1
0
Saturday 27 Aug 2016 15:47

راہِ حل آمریت کا سہارا نہیں، عوامی طاقت ہے

راہِ حل آمریت کا سہارا نہیں، عوامی طاقت ہے
تحریر: سردار تنویر حیدر بلوچ

پاکستان کے سماجی مسائل ان گنت ہیں، انکے اسباب زیادہ تر سیاسی، معاشی اور معاشرتی نوعیت کے ہیں۔ انکے اثرات پورے معاشرے کو گھیر لیتے ہیں۔ یہ زیریلے اثرات دل و دماغ میں منفی رجحانات کو بھڑکاتے ہیں، جن کے نتیجے میں موت، تباہی، خوف اور ہر طرف آگ نظر آنے لگتی ہے۔ قومی دانش ایک غنیمت ہے، اس کا فائدہ بحران کی صورتحال میں یہ ہوتا ہے کہ قومیں مسائل پر قابو پا لیتی ہیں، ورنہ پاکستان کی صورتحال میں موجود سماجی اور اجتماعی مسائل کی وجہ سے لگنے والی آگ پر پانی ڈالنے والا کوئی نہیں ہوتا، بلکہ ہر ایک اس پر تیل ڈال کر اسے بھڑکانے میں اپنا حصہ ڈالتا ہے۔ ذرائع ابلاغ کا غیر ذمہ دارانہ کردار اس میں اضافے کا سبب بنتا ہے۔ اجتماعی دانش کا اہم مظہر میڈیا ہے اور پاکستانی میڈیا ایسے کسی معیار پہ پورا نہیں اترتا، یہاں تو دنیا کے کسی کونے میں ہونے والے واقعات اور فسادات کو ایسے پیش کیا جاتا ہے، جیسے یہ کام بھی پاکستانی قوم انجام دے رہی ہو۔ مہلک اثرات کے حامل حالات و واقعات کو جاننا، انکے عوامل اور اسباب کی جانچ کرنا، ممکنہ حل تجویز کرنا، ریاست اور حکومت کا کام ہے۔ عوام، میڈیا اور سیاسی و مذہبی جماعتیں اسی بنیاد پہ مثبت اور منفی کردار ادا کرتے ہیں۔ یہ ایک منفی رجحان ہے کہ ظلم کی داستان کوئی رقم کرتا ہے اور اس کا خمیازہ کوئی اور بھرتا ہے۔ یہ درست ہے کہ فتنوں کے دور میں تبصرہ کرنے، ردعمل دکھانے میں انصاف اور احتیاط سے کام لینا چاہیے۔ یہ سب باتیں اپنی جگہ اچھی ہیں، لیکن پاکستانی قوم کراچی سے فاٹا تک چھوٹے مسائل کو بڑھاوا دیکر خانہ جنگی کی شکل میں ڈھالنے میں خود کفیل ہیں، ہمارے پالیسی ساز مشرق وسطٰی میں اپنا کردار متعین کرتے ہوئے اگر احتیاط سے کام نہیں لیں گے تو یہ صورتحال اور گھمبیر ہو جائے گی۔

مجلس وحدت مسلمین کے سربراہ نے بھوک ہڑتال اور مسائل کے حل کے لئے پرامن جدوجہد کا راستہ اختیار کرکے ایک عمدہ مثال قائم کی ہے۔ اسی طرح ایک دوسری مثال ایم کیو ایم کی ہے، جنہوں نے آمریت کا سہارا لیا اور تشدد کا راستہ اختیار کیا۔ اسوقت سب سے زیادہ زیر بحث متحدہ کے قائد کی پاکستان مخالف تقریر کے بعد کراچی کی صورتحال ہے۔ اس حوالے سے جتنے منہ اتنی باتیں ہیں۔ کراچی پاکستان کا معاشی دارالحکومت ہے، ملک کے ہر حصے سے، مختلف ذاتوں، قوموں، زبانوں اور ثقافتوں سے تعلق رکھنے والے امیر، غریب لوگ یہاں بستے ہیں۔ لیکن بنیادی طور پر کراچی اردو زبان لوگوں کا شہر کہلاتا ہے، بڑی تعداد ان لوگوں کی ہے، جو تقسیم کے بعد ہجرت کر کے یہاں آ کر آباد ہوئے۔ ایم کیو ایم ضیاء الحق کے دور میں قائم ہوئی، اردو زبان مہاجر پاکستانیوں کے حقوق کا نعرہ لگا کر انہیں منظم کیا گیا، سندھ میں پاکستان پیپلز پارٹی اور ضیاء الحق کی شوریٰ سے مستعفی ہونے والی جماعت اسلامی کو سیاسی طور پر کراچی سے بے دخل کرنے کے لئے فوجی آمر نے مہاجر قومی موومنٹ کی سرپرستی کی۔ ضیاء الحق دنیا سے چلے گئے، لیکن پاکستان آج بھی انکی لگائی ہوئی آگ میں دہک رہا ہے۔ نوے کی دہائی میں فوج بظاہر غیر سیاسی ہوگئی اور پس منظر میں رہ کر مسلم لیگ نون کو منظم کرکے اپنی پالیسی کو آگے بڑھاتی رہی۔ ساتھ ہی افغانستان میں طالبان کی حکومت کے ذریعے تزیویراتی گہرائی کے نظریئے کو بنیاد پر ساری توجہ اور وسائل دیوبندی اور اہل حدیث جنگجووں کے پلڑے میں ڈال دیئے گئے۔

جنرل مشرف نے جب حکومت پہ قبضہ کیا تو پی پی پی اور مسلم لیگ نون اپنے اپنے دور حکومت میں فوج کی پالیسیوں سے متفق نہ ہونے کے باوجود خاموشی سے اپنے اقتدار کو بچانے میں مصروف رہے۔ جنرل مشرف نے بظاہر کشمیر اور افغانستان کی پالیسی کو بدل کر یو ٹرن لیا، جہاد کے نام پہ ریاستی اداروں کی سرپرستی میں ترقی پانے والے دیوبندی جنگجو گروپوں نے انہیں نشانہ بنایا۔ اپنے اقتدار کے شروع کے دنوں میں انہوں نے جہادی تنظیموں اور فرقہ وارانہ تشدد میں ملوث گروہوں کو کالعدم قرار دے دیا۔ لیکن کراچی کو آگ اور خون میں نہلانے والے متشدد گروہ پر کبھی تنقید نہیں کی، بلکہ انہیں اپنی طاقت کا استعارہ قرار دیا۔ اسی طرح پاکستان پیپلز پارٹی جنرل مشرف کیساتھ این آر او اور بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد جب حکومت میں آئی تو سوات اور مالا کنڈ میں کالعدم تحریک طالبان کیخلاف زبردست آپریشن کیا گیا، لیکن آصف زرداری نے ایم کیو ایم کو اپنے ساتھ ملا کر رکھا۔ جنرل کیانی کی ریٹائرمنٹ کے بعد جنرل راحیل نے ملک میں جاری خانہ جنگی کو ختم کرنے کے لئے زیادہ واضح پالیسی اختیار کی۔ سانحہ آرمی اسکول پشاور سے پہلے آرمی چیف نے ساری توجہ وزیرستان پہ مرکوز رکھی۔ فوج کا موقف یہ تھا کہ پاکستان میں لال مسجد گروپ، لشکر جھنگوی اور کالعدم سپاہ صحابہ طالبان جنگجووں کے مددگار ہیں اور مذکورہ گروہوں کے ذریعے بھرتی ہونے والے مذہبی شدت پسند وزیرستان میں قائم طالبان کے تربیتی مراکز سے عسکریت کی ٹریننگ لیکر آتے ہیں، یہی افراد منظم طریقے سے سکیورٹی فورسز، سرکاری تنصیبات اور اہل تشیع کو ٹارگٹ کرتے ہیں۔

اس دوران نواز حکومت نے طالبان کیساتھ مذاکرات بھی کئے، لیکن حکیم اللہ محسود کی پلاکت کا بہانہ بنا کر مذاکرات ختم کر دیئے گئے اور جماعت اسلامی سمیت کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے حامیوں نے مذاکرات کی ناکامی کی ذمہ داری حکومت اور فوج پر ڈالتے ہوئے الزام لگایا کہ فوج امریکہ کے ہاتھوں بک چکی ہے، اس لئے مذاکرات میں جھوٹ کا سہارا لیکر حکیم اللہ محسود کو قتل کروایا گیا ہے۔ فوج کیطرف سے ایم کیو ایم کے معاملے پر خاموشی کی ایک وجہ اس وقت بھی جماعت اسلامی کی طرف سے کالعدم تحریک طالبان کی حمایت تھی۔ لیکن فوج نے کبھی جماعت اسلامی پہ ہاتھ نہیں ڈالا، حالانکہ اس میں کوئی شک نہیں تھا کہ جماعت اسلامی کے حمایت یافتہ کالعدم تحریک طالبان کے لیڈر حکیم اللہ محسود کو بھارتی ایجنسی را کی سرپرستی حاصل تھی۔ دوسری طرف جماعت اسلامی کی حمایت یافتہ حزب المجاہدین بھارت کیخلاف جہاد میں فوج میں کا ہاتھ بٹا رہی ہے۔ اس سے یہ نکتہ بھی سمجھا جاسکتا ہے کہ جس طرح بھارتی خفیہ ایجنسی کی سرپرستی میں پاک فوج کیخلاف عسکری کارروائیوں میں مصروف کالعدم تحریک طالبان کے لئے جماعت اسلامی کی ہمدردی کو فوج نے جہاد کشمیر کے نام پہ حزب المجاہدین کیساتھ اشتراک کی خاطر برداشت کیا، اسی طرح اسٹیبلشمنٹ مخالف پس منظر رکھنے والی پیپلز پارٹی اور کالعدم ٹی ٹی پی کی حمایت کرنی والی جماعت اسلامی کو کراچی میں ٹف ٹائم دینے والی ایم کیو ایم کو بھی برداشت اور استعمال کیا۔

پاکستانی سیاست میں اقتدار کی بھول بھلیوں میں کھیلا جانے والا یہ دلچسپ کھیل، عام آدمی کو چکرا کے رکھ دیتا ہے کہ کس طرح ایک ہی ملک میں مختلف مہروں کو ہر بساط پہ آگے پیچھے کیا جاتا ہے، وہی ایک دوسرے کو مارتے ہیں، ایکدوسرے کو کھا جاتے ہیں، لیکن ہضم کرنے کی صلاحیت صرف انہی میں ہے، جو انہیں جنم دیتے اور پروان چڑھاتے ہیں۔ ان کی مثال اس سانپ جیسی ہے، جو اپنے ہی انڈے پی جاتا ہے۔ آمریت کی کوکھ سے جنم لینے والے جب اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھوں تنگ ہوتے ہیں تو غیر ملکی آقاوں کی طرف دیکھتے ہیں، یہی بات مقامی آمروں کو ناگوار گذرتی ہے اور وہ انہیں ٹھکانے لگا دیتے ہیں، اپنے ہی پیدا کرنے والوں کے ہاتھوں قتل ہونے والے جمہوریت کے شہید کہلاتے ہیں۔ وژن، قائدانہ صلاحیت اور جرات کی بنیاد پہ بھٹو خاندان کے افراد کے متعلق کہا جا سکتا ہے کہ وہ نوکرشاہی کو نکیل ڈالنے کی صلاحیت رکھتے تھے، لیکن ایم کیو ایم کے قائد اور عامر لیاقت جیسے ڈرامہ بازوں کا معاملہ ان سے مختلف ہے۔ ایم کیو ایم جیسے گروپوں کی پیدائش، اتار چڑھاو اور انجام ہر سیاسی ورکز کے لئے عبرت کا باعث ہے۔ ڈیرہ اسماعیل خان میں مجلس وحدت مسلمین کے سربراہ علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے بالکل درست کہا ہے کہ ہم عوامی طاقت کے بل بوتے پر مسائل حل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ حقیقت میں ملک و ملت کو بحران سے نکالنے کا یہی درست راستہ ہے۔ جمہوریت پہ پختہ یقین کے حامل ایم ڈبلیو ایم کے قائد جب یہ کہتے ہیں کہ تکفیری ٹولہ، آل سعود، امریکہ اور اسٹیبلشمنٹ پر مشتمل منحوس چوکور پاکستان و عوام دشمن ہے تو انکی استقامت اور باہدف جدوجہد آمریت کیخلاف ڈٹ کر جینے اور سرِدار نعرہ حق بلند کرنے والوں کی یاد تازہ کر دیتی ہے۔
خبر کا کوڈ : 563546
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Pakistan
پتہ نہیں یہ بات راجہ صاحب کے ذہن میں ہے بھی یا کہ نہیں۔
ہماری پیشکش