0
Saturday 27 Aug 2016 13:56

کشمیر، بھارتی حکومت کی جانب سے شہری حقوق کی مسلسل پامالی

کشمیر، بھارتی حکومت کی جانب سے شہری حقوق کی مسلسل پامالی
تحریر: سعداللہ زارعی

کشمیر میں بھارتی سیکورٹی فورسز اور مسلمان کشمیریوں کے درمیان جاری جھڑپوں کے سلسلے کو 46 روز گزر چکے ہیں۔ عوام کی احتجاجی تحریک کا تسلسل جس کے بارے میں عالمی اور اسلامی اداروں نے پراسرار خاموشی اختیار کر رکھی ہے، ظاہر کرتا ہے کہ کشمیری عوام اور بھارتی حکومت کے درمیان موجود مسائل اس سے کہیں زیادہ سنگین ہیں کہ انہیں محض عوام اور پولیس کے درمیان جھڑپوں میں محدود کر دیا جائے۔ کشمیری مسلمانوں کے مطالبات ایک کم از کم حد سے شروع ہو کر زیادہ سے زیادہ حد تک جا پہنچتے ہیں۔ ان مطالبات کی کم از کم حد یہ ہے کہ بھارتی سیکورٹی فورسز کشمیری عوام کے خلاف طاقت کے بے جا استعمال، ان کی مار پیٹ اور ان پر دباو ختم کر دے اور انہیں "شہری" کی نظر سے دیکھتے ہوئے ان کے شہری حقوق کی پاسداری کرے۔ شاید بھارتی سیکورٹی فورسز یہ گمان کرتی ہیں کہ اگر کشمیری عوام کا یہ کم از کم مطالبہ پورا کر دیا جائے تو وہ اگلے قدم پر بھارت سے علیحدگی اور خودمختاری کا مطالبہ پیش کر دیں گے لہذا کشمیری مسلمانوں کے خلاف طاقت کے بے جا استعمال میں کمی نہیں لاتیں۔ دوسری طرف بھارتی حکومت یقینا اس امر سے آگاہ ہے کہ برصغیر پاک و ہند میں بسنے والے مسلمانوں کی صورتحال کے پیش نظر ایک حصے کے مسلمانوں پر کسی قسم کا دباو تمام مسلمانوں کی جانب سے ردعمل ظاہر ہونے کا باعث بنتا ہے۔ اس بارے میں چند اہم نکات درج ذیل ہیں:

1۔ کشمیر کی کل آبادی 1 کروڑ 20 لاکھ افراد پر مشتمل ہے جس کا 60 فیصد حصہ مسلمان ہیں اور کہا جاتا ہے کہ کشمیری مسلمانوں کی آبادی کا 10 سے 15 فیصد حصہ شیعہ مسلمانوں کا ہے۔ جموں کشمیر کا رقبہ 101437 مربع کلومیٹر ہے۔ شیعہ آبادی کی اکثریت "درہ کشمیر" نامی وسیع علاقے میں مقیم ہے۔ اسی طرح سری نگر کے اردگرد حسن آباد اور زریبال کے علاقوں میں بھی 1 لاکھ 50 ہزار شیعہ آبادی موجود ہے۔ اس کے علاوہ پونچھ کے علاقے میں بھی 20 ہزار شیعہ آباد ہیں۔ لہذا کشمیر میں شیعہ آبادی کافی حد تک مرکزیت کی حامل ہے۔ کشمیر کی کل آبادی کا نصف حصہ اہلسنت مسلمانوں پر مشتمل ہے جن میں زیادہ تر فقہ حنفیہ اور متصوفہ مسلک کے پیرو ہیں۔ اعتقادی نقطہ نظر سے ان کا تعلق "ماتریدیہ" فرقے سے ہے۔ ماتریدیہ فرقہ اشاعرہ، اخباری اور معتزلہ فرقوں میں عقلی فرقہ محسوب ہوتا ہے۔ اسی وجہ سے کشمیر میں بسنے والے اہلسنت مسلمانوں کی فقہی اور اعتقادی تعلیمات شیعہ تعلیمات سے بہت نزدیک ہیں۔ لہذا کشمیر کے شیعہ مسلمان بہت آسانی سے اہلسنت کی تنظیموں اور سیاسی جماعتوں جیسے "حزب المجاہدین" میں شمولیت اختیار کر لیتے ہیں۔ بعض ایرانی تجزیہ کاروں نے پاکستان کی جماعت اسلامی سے حزب المجاہدین کے تعلقات کے پیش نظر یہ نتیجہ نکالا کہ حزب المجاہدین ایک شدت پسند تنظیم ہے لیکن یہ درست نہیں۔ حزب المجاہدین 1991ء میں حافظ سعید کے توسط سے تشکیل پائی اور اس وقت سے لے کر آج تک اس تنظیم کی جانب سے کوئی شیعہ دشمنی پر مبنی اقدام یا سرگرمی دیکھنے میں نہیں آئی۔ دوسری طرف یہ بھی سننے میں آیا ہے کہ حافظ سعید ہمیشہ اپنی میٹنگز کا آغاز امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے فرامین سے کرتے ہیں اور ان فرامین کو اپنے لئے راہنما قرار دیتے ہیں۔

2۔ کشمیر کی آبادی کا صرف 5 فیصد حصہ ہندووں پر مشتمل ہے جنہیں عام طور پر "پنڈت" کہا جاتا ہے۔ برطانیہ سے آزادی کے بعد بھارت کے پہلے وزیراعظم جواہر لعل نہرو درحقیقت کشمیری پنڈت ہی تھے۔ ایک ایسی آڈیو ٹیپ موجود ہے جس میں جواہر لعل نہرو نے 1962ء میں تقریر کرتے ہوئے کشمیر میں ریفرنڈم کے انعقاد پر زور دیا تھا اور کہا تھا کہ اس خطے کی قسمت کا فیصلہ خود عوام ہی کریں گے، لیکن 1947ء میں برطانیہ سے آزادی کے بعد اب تک بھارتی حکومت اس مطالبے کو مسترد کرتی آئی ہے۔ دوسری طرف بھارت میں اب تک برسراقتدار آنے والی حکومتوں میں نریندرا مودی کی سربراہی میں موجودہ بھارتی حکومت نے کشمیری مسلمانوں سے بدترین رویہ اختیار کر رکھا ہے۔ مودی جن کا تعلق ہندو سیاسی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی سے ہے، اس سے پہلے بھارت کی ریاست گجرات کے گورنر رہے ہیں۔ ان کی گورنری کے زمانے میں 500 بیگناہ مسلمانوں کا قتل عام ہوا تھا اور اسی وجہ سے ایک عرصے تک ان کے خلاف عدالتی کاروائی بھی جاری رہی۔ اسی طرح نریندرا مودی کے اسرائیلی حکام سے بھی گہرے تعلقات استوار رہے ہیں۔ انہوں نے ریاست گجرات کی زراعت اور انڈسٹری میں اسرائیلی ماہرین کی بھرتی کا آغاز کیا۔ اسرائیلی صیہونی رژیم بائیو ٹیکنالوجی کے میدان میں اپنی صلاحیتوں کی بدولت بھارت میں اپنا اثرورسوخ بڑھانے کے درپے تھی لیکن نریندرا مودی کے بھرپور تعاون کے باوجود اس مقصد میں کامیاب نہیں ہو سکی۔

3۔ بعض حلقوں کا گمان تھا کہ ریاست جموں کشمیر میں شروع ہونے والی حالیہ عوامی احتجاجی تحریک جس کا آغاز کشمیریوں کی محبوب اور مجاہد شخصیت برہان وانی کی شہادت سے ہوا کا مقصد بھارت سے علیحدگی اور خودمختاری ہے جبکہ کشمیر کے انقلابی رہنما اور عوام نے ایسا مطالبہ پیش نہیں کیا۔ احتجاج کرنے والے عوام اپنے ابتدائی انسانی حقوق کا مطالبہ کر رہے ہیں اور یہ اعلان کر رہے ہیں کہ اس شہری مطالبے کے بدلے میں ہمارا قتل عام بند کیا جائے۔ اگرچہ کشمیر کی کل آبادی کا 60 فیصد حصہ مسلمانوں پر مشتمل ہے لیکن حکومت کی لوکل باڈی اور سیاسی، اقتصادی، ثقافتی اور سیکورٹی مراکز میں مسلمان عہدیداروں کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے۔ دوسری طرف ریاستی مراکز میں ہندو مذہب سے تعلق رکھنے والے عہدیداروں کی بھرمار اس بات کا باعث بنی ہے کہ وہ مسلمانوں پر بھی اپنے عقائد اور رسومات تھونپنے لگے ہیں اور انہیں ہندو قوانین اور رسومات کے تحت زندگی گزارنے پر مجبور کرتے ہیں۔ کوئی دن ایسا نہیں جب ایک یا کئی مسلمان کشمیری شہری گائے کا گوشت کھانے کے جرم میں پولیس کی جانب سے توہین آمیز اقدامات یا مار پیٹ کا شکار نہ ہوتے ہوں۔ عوام اپنی احتجاجی تحریک میں اس مطالبے پر زور دے رہے ہیں کہ مسلمانوں پر ہندو مذہب کے قوانین اور رسومات مسلط نہ کی جائیں۔

4۔ اسلامی جمہوریہ ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے 1983ء میں اپنے دورہ بھارت کے دوران پورا ایک دن کشمیر میں گزارا۔ کشمیر کے شیعہ اور سنی مسلمانوں نے اسلامی جمہوریہ ایران کا صدر ہونے کے ناطے ان کا پرتپاک استقبال کیا۔ اب بھی کشمیری عوام اسلامی جمہوریہ ایران اور رہبر معظم انقلاب کے بھرپور حامی تصور کئے جاتے ہیں اور رونما ہونے والے مختلف واقعات بھی اس رجحان کو کم نہیں کر سکے۔ جب کشمیر میں حالیہ تلخ واقعات رونما ہونا شروع ہوئے تو کشمیری عوام کی نظریں اسلامی جمہوریہ ایران کی طرف اٹھنے لگیں۔ وہ یہ امید لگائے بیٹھے ہیں کہ اسلامی جمہوریہ ایران اپنی سفارتی سرگرمیوں کے ذریعے انہیں بنیادی شہری حقوق دلوانے میں موثر کردار ادا کرے گا۔

5۔ ایران میں بعض مفاد پرست اور بے خبر افراد نے یہ پروپیگنڈہ کرنا شروع کر دیا کہ کشمیر میں جاری احتجاجی تحریک مکمل طور پر حزب المجاہدین کی طرف سے چلائی جا رہی ہے اور یہ کہ حزب المجاہدین پاکستان میں موجود لشکر طیبہ کی ایک شاخ ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ نہ تو حزب المجاہدین لشکر طیبہ کی شاخ ہے اور نہ ہی کشمیر میں جاری احتجاجی تحریک حزب المجاہدین کے کنٹرول میں ہے بلکہ اس میں عام کشمیری عوام شریک ہیں جو اپنے شہری حقوق کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ دوسری طرف حزب المجاہدین بھی کوئی شدت پسند تنظیم نہیں۔ اس تنظیم کے اعلی سطحی عہدیدار سید یوسف شاہ امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کو اپنا رول ماڈل قرار دیتے ہیں۔ حزب المجاہدین کا پاکستان میں سرگرم شدت پسند گروہ سپاہ صحابہ سے بھی کوئی تعلق نہیں۔ یہ تنظیم کشمیر میں حتی عام ہندو شہریوں کے خلاف بھی کوئی کاروائی نہیں کرتی۔ ماضی میں فلسطینی مجاہدین کے بارے میں بھی ایسی ہی باتیں کی جاتی تھیں اور انہیں شدت پسند کہا جاتا تھا۔ مغربی انٹیلی جنس ایجنسیز فلسطینیوں کو شدت پسند اور دہشت گرد ظاہر کر کے مسئلہ فلسطین کا سب سے بڑا حامی ہونے کے ناطے اسلامی جمہوریہ ایران سے انہیں دور کرنے کے درپے تھیں۔

6۔ کشمیر میں سیکورٹی فورسز اور عوام کے درمیان جھڑپوں کا سلسلہ شروع ہوتے ہی ایک اعلی سطحی بھارتی وفد نے ایران کا دورہ کیا جس کا مقصد یقینا کشمیر کی موجودہ صورتحال کے بارے میں ایران کے موقف پر اثرانداز ہونا تھا۔ اس امر سے ظاہر ہوتا ہے کہ کشمیری عوام کا احتجاج بھارت کے مستقبل کیلئے کس قدر اہم ہے۔ ایران نے اب تک سفارتی سطح پر اپنی بھرپور کوشش کی ہے کہ بھارتی حکومت کو کشمیری عوام کے شہری حقوق کی ادائیگی پر قائل کرے جبکہ ساتھ ہی ساتھ کشمیر میں جاری شہری احتجاج کو سیکورٹی مسئلے میں تبدیل کرنے کی کوششوں کا مقابلہ کیا ہے۔
خبر کا کوڈ : 563523
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش