0
Tuesday 30 Aug 2016 16:18

نئی دلی کی ٹریفک میں پھنسے امریکی وزیر خارجہ اور حزب اللہ کی مثال

نئی دلی کی ٹریفک میں پھنسے امریکی وزیر خارجہ اور حزب اللہ کی مثال
تحریر: سردار تنویر حیدر بلوچ

کشمیر پاکستان کا پرائم کنسرن ہے، تحریک آزادی اسوقت عروج پر ہے۔ اسکا اعتراف بھارتی قیادت بھی کر رہی ہے کہ کشمیری مسلمانوں کا جذبہ حریت دبانا ناممکن ہے۔ بھارت کے پاس طاقت کے استعمال کو روک کر سیاسی حل کی طرف بڑھنے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں۔ جیسا کہ بھارتی اپوزیشن جماعت کانگریس کے سینیئر رہنما اور سابق وزیر مانی شنکرآئر نے کہا ہے کہ کشمیری بھارت سے آزادی چاہتے ہیں، فوجی ایکٹ اور دیگر سختیوں کے ذریعے ان کی جدوجہد کو روکا نہیں جا سکتا، کشمیری مقبوضہ کشمیر کا سیاسی حل چاہتے ہیں، فوجی ایکٹ اور دیگر سختیاں ماضی کی کہانیاں بن چکی ہیں، کشمیری بھارت سے آزادی کیلیے نئے عزم سے جدوجہد کر رہے ہیں، مقبوضہ کشمیر کے اسپتال زخمیوں سے بھرے ہوئے ہیں، مگر ان کے ہاتھوں پر آزادی کے حق میں نعرے درج ہیں، کشمیر ایک سیاسی مسئلہ ہے اور اس کا سیاسی حل ہی نکالنا چاہیے۔ اس وقت سارا دباو بھارت پر ہے، کشمیری نوجوانوں کے جذبہ شہادت نے پوری قوم میں نئی روح بھونک دی ہے۔ اس کا اعتراف دشمن کو بھی ہے، اسی لئے بھارت کی خفیہ ایجنسی را کے سابق سربراہ نے کہا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فورسز کیطرف سے 8 جولائی کو شہید کیا جانیوالا نوجوان برہان وانی کشمیریوں کیلیے آئیکون کی حیثیت رکھتا تھا، لیکن بھارتی فورسز نے اسے دہشت گرد قرار دیدیا اور پاکستان پر اس کی مدد کا الزام بھی لگا دیا، نئی دہلی وانی کو دہشت گرد، حملہ آور یا ملیٹنٹ کہے لیکن وہ مختلف تھا، وہ بیحد مقبول تھا، لہذا جب اسے شہید کیا گیا تو مقبوضہ وادی میں غم و غصہ پھیل گیا۔

بھارتی حکومت نے اس کا جواب طالمانہ طریقے سے دیا اور احتجاج کچلنے کیلیے گولیاں چلا دیں، جس سے درجنوں افراد شہید اور ہزاروں زخمی ہوچکے ہیں، وادی کی صورتحال بھارتی فورسز کے کنٹرول سے باہر ہوچکی ہے اور اب 90 والی صورتحال پیدا ہوچکی ہے، جب سارے کشمیری مجاہدین کی حمایت میں نکل آئے تھے۔ کشمیریوں کی نئی نسل پہلے کی طرح بزدل نہیں رہی، جو بندوق کا سامنا کرنے سے کتراتے رہے۔ مگر اب دس بارہ سال کے بچے ہاتھوں میں پتھر لئے بھارتی فوج سے مقابلہ کرتے ہیں۔ اسکی وجہ یہی ہے کہ کشمیر کی نئی نسل اردگرد بندوقیں، مار پیٹ اور لڑائی دیکھتے ہوئے جوان ہوئی ہے۔ انہوں نے شہداء کی لاشیں دیکھی اور ماؤں بہنوں کی چیخیں سنی ہیں۔ اب وہ بھارتی حکمرانوں کا ظلم و ستم برداشت نہیں کرسکتے، اسی لئے مظاہروں میں شریک ہوتے ہیں۔ 8 جولائی 2016ء کو برہان وانی بھارتی فوج کے ہاتھوں شہید ہوئے تو پوری وادیٔ کشمیر میں زبردست احتجاج شروع ہوگیا۔ اس احتجاج نے بھارتی ایوان حکومت میں زلزلہ سا پیدا کر دیا اور غاصب حکمرانوں کا یہ نعرہ کھوکھلا معلوم ہونے لگا کہ کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ ہے۔ بھارتی وزیراعظم تو ایسے حواس باختہ ہوئے کہ بلوچستان کے حوالے سے پاکستان کو معطون کرنے لگے۔ تبھی بلوچ عوام کے زبردست احتجاج نے انہیں آئینہ دکھا دیا۔ بھارت کے 70ویں یوم آزادی کے موقع پر نریندر مودی نے مرکزی تقریب سے خطاب کے دوران زہر افشانی کرتے ہوئے کہا تھا کہ بھارت بلوچستان میں آزادی کے حامیوں اور گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کے عوام کو مالی، سیاسی اور اخلاقی مدد فراہم کرسکتا ہے، جبکہ پاکستان نے بھارتی وزیراعظم کی تقریر کو اندرونی معاملات میں مداخلت قرار دیتے ہوئے اس پر شدید احتجاج کیا تھا۔

اسوقت موودی سرکار زبردست بھکلاہٹ کا شکار ہے، اس ہیجان میں کوئی بھی ناعاقبت اندیشی بعید نہیں۔ اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بھارتی سیاستدان اور بہوجن سماج پارٹی کی سربراہ مایاوتی نے وزیراعظم نریندر مودی پر کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ مودی حکومت نے ملک کے عوام کو بے حد مایوس کیا ہے، مودی حکومت اپنی ناکامی چھپانے کیلئے کشمیر میں تشدد کو بڑھاوا دے رہی ہے اور پاکستان سے جنگ کیلئے بھی جا سکتی ہے۔ دوسری طرف چین خطے کی صورتحال میں اپنا ؐچبت کردار جاری رکھے ہوئے ہے اور بلوچستان میں بھارتی مداخلت بند نہ ہونے کی صورت میں چین نے بھی میدان میں آنے کا واضح اشارہ دے دیا ہے۔ چین کے اہم ترین تھنک ٹینک چائنا اسٹیٹیوٹ آف کنٹمپریری انٹرنیشنل ریلیشن (سی آئی سی آئی آر) سے خطاب کرتے کرتے ہوئے انسٹی ٹیوٹ آف ساؤتھ اینڈ ساؤتھ ایسٹ ایشین اینڈ اوشینین اسٹڈیز کے ڈائریکٹر ہو شی شینگ نے نریندر مودی کی جانب سے بلوچستان کے حوالے سے کی جانے والی تقریر پر خدشات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسے بھارت کی پاکستان کے حوالے سے اچانک تبدیلی تصور کیا جا سکتا ہے اور چین کو خدشہ ہے کہ بھارت بلوچستان میں موجود حکومت مخالف عناصر کو استعمال کرکے چین اور پاکستان کے درمیان 46 ارب ڈالر کی لاگت سے جاری پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے کو نقصان پہنچا سکتا ہے، اگر بھارت کی بلوچستان میں دراندازی سی پیک منصوبے کو نقصان کا باعث بنتی ہے تو پھر چین کو بھی بھارتی مداخلت کو روکنے کے لئے میدان میں کودنا ہوگا، کیونکہ بھارتی مداخلت سے نہ صرف پاکستان کے حالات خراب ہوں گے، بلکہ بیجنگ اور نئی دلی کے تعلقات میں بھی تناؤ بڑھے گا۔

موودی سرکار کی غیر معقول حرکتوں کے نتیجے میں خطے کی صورتحال ابتر ہونے کے خدشات بڑھ رہے ہیں۔ چینی حکام نے اس پر بھی تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ چین یہ سمجھتا ہے کہ پہلے بھارت کے امریکہ اور دیگر ممالک کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے انہیں کوئی خدشات نہیں تھے، لیکن نریندر مودی کے اقتدار میں آنے کے بعد سے بھارت کے امریکہ کے ساتھ عسکری تعلقات بڑھتے ہی جا رہے ہیں، جو چین کے لئے بھی خطرے کا باعث ہیں۔ چینی حکام کو اب یہ اندازہ ہے کہ بھارت کو کنٹرول کرنے کے لئے چین کو امریکہ اور جاپان کے دباؤ کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اسی لئے امریکہ، جاپان اور آسٹریلیا کی جانب سے بھارت کو اپنے گروپ میں شامل کرنے کے لئے بڑے پیمانے پر جدید ٹیکنالوجی اور ہتھیاروں کی لالچ دے رہے ہیں۔ امریکہ چین پر دباو بڑھانے کے لئے بھارت کیساتھ ہر طرح کا تعاون بڑھا رہا ہے، اسی لئے بھارت اور امریکہ کے درمیان فوجی تعاون کامعاہدہ طے پایا ہے، جس کے تحت دونوں ممالک ایک دوسرے کے فوجی، فضائی اور بحری اڈے استعمال کرسکیں گے۔ معاہدے کے تحت دونوں ممالک ناصرف ایک دوسرے کے فوجی، زمینی، فضائی اور بحری اڈے استعمال کرسکیں گے بلکہ ایک دوسرے کے ٹھکانوں پر فوجی ساز و سامان کی مرمت اور فراہمی سمیت ایندھن بھی بھرسکیں گے، تاہم دونوں ممالک معاہدے کے تحت ایک دوسرے کے ٹھکانوں پر فوجیوں کو تعینات نہیں کرسکیں گے۔ دوسری طرف امریکہ نے ایک بار پھر پاکستان سے دہشت گردوں کے خلاف بلا امتیاز کارروائی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ شدت پسندوں کے خلاف اسلام آباد اور کابل کو تعاون بڑھانا ہوگا۔ یہ مطالبہ حقائق کے برعکس ہے، کیونکہ امریکی جانتے ہیں کہ کابل میں بھارت کا اثرورسوخ زیادہ ہے نہ کہ پاکستان کا۔

اس سے قبل بھی امریکہ اپنے منفی طرز عمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہہ چکا ہے کہ پاکستان نہ صرف اندرون ملک دہشت گردوں کے خلاف کارروائیاں کرے بلکہ خطے میں کہیں بھی دہشت گردوں کی کارروائیوں کو روکنے کے لئے بھی اپنا کردار ادا کرے۔ خطے میں دہشت گردی کا ذمہ دار پاکستان کو قرار دیتے ہوئے کابل اور بھارت کیساتھ مذاکرات کی دعوت دینا کشمیر کے مسئلے سے توجہ ہٹاتے ہوئے بھارت کی سفارتی حمایت سے امریکی حکام کی نیت کا پول کھولنے کے لئے کافی ہے۔ لیکن ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ دہشت گردی، ممالک کے درمیان سو تفاہم، بغاوتیں، بھارتی مظالم کے پیچھے شیطان بزرگ کے مفادات وابستہ ہیں۔ یہ حقیقت اب عیاں ہوچکی ہے کہ خطے میں دہشت گردی کے پھیلنے کا سبب امریکی اقدامات ہیں، امریکہ دنیا بھر میں شرپسندی پھیلا رہا ہے، دہشت گردی کے خلاف جنگ بین الاقوامی سطح پر متحد ہوکر لڑی جانی چاہیے۔ اگر افغانستان اور عراق پر امریکہ کی لشکرکشی نہ ہوتی اور شام میں بحران پیدا نہ کیا جاتا تو علاقے میں اتنے بڑے پیمانے پر دہشت گردی نہ ہوتی۔ یہ صورتحال پیدا کرنے کا مقصد چین کے مفادات کو نقصان پہنچانا ہے اور اسوقت پاکستان اور چین کے مفادات ایک ہوچکے ہیں۔ اس لئے ضروری ہے کہ پاکستانی پالیسی ساز نئی دہلی کی ٹریفک میں پھنسے امریکی وزیر خارجہ کے ذہنی فتور کو سمجھتے ہوئے استقلال اور ملکی خود مختاری کو سامنے رکھیں۔ پاکستان کی بقا اور کشمیریوں کی پر خلوص جدوجہد کا یہ تقاضا ہے کہ پاکستان نمائشی اقدامات کی بجائے ٹھوس طریقے سے سفارت کاری کی حکمت عملی اپنائے۔ اگر چین، روس، ایران، ترکی اور پاکستان اپنے مفادات ایک کر لیں تو بھارت اس امر پر مجبور ہو جائے گا کہ خطے میں امریکی ایما پر جنگ کی آگ بھڑکانے سے باز رہے۔ کشمیری نوجوانوں کا جذبہ جہاد و شہادت دیکھ کر یہ امید کی جا سکتی ہے کہ وہ جان کیری کے خواب کو مایوسی میں بدل سکتے ہیں، جس طرح حزب اللہ نے اسرائیل کی حمایت میں لبنان آنے والی کونڈا لیزا رائس کو نامراد لوٹنے پہ مجبور کیا تھا۔
خبر کا کوڈ : 564039
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش