3
1
Thursday 11 Aug 2016 17:37

سات نکاتی سعودی ایجنڈا اور پاکستان

سات نکاتی سعودی ایجنڈا اور پاکستان
تحریر: عرفان علی

عربستان نبوی ﷺ پر مسلط آل سعود کی بادشاہت موجودہ بادشاہ سلمان بن عبدالعزیز کے دور میں کھل کر سامنے آگئی ہے۔ یہ بادشاہت ایک سات نکاتی ایجنڈے پر عمل پیرا ہے، جس کا تذکرہ سابق سعودی میجر جنرل انور عشقی نے اسی سال ماہ جون میں امریکہ میں کیا۔ اسی انور عشقی کی قیادت میں ایک سعودی وفد نے 22 جولائی کو جعلی ریاست اسرائیل کا ایک دوستانہ دورہ کیا۔ 4 جون ور 22 جولائی کے درمیان 9 جولائی 2016ء کے دن کا ذکر بھی سعودی پالیسی کو سمجھنے کے لئے مددگار ثابت ہوگا کہ اس دن شاہ فیصل کے بیٹے ترکی الفیصل نے پیرس کے قریب ایران کے اسلامی جمہوری نظام کے دشمن دہشت گرد گروہ منافقین خلق کے سالانہ اجتماع میں شرکت کی اور ان سے خطاب میں انہیں اپنے ہر ممکن تعاون کا یقین دلایا۔ سعودی عرب کی بادشاہت بھی تاحال اسرائیل کو ایک مملکت تسلیم نہیں کرتی تو یہ کیسے ممکن ہے کہ سعودی عرب کی حکومت کی اجازت کے بغیر جنرل انور عشقی نے جعلی ریاست اسرائیل کا دورہ کیا ہو؟ کیا سعودی پاسپورٹ میں پاکستانی پاسپورٹ کی طرح یہ تحریر نہیں کہ یہ پاسپورٹ اسرائیل کے سفر کے لئے استعمال نہیں ہوسکتا؟ جب سعودی ریاست کے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات ہی نہیں تو سعودی پاسپورٹ پر اسرائیلی ویزا کیسے لگ گیا؟ لہٰذا سعودی وزارت خارجہ و داخلہ کو اس کی تفصیل سے وضاحت کرنی چاہئے کہ اگر انور عشقی کا حکومت سے اب کوئی تعلق نہیں تو عام سعودی شہری کی حیثیت سے بھی سعودی پاسپورٹ پر جعلی ریاست اسرائیل کے ممنوعہ سفر کی اجازت کیوں کر دی گئی؟

چونکہ انور عشقی اور ان کے وفد کے اراکین نے سعودی پاسپورٹ پر یہ سفر کیا، اس لئے عشقی کے بیان کردہ سات نکاتی ایجنڈا کو سنجیدگی سے لیا جانا چاہئے۔ ایران کی امریکہ و اسرائیل دشمنی کا دکھڑا سنا کر انور عشقی نے امریکی تھنک ٹینک کاؤنسل آن فارین ریلیشنز کے توسط سے امریکی خواص کو بتایا کہ ان کے خطے کی یہ ساری صورتحال متقاضی ہے سات نکاتی حکمت عملی کی۔
اس میں سرفہرست عرب اور اسرائیل کے مابین امن قائم کرنا ہے۔
نمبر دو ایران کا سیاسی نظام تبدیل کرنا ہے۔
نمبر تین خلیج فارس کے عرب ممالک کا اتحاد۔
نمبر چار یمن میں اس طرح امن قائم کرنا کہ عدن کی بندرگاہ کو بحال کر دیا جائے، تاکہ خلیج میں روزگار کے مواقع میں جو عدم توازن ہے، اسے متوازن کر دیا جائے یعنی جو لوگ روزگار کی تلاش میں متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب کو ترجیح دیتے ہیں، وہ یمن کا رخ کریں۔
نمبر پانچ امریکہ اور یورپی ممالک کی آشیرباد سے ایک عرب فوج کا قیام، جو خلیج سمیت سارے عرب ممالک کا دفاع کرے اور استحکام کی حفاظت کرے۔
چھٹا نکتہ سب سے زیادہ مضحکہ خیز ہے کہ فوری طور پر عرب ممالک میں اسلامی اصولوں کے مطابق جمہوریت کی بنیاد رکھیں۔ مضحکہ خیز اس لئے کہ اسلامی اصولوں کی بنیاد پر جمہوریت ہوگی تو وہ جعلی ریاست اسرائیل کا خاتمہ چاہے گی اور وہ امریکہ و یورپ سے اپنے تحفظ کی بھیک نہیں مانگے گی اور اس کے ایران کی اسلامی جمہوری حکومت کے ساتھ اچھے تعلقات ہوں گے، لہٰذا یہ چھٹا نکتہ ان عرب بادشاہتوں اور آمروں کے منہ سے کچھ اچھا نہیں لگتا۔
ساتواں نکتہ یہ ہے کہ ایک عظیم تر کردستان کے قیام کے لئے کام کرنا، جس سے ایران، ترکی اور عراق کے ارادے کمزور ہوں گے اور ان ملکوں کا یک تہائی حصہ ان سے جدا ہوکر کردستان کا حصہ بن جائے گا۔

یہ ہے سعودی عرب کا سات نکاتی ایجنڈا جو انور عشقی نے بیان کیا ہے۔ ترکی الفیصل نے منافقین خلق کے سالانہ اجلاس میں خطاب کرکے انہیں تعاون کا یقین دلایا ہے۔ اس سے قبل وہ جعلی ریاست اسرائیل کے سابق وزیر دفاع کے ساتھ مشترکہ پروگرموں میں شرکت بھی کرچکے ہیں اور ان کے مقالے جعلی ریاست اسرائیل کے اخبارات میں شایع بھی ہوچکے ہیں۔ ترکی الفیصل سعودی بادشاہ فیصل کے بیٹے، سعودی عرب کی انٹیلی جنس کے سابق سربراہ اور امریکہ میں سابق سفیر رہ چکے ہیں۔ انور عشقی 2002ء سے سعودی عرب میں ایک تھنک ٹینک چلا رہے ہیں۔ وہ کچھ عرصہ سعودی عرب کے سابق انٹیلی جنس چیف اور امریکہ میں سابق سفیر شہزادہ بندر بن سلطان کے مشیر بھی رہ چکے ہیں۔ سعودی عرب نے اعلانیہ طور پر جو پالیسی اختیار کر رکھی ہے، اس کی روشنی میں انور عشقی کی باتوں اور دورہ اسرائیل کو کسی غیر حکومتی شخصیت کی ذہنی اختراع اور انفرادی عمل قرار نہیں دیا جاسکتا۔ ماضی میں صہیونی اخبارات نے بھی سنڈے ٹائمز لندن کی اس خبر کو شائع کیا کہ اگر ایران پر اسرائیل حملہ کرے گا تو سعودی عرب اسے اپنی فضائی حدود استعمال کرنے کی اجازت دے گا۔ بندر بن سلطان جب امریکہ میں سعودی سفیر تھے، تب پاکستان کی امریکہ میں سفیر بیگم سیدہ عابدہ حسین (1991-93) نے ان کا ایک واقعہ بیان کیا ہے۔ انکی خود نوشت Power Failure میں عابدہ حسین نے لکھا کہ وہ واشنگٹن ڈی سی میں ایک تقریب میں مدعو تھیں، جہاں بندر بن سلطان اسرائیلی سفیر کے ساتھ بغل گیر ہوکر محو گفتگو تھے۔ اس بندر بن سلطان کو پاکستانی سفیر نے کئی مرتبہ دعوت دی، لیکن انہوں نے کبھی بھی پاکستانی سفیر کی دعوت قبول نہ کی۔

عظیم تر کردستان کا قیام پرامن طریقوں سے تو ممکن نہیں۔ لا محالہ اس کے لئے مسلح گروہوں کو تربیت دے کر دہشت گردی کروائی جائے گی اور ان سے یہ کام لیا جائے گا۔ ایسا ہی کام بلوچستان کے جوانوں سے بھی پاکستان کے دشمن ممالک لے رہے ہیں۔ یاد رہے کہ بلوچ علیحدگی پسند گروہ کے جو افراد جرمنی میں مقیم ہیں، انہوں نے وہاں اسرائیل کی لابنگ کرنے والی یہودی تنظیم کے اجلاس میں نہ صرف شرکت کی بلکہ اسرائیل کے سابق وزیر سے ملاقات اور تبادلہ خیال بھی کیا۔ امریکی کانگریس میں بھی بلوچ علیحدگی پسندوں کے حامی موجود ہیں۔ کیا پاکستان کی ہیئت مقتدرہ نے اس کا نوٹس لیا کہ جرمنی جیسے دوست ملک میں پاکستان دشمن سرگرمیاں کیوں ہو رہی ہیں؟ کیا پاکستان کی ہیئت مقتدرہ بشمول حکومت اور افواج پاکستان سعودی عرب کے اس سات نکاتی ایجنڈا کو اس زاویے سے دیکھنا پسند فرمائیں گے کہ بلوچستان اور کردستان کے علیحدگی پسندوں میں کوئی فرق نہیں۔

ایران تو پاکستان کا سوتیلا بھائی ہے، لیکن ترکی جو کرد گروہ ’’پی کے کے‘‘ سے نبرد آزما ہے، اس کی تقسیم بھی سعودی ایجنڈا میں شامل ہوچکی ہے۔ جس طرح بلوچستان کے علیحدگی پسندوں کے صہیونی طاقتور حلقوں سے روابط استوار ہوچکے ہیں، اس سے کہیں زیادہ کردوں کے اسرائیل سے روابط رہے ہیں اور ان سب علیحدہ نظر آنے والے گروہوں اور اسرائیل کے ساتھ شراکت داری کرنے کے لئے اب سعودی بادشاہت بھی کھل کر سامنے آچکی ہے۔ سعودی عرب جب کردوں کو ایران، ترکی اور عراق کے خلاف استعمال کرے گا تو کیا پاکستانی بلوچوں کو استعمال نہیں کرے گا؟ کالعدم جنداللہ یا جیش العدل بھی سعودی سرکاری نظریات ہی کی حامل تصور کی جاتی ہیں۔ لبنانی ویب سائٹ المنار نے ایک مرتبہ فرانسیسی انٹیلی جنس ذرایع کا حوالے سے خبر دی تھی کہ پاکستانی بلوچستان میں ایران مخالف گروہوں کو سعودی عرب کی حمایت حاصل ہے۔ لہٰذا بلوچستان کے حوالے سے خاص طور پر اور مجموعی طور پر بھی پاکستان اور ایران کو دو طرفہ تعلقات کو مستحکم کرنے کی ضرورت ہے اور دونوں ایک دوسرے کے تعاون کے بغیر اپنی مشترکہ سرحدوں کو محفوظ نہیں بناسکتے۔ دونوں ممالک وقت ضائع کئے بغیر زمینی حقایق کا ادراک کرتے ہوئے فوجی و انٹیلی جنس تعاون کو بھی مضبوط بنائیں۔ پڑوسی بدلے نہیں جاسکتے۔ سعودی بادشاہت کو اس پاگل پن سے باز رکھنے کے لئے پاکستان، ترکی، ایران اور عراق کو ایک مشترکہ موقف اور حکمت عملی وضع کرنے کی ضرورت ہے۔
خبر کا کوڈ : 559797
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Pakistan
Sunday Times: Israel, Saudi Arabia Cooperating to Plan Possible Iran Attack
Saudis would allow Israel use of air space and provide drones, rescue helicopters and tanker planes, report says.
read more: http://www.haaretz.com/israel-news/1.558512
Pakistan
Two old foes unite against Tehran
Convinced that Iran is tricking the world over nuclear weapons, Israel and Saudi Arabia may work together to curb its ambitions
Uzi Mahnaimi, Tel Aviv Published: 17 November 2013
http://www.thesundaytimes.co.uk/sto/news/world_news/Middle_East/article1341561.ece
Pakistan
Saudi Arabia to allow Israel use of its airspace to strike Iran – report
Published time: 27 Feb, 2015 00:10
Edited time: 1 Mar, 2015 15:29
Saudi Arabia has reportedly agreed to let Israel use its airspace to attack Iran if necessary, in exchange for “some kind of progress” on the Palestinian issue, Israel’s Channel 2 TV station quoted an unnamed European official as saying.
https://www.rt.com/news/235923-saudis-airspace-israel-iran/
ہماری پیشکش