0
Wednesday 17 Aug 2016 14:55

دہشتگردی کی وارداتوں پر قابو پانا کیسے ممکن ہے۔۔۔؟

دہشتگردی کی وارداتوں پر قابو پانا کیسے ممکن ہے۔۔۔؟
تحریر: صبا نعیم

دفتر خارجہ کے ترجمان نفیس زکریا نے کہا ہے کہ کوئٹہ کے سانحہ میں ’’را‘‘ کے ملوث ہونے کے امکان کو رد نہیں کیا جا سکتا، جو کراچی اور بلوچستان میں بھی امن مخالف سرگرمیوں میں ملوث ہے، بلوچستان سے گرفتار ’’را‘‘ کے ایجنٹ بھارتی نیوی کے حاضر سروس افسر کلبھوشن یادیو کا اعترافی بیان بھی ریکارڈ پر موجود ہے اور اِس حوالے سے تحقیقات جاری ہیں۔ اْدھر کوئٹہ میں ایک اور قافلے پر بم دھماکہ ہوگیا، جس کے ٹارگٹ تو وفاقی شرعی عدالت کے جج تھے، جو محفوظ رہے، تاہم اِس دھماکے کی وجہ سے پانچ اہلکاروں سمیت 17 افراد زخمی ہوگئے۔ کوئٹہ میں سریاب فلائی اوور کے قریب ریموٹ کنٹرول بم نصب تھا، جیسے ہی جسٹس ظہور شاہوانی کی گاڑی وہاں سے گزری زور دار دھماکہ ہوگیا۔ دھماکے سے پولیس وین کو نقصان پہنچا جو جسٹس ظہور شاہوانی کی حفاظت کے لئے ساتھ چل رہی تھی۔ صوبائی وزیر داخلہ کا کہنا ہے کہ پولیس اور ایف سی کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

کوئٹہ کے دھماکے کے بعد عام خیال یہی تھا کہ بلوچستان میں عدلیہ نشانے پر ہے، دھماکے میں پہلے ایک وکیل رہنما کو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا گیا اور جب اِس واقعہ کے بعد بڑی تعداد میں وکیل ہسپتال پہنچے تو وہاں خودکش بمبار کے ذریعے دھماکہ کر دیا گیا، جس کا انتظام منصوبہ بندی کے ساتھ کیا گیا تھا، دھماکے میں وکیلوں کے ساتھ ساتھ ہسپتال کی ایمرجنسی میں موجود مریضوں، اْن کے لواحقین، ہسپتال کے عملے سمیت 70 سے زائد لوگ شہید ہوگئے، ابھی اس دھماکے کا سوگ منایا جا رہا ہے اور پورا مْلک اور صوبہ صدمے سے نڈھال اور رنج و غم میں ڈوبا ہوا ہے تو ایک دوسرا دھماکہ ہوگیا، جس میں اگرچہ جانی نقصان تو نہیں ہوا، تاہم 17 افراد کا زخمی ہونا بھی معاملے کی سنگینی کو ظاہر کرتا ہے اور خوش قسمتی کی بات یہ ہے کہ اصل ٹارگٹ دھماکے کے وقت وہاں سے گزر چکے تھے، تاہم لمحہ فکر یہ ہے کہ چند ثانیوں کے آگے پیچھے ہونے سے ایک بڑا حادثہ ٹل گیا، ورنہ یہ عدلیہ کے لئے ایک اور سانحہ ہوتا۔

اب رہا یہ سوال کہ دھماکے میں ’’را‘‘ کے کردار کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا۔ یہ امر تو واضح ہے کہ صوبے میں ’’را‘‘ کی امن دشمن سرگرمیوں کے شواہد موجود ہیں، خود دفتر خارجہ کے ترجمان نے اپنی ہفتہ وار بریفنگ میں ’’را‘‘ کے ایجنٹ کی گرفتاری اور اس کے اعترافی بیان کا حوالہ دیا ہے، جس نے کراچی اور بلوچستان میں اپنا نیٹ ورک بنانے کا اعتراف کیا تھا اور یہ بھی کہا تھا کہ پاک چین اقتصادی راہداری اس کی تخریب کارانہ سرگرمیوں کا خصوصی ہدف تھا، جس کے لئے اس نے مقامی ایجنٹ بھرتی کر رکھے تھے۔ اس تفتیش کی روشنی میں عین ممکن ہے کہ اس نیٹ ورک میں شامل لوگوں کی گرفتاریاں ہوئی ہوں، تاہم بظاہر تو یہ لگتا ہے کہ ’’را‘‘ کا بنایا ہوا نیٹ ورک نہ صرف قائم ہے، بلکہ کام بھی کر رہا ہے اور کوئٹہ کے دھماکے میں ’’را‘‘ کے ہاتھ کا تذکرہ وزیراعلٰی سے لے کر ترجمان دفتر خارجہ تک کر رہے ہیں۔

وزیراعظم نواز شریف اور آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے کوئٹہ دھماکے کے فوراً بعد اجلاس میں اِس خیال کا اظہار کیا کہ دہشت گردوں کا اصل ہدف پاک چین اقتصادی راہداری ہے، جس سے حاصل ہونے والی خوشحالی کا تصور پاکستان کے دشمنوں کو ہضم نہیں ہو رہا۔ بھارتی ایجنٹ نے جو نیٹ ورک بنایا تھا، ایسے محسوس ہوتا ہے کہ اس میں کام کرنے والے مقامی ایجنٹ ابھی تک متحرک ہیں، تین دن کے وقفے کے بعد دو دھماکے اس امر پر دلالت کرتے ہیں، اِس لئے اب بھی بعید نہیں کہ اگر فول پروف سکیورٹی کے انتظامات نہ کئے گئے تو بھارتی ایجنٹوں کے یہ آلہ کار کہیں نہ کہیں اور دھماکہ کر دیں۔ چیف جسٹس انور ظہیر جمالی نے جو یہ کہا ہے کہ سکیورٹی صرف کاغذوں پر نظر آتی ہے، مزید سانحہ کا انتظار نہیں، اقدامات کریں۔ اْن کے اِس ارشاد کی روشنی میں ضرورت ہے کہ سکیورٹی کے قابلِ بھروسہ انتظامات کئے جائیں۔

یہ امر تو واضح ہے کہ اگر پہلے سے ایسے انتظامات ہوں اور ان میں خامیاں موجود نہ ہوں تو دہشت گرد اپنے عزائم اور منصوبہ بندی میں کامیاب نہ ہوں۔ کہیں نہ کہیں کمزوری تو ضرور ہے، جس کا فائدہ اْٹھا کر دہشت گرد دھماکے کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ کوئٹہ دھماکے کے بعد اعلٰی سطح پر جو اجلاس ہو رہے ہیں، ان میں ایسی خامیوں کا جائزہ بھی لیا جا رہا ہے اور یہ طے کیا گیا ہے کہ نیشنل ایکشن پلان کے 20 نکاتی پروگرام پر پوری طرح عمل کیا جائے گا، سیاسی و عسکری قیادت کے اجلاس میں نیشنل ایکشن پلان کی نگرانی کے لئے ٹاسک فورس بنانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اس طویل اجلاس میں اب تک نیشنل ایکشن پلان میں روا رکھی جانے والی سستی کا بھی جائزہ لیا گیا اور یہ محسوس کیا گیا کہ 20 میں سے 8 نکات پر پیشرفت نہ ہوسکی۔ اِس امر کا بھی گہرائی میں جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ جن نکات پر عملدرآمد نہیں ہوسکا، اس کی وجہ آخر کیا تھی۔؟

چیف جسٹس آف پاکستان انور ظہیر جمالی نے ایک اور جانب بھی توجہ دلائی ہے، جو دہشت گردی کی جنگ کا ایک اہم پہلو ہے۔ اْن کا کہنا ہے کہ سکیورٹی گارڈز کی آڑ میں ’’را‘‘ اور طالبان کے ایجنٹوں کی بھرتی کی جا رہی ہے۔ پولیس کی ذمہ داری ہے کہ وہ سکیورٹی گارڈز کی بھرتی پر نظر رکھے، ان معاملات پر کسی قسم کا کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جا سکتا، سکیورٹی انتظامات بہتر ہوتے تو سانحہ کوئٹہ رونما نہ ہوتا۔ کراچی بدامنی کیس میں سپریم کورٹ نے جو فیصلہ دیا تھا، اس پر بھی اگر اس کی روح کے مطابق عمل ہوتا تو بھی دہشت گردی کے عفریت پر قابو پانے میں مدد مل سکتی تھی، کیونکہ اس میں رہنما اصول بتا دیئے گئے تھے اور جو تجاویز اس فیصلے میں دی گئی تھیں، ان پر عمل ہوتا تو لازماً مثبت نتائج برآمد ہو سکتے تھے، لیکن سیاسی مصلحتیں اس کی راہ میں حائل ہوئیں تو فیصلے کو نظر انداز کیا گیا۔ سکیورٹی گارڈز کی بھرتی کا تو پورا نظام ہی بدلنے کی ضرورت ہے۔ ایسے گارڈز بھرتی ہو جاتے ہیں، جن کے رہائشی علاقے تک سے کمپنیاں بے خبر ہوتی ہیں۔ یہ گارڈز بینکوں کی ڈکیتیوں اور دوسری وارداتوں میں بھی ملوث ہو جاتے ہیں۔ چارسدہ یونیورسٹی میں دہشت گردی کی واردات میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ دہشت گردوں کے سہولت کاروں میں سکیورٹی گارڈ بھی شامل تھے، جنہوں نے یونیورسٹی میں داخلے اور دہشت گردوں کو معاونت فراہم کی۔

جناب چیف جسٹس نے جس پہلو کی طرف توجہ دلائی ہے، وہ اس لئے بھی بہت اہم ہے کہ دہشت گرد ہر وقت اپنے منصوبے بدلتے رہتے ہیں، تمام وارداتوں کا جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ ہر واردات کا طریقِ کار پہلی سے مختلف ہوتا ہے۔ دہشت گردی کے مقام کا انتخاب بھی وہ اپنی مرضی سے کرتے ہیں، جیسے سانحہ کوئٹہ میں کیا گیا کہ پہلے ایک وکیل رہنما کو ٹارگٹ کیا گیا۔ منصوبہ بندی میں یہ بات شامل تھی کہ جونہی وکیلوں کو پتہ چلے گا کہ ان کے رہنما پر گولی چلی ہے، وہ سب سول ہسپتال کی طرف جائیں گے، جہاں زخمی وکیل رہنما کو پہنچایا جائے گا، چنانچہ جونہی وکلاء کا ہجوم ہسپتال میں اکٹھا ہوا، پہلے سے طے شدہ پروگرام کے مطابق وہاں دھماکہ کر دیا گیا اور یوں دہشت گرد بڑا سانحہ کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ کئی دوسرے شہروں میں بھی ایسا ہوچکا ہے کہ پہلے ایک دھماکہ کیا گیا، جس کا مقصد ہجوم کو اس طرف متوجہ کرنا تھا، جب لوگ جمع ہوگئے تو دوسرا بڑا دھماکہ کر دیا گیا۔ دہشت گردی پر پوری طرح قابو پانا ہے اور دہشت گردوں کے عزائم کو ناکام بنانا ہے تو ان سب پہلوؤں کو پیش نظر رکھ کر منصوبہ بندی کرنا ہوگی اور اس میں کوئی کمی نہیں چھوڑنی چاہئے، جہاں کہیں بھی سکیورٹی کے انتظامات ہوں، وہ ایسے ہونے چاہئیں کہ دہشت گرد اس سے فائدہ نہ اْٹھا سکیں۔
خبر کا کوڈ : 560965
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش