0
Saturday 20 Aug 2016 23:51

جنگ زدہ یمنی عوام کی سیاسی بیداری

جنگ زدہ یمنی عوام کی سیاسی بیداری
تحریر: سید اسد عباس

ایک جنگ زدہ ملک یمن کے مرکزی شہر صنعا کے سبعین سکوائر پر لاکھوں یمنیوں کا اجتماع عجیب و غریب ہیبت کا حامل تھا۔ اس اجتماع سے بوکھلا کر اتحادی افواج نے اسی فضائی حملے کئے لیکن لاکھوں انسانوں کے عزم و ارادے کے سامنے بارود کے چھوٹے چھوٹے گولے کیا حیثیت رکھتے ہیں۔ مارچ 2015ء سے آج تک یمنی دس ہزار سے زائد جنازے اٹھا چکے ہیں، زخمیوں کی تعداد ہزاروں میں ہے۔ سرکاری، غیر سرکاری املاک جن میں ہسپتال، یونیورسٹیاں، مدارس، مارکیٹیں، بازار، کھیل کے میدان، پولٹری فارمز، زرعی فارمز، پاور جنریشن کے پلانٹس، پانی کے ویل، تیل کے ڈپو شامل ہیں، کی تباہی کے باوجود اتنی بڑی تعداد میں عوام کا اپنے ملک میں موجود حکومت پر اعتماد ایک یقینی ریفرنڈم ہے۔ یمنی صدر نے بجا کہا کہ خلیج کی چار ریاستوں کی ملا کر اتنی آبادی نہیں جتنے لوگ اس وقت اس میدان میں جمع ہیں۔ انہوں نے یہ بھی درست کہا کہ خطے میں طاقت کا توازن بدل رہا ہے اور اس میں عوام ایک اہم عنصر ہیں، انہوں نے یمن کی قدیم تہذیب کے خلاف ہونے والی سازشوں کو بھی شرمناک قرار دیا۔ انصار اللہ کے سیاسی ونگ کے سربراہ اور سپریم پولٹیکل کونسل کے صدر صالح الصمد نے کہا کہ اگلے چند دنوں میں وہ یمن میں رسمی حکومت کا اعلان کریں گے اور یمن کی پارلیمنٹ کا اجلاس بلائیں گے، تاکہ وہ اپنے سیشن کو جاری رکھ سکے۔ یاد رہے کہ یمن کی سپریم پولٹیکل کونسل نے یمن کے امور کو سال 2015ء میں اپنے ہاتھ میں لیا اور مارچ 2015ء میں عبد المنصور الہادی کے اقتدار کو واگزار کرنے کے لئے سعودیہ کی قیادت میں خلیج کی ریاستوں کی افواج نے یمن کے خلاف جنگ کا آغاز کر دیا تھا۔ اتحادی افواج کے یہ حملے 2015ء سے تاحال جاری ہیں۔

یمن جزیرۃ العرب کا ایک نہایت پسماندہ ملک ہے، جہاں کی ساٹھ فیصد سے زائد آبادی خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہی ہے، بنیادی صحت، تعلیم، ذرائع رسل و رسائل اور توانائی کے وسائل ناپید ہیں۔ علی عبداللہ صالح کے چالیس سالہ دور اقتدار میں یمن کرپشن، بدامنی کا گڑھ رہا۔ عرب دنیا میں آنے والے انقلابات کے سبب یمن کے عوام بھی اپنی حکومت کے خلاف میدان عمل میں اترے۔ ہر آمر کی مانند علی عبد اللہ صالح نے یمنی عوام کی تحریک کو طاقت کے زور پر دبانے کی کوشش کی، تاہم یہ تحریک روز بروز طاقت پکڑتی گئی۔ علی عبد اللہ صالح ایک معاہدے کے تحت ملک سے فرار کر گیا اور حکومت اس کے وزیراعظم عبد المنصور الہادی کو ملی۔ عبدالمنصور الہادی کی حکومت ایک عبوری حکومت تھی، جس کے ذمہ آئین میں بنیادی تبدیلیاں اور نیا پارلیمانی الیکشن تھا۔ 2014ء تک عبد المنصور الہادی نے تفویض کردہ دونوں کام نہ کئے، اس پر مستزاد یہ کہ عوام پر پیٹرول بمب برسایا گیا۔ عوام کو حاصل آئل سبسڈی کا خاتمہ کر دیا گیا، جس کے سبب اشیائے ضرورت کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگیں۔ پہلے ہی پسماندہ اور محروم عوام اس سبسڈی کے خاتمے کے سبب مزید دباؤ میں آکر حکومت کے خلاف سڑکوں پر نکل آئے۔

عبد المنصور الہادی نے بھی عوام کو طاقت سے دبانے کی کوشش کی، جس کے جواب میں یمن کا مضبوط ترین گروہ انصار اللہ میدان عمل میں اترا، عبد المنصور الہادی ملک سے فرار کر گیا اور اس کے کئی ایک وزراء نے استعفٰی دے دیا، تاہم کچھ دنوں بعد عبد المنصور الہادی خلیجی ریاستوں کی آشیر باد سے ملک میں واپس آگیا اور ملک میں ایک خانہ جنگی کا آغاز ہوا۔ خلیجی افواج نے یمن پر حملوں کا سلسلہ مارچ 2015ء میں شروع کیا۔ عبد المنصور الہادی کے ملک سے فرار کے بعد مختلف گروہوں پر مشتمل سپریم کونسل کا قیام عمل میں لایا گیا، یوں اس کونسل نے ملک میں پیدا ہونے والی قیادتی بحران کو پر کیا۔ یہ کونسل صالح الصمد کی قیادت میں یمن کے امور کو چلا رہی ہے۔ اس دوران میں اقوام متحدہ بھی میدان میں آئی اور فریقین کے مابین گفت و شنید کے مختلف ادوار ہوئے۔ اس وقت بھی سپریم کونسل کا ایک وفد مسقط میں مذاکرات کے لئے موجود ہے۔ صالح الصمد کا کہنا ہے کہ یمنی عوام امن تو چاہتے ہیں، لیکن اپنے بنیادی حق سے کسی طور بھی پیچھے نہیں ہٹیں گے۔

شورش زدہ ملک یمن کے مرکزی شہر صنعاء میں لاکھوں افراد کا اجتماع یمنی عوام کے عزم و ہمت کی بین دلیل ہے۔ خلیجی افواج کے فضائی حملوں کے باوجود اتنی تعداد میں یمنی عوام کا سپریم کونسل کی حمایت میں باہر نکلنا، اس امر کی دلیل ہے کہ غربت، پسماندگی، وسائل کی کمی اور جنگی نقصانات کے ستائے ہوئے عوام کے دلوں میں جارح کے خلاف کس قدر نفرت موجود ہے، نیز یہ کہ وہ ملک میں موجود قیادت پر کس قدر اعتماد کرتے ہیں۔ یمن بالیقین زیدیوں، اسماعیلیوں، اثناء عشری، حنبلی، مالکی اور سلفیوں کا دیس ہے، لیکن اس کے مسائل کو ان مذاہب کے تناظر میں دیکھنا قطعاً بھی درست نہیں ہوگا۔ یمن کے عوام کا مسئلہ غربت، افلاس، تنگ دستی، کرپشن، وسائل کی عدم دستیابی اور بیرونی جارحیت ہے۔ یمنی شہریوں کو ان مسائل کے حل کے لئے راہ کا انتخاب کرنے کا حق دنیا کا ہر قانون دیتا ہے۔
خبر کا کوڈ : 561977
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش