0
Monday 15 Aug 2016 13:30

خوف کی لپیٹ میں آیا ہوا ترک معاشرہ

خوف کی لپیٹ میں آیا ہوا ترک معاشرہ
تحریر: طاہر یاسین طاہر

افراد کی طرح معاشرہ بھی خوف کے عالم میں اپنی اجتماعی مثبت صلاحیتوں کو بروئے کار لانے میں کامران نہیں ہوتا۔ خوف ایک مستقل مصیبت ہے، اس سے چھٹکارے کے لئے اگر مستقل مزاجی اور مثبت رویہ اختیار نہ کیا جائے تو یہ خوف نئی نئی مصیبتوں کو جنم دیتا ہے۔ فرد ہو یا معاشرہ، جب تک مثبت اور تعمیری سوچ کے تحت آگے نہیں بڑھتے، خوف ان کا شکار کرتا رہے گا۔ ترکی کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ حکومت، اپوزیشن، فوج، غرض سارا معاشرہ خوف کا شکار ہے۔ اگرچہ بعض جذباتی تجزیہ کار ترکی میں ہونے والی ناکام بغاوت کو نشاۃِ ثانیہ کی علامت اور ترک خلافت کے احیا کے طور پر بھی دیکھ رہے ہیں۔ وہ ایسا اس لئے کرتے ہیں کہ ان کا زاویہ نظر یک رخا ہے۔ محبت، عقیدت اور تعصب درست تجزیے اور عدل کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہیں۔ اس امر میں کلام نہیں کہ ترک صدر طیب اردغان نے مقبولیت حاصل کی۔ ان کی پالیسیوں سے ترک معیشت بہت بہتر ہوئی، ترک معاشرے کو انھوں نے اسلامی اقدار لوٹانے کی کوشش بھی کی، مقبولیت میں شک نہیں، مگر ان کی اصلاحات اور فیصلوں سے معاشرہ مطمئن بھی نہیں۔ یہ بھی تسلیم کیا جانا چاہیے کہ وہ اختیارات کو اپنی ذات میں جمع کرتے کرتے جدید جمہوری آمریت کی علامت بن کر ابھرے ہیں۔

کچھ نا قدین کا خیال ہے کہ وہ جس طرح طاقت اپنی ذات میں مرتکز کر رہے ہیں، 1946ء میں ترکی میں پہلے جمہوری انتخابات کے بعد سے اس کی مثال نہیں ملتی۔ ممکن ہے پاکستان میں انھیں سیاسی جماعتوں کی قیادت کی جانب سے اس لئے بھی پسند کیا جا رہا ہو کہ انھوں نے جدید سیاسی آمریت کی راہ دکھائی۔ ترکی میں ناکام ہونے والی بغاوت کی یوں تصویر کشی کرنا کہ یہ دنیا کی پہلی فوجی بغاوت تھی جو ناکام ہوئی، کسی بھی طور مناسب نہیں ہے۔ دنیا میں کئی ایک بار فوجی بغاوتیں ناکام ہوئی ہیں۔ تاریخ اگرچہ بتاتی ہے کہ جب بھی کسی ملک کی فوج نے بحثیت ادارہ کسی جمہوری حکومت کو گرانے کا فیصلہ کیا تو وہ اس میں کامیاب ہی ہوئی ہے۔ 15 جولائی 2016ء کو ترکی میں چند ہزار فوجیوں کی جانب سے جو بغاوت ناکام ہوئی، وہ بہر حال ترک فوج کا بحثیت ادارہ فیصلہ نہیں تھا۔ البتہ یہ نظارہ بھی دیدنی تھا کہ ترک جمہوریت پسند یا اردغان پرست فوجی ٹینکوں کے سامنے کھڑے ہوگئے۔ یہ واقعی ایک حیرت انگیز بات تھی۔ اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ ترک معاشرے کی ایک قابل ذکر تعداد اردغان کو اپنا نجات دہندہ سمجھتی ہے۔ طیب اردغان اور ان کے بیٹے پر کرپشن کے الزامات بھی ہیں۔

کسی معاشرے میں جب اس طرح کی بغاوتیں سر اٹھاتی ہیں تو اس کی تاریخی، سماجی، معاشی، سیاسی، تہذیبی اور مذہبی وجوہات ہوتی ہیں۔ ایسا نہیں کہ یکایک چند ہزار فوجیوں نے اٹھ کر اردغان حکومت کو گرانے کے لئے ایک یڈونچر ترتیب دے دیا۔ نہیں ایسا ہرگز نہیں۔ جدید ترک معاشرے کی تاریخی داستان بتاتی ہے کہ ترک فوج خود کو آئین کا محافظ سمجھتی ہے۔ نہ صرف سمجھتی ہے بلکہ سیکولر ترک معاشرے کی تشکیل میں ترک فوج کا اہم کردار ہے اور وہ دراصل اسی سیکولر معاشرے کی بقاء کی ضامن بنی ہوئی ہے۔ مشرق وسطٰی میں آنے والی سیاسی اور عسکری تبدیلیوں پر نظر رکھنے والے جانتے ہیں کہ طییب اردغان عالمی سطح پر دہشت کی علامت بنی دہشت گرد تنظیم داعش کے لئے نرم گوشہ رکھتے ہیں۔ شام کے ساتھ ملنے والی ترکی کی سرحد داعش کے جنگجوؤں کے لئے ایک محفوظ گذر گاہ ہے، اب ممکن ہے کہ اسے کنٹرول کیا جائے۔ داعش کی پشت بانی نے ترکی کو جو نقصان پہنچایا، وہ ترکی کے اندر ہونے والے خودکش حملے اور معاشرے میں فروغ پاتی انتہا پسندی ہے، جس کا ترک فوج کو بہرحال رنج ہے۔

میرا خیال ہے کہ اگر چند ہزار ترک فوجی بھی تھوڑی بہتر منصوبہ بندی کرتے تو حکومت کا تختہ الٹ سکتے تھے، کہیں نہ کہیں بہرحال منصوبہ بندی اور عملی جامہ پہنانے میں غلطی ضرور ہوئی ہے۔ کسی بھی جمہوری حکومت کے خلاف بغاوت فوج ہی کرتی ہے اور اگر ایسی کوئی بغاوت ناکام ہو تو باغی گروہ کو ہی سزا دی جاتی ہے، زیادہ سے زیادہ چند سیاست دان جو ان باغیوں کی بغاوت میں کسی نہ کسی طرح شریک ہوتے ہیں۔ ترکی میں مگر ردعمل اور طرح کا ہے۔ نہایت شدید اور متشدد۔ اردغان کے ردعمل نے معاشرے میں موجود خوف کی فضا کو گہرا کیا ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ جونہی اردغان کو یقین ہوا کہ بغاوت ناکام بنا دی گئی تو انھوں نے جس ردعمل کا اظہار کیا، اس پر عالمی برادری اور دنیا بھر کے عدل پسند انگشت بدنداں ہیں۔ اگرچہ یہ ترکی کی تاریخ ہے کہ سیاسی و فکری مخالفین کو طاقت کے زور پر کچلا جاتا ہے۔ مثلاً 12 ستمبر 1980ء میں ہونے والی فوجی بغاوت میں چھ لاکھ لوگوں کو حراست میں لیا گیا تھا اور کئی لوگوں کو پھانسی پر لٹکا دیا گیا تھا۔

ناکام بغاوت کے بعد ترک حکومت نے اداروں کے اندر ’’تطہیر‘‘ کے نام پر کریک ڈاؤن شروع کر رکھا ہے اور اب تک 82 ہزار سے زائد افراد کو ملازمت سے برخاست یا معطل کیا چکا ہے۔ انقرہ میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے ترک وزیراعظم بن علی یلدرم نے کہا کہ جن پانچ ہزار سرکاری ملازمین کو ملازمتوں سے برخاست کیا جا چکا ہے، ان میں سے تین ہزار کا تعلق ملک فوج سے تھا۔ جن فوجی ملازمین کو نوکریوں سے معطل کیا گیا ہے، ان میں 87 فوجی جنرل، 30 ایئرفورس کے جنرل اور 32 ایڈمرل شامل ہیں، عام فوجی سپاہی اس کے علاوہ ہیں۔ ترک حکومت نے مقامی میڈیا کے 140 سے زیادہ ایسے ادارے بھی بند کر دیئے ہیں، جن پر امریکہ میں خود ساختہ جلا وطنی اختیار کرنے والے ترک مبلغ فتح اللہ گولن کے حامی ہونے کا شبہ تھا۔ لگ بھگ پانچ درجن صحافیوں کو بھی حراست میں لے لیا گیا ہے۔ جن صحافیوں کو حراست میں لیا گیا ہے، ان میں سے زیادہ تر کا تعلق پابندی کے شکار اخبار زمان سے ہے۔ اس سے پہلے ہی 42 نامہ نگاروں کے وارنٹ گرفتاری جاری کیے گئے تھے۔

پبلک سیکٹر میں کام کرنے والے 66000 افراد کو نوکریوں سے نکالا جا چکا ہے اور 50 ہزار کے پاسپورٹ منسوخ کئے جا چکے ہیں۔ ہزاروں جج برطرف کرکے گرفتار کر لئے گئے ہیں، جبکہ یونیورسٹیوں کے سینکڑوں ڈینز کو بھی برطرف کیا چکا ہے۔ گذشتہ دنوں منظر عام پر آنے والی ایک رپورٹ کے مطابق 37,777 محکمہ تعلیم کے اہلکار، 8000 پولیس اہلکار، 6000 سے زائد فوجی، 3450 سرکاری ملازم، 2745 جج، 1577 مختلف یونیورسٹیوں کے ڈینز، 21 ہزار اساتذہ، زارتِ داخلہ کے 8777 جبکہ وزارتِ خزانہ کے 1500 ملازمین کو برطرف کیا جا چکا ہے۔ یہ اعداد و شمار حتمی نہیں ہیں، کیونکہ اس تعداد میں آئے روز اضافہ ہی ہوتا چلا جا رہا ہے۔ ترک وزیرِ اعظم کے دفتر میں کام کرنے والے 257 افراد کو بھی نوکری سے ہاتھ دھونے پڑے ہیں۔ یوں اس رپورٹ اور ترک وزیراعظم کے بیان میں بھی تضاد ہے۔

ترکی کے حوالے سے انسانی حقوق کے ادارے ایمنیٹسی انٹرنیشنل نے بھی خدشات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ناکام بغاوت کی کوشش کے بعد ترکی سے مصدقہ اطلاعات موصول ہوئی ہیں کہ قید کئے جانے والوں کو مارا پیٹا جاتا ہے اور ان سے جنسی زیادتی بھی کی جاتی ہے۔ طیب اردغان بغاوت کے پیچھے ترک اسکالر فتح اللہ گولن کے ہاتھ کی تلاش میں ہیں۔ وہی فتح اللہ گولن جو کبھی طیب اردغان کا دایاں بازو تھا۔ اب ترکی میں ’’گولنسٹوں‘‘ کو چن چن کر قید کیا جا رہا ہے۔ طیب اردغان کے ردعمل نے تعلیمی اداروں، سول سروس، پولیس، فوج اور عام افراد میں ہیجان پیدا کر دیا ہے۔ ایک خوف ہے جو اردغان اور ان کی حکومت پر بھی طاری ہے اور اداروں سے لے کر اپوزیشن اور عام ترک پر بھی۔ آخری تجزیے میں ترک معاشرے کی اجتماعی نفسیات، شدید ردعمل ہے، طاقت سے کسی کو چند روز کے لئے تو محکوم بنایا جاسکتا ہے تا دیر نہیں۔ طیب اردغان کو اپنے شدید ردعمل کا شدید تر ردعمل دیکھنے کا ملے گا۔ فرد ہو یا معاشرہ، جب یہ خوف کا شکار ہوں تو ان کا ردعمل ہمیشہ شدید ہوتا ہے، تاریخ یہی ہے۔
خبر کا کوڈ : 560703
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش