1
0
Thursday 25 Aug 2016 00:10

اے مَردوں کی شکلوں میں نامَردو!

اے مَردوں کی شکلوں میں نامَردو!
تحریر: نذر حافی
nazarhaffi@gmail.com

ننھا سا بچہ گرم ریت میں جھلس رہا ہے، ماں سرکاری اہلکاروں کے سامنے ہاتھ باندھ کر دو بوند پانی مانگ رہی ہے۔۔۔  سورج دہک رہا ہے، آسمان سے آگ برس رہی ہے، ہر طرف لق و دق صحرا ہے، قیامت کی پیاس اور غضب کی  گرمی ہے۔ ایک ماں اپنے نومولود بچے کے ہمراہ جان کنی کی حالت میں ہے، باپ تنگ ہو کر احتجاجاً اپنے گلے پر چھری چلا دیتا ہے۔۔۔  تاریک بیابان ہے، آدھی رات کو مسافروں کے قافلے شاہراہِ عام پر لوٹ لئے جاتے ہیں۔۔۔  دن دیہاڑے، وسطِ بیابان میں چالیس کے لگ بھگ مسافروں کو گولیوں سے بھون دیا جاتا ہے۔۔۔  کوئی سننے والا نہیں، کوئی پوچھنے والا نہیں، لوگوں کو جانوروں کی طرح ہانک کر کانوائے کے نام پر محاصرہ کرکے کئی کئی ہفتوں تک لوٹا جاتا ہے۔ ایک ہزار کے بجائے پانچ، پانچ ہزار کرایہ وصول کیا جاتا ہے۔۔۔۔

یہ سینکڑوں سال پرانے کسی صحرا کی داستان نہیں بلکہ یہ کوئٹہ سے تفتان کی روداد ہے، یہ کسی یہودی عورت کی پازیب چھننے کا غم نہیں بلکہ دخترِ اسلام کی حالت زار ہے۔ یہ مغرب کے عشرت کدوں میں رقص کرنے والی کسی لیڈی کا غم نہیں بلکہ دخترِ مشرق کی بے حرمتی ہے۔
جی ہاں! یوں اگر کسی سرمایہ دار، سیاستدان، قومی و ملی لیڈر یا کسی ویسٹرن فیملی کا بچہ پیاس سے تڑپتا تو میڈیا چیخ اٹھتا، انسانی حقوق کی تنطیمیں سینہ کوبی کرتیں، عالمی برادری اشک بہاتی، لیڈر چیختے اور چلاتے ۔۔۔  جی ہاں! یوں اگر سرکاری اہلکاروں کے مظالم سے تنگ آکر یورپ کا کوئی شہری احتجاجاً خود کشی کی کوشش کرتا تو ہمارے صدر مملکت اور وزیراعظم صاحب کی طرف سے بھی افسوس کا پیغام بھیجا جاتا۔۔۔

جی ہاں! اگر اس طرح کسی دوسرے مکتب کے زائرین کو گولیوں سے بھونا جاتا تو اُن کی یادگار بنائی جاتی، بین الاقوامی برادری کی طرف سے تعزیتی وفود آتے، تفتیشی ٹیمیں آتیں اور مظلوموں کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا جاتا۔۔۔ جی ہاں! یوں اگر اس طرح کسی اور فرقے کے افراد کو کانوائے کے نام پر محاصرہ کرکے لوٹا جاتا، پانچ گنا زیادہ کرایہ وصول کیا جاتا، لوگوں کو گھنٹوں لائنوں میں کھڑا کیا جاتا، بیوی بچوں کے سامنے مردوں کو بے عزت کیا جاتا تو اینٹی کرپشن کی فائلیں کھل جاتیں، مختلف شخصیات کی طرف سے از خود نوٹس لئے جاتے، عدالتیں حرکت میں آجاتیں۔۔۔

سرکاری اہلکاروں کی طرف سے شہریوں کی بے عزتی کرنا یہ نظریہ پاکستان، آئین پاکستان اور انسانی اقدار کی توہین ہے۔ قوم کی ماوں، بہنوں، بیٹیوں اور بچوں کی توہین اور اہانت کرنا، یہ سراسر ہماری ملکی اور معاشرتی روایات کے خلاف ہے۔ لیکن اس کے باوجود کوئی بھی اس درد کو محسوس نہیں کر رہا، کوئی بھی اس ظلم کا نوٹس نہیں لے رہا، کوئی ادارہ بھی حرکت میں نہیں آرہا۔۔۔ شاید اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ جو قوم ظلم سہنے اور انصاف کی بھیک مانگنے کی عادی ہوجائے، دوسرے بھی اس پر رحم کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔ تاریخ کے کسی موڑ پر عالمِ بشریت کے سب سے بڑے بہادر نے ہم جیسوں کو ہی پکار کر کہا تھا کہ اے مردوں کی شکلوں میں نامردو!
تمہاری آبادیوں اور عزت و ناموس پر حملے ہو رہے ہیں اور تم۔۔۔
خبر کا کوڈ : 562988
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Iran, Islamic Republic of
اب تو نامردی کی انتہا ہوگئی ہے۔
ہماری پیشکش