0
Wednesday 24 Aug 2016 03:05

آل سعود آل یہود معاشقہ اور اہل فلسطین(1)

آل سعود آل یہود معاشقہ اور اہل فلسطین(1)
تحریر: آئی اے خان

آل سعود آل یہود تعلقات باعث حیرت نہیں
آل سعود، آل یہود یعنی سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان تعلقات اور تعاون کوئی نئی یا حیران کن بات ہرگز نہیں۔ گذشتہ دنوں سعودی ماہرین نے اسرائیل کا دورہ کیا، گرچہ میڈیا کے بعض حلقوں نے اس پر حیرانگی اور تشویش کا اظہار کیا، تاہم تجزیہ کار اور خطے کے حالات پر نگاہ رکھنے والے ماہرین کو اس دورے پر قطعی کوئی حیرت نہیں ہوئی۔ یہاں تک کہ ایک معروف عرب اخبار نے اپنے اداریے میں یہاں تک لکھا کہ حیرانگی کی بات یہ نہیں کہ سعودی عرب نے اسرائیل کے ساتھ اپنے تعلقات کو دنیا پر ببانگ دہل آشکار کیا ہے، بلکہ حیرانگی اس وقت ہوتی اگر سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان کوئی ایسا اختلاف سامنے آتا، جو دونوں کے درمیان تصادم کا باعث بنتا۔ اخبار مزید لکھتا ہے کہ اسرائیل نے ہمیشہ دائیں بازو کے آمروں اور بادشاہوں کے ساتھ تعاون کیا۔ جنوبی افریقہ کے اپارتھائیڈ آمر سے لیکر ایران کے رضا شاہ پہلوی اور موبوتو کے زائر اور لاطینی امریکہ کے دائیں بازو کے آمروں تک کو اسرائیل نے ہمیشہ فوجی ماہرین فراہم کئے اور بائیں بازو کے جو لوگ ان آمروں اور بادشاہوں کے مخالف ہوتے، انہیں قتل کرنے والوں کو تعاون فراہم کیا، اس لئے اگر سعودی عرب کی بادشاہت کے اسرائیل سے گہرے تعلقات نہ ہوتے تو حیرانگی ہوتی۔

سعود و یہود تاریخی گٹھ جوڑ

ارض فلسطین پر جب قیام اسرائیل کے گھناؤنے منصوبے کا آغاز ہوا تو اس وقت بھی برطانوی پٹھو کنگ عبدالعزیز نے وہ کردار ادا کیا، جو ہر لحاظ سے اہلیان فلسطین کے خلاف اور ناجائز و غیر قانونی نام نہاد ریاست اسرائیل کے حق میں تھا۔ اسرائیلی ریاست بننے کے چند سال بعد پوری عرب دنیا میں عرب قوم پرستی اور قومی خود مختاری کی تحریکوں کا ظہور ہوا اور عرب سرد جنگ مصر میں جمال عبدالناصر نے پین عرب ازم کا جھنڈا اٹھایا تو اس سارے دور میں سعودی عرب امریکہ، اسرائیل اور برطانیہ کے کیمپ میں رہا۔ اس زمانے میں سعودی عرب اور اسرائیل کے تعاون سے امریکہ اور دیگر مغربی حکومتوں نے عرب خطے کے اندر عوامی، قومی مزاحمتی تحریکوں کو دبانے میں مذموم کردار ادا کیا۔ نائن الیون کے بعد جب سعودی عرب کی جانب سے سلفی دہشت گردوں کو پروان چڑھانے اور انہیں وسائل فراہم کرنے پر تنقید شروع ہوئی تو ایک طرف سعودی عرب نے اسرائیل کے ساتھ اپنے دیرینہ تعلقات کو نہ صرف دنیا پر آشکار کیا بلکہ کنگ عبداللہ نے اسرائیل کے ساتھ امن معاہدے کا منصوبہ بھی پیش کیا۔ بظاہر تو یہ سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان عرب معاہدہ یا پلان تھا، مگر حقیقت میں دنیا بھر میں جاری اسلامی تحریکوں خصوصاً آزادی فلسطین کیلئے قیام کرنے والی قوتوں کو کچلنے کا پروگرام تھا۔ جس پر بتدریج عملدرآمد کے نتیجے میں مشرق وسطٰی کی حالیہ صورت ہمارے سامنے ہے۔ یعنی آل سعود جو کہ خود کو خادم حرمین شریفین کہلانے پر مصر ہیں، وہ اپنی اور اپنے اقتدار کی جائے پناہ ہمیشہ ہی یہود و نصاریٰ (امریکہ، برطانیہ، اسرائیل ) کی آغوش میں ڈھونڈتے رہے۔

گذشتہ دنوں سعودی جنرل ڈاکٹر انور عشقی جو کہ جدہ میں ایک تھنک ٹینک کے سربراہ ہیں، نے اپنے وفد کے ہمراہ اسرائیل کا دورہ کیا۔ ڈاکٹر انور عشقی سعودی انٹیلی جنس کے سابق سربراہ بندر بن سلطان کے نائب رہ چکے ہیں، جن پر شام میں دہشت گردوں کو سرن گیس سپلائی کرنے، سعودی بادشاہت پر قبضہ کیلئے دہشت گرد گروہوں کی تیاری کے الزامات بھی تھے۔ سعودی وفد میں معیشت، تعلیم، دفاع کے ماہرین شامل تھے، جنہوں نے اسرائیلی پارلیمنٹ میں حکومتی و اپوزیشن کے اراکین، وزارت خارجہ کے ڈائریکٹرز، انٹیلی جنس اور سکیورٹی افسران سے ملاقاتیں کی ہیں۔ سعودی وفد نے اسرائیلی حکومت کی غرب اردن اور غزہ میں فوجی سرگرمیوں کے ذمہ دار اسرائیلی میجر جنرل یوف مورڈچائی سے بھی اسرائیل میں ملاقات کی ہے۔ اس دورے کے دوران سعودی وفد کے اراکین نے حماس کے خلاف ہرزہ سرائی بھی کی ہے۔ اسرائیل یعنی آل یہود کے ساتھ آل سعود کی یہ محبت، قربت کوئی پہلی مرتبہ منظر عام پر نہیں آئی بلکہ اس سے قبل ایک عرب شہزادے نے اپنے انٹرویو میں کہا کہ ایران اور اسرائیل کے درمیان جنگ کی صورت میں ہم اسرائیل کا ساتھ دیں گے۔ سعودی وفد نے اسرائیل کا یہ دورہ ایک ایسے وقت میں کیا ہے، جب یمن پر تمام تر قوت صرف کرنے کے باوجود بھی سعودی عرب کو اپنے عزائم کے حصول میں نہ صرف ناکامی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے بلکہ یمن جنگ کے اخراجات اور انصار اللہ کی استقامت سے سعودی عرب کے فوجی اتحاد کا مورال زمین بوس ہوچکا ہے۔

حقیقی جنگ ایران اور اسرائیل کے درمیان جاری

مشرق وسطٰی بشمول یمن، عراق اور شام کی موجودہ صورتحال کو سامنے رکھیں تو متحارب دھڑے واضح طور پر دو متحارب دھڑوں میں منقسم ہیں۔ ایک طرف سعودی عرب اور اس کا فوجی اتحاد بشمول پاکستان، مصری حکومت، امریکہ، اسرائیل، ترکی اور ان کے زیر سرپرستی داعش، جبہۃ النصرہ و دیگر دہشت گرد گروہ ہیں، جو کہ دہشت گردی و حملوں کے ساتھ ساتھ قومی املاک و باشندوں کو تہہ تیغ کر رہے ہیں جبکہ دوسرے دھڑے میں فلسطین، مصر، یمن، بحرین و دیگر عرب ریاستوں کے عوام، ایران، عراق، شام کی حکومتیں، حزب اللہ، حماس جیسی آزادی کی تحریکیں شامل ہیں۔ پہلے اتحاد کی بظاہر سربراہی سعودی عرب کے پاس جبکہ عملاً اس کی ڈوریں اسرائیل کے سپرد ہیں، تاہم اخراجات کی مد میں دیکھیں تو اس پورے دھڑے میں سب سے زیادہ خسارے کا شکار سعودی عرب ہی ہے، جو اپنے قیمتی وسائل مسلسل لٹا رہا ہے اور بدلے میں زیادہ گھمبیر مسائل کا شکار بھی ہوتا جا رہا ہے۔ صرف گذشتہ سال سعودی عرب نے برطانیہ سے چار ارب ڈالر، امریکہ سے چھ ارب ڈالر اور فرانس سے اٹھارہ ارب ڈالر کا اسلحہ خریدا، مگر اسی ایک سال میں اسے سب سے زیادہ عالمی حمایت میں کمی اور دنیا بھر میں شدید عوامی ردعمل کا سامنا کرنا پڑا۔

دوسرے اتحاد کی پیشوائی ایران کے پاس سمجھی جاتی ہے، حالانکہ روس جیسی بڑی قوت بھی اس دھڑے میں شامل ہے اور حالیہ فوجی بغاوت کے بعد ترکی بھی اسی دھڑے کے نزدیک محسوس ہو رہا ہے، مگر اس کے باوجود ایران کا کردار قائدانہ ہے۔ ان متحارب دھڑوں کو سامنے رکھتے ہوئے آل یہود آل سعود محبت کی پینگیں دورے کی صورت میں دنیا پر ایسے وقت میں آشکار کی گئی ہیں، جب شام و عراق میں انکے منظور نظر دہشت گردوں کو تاریخی شکست کا سامنا ہے۔ عراق کے وہ صوبے جو داعش کا مسکن تھے، سرکاری افواج نے واپس لے لئے ہیں، جبکہ شام میں بھی داعش و دیگر دہشت گرد گروہوں کو شرمناک شکست کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ سرکاری افواج نے کئی علاقے ان سے واپس لے لئے ہیں، جس کے جواب میں دہشت گردوں کی جانب سے بے گناہ شہریوں پر خودکش اور پلانٹڈ بم دھماکوں کا سلسلہ بھی شروع ہے۔ تمام تر دباؤ، دہشتگردانہ حملوں کے باوجود بھی سعود و یہود مخالف حکومتوں یا شہریوں کے حوصلوں میں کوئی کمی نہیں آئی بلکہ آزادی فلسطین کی تحریکوں جیسا کہ حزب اللہ وغیرہ کے اثرورسوخ اور حجم میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ اسی طرح یمن پر حوثی قبائل اپنا غلبہ منوانے میں کامیاب ہوئے ہیں، جبکہ یمن کی سرزمین پر سعودی عرب کے خلاف ہونے والے فقید المثال عوامی مظاہروں نے مسلط کردہ جنگ کے جواز کو خاک میں ملادیا ہے۔

انصار اللہ یا حوثی قبائل پر یہ الزام کہ ایران ان کی مدد کر رہا ہے، ایرانی دائرہ اثر میں توسیع اور سعودی عزائم کی یمن میں ناکامی و نامرادی سمجھا جا رہا ہے۔ باالفاظ دیگر سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیانی علاقے اور سعودی آئل سپلائی روٹ (باب المندب) پر ایرانی پیشوائی والے اتحاد کا اثر مسلسل بڑھ رہا ہے۔ سعودی عرب پر مسلط حکمران یعنی آل سعود کسی بھی قیمت پر اپنی آمریت و بادشاہت کا تحفظ چاہتے ہیں، جبکہ اسرائیل نیل سے فرات تک اپنے پھیلاؤ کی حسرت دل میں لئے بیٹھا ہے۔ سعودی و اسرائیلی خواہشات کی تکمیل میں آزادی فلسطین کیلئے اٹھی تحریکیں اور خطے میں موجود اسرائیل مخالف حکومتیں بڑی رکاوٹیں ہیں۔ ان رکاوٹوں کو پوشیدہ تعلقات کے ذریعے دور کرنے کی تمام تر کوششوں میں ناکامی کے بعد آل یہود اور آل سعود نے اپنے مخفی تعلقات کو دنیا پر آشکار کیا ہے۔ گرچہ ان اعلانیہ تعلقات سے سعودی عرب و اسرائیل نے دنیا بھر میں آزادی فلسطین کیلئے اٹھی اسلامی تحریکوں کی پشت میں خنجر گھونپا ہے، مگر اس کے باوجود ریال کے رسیا اور فلسطین و کشمیر کے مسلمانوں سے منافقانہ ہمدردی و یک جہتی کا اظہار کرنے والے ان اعلانیہ تعلقات پر خاموش ہیں۔ یہاں تک کہ وہ قرآن کریم کی اس آیت مبارکہ ’’یہود و نصاریٰ تمہارے ہرگز دوست نہیں‘‘ کی کھلی خلاف ورزی کرنے والوں کی مذمت میں ایک لفظ تک بولنا گوارا نہیں کرتے۔ سعودی وفد کے دورہ اسرائیل سے پہلے 12 جولائی کو سعودی عرب کی سرکاری فضائی کمپنی سعودی ایئر لائنز نے دارالحکومت ریاض سے اسرائیلی دارالحکومت تل ابیب تک براہ راست فضائی سروس شروع کرنے کا اعلان کیا۔ سعودی وزارت خارجہ کے ترجمان عبداللہ متہیب نے کہا کہ مجھے یہ اعلان کرتے ہوئے خوشی ہے کہ ہمارے 2 بوئنگ 787 طیاروں نے بن گوریان انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر گذشتہ روز لینڈنگ کی۔ تل ابیب، حیفہ اور یروشلم سعودی ایئرلائنز کی ممکنہ منزل ہوسکتی ہے۔

سعودی فرمانروا شاہ سلمان بن عبدالعزیز کی سعودی وزیر ٹرانسپورٹ کو اسرائیلی ہم منصب سے بات چیت کرنے اور دونوں ممالک کے دارالخلافہ کے درمیان براہ راست فضائی سروس شروع کرنے کی واضح ہدایات کے نتیجے میں معاہدہ طے پایا ہے۔ اس سے ایک روز قبل ہی اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے اجلاس میں اپنے نئے دوستوں کا تعارف کروایا اور کہا سعودی عرب نے اب یہ مان لیا ہے کہ اسرائیل سعودی عرب کا دوست ہے، دشمن نہیں۔ ہم دونوں کے مشترک دشمن ہمارے اتحاد کی وجہ ہیں۔ یقیناً نیتن یاہو کی تقریر میں "مشترک دشمن" سے مراد ایران، حزب اللہ، حماس، شام اور عراق ہیں، کیونکہ خطے میں مزاحمتی ممالک و بلاک کے علاوہ اسرائیل کا کوئی دشمن نہیں ہے۔ آل سعود آل یہود تعلقات اس فضائی سروس شروع ہونے اور سعودی وفد کے دورے سے دنیا پر واضح اور آشکار ہوئے ہیں۔ جن کا مقصد اسلامی ممالک کے خلاف جارحیت میں اعلانیہ ایک دوسرے کی مدد کرنا بھی شامل ہے۔ سعودی یہودی تعلقات میں سب سے زیادہ نقصان تحریک آزادی فلسطین کو پہنچنے کا اندیشہ ہے، جس کا اندازہ یہیں سے لگایا جاسکتا ہے کہ سعودی وفد میں شامل ایک رکن کا کہنا تھا کہ حماس کی صلاحیت مکھی مارنے کی بھی نہیں ہے، یہ وہی حماس ہے جس کے متعلق ماضی میں یہ سمجھا جاتا تھا کہ اسے سعودی عرب کی حمایت حاصل ہے۔ سوشل میڈیا کی بعض تحریروں میں یہ شکوہ کیا جا رہا ہے کہ نظریات کو مفادات کی بھینٹ چڑھا کر آزادی فلسطین کی تحریک سے سعودی عرب نے غداری کی ہے، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ سعودی عرب کبھی بھی آزادی فلسطین کا نظریاتی حلیف نہیں رہا، تو پھر شکوہ کیسا۔ البتہ ان تعلقات سے اسلامی دنیا کو اسرائیل سے لاحق خطرات پہلے سے زیادہ شدید ہو جائیں گے۔
(جاری ہے)
خبر کا کوڈ : 562739
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش