0
Saturday 6 Aug 2016 05:29

پاک افغان موثر تعلقات متاثر کیسے ہوئے(1)

پاک افغان موثر تعلقات متاثر کیسے ہوئے(1)
تحریر: عمران خان

ہیلی کاپٹر عملے کی عدم بازیابی

افغان طالبان کی جانب سے یہ تو قبول کیا گیا ہے کہ لوگر میں ہنگامی لینڈنگ کرنے والے پاکستانی ہیلی کاپٹر کا عملہ ان کی تحویل میں ہے اور اس عملے کی خوب خاطر مدارت بھی جاری ہے مگر اڑتالیس گھنٹے گزرنے کو ہیں، تاحال عملے کی رہائی عمل میں نہیں آئی۔ طالبان کمانڈر نے یہ بھی کہا ہے کہ پاکستان کو امریکی یا افغان فوجی حکام سے بات کرنے سے کوئی فائدہ حاصل ہونے والا نہیں ہے۔ جمعرات کی صبح پاکستانی MI-17 ہیلی کاپٹر نے پشاور سے بخارا کیلئے اڑان بھری۔ حکومتی ذرائع کے مطابق ہیلی کاپٹر اوور ہالنگ کی غرض سے ازبکستان جا رہا تھا کہ راستے میں فنی خرابی کی بناء پر اسے افغان صوبہ لوگر میں ہنگامی لینڈنگ کرنی پڑی، جہاں افغان طالبان نے اس کے عملے کو اپنی تحویل میں لیکر ہیلی کاپٹر کو آگ لگا دی۔ ہیلی کاپٹر میں عملے سمیت کل سات افراد سوار تھے۔ پائلٹ سمیت چھ افراد کا تعلق پاک فوج جبکہ ایک روسی ماہر بھی ہیلی کاپٹر میں سوار تھا۔ جن میں کرنل صفدر، لیفٹیننٹ کرنل شفیق، روسی ماہر سرگئی سیوفی نوف، لیفٹیننٹ کرنل ریٹائرڈ ناصر، حوالدار کوثر، میجر ریٹائرڈ سفیر شامل ہیں۔ ایک جانب افغان حکومت پاکستان پر الزامات کا سلسلہ طویل عرصہ سے جاری رکھے ہوئے ہے، جیسا کہ چند روز قبل ہی افغان صدر اشرف غنی نے بیان جاری کیا کہ پاکستان میں ابھی تک طالبان کے ٹھکانے موجود ہیں۔

دوسری جانب پاک افغان سرحد پر مسلح افواج کے درمیان ہونے والی جھڑپوں کے باعث دونوں ممالک کی حکومتوں اور اداروں کے درمیان تعلقات سرد مہری کا شکار ہیں، خاص طور پر طورخم بارڈر پر پاک افغان فورسز کے درمیان جھڑپ میں دونوں جانب سے قیمتی جانی نقصان کے بعد یہ تلخی اور بھی زیادہ بڑھ چکی ہے۔ اس لحاظ سے افغانستان میں افغان طالبان ہی وہ واحد قوت تھے، جن کے متعلق یہ گمان کیا جاتا تھا کہ پاکستان سے ان کے روابط بہتر ہیں، تاہم ہیلی کاپٹر عملے کی بازیابی میں ہونیوالی مسلسل تاخیر اب کئی خدشات کو جنم دینے لگی ہے اور اس گمان کی نفی کرنے لگی ہے۔ دو ماہ قبل بلوچستان میں ملا اختر منصور کی ہلاکت کے بعد میڈیا کی بعض رپورٹس میں یہ خدشہ بھی ظاہر کیا گیا تھا کہ افغان طالبان اب پاکستان سے زیادہ ایران کو اپنے لئے قابل بھروسہ سمجھتے ہیں۔ اگر افغان عوام، اداروں اور حکومت کے بعد افغان طالبان بھی اعلانیہ طور پر پاکستانی عملے کی اغوائیگی قبول کر رہے ہیں تو ہمارے پالیسی ساز، دفاعی ماہرین، اداروں اور حکومت کیلئے یہ حقیقت باعث تشویش ہونی چاہیئے، جو اب تک افغانستان سے متعلق تزویراتی گہرائی کے خوشنما تصور کا شکار رہے اور حقیقت یہ کہ آج افغانستان میں پاکستان دوست عنصر ڈھونڈے نہیں ملتا۔

تزویراتی گہرائی کا تصوراور افغان جہاد
جون کے وسط میں طور خم بارڈر پر پاک افغان فورسز کے مابین ہونے والی جھڑپوں کے بعد وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف نے ایوان بالا میں اپنے خطاب کے دوران کہا کہ افغانستان میں تزویراتی گہرائی Strategic Depth کا تصور ختم ہوچکا ہے۔ البتہ وزیر خزانہ یا وزیر داخلہ نے ان قربانیوں یا اخراجات کی تفصیل پیش نہیں کی تھی، جو اس تصور کے پیدا ہونے سے ختم ہونے کے درمیان خرچ ہوئے۔ ہم اس تفصیل میں پڑے بغیر کہ افغانستان میں تزویرائی گہرائی ہم نے کس دشمن کو سامنے رکھ کر دی۔ اگر بھارتی دشمنی کو ہی سامنے رکھ کر ہم نے افغانستان سے متعلق یہ تصور اپنایا تھا تو بنیادی طور پر یہ تصور یوں بھی غلط تھا کہ بھارت ہمارے مشرق میں اور افغانستان مغرب میں ہے۔ چنانچہ بھارت کے آگے بڑھنے کی صورت میں پنجاب یعنی جی ایچ کیو اور وفاق افغانستان سے پہلے آتے ہیں۔ کسی وار کالج میں ایسا نظریہ نہیں پڑھایا جاتا کہ دفاعی مرکز اس علاقے سے پہلے ہو جہاں آپ نے دشمن کو روکنے کا بندوبست کر رکھا ہو، یا دشمن سے لڑنے کیلئے آپ کی افرادی قوت موجود ہو۔ چنانچہ افغانستان سے متعلق اگر تزویرائی گہرائی کا تصور موجود تھا تو وہ روس کو مدنظر رکھ کے ہوسکتا تھا، حالانکہ روس سے ہماری براہ راست دشمنی نہیں تھی، البتہ امریکی مفادات کی خاطر ہم نے روس کو افغانستان میں للکارا اور امریکی خوشنودی کی خاطر افغانستان میں جہاد کا علم بلند کیا۔

اس جہاد کے حوالے سے اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین مولانا شیرانی کا بیان ابھی زیادہ پرانا نہیں ہوا، جس میں انہوں نے کہا کہ امریکہ کو روس کیخلاف کرائے کی افرادی قوت کی ضرورت تھی، جس کیلئے نصاب میں جہاد کی آیات شامل کی گئیں۔ خیر ایوان میں خواجہ آصف کا بیان کہ افغانستان میں تزویراتی گہرائی کا تصور دفن ہوچکا ہے، یوں بھی درست تھا کہ امریکہ سے ہزاروں زخم کھانے کے بعد ہمیں اتنی سمجھ تو بہرحال آ ہی چکی ہے کہ جس کے مفادات کی خاطر ہم اپنی تزویراتی گہرائی افغانستان میں ڈھونڈتے رہے، اسی نے افغانستان میں بیٹھ کر ہمارے ہی دشمن بھارت کے ہاتھ مضبوط کرکے ہمیں بے دست و پا کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی۔ جس زمین کو ہم اپنا دفاع سمجھ کر مہربان رہے، وہی ہمارے خلاف پوری شدت سے استعمال ہو رہی ہے، جن کی پرورش اپنے ہاتھوں سے کی، وہ ہمارے نام و نسل کے دشمن ہوچکے ہیں اور جن کو دودھ پلایا وہ زہر اگل رہے ہیں۔ علاوہ ازیں افغانستان کے حوالے سے ہماری پالیسی کبھی بھی خالصتاً ہمارے مفادات کے تحت نہیں رہی، بلکہ دوسروں خصوصاً امریکہ کی خاطر ہم اپنی پالیسی میں تبدیلی کرتے رہے اور بعض اوقات ذاتی مقاصد کے حصول کی خاطر ملکی و قومی مفاد قربان کیا۔

پاکستانی پالیسی، ذاتی مفاد پر قومی مفاد قربان

افغان جہاد میں پاکستان نے جب افغان مہاجرین کو قبول کیا تو اس وقت بھی ذمہ داری سے زیادہ وہ امداد ہمارے لئے زیادہ پرکشش محسوس تھی جو ان مہاجرین کے ساتھ آئی۔ افغان مہاجرین جب آہی گئے تو انہیں کسی قانون و ضابطے کا پابند نہیں رکھا، بلکہ وہ پہلے دیہی اور بعد ازاں شہری اور بالآخر وہ وسائل پر قابض ہوتے گئے، تاہم وطن عزیز کے پالیسی سازوں نے نظرانداز کیا۔ یہاں تک کہ مذہب کے نام پر سرگرم مخصوص سیاسی جماعتوں نے اپنا ووٹ بینک بڑھانے کیلئے ان مہاجرین کو پاکستانی شہریت دینے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ یہ اسی پالیسی کا ہی ثمر ہے کہ بلدیاتی انتخابات کے بعد پاکستان میں افغانی کونسلر اور ناظم بھی دستیاب ہیں۔ نائن الیون کے بعد امریکہ کو یہ امید نہیں تھی کہ پاکستان غیر مشروط طور پر امریکہ کے تمام مطالبات مان لے گا، اس وقت کے جنرل مشرف نے تمام مطالبات پر سرتسلیم خم کیا۔ مشرف نے اتنی یقین دھانی لینی بھی مناسب نہیں سمجھی کہ طالبان کے بعد برسر اقتدار آنے والی حکومت کی پاکستان کے ساتھ تعلقات کی کیا نوعیت ہوگی۔؟ افغانستان میں نیٹو کے پہنچ جانے کے بعد جو پہلا الزام ہی پاکستان کے حصے میں یہ آیا کہ پاکستان کی زمین افغانستان کے خلاف استعمال ہو رہی ہے، دراندازی ہو رہی ہے، نیٹو کی کامیابی میں پاکستان رکاوٹ ہے۔ اس دوران پاکستان سے شدت سے یہ مطالبہ بھی کیا گیا کہ وہ اپنے قبائلی علاقوں میں آپریشن کرے اور نیٹو یا افغانستان میں امریکہ کی کٹھ پتلی حکومت کے مفادات پر حملے کرنے والوں کے خلاف کارروائی کرے۔

اس مطالبے کے ساتھ ہی پاکستان میں دہشت گردی کا لامتناہی سلسلہ شروع ہوا۔ ساٹھ ہزار سے زائد جانیں قربان ہونے اور دو سو ارب ڈالر سے زائد نقصان برداشت کرنا پڑا۔ افغانستان میں موجود امریکہ اور اس کی کٹھ پتلی افغان حکومت دہشت گردوں کو شیلٹر فراہم نہ کرتے تو شائد پاکستان کو اتنے نقصان کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔ علاوہ ازیں نیٹو فورسز کی جانب سے بھی باقاعدہ طور پر یہ الزام عائد کیا گیا کہ افغان و نیٹو فورسز پر حملے کرنے والے پاکستانی علاقوں سے آتے ہیں، لہذا پاکستان ان کی روک تھام یقینی بنائے۔ ان مسلسل الزامات کے جواب میں جب پاکستان کی جانب سے یہ پیش کش کی گئی کہ ڈیورنڈ لائن کو مکمل طور پر محفوظ بنانے کیلئے افغانستان اپنی طرف سے خاردار باڑ لگائے اور پاکستان اپنی طرف سے لگائے گا۔ جسے امریکہ، نیٹو اور افغان حکومت نے قطعاً مسترد کر دیا اور افغان حکومت نے دریائے سندھ تک کے علاقے پر اپنا کلیم کیا۔ واضح رہے کہ امریکہ و نیٹو فورسز کی یہ بیان بازیاں اس وقت جاری تھی، جب ان کی نوے فیصد رسد (سپلائی لائن) پاکستان کے ذریعے ہو رہی تھی اور پاکستان میں دیگر دہشت گردی کے علاوہ نیٹو سپلائی لائن کے قافلوں کو بھی نشانہ بنایا جا رہا تھا۔ سلالہ چوکی پر امریکی حملے کے بعد امریکہ نے سفارتی زبان میں ایکسکیوز کیا، جسے پاکستان نے معافی تسلیم کرتے ہوئے سپلائی لائن تو بحال کی مگر سرحد کے دونوں جانب غیر قانونی آمدروفت اور دراندازی کا سلسلہ کسی طور نہ تھم سکا۔ یہاں تک کہ پاکستان میں آرمی پبلک سکول، یونیورسٹیوں، کالجز پر انتہائی دلخراش دہشت گردانہ حملے ہوئے۔ ان تمام حملوں میں افغان سرزمین استعمال ہوئی۔

ڈیورنڈ لائن اور بارڈر مینجمنٹ
دہشت گردوں اور جرائم پیشہ عناصر کی آمدورفت روکنے کیلئے پاکستان کی جانب سے جب بھی بارڈر مینجمنٹ کی تجویز پیش ہوئی، اس کو بری طرح رد کیا گیا۔ نتیجے میں دونوں جانب دہشت گرد، سمگلر اور جرائم پیشہ عناصر کے علاوہ سیاح، دونوں ملکوں کے شہری اور قبائلی افراد بلا روک ٹوک دونوں ملکوں کا سفر کرتے رہے۔ دونوں ممالک کی حکومتوں کے مابین الزامات اور ڈیورنڈ لائن پر فورسز کے درمیان گاہے بگاہے جھڑپیں ہوتی رہیں۔ پاکستان اور افغانستان کے مابین تنازعہ کی بنیاد اس ڈیورنڈ لائن کو کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا۔ افغانستان کے ساتھ یہ تنازعہ قیام پاکستان سے پہلے کا چلا آرہا ہے۔ برطانوی ہندوستان اور افغانستان کے درمیان سرحد کا باقاعدہ تعین نہ ہونے کی وجہ سے جھگڑے ہوتے۔ 1893ء میں سر مور ٹیمور ڈیورنڈ اور امیر عبدالرحمن کے درمیان سرحد کے حوالے سے معاہدہ طے پایا، اس کے نتیجے میں جو عارضی سرحد وجود میں آئی، اسے موجودہ ڈیورنڈ کہا جاسکتا ہے۔ قیام پاکستان کے وقت افغانستان نے برطانیہ اور پاکستان سے اپنے علاقوں کی واپسی کا مطالبہ کیا، جو کہ پاکستان کا حصہ تھے، افغانستان کے اس مطالبے کو دونوں نے نظرانداز کیا۔ نتیجے میں افغانستان نے اقوام متحدہ میں پاکستان کی رکنیت کی مخالفت کی۔

دونوں ممالک نے اس مسئلہ کو کبھی بھی سفارتی طریقے سے یا کسی عالمی فورم پر حل کرنے کی کوشش ہی نہیں کی، جبکہ دونوں کی جانب سے الزامات، دھمکیوں کا سلسلہ جاری رہا۔ ابتدا میں افغانستان نے پاکستان میں پختونستان بنانے کی تحریک شروع کی۔ اس حوالے سے خدائی خدمتگار تحریک پر غداری کے الزامات لگے، مگر اس تحریک کو زیادہ پذیرائی نہیں ملی۔ پاکستان نے بھی کچھ عرصہ بعد گلبدین حکمت یار، احمد شاہ مسعود و دیگر افراد کو پاکستان میں پناہ دی۔ جس پر اس وقت کی افغان حکومت شدید برہم رہی اور اسے افغاسنتان میں اندرونی مداخلت کے مترادف قرار دیا۔ افغانستان میں روس کے داخل ہونے کے بعد پاکستان کے رستے سی آئی اے مارکہ جہاد شروع ہوا۔ جس کے دوران سی آئی اے نے دونوں ملکوں کے مختلف اداروں، شعبوں بالخصوص مذہبی و عسکری طبقے میں اپنا گہرا نفوذ پیدا کیا۔ روسی انخلاء کے بعد طالبان کی حکومت قائم ہوئی تو انہوں نے بھی ڈیورنڈلائن کو مستقل سرحد بنانے سے اتفاق نہیں کیا اور عالمی برادری نے ان کی حکومت کو تسلیم ہی نہیں کیا۔ باالفاظ دیگر پاکستان نے افغانستان میں جو اپنے لوگ بنائے ان کی شناخت اتنی متنازعہ تھی کہ عالمی برادری ان کی حکومت کو تسلیم کرنے کیلئے رضا مند ہی نہیں تھی۔ کبھی جرنیلی دماغوں میں افغانستان کو پانچواں صوبہ بنانے کی سوچ ابھری تو کبھی ڈیورنڈ لائن کو مستقل سرحد تسلیم کرانے کی کوششیں کی۔

پاکستان جنگی اور دفاعی سوچ کے ساتھ افغانستان میں اتنا دخیل رہا کہ طالبان نے بھی ڈیورنڈ لائن کو مستقل سرحد تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ صدر آصف علی زرداری کے دور حکومت میں بھی اسی ڈیورنڈ لائن کے تنازعہ پر پاکستان اور افغانستان کے درمیان باقاعدہ جھڑپیں ہوئی۔ حاصل کلام افغانستان میں موجود جتنی بھی قوتیں اسٹیک ہولڈر ہونے کی دعویدار تھیں، پاکستان پر دراندازی کا الزام تو عائد کرتی رہی، مگر بارڈر مینجمنٹ کی پاکستانی خواہش کو مسلسل نظرانداز کیا گیا۔ ایک خیال یہ بھی ہے کہ سرحدی انتظامات کی مخالفت کی ایک بڑی وجہ ڈرگ اور اسلحہ کی سمگلنگ کو آزاد رکھنا تھا، گرچہ نائن الیون کے بعد امریکی حملے سے پہلے ہی امریکہ افغانستان میں قدم مضبوط کرچکا تھا، مگر بعض مفادات کے حصول کیلئے طاقت کا استعمال و فوجی موجودگی اس کیلئے ناگزیر تھی۔ ڈرگ کی صنعت کے دوام کیلئے افغانستان کی زمین سی آئی اے کیلئے زرخیز تھی تو اسلحہ کی صنعت بچائے رکھنے کیلئے مخصوص خطوں میں جنگی ماحول کو برقرار رکھنا امریکی مجبوری ہے، لے دے کر افغان سرزمین دونوں حوالوں سے معیاری ثابت ہوئی۔

افیون اور پوست، افغان زمین کا ثمر

دنیا میں سب سے بڑا کاروبار تیل کا ہے، دنیا کی معیشت کنٹرول کرنے والے اسی سے وابستہ ہیں۔ دوسرا بڑا کاروبار اسلحہ کا ہے۔ امریکہ کی کل آمدن کا پچاس فیصد اسلحہ کی فروخت سے حاصل ہوتا ہے۔ اس انڈسٹری کے پھلنے پھولنے کیلئے ضروری ہے کہ دنیا جنگوں میں مصروف رہے۔ دنیا میں تیسرا بڑا کاروبار ڈرگز کا ہے، چونکہ یہ مکمل طور پر غیر قانونی ہے، لہذا اس کے عالمی سطح پر کوئی درست اعداد و شمار دستیاب نہیں۔ ایک خیال یہ بھی ہے کہ جس طرح امریکہ کی پچاس فیصد سے زائد کا ذریعہ آمدن اسلحہ ہے، اسی طرح سی آئی اے کا ستر فیصد انحصار اسی ڈرگ کے کاروبار پر ہے۔ دوسرے لفظوں میں اسلحہ کو امریکہ کی وائٹ منی اور ڈرگز کو بلیک منی سمجھا جاتا ہے۔ امریکن سی آئی اے (CIA) دنیا کی سب سے بڑی خفیہ ایجنسی ہے، جس کے آپریشنز پر ملکوں کے بجٹ سے زائد اخراجات آتے ہیں، جو وہ ڈرگ و منشیات کے کاروبار سے پورا کرتی ہے۔ ڈرگ کے کاروبار پر گرفت کیلئے افیون کے پیداواری علاقوں پر تسلط نہایت ضروری ہے۔ دنیا میں دو خطے ایسے ہیں جہاں سب سے زیادہ ڈرگز پیدا ہوتی ہیں۔ ایک چین کے قریب میانمار اور تھائی لینڈ وغیرہ کا علاقہ ہے، جس کو گولڈن ٹرائی اینگل کہا جاتا ھے اور کسی دور میں دنیا میں سب سے زیادہ افیون پیدا کرنے والا خطہ تھا۔

دوسرا خطہ جسے گولڈن کریسنٹ کہا جاتا ہے، وہ افغانستان کا علاقہ ہے، جہاں دنیا کی تقریباً 90 سے زیادہ افیون اور ہیروئین پیدا کی جاتی ہے۔ ان میں سے اکثر ان علاقوں میں پیدا کی جاتی ہے جہاں امریکہ کا کنٹرول ہے۔ مغربی میڈیا نے اپنی بعض رپورٹس میں یہ انکشاف کیا تھا کہ افغانستان پر امریکی حملے کے بعد افیون کی ریکارڈ پیداوار سے اتنی آمدن حاصل ہوئی، جس سے عراق جنگ کے اخراجات سنبھالنے میں مدد ملی۔ ان رپورٹس میں یہ کہا گیا کہ نیٹو کے کنٹینرز میں ٹنوں کے حساب سے ایسیٹک این ہائڈرائیڈ نامی کیمیکل افغانستان جانے کا مقصد ہیروین کی تیاری ہے۔ ڈرگ اور منشیات سے جڑے سی آئی اے کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ اس کے استعمال سے مرنے والے کون ہیں یا کون نہیں۔ بعض رپورٹس میں یہ بھی انکشاف کیا گیا ہے کہ امریکی افواج کے اتحادیوں کو ڈرگز کے کاروبار میں حصہ بقدر جثہ ملتا ہے، اور امریکہ نے دنیا کے کئی چنیدہ جرنیلوں کو اسی دھندے پر لگایا ہوا ہے۔ حامد کرزئی کے بھائی ولی کرزئی پر بھی اسی کاروبار سے وابستگی کا الزام ہے۔ افغان جنگ کے دوران حامد کرزئی کو پاکستان نے پناہ دی تھی۔ کرزئی دور حکومت میں افغانستان بھارت میں قربتیں زیادہ ہوئی، تاہم پیپلز پارٹی کے آخری دور حکومت میں پاکستان نے افغانستان اور ایران کے ساتھ تعلقات کو بہتر کرنے کی کوشش کی اور گیس پائپ لائن سمیت دیگر منصوبوں کو حتمی شکل دی گئی، مگر بیرونی دوست نما دشمن ان منصوبوں کی راہ میں حائل رہے اور نتیجتاً دونوں ملکوں سے ہم دور ہوتے گئے۔
(جاری ہے)
خبر کا کوڈ : 558222
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش