8
0
Wednesday 3 Aug 2016 15:56

قائد شہید علامہ عارف الحسینی، حق کا پیرو، آمریت دشمن

قائد شہید علامہ عارف الحسینی، حق کا پیرو، آمریت دشمن
تحریر: ارشاد حسین ناصر

میں جب ان کے بارے سوچتا ہوں تو مجھے ایسا لگتا ہے کہ وہ شعور کی کرنیں بکھیرنے آیا اور بہت ہی مختصر وقت میں معاشرے میں پھیلی تاریخی اور گھٹا ٹوپ اندھیرے کے پجاریوں سے جنگ کرتا، معاشرے کو روشن و منور کرکے چلا گیا۔ وہ فکر کے چراغ جلانے آیا، بہت ہی مختصر مدت کیلئے اسے یہ موقع ملا، مگر اس نے وقت کی رفتار سے بھی بڑھ کے اپنا کام کیا اور رخصت ہوگیا، وہ خلوص کی دولت بانٹنے آیا، اسے بہت کم وقت نصیب ہوا، مگر اس نے اتنا خلوص بانٹا کہ آج اٹھائیس برس گذر جانے کے بعد دنیا اس کا نام آنے پر آنسو بہاتی ہے۔ وہ درد سمیٹنے آیا، اس نے صرف ساڑھے چار سال تک پاکستان بھر کے مظلوموں، محروموں اور کمزور بنا دیئے گئے انسانوں کا درد بانٹا۔ ان کے درد کی پکار لیکر شہر شہر گیا اور قریہ قریہ میں درد مندوں کو باہم ملایا اور پھر ایک دن ہم سب کو درد سے مالا مال کرکے رخصت ہوگیا۔ وہ عرفان کی دولت سے مالا مال تھا، اس نے معرفت کی لو بڑھائی، ہر ایک اس کی معرفت و عرفان کی بلندی اور ارفع درجات کا قائل ہوا، ہر ایک اس کی زندگی کے ایسے پہلوؤں کا شاہد تھا، اسے یہ مقام خدمت خلق اور تنہائی میں عبادت و ریاضت سے حاصل ہوا تھا، وہ للہیت کا نمونہ تھا۔ اسے مل کے، دیکھ کے خدا کی یاد آتی تھی، اس کو یہ راز زندگی آشکار ہونا قبول نہ ہوا اور اس نے ایک لمبی پرواز کی اور کامیاب ٹھہرا۔

اس نے بہت تھوڑے عرصہ میں اتنا کام کیا کہ اسے ایسے اعزاز کا حقدار ٹھہرایا گیا، جس کی تڑپ اسے بے چین رکھتی تھی، جس کیلئے وہ تڑپ تڑپ کے دعائیں مانگتا تھا اور شب شہادت بھی اس کی طویل سجدہ میں یہی دعا تھی۔ وہ ہم سب کا چین تھا، وہ ہم سب کا قائد تھا، وہ ہم سب کا سایہ شجر دار تھا، ہمیں اس سے محبت تھی، وہ ہمارا جنون تھا، وہ ہمارا رہبر و رہنما تھا، وہ ہماری آنکھوں کی ٹھنڈک تھا، وہ ہماری مرضوں کی دوا تھا، وہ ہمارے دردوں کا آشنا تھا، وہ ہمارے دلوں کا رازداں تھا، وہ عارف حق شناس تھا، وہ سید و سردار تھا، وہ فرزند راستین سیدالشہداء تھا، اسے بھول جانا ممکن نہیں، اس کے چھوڑے ہوئے نقوش حیات ہمارے لئے رہنمائی کا ایسا ذریعہ ہیں، جن پر چلتے ہوئے ہم بھٹکنے سے محفوظ رہتے ہیں۔ اس کا راستہ خمینی کا راستہ تھا، اس کی روش انقلاب کی روش تھی، اس کی زبان اسلام کی زبان تھی، اس کا عمل ولایت کی پاسبانی تھی۔ اس میں کسی کو شک نہیں ہونا چاہیئے کہ قائد شہید علامہ سید عارف حسین الحسینی (رہ) عطیہ خداوند کریم تھے، انہوں نے تقریبا ساڑھے چار سال (10فروری 1984ء سے 5 اگست 1988ء) کا مختصر عرصہ ملت جعفریہ کی قیادت و سیادت میں گذارا ہے، مگر آج 28 برس ہوگئے، ہم ان سے اسی طرح مربوط ہیں، جیسے ان کی زندگی میں تھے۔

ہم ان کا احساس اسیطرح رکھتے ہیں، جیسے ان کی موجودگی میں کرتے تھے، وہ ہمیں اسیطرح دیکھتے ہیں جیسے زندگی میں دیکھتے تھے، ان کی نورانی و معنوی شخصیت کا سحر ان کے مرقد پر حاضری دینے والوں کو معلوم ہے، شہید کے بارے اللہ کی پاک کتاب میں ارشاد ہے کہ وہ زندہ ہے اور اپنے خدا سے رزق پاتا ہے، ہاں تم اس کا شعور نہیں رکھتے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ علامہ عارف حسین الحسینی بھی مظلومانہ شہید ہوئے، عالمی استعمار نے ان کی زندگی کا مقابلہ نہ کر سکنے کے بعد ہار مانتے ہوئے انہیں گولی سے وار کرکے سینہ چھلنی کرتے ہوئے شہادت سے سرفراز کیا۔ شہید قائد نے فرمایا تھا کہ امام خمینی کے ذریعے دنیا پر حق کی حجت تمام ہوچکی ہے ۔۔ اور امام خمینی نے شہید کے چہلم کی مناسبت سے جو پیغام دیا، اس میں برملا فرمایا کہ وہ فرزند راستین سیدالشہدا ء تھے۔ یہ کوئی معمولی آدمی کی عامیانہ بات نہیں جسے نظر انداز کرکے آگے بڑھ جائیں۔ یہ اس شخصیت کی بات ہے جو اپنے وقت میں حجت رکھتے تھے، جو نائب امام العصر تھے، جن کے بارے شہید نے فرمایا کہ اگر امام خمینی دن کو کہیں کہ رات ہے تو ہم رات کہیں گے کہ ہماری آنکھوں کا دھوکہ ہوگا اور اگر رات ہو اور امام کہیں کہ دن ہے تب ہم کہیں گے کہ ہاں دن ہے۔۔۔۔!

ان کی متحرک، فعال زندگی، خاندان اوراق زیست کی کہانی کچھ اس طرح ہے کہ آپ 25 نومبر 1946ء کی ایک سہانی فجر کو اپر کرم ایجنسی کے ایک نجیب اور بلند مقام سادات حسینی کے فرد سید فضل حسین شاہ کے گھر میں آنکھ کھولی تھی، پیواڑ کے پرائمری اسکول سے تعلیمی سلسلہ کا آغاز کرنے والے سید عارف نے بعد ازاں اعلٰی تعلیم کے حصول کیلئے نجف و قم کی فضاؤں میں پرواز کی اور علم و عرفان کی منازل طے کیں۔ پیواڑ اپر کرم ایجنسی کا ایک سرحدی گاؤں ہےم جس کے پہاڑ افغانستان کے پہاڑوں سے متصل ہیں، آپ بچپن سے ہی بے حد دیندار، متقی اور پرہیزگار تھے اور یہ سب تو جیسے آپ کو وراثت میں ملا تھا۔ آپ نے پہلی بار 1967ء میں نجف کا سفر کیا، تاکہ اعلٰی علمی مدارج کو طے کرسکیں۔ یہ وہ دور تھا جب عراق میں آقائے محسن الحکیم مجتھد اعلٰی تھے، وہ شروع سے ہی ملکوتی صفات کے مالک تھے، جن کی کرنیں صاحبان نظر کو محسوس ہو جاتی تھیں۔ آپ کے اساتذہ بھی آپ میں عرفانی و معنوی صفات دیکھ لیتے تھے۔

جب حضرت امام خمینی رہ ایران سے جلا وطن ہو کر نجف اشرف پہنچے تو آپ ان کی محفل کے شریک بن گئے اور ہمیشہ نماز ان کی اقتدا میں ادا کرنے کی کوشش کرتے۔ ان سے راز و نیاز کرتے اور ان کے علم و زہد اور فکر و شعور سے بھرپور مستفید ہوتے۔ یہ تعلق اتنا گہرا ہوا کہ عشق خمینی رہ میں تبدیل ہوگیا، اسی عشق نے آپ کو بعد میں قومی حقوق کے نگہبان اور استعمار دشمن قائدین کی صف میں لا کھڑا کیا۔ عراق سے ایران آئے تب بھی یہ تعلق قائم رہا۔ اس نسبت سے آپ کو ایران کی شاہی حکومت کی سختیوں کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ جب آپ ایک بار پاکستان آ رہے تھے تو بارڈر پر آپ کے پاس امام خمینی کا لکھا وکالت نامہ موجود تھا، جس کی برآمدگی کے بعد آپ کو گرفتار بھی کیا گیا۔ پاکستان تشریف لانے کے بعد آپ درس تدریس سے وابستہ ہوگئے اور پاراچنار کے معروف مدرسہ جعفریہ میں دینی تعلیم دینے لگے۔ یہاں بھی آپ کی انقلابی و متحرک زندگی نے اپنے آثار چھوڑنے شروع کئے اور آپ نے نوجوانوں کی سرپرستی اور انہیں منظم کرنے کی کاوشیں کیں۔

آپ انقلاب و امام کے پیامبر بن گئے، جب انقلاب اسلامی برپا ہوا تو آپ پاکستان میں ہی مقیم تھے، انقلاب اسلامی کے وقوع پذیر ہونے کے بعد جب مفتی جعفر حسین قبلہ کی قیادت میں تشیع کے حقوق کی تحریک چلائی گئی تو آپ نے بھرپور طریقہ سے اس کا ساتھ دیا۔ اسلام آباد میں ہونے والے دھرنے میں ناصرف خود شریک ہوئے بلکہ شیخ علی مدد کے ہمراہ ایک بھاری وفد لیکر پہنچے اور جرات مندانہ کردار ادا کیا۔ 1980ء کے اس قومی احتجاج و دھرنے کے بعد آپ کا تعارف ملت میں ہوا اور بعض دوربین شخصیات نے آپ کے اندر تقویٰ، خلوص، درد، بلند فکری و شعور کی بندی کو دیکھا اور آپ سے امیدیں وابستہ کیں۔ 29 اگست 1983ء کو قوم کے قائد علامہ مفتی جعفر حسین قبلہ اپنی بیماری کا مقابلہ کرتے داعی اجل کو لبیک کہہ گئے، اس کے بعد تقریباً چھ ماہ تک قوم بغیر قائد کے رہی۔ جس کے بعد تحریک کی سپریم کونسل کے علماء نے اجلاس بلایا آپ نھی پاراچنار سے ایک وفد کے ہمراہ بھکر تشریف لائے۔ شائد آپ کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ بزرگان موجود تھے، مگر بعض دور اندیش بزرگان نے نوجوان عارف حسین کو ترجیح دی اور آپ کا نام بہ طور قائد کونسل کے سامنے پیش کیا، جس پر سب نے اتفاق کیا اور آپ 10 جولائی 1984ء کے دن آپ کو بھکر میں قائد ملت جعفریہ منتخب کیا گیا۔

قائد منتخب ہونے کے بعد اگر ہم شہید قائد کے پہلے دورہ لاہور سے شروع کرکے ان کی تنظیمی زندگی کا جائزہ لیں تو ہم حیران ہوں گے کہ ایک سرحدی گاؤں سے نکلنے والی یہ شخصیت کس طرح اپنے مختصر دور قیادت میں پوری قوم میں ایک بیداری و تحرک اور یکجہتی پیدا کر دیتی ہے، ان کی مسؤلیت و قیادت کا ایک ایک دن اسلام ناب محمدی کی ترویج، استعمار جہاں کی سازشوں کو ناکام بنانے، امت مسلمہ میں اتحاد و وحدت کو فروغ دینے، پاکستان کو تفرقات، قومیت، علاقائیت، لسانیت اور ہمہ قسم کے تعصبات سے نجات دلانے اور ان حوالوں سے عالمی سازشوں کے تانے بانے بیان کرنے اور حکمرانوں کی چالاکیوں اور اقتدار کو طول دینے کیلئے پاکستان کی سلامتی سے کھیلنے والے منصوبوں کا پردہ چاک کرنے میں گذرتی دیکھی جاسکتی ہے۔ علامہ عارف الحسینی نے مکتبی سیاست کو رواج دیا، وہ ہر مسئلہ پر واضح موقف رکھنے والی شخصیت تھے۔

آج کل مسئلہ کشمیر بہت ابھرا ہوا ہے، آپ کشمیر کے حوالے سے واضح موقف کا اظہار فرماتے تھے۔ ایک بار ملتان میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ۔۔ "اسی طرح ہم امریکہ کی خلیج میں مداخلت کی پرزور مذمت کرتے ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ اگر امریکہ نے خلیج میں کسی قسم کی کوئی کارروائی کی تو امریکہ کے مفادات کو دوسری جگہوں پر بھی خطرہ لاحق ہوسکتا ہے۔ پاکستان میں ہو یا کسی اور جگہ پر۔ ہندوستان کے مظلوم مسلمانوں کے ساتھ جو سلوک کیا جا رہا ہے اور ان کی عبادت گاہوں اور مساجد کی توہین کی جا رہی ہے اور ان کی مساجد کو مندروں میں تبدیل کیا جا رہا ہے، ہم اس کے بارے میں بھی خاموش نہیں رہ سکتے۔ ہم نے اس سلسلے میں پہلے بھی اپنے احساسات و جذبات کا اظہار کیا ہے، ایک بار پھر ہم یہ کہتے ہیں کہ ہندوؤں کی مسلمانوں کے خلاف جو نفرت ہے، ہم اس کی مذمت کرتے ہیں۔ ہم مسلمان حکومتوں کو یہ کہتے ہیں کہ اگر وہ خلیج اور ایران عراق کے مسئلے میں امن کمیٹی بنا کر وہاں اپنے وفود بھیج سکتے ہیں تو ہندوستان کے مسلمانوں کی مظلومیت پر کیوں خاموش ہیں اور کیوں اس کے لئے کام نہیں کرتے؟

مسلمان حکومتوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ ہندوستان کے مظلوم مسلمانوں کی آواز کو سنیں اور ان کی مدد کریں، اسی طرح کشمیر کا مسئلہ ہے ہم دیکھ رہے ہیں کہ جب سے یہ حکمران ہمارے ملک میں برسر اقتدار آئے ہیں، کشمیر کے مسئلے کو انہوں نے چھوڑ دیا ہے اور ہمیں افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ وہ شہداء جنہوں نے کشمیر کے لئے اپنا خون دیا تھا، آج ان کا خون رائیگاں جا رہا ہے۔ لہٰذا کشمیری بھائیوں سے یہ کہتے ہیں کہ وہ اپنے حق کے لئے اٹھ جائیں اور پاکستانی حکومت کو بھی یہ سمجھ لینا چاہئے کہ کشمیر کا مسئلہ جہاد اور شہادت کے جذبے کے ذریعے ہی حل ہوگا۔" انہوں نے اصولوں کی بات کی اور انہی پر عمل پیرا رہے، انہوں نے کسی کا حق غصب کرنے کا سوچا اور نہ ہی کسی کو یہ حق دیا کہ وہ ان کا حق غصب کر لیں۔ وہ باطل کے خلاف بغیر کسی ڈر و خوف کے میدان میں آن کھڑے ہوئے اور ہر ایک کو دعوت دی۔ انہوں نے بدترین آمریت اور اس کے ہتھکنڈوں سے خوف نہیں محسوس کیا، وہ مرد میدان بن کے رہے۔ کسی خانقاہ یا جھونپڑی کے مکین ہونا انہیں قبول نہ ہوا۔

انہوں نے استعمار کو مینار پاکستان پر للکارا، انہوں نے ملتان کے قلعہ قاسم باغ میں قوم کو پکارا، انہوں نے دھوبی گھاٹ گراؤنڈ فیصل آباد میں میدان سجایا، انہوں نے ڈیرہ اسماعیل خان میں قوم کو جمع کیا، انہوں نے سکردو بلتستان کے بلند و بالا پہاڑوں میں امام کاپیغام پہنچایا، انہوں نے گلگت کے فلک بوس کہساروں میں یکجہتی و بیداری کا نعرہ لگایا، انہوں نے بلوچستان اور اندرون سندھ کے گوٹھوں کے مکینوں سے تعلق نبھایا، انہوں نے کراچی کے باشعوروں کو ساتھ ملایا اور ان کی پروازوں کو بلند فرمایا، وہ گھر گھر گئے، قریہ قریہ پہنچے، ان کا پیغام اتحاد تھا، وہ امن کے سفیر تھے، وہ خوشبو کے نقیب تھے، وہ انقلاب کے پیامبر تھے، وہ انسانیت کے یاور و انیس تھے، وہ اس ملک کی تقدیر بدلنے کی امید تھے۔ ان کا قتل اس ملت پر بہت گراں گذرا، یہ ایسا نقصان تھا جس کا جبران ممکن ہی نہیں تھا، جس کا خمیازہ ہم بھگتتے آ رہے ہیں اور نہ جانے کب تک۔۔۔؟

5 اگست 1988ء کی دم فجر پشاور میں حالت وضو میں سینے پر گولی کھانے والے سید عارف الحسینی کو ان کے آبائی گاؤں پیواڑ پاراچنار میں سپرد خاک کیا گیا۔ ان کا نماز جنازہ امام خمینی کے بھیجے ہوئے خصوصی وفد کے قائد جناب آیۃ اللہ جنتی نے پشاور کے باغ جناح میں پڑھایا، جس میں اس وقت کے صدر اور گورنر سمیت سینیٹ کے چیئرمین نے بھی شرکت کی، جبکہ پاکستان بھر سے عاشقان شہید دھاڑیں مارتے ہوئے اپنے عظیم قائد کے آخری دیدار کیلئے پہنچے، پاکستان کا ہر شہر احتجاج اور غم و غصہ کی تصویر بن گیا۔ پشاور میں ہونے والے نماز جنازہ میں قاتل موجود تھے، جوان بپھرے ہوئے تھے، مگر علماء و بزرگان کے حکم کے سامنے سر تسلیم خم کئے ہوئے تھے، جنازے میں موجود قاتل بھی کہہ رہے تھے یہ غیر ملکی سازش ہے، کیا عجب بات تھی گویا داغ دہلوی کے بقول
وہ قتل کر کے مجھے ہر کسی سے پوچھتے ہیں
یہ کام کس نے کیا ہے، یہ کام کس کا ہے؟


ہر طرف یہ نعرہ گونج رہا تھا، آل سعود آل یہود، مرگ بر امریکہ، مرگ بر آل سعود، حسینی تیرئے مشن کو منزل تک پہنچائیں گے، زندہ ہے حسینی زندہ ہے، برادر بزرگ تسلیم رضا خان نے شہید کی زندگانی پر اپنی لکھی گئی شہرہ آفاق کتاب "سفیر نور" کے پہلے ایڈیشن کا انتساب ان الفاظ میں لکھا تھا، مقتل میں بہنے والے شہید کے خون کے پہلے قطرے کے نام، جس میں آمریت کے خاتمے کا عزم شامل تھا۔۔ یہ بات صداقت پر مبنی ہے، ثابت شدہ حقیقت ہے، شہید آمریت کے جس قدر خلاف تھے اور اپنی زندگی میں آمر حکمران سے ٹکر لیتے رہے تھے اور اس ملک کے عوام کیلئے اس سے نجات کی تدبیریں کرتے آئے تھے، اپنی زندگی میں اس چھٹکارا نہ پاسکے تو اپنی زندگی ہی داؤ پر لگا دی اور ملک کو اس نجات دلانے میں اپنا پاک لہو شامل کر دیا، پھر ہم سب نے دیکھا کہ اس بارہویں کے حقیقی مجاہد و مدد گار و ناصر کی شہادت کے ٹھیک بارہ دنوں بعد اس ملک پر مسلط گیارہ برسوں کی بدترین آمریت کا خاتمہ ہوگیا اور آپ کے قتل کی سازش کرنے والے اپنے سازش گروں کی سازش کا شکار ہوگئے اور مملکت خداداد پاکستان پر گیارہ برسوں سے مسلط آمریت کا منحوس سایہ چھٹ گیا۔
خبر کا کوڈ : 557696
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Iran, Islamic Republic of
ارشاد صاحب پیغمبر کے بعد علی کو چهوڑ دینا وفا نهیں تو شهید قائد کے بعد اس کے جانشین سے منه پهیر لینا اور امام خمینی اور امام خامنه ای کو تنها چهوڑنا کہاں وفا کہلائے گا ؟!!!!!
Iran, Islamic Republic of
صبح کا بهٹکا هوا اگر رات کو واپس آجائے تو اسے ملائمت نهیں کرتے۔ لهذا خواهش هے اگر واقعا شهید قائد کے سچے وفادار هو تو اس کے جانشین کو تنها مت چهوڑو اور امام خامنه کے نماینده کا دل سے ساته دو۔
Iran, Islamic Republic of
ارشار صاحب اگر واقعا حق کی پیروی کرنا هے تو شهید قائد کے حقیقی جانشین کی پیروی کرو۔
ساجد نقوی
Iran, Islamic Republic of
بھائی میں ایک ان پڑھ بندہ ہوں، آپ قائد شہید کے حقیقی جانشین کا نام بھی لکھ دیں اور اگر ہوسکے تو ان سے پوچھ بھی لیں کہ کیا وہ حق جانشینی ادا بھی کر رہے ہیں کہ نہیں۔
سیف خان
Iran, Islamic Republic of
پاکستان میں تو ہر دوسرا بندہ شہید حسینی کا جانشین بننے کا دعہویدار ہے۔ آپ حقیقی جانشین کی چند نشانیاں بھی بتا دیتے برادر عزیز، تاکہ ہم لوگوں کے لئے آسانی ہو جاتی۔
عابد گیلانی
United Kingdom
بصیرت کی کمی ہے ورنہ شہید نے جس کو نائب بنایا تھا وہی جانشین بنے گا یا بیس سال اچانک پردہ غیبت سے کوئی وارث ہونے کا دعوی کرے۔
Iran, Islamic Republic of
نشانی امام خامنه سے سوال کرو اور تقویٰ الهی اختیار کرو اور هوا نفسانی کو ترک کر دو۔
Pakistan
جناب عالی اگر علامہ عارف حسینی نے کسی کو جانشین بنایا تھا تو پھر ان کی شہادت کے بعد رائے شماری کیوں ہوئی تھی؟ جاکر بزرگان سے پوچھیں کہ جب جانشین کا الیکشن ہوا تھا تو سندھ اور بلوچستان کے تحریکی علماء کے ووٹ سے پہلے ہی اعلان کر دیا گیا کہ فلاں منتخب ہوگئے ہیں، جس پر وہاں سخت احتجاج ہوا اور کافی عرصے تک سندھ اور بلوچستان کے وہ تحریکی علماء یا خاموش ہوگئے یا مخالف۔ لہذا یہ ایک حقیقت ہے کہ جانشین کا نام شہید نے نہیں دیا تھا بلکہ شہادت کے بعد ان کا الیکشن ہونا تھا اور جہاں تک ولی فقیہ کی نمائندگی کی بات ہے تو اس میں مینڈیٹ واضح ہے اور سیاست سے اس کا کوئی تعلق نہیں اور جو مینڈیٹ علامہ صاحب کو حاصل ہے، اسی نمائندگی کے لیٹر میں پاکستان کے سارے علماء کو بھی وہی ذمے داری ادا کرنے کا کہا گیا ہے، جس کے لئے نمائندہ ولی فقیہ کو نمایندگی دی گئی ہے۔ انہیں کسی جماعت کے قائد کی حیثیت سے کبھی بھی نمایندگی نہیں دی گئی تھی۔ لہٰذا ان کی سیاسی روش کی مخالفت ولایت فقیہ کی مخالفت نہیں ہوسکتی۔ میں ان کی نمایندگی کا احترام کرتا ہوں لیکن اسی مینڈیٹ کا تحت جو لیٹر میں لکھا ہے۔
ہماری پیشکش