0
Monday 22 Aug 2016 13:59

ایران اور روس کے درمیان فوجی تعاون سے امریکہ خوفزدہ کیوں؟

ایران اور روس کے درمیان فوجی تعاون سے امریکہ خوفزدہ کیوں؟
تحریر: سعداللہ زارعی

دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ایران اور روس کا فوجی تعاون ایک انتہائی اہم سنگ میل قرار دیا جا رہا ہے۔ اس امر نے امریکہ کو اس قدر پریشان کر ڈالا ہے کہ امریکی جاسوسی ادارے سی آئی اے کے سابق ڈپٹی ڈائریکٹر مائیکل موریل یہ کہنے پر مجبور ہو گئے کہ شام میں سرگرم امریکی جاسوس تمام ایرانی اور روسی شہریوں کو قتل کر ڈالیں۔ اسی طرح ایران اور روس کے درمیان جاری فوجی تعاون اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم کیلئے اس قدر خطرناک ثابت ہوا ہے کہ اسرائیلی حکام نے اسے "انتہائی اہم تبدیلی"، "بنیادی تبدیلیوں کا آغاز" اور "مشرق وسطی کے جدید سیٹ اپ کی ابتدا" قرار دیا ہے۔ دوسری طرف سعودی حکام اور ان سے وابستہ دیگر عرب حکومتوں نے بھی اس اقدام کو "امریکہ اور سعودی عرب کیلئے بڑا چیلنج"، "غیرمعمولی فیصلہ کن مرحلہ"، "امریکہ کو واضح سیاسی پیغام"، "ایک واحد اتحاد کا اسٹریٹجک اقدام" اور "خطے میں موجود توازن کو تہس نہس کرنے والا" قرار دیا ہے۔ اس بارے میں چند اہم نکات درج ذیل ہیں:

شام کے صوبوں دیرالزور اور الرقہ میں داعش سے وابستہ دہشت گردوں کے خلاف ہوائی حملوں کیلئے روسی جنگی طیاروں کی جانب سے ہمدان فوجی ہوائی اڈے کے استعمال سے متعلق ایران اور روس کے درمیان ہونے والا معاہدہ بذات خود کوئی غیرمعمولی اقدام نہیں۔ چونکہ اس سے پہلے بھی روس کے جنگی طیارے اور میزائل سسٹم دہشت گردوں کے خلاف سرگرم عمل رہ چکے ہیں لہذا ہمدان فوجی ہوائی اڈے کا استعمال "اسٹریٹجک" قرار نہیں پانا چاہئے لیکن امریکی، صیہونی اور سعودی حکام نے اسے اسٹریٹجک قرار دیا ہے۔ وجہ کیا ہے؟

تحریر حاضر کا مقصد شام میں ایران اور روس کے فوجی تعاون کی اہمیت بیان کرنا یا حال ہی میں روسی جنگی طیاروں کا ہمدان کا شہید نوژہ ہوائی اڈہ استعمال کرنے سے انکار کرنا یا اس کی اہمیت کم ظاہر کرنا نہیں بلکہ اس سوال کا جواب دینا ہے کہ کیا وجہ ہے کہ امریکی حکام اور ان کے اتحادیوں کیلئے ایک ایسا فوجی اقدام جس سے بڑی سطح کے فوجی اقدامات ایران اور روس کے تعاون سے پہلے ہی انجام پا رہے ہیں اور ان کے آغاز کو 10 ماہ بھی گزر چکے ہیں اس قدر اہم ہو چکا ہے کہ وہ اسے مشرق وسطی کے جدید سیٹ اپ کا آغاز یا خطے کے توازن کو تہس نہس کرنے والا یا بنیادی تبدیلیوں کے آغاز سے تعبیر کرتے ہیں؟ امریکی، اسرائیلی اور سعودی حکام کس حقیقت سے باخبر ہیں یا کس حقیقت کی خبر دینا چاہتے ہیں جو اس ظاہر سے مطابقت نہیں رکھتی؟

اب تک ہمدان کے فوجی ہوائی اڈے سے روس کے TU-22M3 بمبار طیارے اور SU-24 جنگی طیارے پانچ پروازیں انجام دے چکے ہیں جن کے ذریعے شام کے صوبہ دیرالزور کے بعض علاقوں میں تکفیری دہشت گردوں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ موصولہ رپورٹس کے مطابق ان حملوں میں 100 کے قریب داعشی دہشت گرد ہلاک ہوئے ہیں۔ لہذا اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمدان کا فوجی ہوائی اڈہ داعش کے خلاف جنگ کیلئے استعمال ہو رہا ہے اور ایران اور روس میں تعاون کا یہ معاہدہ صرف شام کے انہیں علاقوں تک ہی محدود ہے۔ البتہ ایران اور روس کے درمیان دیگر فوجی معاہدے موجود ہیں جن کی رو سے شام کے دیگر خطوں میں فوجی تعاون جاری ہے۔ حالیہ فوجی معاہدہ داعش کے خلاف جنگ کیلئے انجام پایا ہے اور اس کا دائرہ کار مشرقی شام تک ہی محدود ہے۔

امریکہ ابھی چند دن پہلے تک یہ ظاہر کر رہا تھا حلب کی جنگ اور جیش الفتح جیسے گروہوں کے خلاف ہوائی حملوں کے بارے میں روس سے اس کے اختلافات پائے جاتے ہیں۔ امریکی حکام ان گروہوں پر ہوائی حملوں کو داعش کی مدد قرار دیتے ہیں اور دعوی کرتے ہیں کہ یہ امر داعش کو محفوظ بنا رہا ہے۔ امریکی حکام داعش کو "برے دہشت گرد" قرار دیتے ہیں جبکہ دیگر دہشت گرد گروہوں کو "اچھا دہشت گرد" سمجھتے ہیں لہذا داعش کے خاتمے پر زور دیتے ہیں۔ ایران اور روس النصرہ فرنٹ کے خلاف آپریشن کے ساتھ ساتھ داعش کے محفوظ ٹھکانوں کو بھی نشانہ بنانے کا فیصلہ کر چکے ہیں۔ امریکی، سعودی اور اسرائیلی حکام کل تک اس بات پر زور دیتے تھے کہ النصرہ فرنٹ کو چھوڑیں اور داعش کے خلاف کاروائیاں تیز کریں لہذا اب جب ایران اور روس داعش کے خلاف فوجی تعاون بڑھانے کا معاہدہ کر چکے ہیں تو اصولا انہیں اس معاہدے کا خیرمقدم کرنا چاہئے لیکن انہوں نے اسے ایک انتہائی خطرناک اقدام اور امریکہ اور روس کے درمیان ایک بڑا چیلنج قرار دیا ہے جبکہ اسرائیلی حکام نے بھی اسے ایک خطرناک اقدام اور ایرانی – روسی ماڈل کے مطابق مشرق وسطی میں تبدیلی کا آغاز قرار دیا ہے۔ اسی طرح ڈیلی الریاض کے مطابق سعودی حکام نے اس معاہدے کو ایک مایوس کن اقدام قرار دیا ہے۔

یہ موقف ظاہر کرتا ہے کہ امریکی حکام کی جانب سے نہ صرف النصرہ فرنٹ کو دہشت گرد قرار دینے میں کوئی صداقت نہیں بلکہ داعش سے وابستہ عناصر کو برے دہشت گرد قرار دینے میں بھی کوئی صداقت نہیں پائی جاتی۔ امریکہ نہ صرف داعش کو اپنے لئے خطرہ تصور نہیں کرتا بلکہ اس کی موجودگی کو اپنے لئے سنہری موقع اور اپنے مخالفین یعنی ایران اور روس کیلئے خطرہ تصور کرتا ہے لہذا داعش کی حفاظت کی کوشش کرتا ہے۔ اس سے پہلے بعض تجزیہ کاروں کا خیال تھا کہ امریکی حکام صرف ظاہری حد تک داعش کے خلاف جنگ کا ڈھونگ رچانا چاہتے ہیں جبکہ چوری چھپے اس گروہ سے مذاکرات کے ذریعے سیاسی لین دین اور سازباز کے خواہاں ہیں۔ یہ سیاسی لین دین امریکہ کی جانب سے داعش کی مدد اور حمایت جبکہ داعش کی جانب سے شیعہ سنی جنگ اور دشمنی کی آگ جلائے رکھنے پر مبنی ہے۔ جو بیانات آج کل امریکی، اسرائیلی اور سعودی حکام کی زبان سے سنے جا رہے ہیں وہ درحقیقت ان کی حقیقی نیتوں اور امریکہ کے اسٹریٹجک اہداف کو عیاں کر رہے ہیں۔ لہذا ہم اگرچہ مشرقی شام میں داعش کے ٹھکانوں کو نشانہ بنانے پر مبنی ایران اور روس کے حالیہ فوجی معاہدے کو اسٹریٹجک نہیں سمجھتے لیکن چونکہ یہ معاہدہ خطے کی سلامتی کے خلاف امریکی – داعشی خونی سازباز اور سازش کی ناکامی میں اہم ثابت ہو رہا ہے لہذا اسے "سپر اسٹریٹجک" قرار دیتے ہیں۔

امریکی، اسرائیلی اور سعودی حکام کے حالیہ بیانات اور موقف سے بخوبی جانا جا سکتا ہے کہ وہ گذشتہ چند ہفتوں کے دوران شدید پریشانی کا شکار ہو چکے ہیں۔ ترکی میں ناکام فوجی بغاوت کے بعد انقرہ اور مغربی ممالک کے تعلقات میں شدید کشیدگی آئی ہے اور ترک حکام میں ہمسایہ ممالک سے پرامن طریقے سے اختلافات حل کرنے کا رجحان بڑھ گیا ہے جس کا نتیجہ خطے کے تین اہم دارالحکومت یعنی تہران، ماسکو اور انقرہ کے درمیان مذاکراتی وفود کی آمدورفت میں ظاہر ہوا ہے۔ روس اور ایران کے درمیان ہمدان فوجی ہوائی اڈے سے داعش کے ٹھکانوں پر بمباری پر مبنی فوجی معاہدہ اور نیٹو کا رکن ہونے کے ناطے ترکی کی جانب سے اس معاہدے کی حمایت درحقیقت امریکہ، اسرائیل اور سعودی عرب پر ایک اسٹریٹجک ضرب ثابت ہوئی ہے۔ اس اسٹریٹجک ضرب نے خطے سے متعلق امریکہ خاص طور پر ڈیموکریٹک پارٹی کے اہم اور حساس منصوبوں کو شدید دھچکہ پہنچایا ہے۔

گذشتہ ایک دو سال کے دوران امریکی حکام نے یہ ظاہر کرنے کی بھرپور کوشش کی ہے کہ مشرق وسطی میں جو کچھ بھی ہو رہا ہے اس پر ان کا مکمل کنٹرول ہے اور جن اہداف کا حصول سابقہ امریکی صدور ریگن، جرج بش اول، کلنٹن اور جرج بش دوم کے دور میں امریکہ کی آرزو بن چکی تھی وہ اب حاصل ہو چکے ہیں۔ لہذا موجودہ امریکی حکومت نے ایران سے جوہری معاہدے، ترکی میں گولن کو برسراقتدار لانے پر مشتمل منصوبے، شام میں صدر بشار اسد کو اقتدار سے ہٹانے پر مشتمل سیاسی منصوبے کے اجرا اور کویت میں انصاراللہ یمن اور یمن کی انقلابی تحریک کو غیرمسلح کرنے اور اس کے بعد سیاسی میدان سے نکال باہر کرنے کی غرض سے 90 روزہ مذاکرات کو نتیجہ بخش بنانے کی کوششوں جیسے اقدامات کے ذریعے ایک طرف تو خطے میں اپنی زائل شدہ طاقت دوبارہ بحال کرنے کی کوشش کی اور دوسری طرف آئندہ صدارتی انتخابات میں ڈیموکریٹک پارٹی کی کامیابی یقینی بنانے کی کوشش کی ہے۔ لیکن موجودہ صورتحال اور تبدیلیوں نے امریکی حکومت کے ان تمام اقدامات کو بے سود ثابت کر دیا ہے۔ اگرچہ امریکہ کے آئندہ صدارتی انتخابات میں ہیلری کلنٹن کی کامیابی کا امکان موجود ہے لیکن موجودہ حالات میں خطے میں امریکہ کا گذشتہ اثرورسوخ اور اقتدار واپس لانا ہر گز ممکن نہیں۔ اسی وجہ سے بی بی سی عربی نے ایران اور روس کے درمیان جاری فوجی تعاون کو نہ کہ داعش بلکہ امریکہ کیلئے بڑا چیلنج قرار دیا ہے اور ریاض نے اسے خطے میں توازن کو تہس نہس کرنے والا جبکہ امریکی حمایت یافتہ حلقوں سے وابستہ لبنانی اخبار النہار اس امر کو "وائٹ ہاوس کیلئے تباہ کن پیغام" قرار دے رہا ہے۔

یہاں اس اہم نکتے کا ذکر بھی ضروری ہے کہ امریکی حکام اپنی صدارتی الیکشن مہم کے دوران یہ دعوی کرتے آئے ہیں کہ ہم بتدریج اور بغیر کوئی بڑی رعایت دیے یا کوئی بڑا خرچہ کئے تہران پر اپنا اثرورسوخ دوبارہ قائم کرنے کے قریب ہیں اور وہ وقت دور نہیں جب ہم تہران اور ایرانی سرحدوں کے ذریعے ایک بار پھر مغربی ایشیا کے خطے پر مسلط ہو جائیں گے۔ امریکہ کا منصوبہ یہ تھا کہ ایران اور یورپ کے درمیان سیاسی تعلقات فروغ دے کر اور ساتھ ہی ساتھ مغربی دنیا سے سیاسی تعلقات کی پیاس باقی رکھنے کیلئے ایران پر اقتصادی دباو برقرار رکھ کر آہستہ آہستہ ایران میں اپنا اثرورسوخ بڑھاتا چلا جائے۔ لہذا امریکی حکام اپنے شہریوں کو یہ کہتے آئے ہیں کہ ہم نے ایران سے جوہری معاہدے کے ذریعے ایرانی حکام کو اپنے مطالبات تسلیم کرنے پر مجبور کیا ہے جس کے باعث ایران میں ہمارے اثرورسوخ کی بحالی میں درپیش رکاوٹیں دور ہو رہی ہیں اور اگر آپ ہماری پارٹی کو ہی ووٹ دیں تو ہم اگلے دورہ صدارت میں ایران پر اپنا مکمل اثرورسوخ قائم کر لیں گے۔ لیکن امریکی شہری میڈیا پر کسی اور حقیقت کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔ ترکی میں امریکی بغاوت ناکامی کا شکار ہوتی ہے اور امریکہ انجرلیک سے اپنا فوجی اڈہ کسی یورپی ملک میں منتقل کرنے کی باتیں کر رہا ہے۔ دوسری طرف ایران ایشیائی ممالک سے اپنے اسٹریٹجک تعلقات کو فروغ دینے میں مصروف ہے۔ اسی طرح ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکی حکام اور حتی ریپبلکن پارٹی کے رہنماوں کو شدید پریشان کر رکھا ہے اور وہ موجودہ امریکی حکومت کو داعش جیسے دہشت گرد گروہ کی پیدائش کا حقیقی سبب قرار دے رہے ہیں۔ یہ موقف حتی ریپبلکن پارٹی کے رہنماوں کی نظر میں بھی ایک اسٹریٹجک جرم قرار پا چکا ہے۔

جو کچھ وائٹ ہاوس میں پک رہا ہے وہ چاہے مارکیٹ تک پہنچ پائے یا نہ، حقیقت یہ ہے کہ مشرق وسطی نامی خطے میں جو امریکی طاقت کا مرکز تصور کیا جاتا ہے، ایک نئی طاقت اور ایک نیا معاہدہ ابھر کر سامنے آ رہا ہے۔ اس نئے معاہدے میں ایران امریکہ کے طاقتور ترین اور مضبوط ترین دشمن کے طور پر ظاہر ہوا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ امریکہ، اسرائیل اور خطے میں ان کے اتحادیوں کیلئے اس معاہدے کے سنگین اور مایوس کن نتائج سامنے آئیں گے۔
خبر کا کوڈ : 562158
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش