کے تسلسل کی صورت میں مزید اخراجات کا بوجھ بھی برداشت کرنے کے ساتھ ساتھ، سیاسی، سماجی اور اخلاقی دباو بھی برداشت کرنا ہوگا اور شائد ایسا کرنا اس وقت سعودی عرب کے لئے ممکن نہیں ہے، کیونکہ وہ پہلے اس جنگ میں بہت کچھ کھو چکے ہیں۔
ب:
مذاکرت کی میز کی جانب لوٹ آنا، جس کا مطلب یہ ہوگا کہ اس بار سعودی عرب کو مذاکرات میں اپنی بات منوانے کی کوشش ترک کرنے کے ساتھ ساتھ دوسرے کی بات بھی پوری طرح ماننی ہوگی، جبکہ موجودہ حوثی اور صالح کے اتحاد کے بعد پیدا ہونے والی نئی صورتحال میں مطالبات کی فہرست مزید لمبی ہوسکتی ہے۔
ج:
شمالی اور جنوبی یمن کی تقسیم کی کوشش، اگر آدھے یمن کے حصول کی پالیسی اپنائی جاتی ہے تو اس صورت میں کچھ نئے قسم کے بحران پیدا ہو جاینگے، جس کا سامنا کرنا سعودی عرب کے لئے شائد ممکن نہ ہو اور صورتحال آسمان سے گر کر کھجور میں اٹک جانے کی سی ہو جائے گی۔

اِدھر روسی زرائع ابلاغ نے خبر دی ہے کہ سابق صدر علی عبد اللہ صالح نے سعودی عرب کو بمباری روکنے کی شرط پر کسی بھی مقام میں ’’براہ راست مذاکرات‘‘ کی دعوت ہے، علی عبد اللہ صالح نے کہا ہے کہ میں (GCP) یا عوامی کانفرنس پارٹی اور حوثی پارٹی انصار اللہ کی جانب سے نمائندگی کرتے ہوئے سعودی عرب کی جانب امن کا ہاتھ بڑھاتا ہوں اور سب سے بڑے برادر ملک کو براہ راست مذاکرات کی دعوت دیتا ہوں۔ روسی ذرائع ابلاغ کے مطابق سابق صدر صالح نے یمن میں ایران کے کردار کے بارے گردش کرنے والی خبروں کے بارے میں کہا ہے کہ ’’ایرانی امداد کا تعلق صرف تشہیراتی اور میڈیا کے میدان سے ہے‘‘، صالح نے سعودی حمایت یافتہ عبوری صدر منصور ہادی کی حکومت کی پھر سے بحالی کی مخالفت کو دہراتے ہوئے کہا کہ سب جانتے ہیں کہ منصور ہادی سعودی کاندھوں پر سوار ہو کر آیا تھا۔ انہوں نے حوثیوں کے ساتھ سیاسی کونسل کی تشکیل کے بارے میں کہا کہ ’’یہ سیاسی کونسل یمن کے داخلی اور خارجہ دونوں امور کی ذمہ دار ہوگی‘‘، انہوں نے اس معاہدے کو ایک تاریخی معاہدہ قرار دیا ہے۔
خبر کا کوڈ : 556821
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش