0
Thursday 25 Aug 2016 01:27

آل سعود آل یہود معاشقہ اور اہل فلسطین(2)

آل سعود آل یہود معاشقہ اور اہل فلسطین(2)
تحریر: آئی اے خان

شام میں براہ راست ممکنہ فوجی مداخلت

شام میں حکومت کی تبدیلی کیلئے تمام تر سعودی و یہودی سازشیں اور دہشتگردانہ کوششیں ناکامی سے دوچار ہوئی ہیں۔ اس کے جواب میں اسرائیل کو ناکوں چنے چبوانے والی حزب اللہ کے کردار میں اضافہ ہوا ہے اور شام کے ساتھ اسرائیلی سرحد سے اسرائیل کیلئے مسائل میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ حزب اللہ اور ایران کے کردار میں اضافے کا اعتراف موساد کے سابق چیف نے بھی کیا۔ سعودی عرب اب بھی دہشتگرد تکفیری مسلح گروہوں کو فوجی، اسلحہ جاتی اور لاجسٹک امداد فراہم کرکے اس مسئلے کا حل فوجی مداخلت اور شامی حکومت گرانے میں ہی سمجھتا ہے۔ شام میں سعودی عرب کی طرف سے فوج داخل کرنے سے بحران میں شدت لانے سے صرف نظر کرتے ہوئے ایک اسرائیلی ویب سائٹ (Debka) نے سعودی ذرائع سے نقل کرتے ہوئے بیان کیا ہے کہ سعودیہ نے 3500 مسلح افراد کا لشکر دہشتگرد گروہوں کی امداد کیلئے شام بھیجا، تاکہ فوجی مداخلت کے ذریعے شامی حکومت کا خاتمہ کرکے اسرائیل کے پھیلاؤ کے ایجنڈے کو پورا کیا جائے۔ اسرائیل اور سعودیہ اعلانیہ تعلقات کے بعد اس بات کا شدید خطرہ ہے کہ آزادی فلسطین کے اہم مورچہ شام کے خلاف سعودی عرب اور اسرائیل مشترکہ فوجی کارروائی سرانجام دیں، جس کا بالواسطہ اعلان اسرائیلی وزیراعظم نے مشترکہ دشمن کی اصطلاح بیان کرکے کیا ہے۔

تمام تر قوت جھونکنے کے باوجود یمن میں سعودی عزائم کی ناکامی
مارچ 2014ء میں سعودی عرب نے وزیر دفاع اور جانشین ولی عہد محمد بن سلطان کے فیصلے پر یمن کے خلاف فوجی جارحیت کا آغاز کیا، ایک جانب آزاد حوثی قبائل کے خلاف سعودی عرب نے جارحیت شروع کی تو دوسری جانب یمن میں ہی داعش کو وسائل فراہم کرکے حضرموت صوبے پر قبضے کیلئے استعمال کیا، تاہم تمام تر کارروائیوں کے باوجود سعودی عرب مطلوبہ نتائج حاصل نہ کرسکا بلکہ جنگجو حوثیوں کی جنگی صلاحیت و استعداد میں اس صورت میں اضافہ ہوا کہ سعودی عرب کے خلاف جذبات ایک لاوے کی صورت اختیار کرگئے۔ انصار اللہ کے طاقتور ہونے کا مطلب یہ تھا کہ یمنی عوام کو سعودی چنگل سے نجات دلائی جا سکے، جو تمام عرب ممالک کی نسبت خلیج فارس کے ساحلوں سے سب سے کم فائدہ اٹھاتی ہے۔ صوبہ حضرموت یمن کا سب سے بڑا صوبہ ہے، جو یمن کے ایک تہائی حصے پر مشتمل ہے۔ بحیرہ عرب اور بحرہند کے ساتھ واقع ہے۔ یہ صوبہ داخلی طور پر 260 کلومیٹر پر پھیلا ہوا ہے اور اس پر قبضہ ایک دیرینہ سعودی خواب تھا۔ حضرموت جیو پولیٹک حیثیت کے علاوہ زرخیز بھی ہے اور اس صوبے میں بہت زیادہ تیل کے ذخائر بھی موجود ہیں۔ اس لئے اس پر قبضے کا منصوبہ شاہ فیصل کے زمانے میں بنایا گیا تھا۔ اڑھائی سال کی مسلسل جارحیت اور کئی ملکی فوجی اتحاد کی مسلسل بمباری کے باوجود بھی یمن میں سعودی عزائم ناکامی سے دوچار ہوئے، یہاں تک کہ تاریخ میں پہلی مرتبہ سعودی عرب کو معاشی حوالے سے شدید جھٹکا لگا، جس کی وجہ یمن جنگ کے اخراجات تھے۔ اسرائیل کے ساتھ حالیہ پیش رفت کے بعد یمن پہ آتش و آہن کی بارش میں مزید تیزی متوقع ہے۔

آزادی فلسطین کی تحریکوں کیلئے مشکلات
آزادی فلسطین کیلئے اٹھنے والی تمام تحریکوں کو سعودی اور اسرائیلی مشترکہ دشمن کا تو سامنا پہلے سے ہی تھا، مگر ان تعلقات کے آشکار ہونے کے بعد ان تحریکوں کی مشکلات و مسائل میں اضافہ ہوسکتا ہے، کیونکہ سعودی وفد میں شامل تعلیم، معیشت اور سکیورٹی کے ماہرین سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان تحریکوں کے خلاف اسرائیل اور سعودی عرب مشترکہ اقدامات کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں، جس کے بعد لامحالہ عرب دنیا سے ان تحریکوں کو ملنے والی مدد کو روکنا سعودی عرب و اسرائیل کا مشترکہ ہدف ہوگا۔ علاوہ ازیں اسلام کے خلاف دونوں کی مشترکہ کوششوں کا ہی نتیجہ ہے کہ حزب اللہ جیسی تحریک کے ساتھ دہشت گردی کے لاحقے سابقے کی مذموم کوششیں جاری ہیں۔ یمن میں انصار اللہ کے لیڈر اور سیاسی شوریٰ کے رکن حسین الحوثی نے کہا ہے کہ ہم یمن جارحیت میں آل سعود اور اسرائیلی تعاون سے آگاہ ہیں اور اسکا ہدف یمن کی تقسیم ہے۔ سعودی عرب کا اسرائیل کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھانا اس حوالے سے بھی قابل غور ہے کہ سعودی حکام سمجھتے ہیں کہ چونکہ صہیونی ریاست کو مغرب اور امریکہ کی حمایت حاصل ہے اور اسطرح وہ بھی مغرب اور امریکہ کی حمایت حاصل کرکے خطے میں اور ملک میں اپنی حکومت اور اقتدار کو مزید مستحکم کرسکتے ہیں۔

دوسری جانب سعودی عرب اور اسرائیل کے تعاون کو صرف یمن میں ہی محدود نہیں کیا جاسکتا، اس طرح کہ رواں سال کے اوائل میں خبررساں اداروں نے خبریں شائع کیں، جن سے معلوم ہوتا ہے کہ سعودی اور خلیجی ممالک کے شیوخ اور اسرائیل ایک مشکوک سازشی منصوبہ بنا رہے ہیں، تاکہ اردن کی جانب سے شام میں فوجی مداخلت کی جائے۔ باالفاظ دیگر شام اور لبنان میں زمینی حملہ کیا جائے اور اسرائیل فضائی حملے کرکے انکی مدد کرے۔ اسی حوالے سے امریکہ نے گذشتہ مہینوں میں اردن کے ساتھ فضائی رابطہ قائم کیا ہے، جس سے اسلحہ اور دیگر ذخیرہ تیزی کے ساتھ منتقل کیا جاسکے، تاکہ اگر شام میں جنگ بندی ناکام ہوتی ہے تو فوراً پلان B پر عملدرآمد کیا جائے۔ یہاں سے سعودی عرب اور خلیجی ممالک کے سربراہوں کے عرب دنیا اور بین الاقوامی سطح پر حزب اللہ اور دیگر مزاحمتی تنظیموں کو دہشتگرد قرار دلوانے پر اصرار بھی سمجھ آتا ہے اور وہ یہ کہ اسرائیل اور دہشتگرد تکفیری گروہوں کے خلاف ان مزاحمتی تنظیموں کا قانونی حق چھین لیا جائے۔

آل سعود امریکی و اسرائیلی ایجنڈے کا شکار
ایران کی جانب سے کبھی بھی سعودی عرب کے خلاف جارحانہ عزائم کا اظہار نہیں کیا گیا، یہاں تک کہ حج کے موقع پر سعودی انتظامیہ کی مجرمانہ غفلت کے باعث جو سانحہ پیش آیا، جس میں چار ہزار حجاج کرام شہید ہوئے۔ ان شہید ہونے والے حجاج کرام میں سب سے زیادہ تعداد ایرانی حجاج کی تھی، مگر اس کے باوجود ایران نے سعودی عرب کے خلاف سخت ردعمل نہیں دیا۔ دوسری جانب سعودی عرب کی جانب سے تواتر کیساتھ ہمیشہ ایران مخالف بیانات کا سلسلہ جاری رہا، ان بیانات میں آزادی فلسطین کی جدوجہد کو بھی نشانہ بنایا گیا اور محض امریکی و اسرائیلی مفادات کی خاطر ایرانی اقدامات پر اظہار تشویش کیا گیا۔ اس طرز عمل کے نتیجے میں ایک جانب سعودی عرب امریکی ہتھیاروں کی سب سے بڑی منڈی بنا رہا تو دوسری جانب سلامتی کے نام پر امریکی فوجی ماہرین سعودی عرب میں بھاری معاوضوں پر تعینات رہے۔ اب یہی کہانی پھر سے اسرائیل دوہرانے جا رہا ہے۔ دفاعی ماہرین کے خیال میں جلد ہی آل سعود آل یہود معاشقہ اعلانیہ مشترکہ سکیورٹی اور دفاعی معاہدات میں ڈھل جائے گا۔ جس کے بعد امکان ہے کہ آل سعود کے خدمتگار اسرائیل سے محبت و الفت کا راگ الاپتے نظر آئیں۔ اس تناظر میں سوال تو یہ بھی اٹھتا ہے کہ مشترکہ دفاعی معاہدات کے بعد فلسطین و غزہ کے وہ محصورین جو اسرائیلی ٹینکوں پر غلیل سے پتھر پھینکتے ہیں، ’’خادمین حرمین شریفین‘‘ کے دوست قرار پائیں گے یا دشمن، اور ممکنہ مشترکہ دفاعی معاہدات کے بعد کیا اسرائیل کو بھی حرمین شریفین کے محافظ ہونے کا تمغہ مل سکے گا، جیسا کہ یمن پر حملہ آور اتحاد میں شامل ممالک اپنے سینے پر سجائے ہوئے ہیں۔ اسرائیل کیساتھ تعلقات کو آشکار کرنے کی سعودی عرب کی غلطی کو ماہرین انتہائی سنگین قرار دے رہے ہیں اور کسی حد تک اسے آل سعود کی تنزلی شمار کر رہے ہیں۔ سوشل میڈیا کی بعض تحریروں میں الزام عائد کیا گیا ہے کہ سعودی اسٹیبلشمنٹ کی باگ ڈور سی آئی اے سے موساد کے ہاتھوں منتقل ہو رہی ہے، جسے کسی طور ترقی تو نہیں کہا جاسکتا۔

اسرائیل، مصر اور پاکستان

دو ماہ قبل سعودی شاہ سلمان نے مصر کا دورہ کیا اور اس دورے کے دوران دو مصری جزیرے تیران اور صنافیر سعودی عرب کے حوالے کئے گئے۔ کیمپ ڈیوڈ معاہدے میں یہ دونوں جزیرے مصر کی ملکیت قرار دیئے گئے تھے، ماہرین نے ان جزیروں سے متعلق خدشہ ظاہر کیا تھا کہ بنیادی طور پر یہ اسرائیل کیلئے انتہائی اہمیت رکھتے ہیں۔ گرچہ مصر کی عوام نے ان جزیروں کی سعودی عرب کو حوالگی پر شدید احتجاج کیا، مگر مصر میں اسرائیلی اور سعودی آشیرباد سے مسلط آمر جنرل السیسی عوامی احتجاج کو کسی خاطر میں نہیں لایا۔ اسرائیل نے ان جزیروں کی سعودی عرب کو حوالگی پر بجائے اعتراض کرنے کیلے اسے خوش آئند قرار دیا تھا۔ عرب ویب سائٹ نے اپنے تجزیے میں ان جزیروں کو بلوچستان کے شہباز ائیربیس سے تشبہیہ دی، جو کہ پاکستان نے یو اے ای کے حوالے کیا تھا اور یو اے ای نے امریکہ کے حوالے کیا، جہاں سے ڈرون اڑتے رہے۔ ابھی سعودی عرب کو ان جزیروں کی حوالگی کی بازگشت نہ تھمی تھی کہ مصر کے وزیر خارجہ نے اسرائیل کا غیر معمولی دورہ کیا۔ جس میں اسرائیلی وزیراعظم سمیت دیگر مقتدر افراد سے ملاقات کی۔ حسنی مبارک کے بعد یہ کسی بھی مصری حکومتی شخصیت کا دس سال میں پہلا اسرائیلی دورہ تھا۔ اس دورے کے دوران انٹیلی جنس تعاون پر بھی بات کی گئی۔ مصری وزیر خارجہ کے دورہ اسرائیل کے بعد پاکستانی فوج کے سپہ سالار جنرل راحیل شریف جنہیں سعودی عرب کی جانب سے پہلے ہی یہ پیش کش کی جاچکی ہے کہ وہ ریٹائرمنٹ کے بعد اس یمن پر حملہ آور فوج کی قیادت سنبھالیں، نے مصر کا دورہ کرکے وہاں سیاسی، عسکری قیادت و ماہرین سے ملاقاتیں کیں اور دونوں ممالک کے درمیان فوجی، انٹیلی جنس تعاون پر بات کی۔ زمینی حقائق کو مدنظر رکھا جائے تو مصر کے ساتھ براہ راست فوجی تعاون کی ضرورت یا توجیہہ موجود نہیں ہے۔

حاصل کلام
سعود اور یہود کے درمیان تعلقات اور ان تعلقات کا پھیلتا ہوا دائرہ حق و باطل کے درمیان تقسیم کو مکمل طور پر واضح کر رہا ہے۔ صابرہ و شیتلا کے مجرموں، غزہ کے محصورین کو گھاس سے سحر و افطار پر مجبور کرنے والوں اور معصوم فلسطینی چراغوں کو روایتی و غیر روایتی ہتھیاروں کیساتھ نشانہ بنانے والوں کے ساتھ آل سعود عرصہ دراز سے تعاون کر رہے ہیں۔ وہی آل سعود جو خود کو خادم حرمین شریفین کہلانے پر کمربستہ ہیں اور حرمین کو لاحق خطرات کی بات کرتے ہیں، ان کا طرز عمل ظاہر کرتا ہے کہ حرمین شریفین کو خطرہ باہر سے نہیں بلکہ یہود و نصاریٰ کے ان داخلی دوستوں یعنی آل سعود سے ہے۔ پاکستان کے عوام اور ادارے ہمیشہ سے آزادی فلسطین کی حمایت میں پیش پیش رہے ہیں۔ پاکستانی پاسپورٹ پر درج کہ یہ پاسپورٹ ماسوائے اسرائیل کے دنیا بھر کے ممالک میں کارآمد ہے، کی عبارت بانی پاکستان کا فرمان اور اہل پاکستان کا نظریہ ہے۔ آزادی فلسطین کیلئے اٹھنے والی ہر آواز، ہر تحریک پاکستان سمیت دنیا بھر کے مظلوموں اور مستضعفین کے دل کی آواز رہی ہے۔ آج نام نہاد خادم حرمین شریفین اعلانیہ طور پر ناجائز صہیونی ریاست کے ساتھ کھڑے ہیں، لاکھوں مسلمانوں کی قاتل غیر قانونی ریاست اسرائیل کے ساتھ مصر تعاون کر رہا ہے۔

حکومت پاکستان جو پہلے ہی سعودی اتحاد میں شمولیت سے اپنا وقار کھوچکی ہے، کو چاہیئے کہ صہیونی ریاست کے ساتھ ان نام نہاد مسلم ممالک کے تعلقات کی مذمت کرے اور خاص طور پر مصر سے تعلقات پر نظرثانی کرے اور دفاعی و انٹیلی جنس معاہدات کو کالعدم قرار دے۔ علاقے میں صیہونی حکومت کے خلاف جاری استقامت کے خلاف صیہونی حکومت اور سعودی عرب کے درمیان بڑھتے ہوئے تعلقات، استقامت کو کمزور بنانے اور علاقے میں دہشتگردوں کی مدد کرنے میں ان کا باہمی تعاون صیہونی حکومت اور آل سعود کی حکومتوں کی جو کہ دہشتگردی کا سرچشمہ ہیں، قلعی کھول دیتا ہے۔ عالمی رائے عامہ علاقے میں سعودی عرب اور صیہونی حکومت کے اقدامات کو ایک سکے کے دو رخ سمجھتی ہے اور اس بات پر انتباہ دیتی ہے کہ صیہونی حکومت کے ساتھ سعودی عرب کے بڑھتے ہوئے تعلقات کے علاقے کے لئے نہایت خطرناک نتائج نکلیں گے۔ سعودی عرب کے مغرب نواز حکام حرمین شریفین کی آڑ میں حرمین کا تقدس پامال کر رہے ہیں، جبکہ آل سعود آل یہود کا یہ مکروہ معاشقہ اہل فلسطین کی سسکیوں کا باعث ہے۔
تمام شد
خبر کا کوڈ : 562989
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش