0
Thursday 1 Sep 2016 20:47

آل شریف کی حکومت کیخلاف ایک اور یلغار

آل شریف کی حکومت کیخلاف ایک اور یلغار
تحریر: سردار تنویر حیدر بلوچ

پنجاب اور وفاق میں مسلم لیگ نون کی حکومت قائم ہوتے ہی شریف خاندان کے اہم افراد نے پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت کو نشانہ بنانا شروع کیا، بعد ازاں سابق آرمی چیف اور سابق صدر جنرل پرویز مشرف کیخلاف لال مسجد کیس، آئین کی خلاف ورزی اور آئین کو معطل کرنے جیسے الزامات کے کیسیز کھول دیئے۔ یہ وہ حالات تھے جب دہشت گرد پاکستانی عوام اور پاک فوج کو ملک کے کونے کونے میں نشانہ بنا رہے تھے۔ اسی دوران حکومت نے مولانا سمیع الحق کے ایما پر دہشت گردوں سے مذاکرات کا بھی آغاز کیا۔ گڈگورننس کے دعویدار حکمرانوں کے لئے ملکی معیشت کی بحالی اور امن و امان کے قیام کا چیلنج پورا کرنا مشکل ہوگیا، لیکن جنرل مشرف اور سیاسی مخالفین کو انتقام کا نشانہ بنانے کی خو ختم نہ ہوئی۔ قومی انتخابات کے نتائج الجھے ہوئے تھے، پیپلز پارٹی کو سوائے سندھ کے ہر جگہ شکست کا سامنا کرنا پڑا، پی ٹی آئی اور جماعت اسلامی نے صوبہ کے پی کے میں مل کر حکومت بنائی، پنجاب اور وفاق کی حکمرانی نون لیگ کے حصے میں آئی۔ عمران خان نے نتائج کو قبول کرنے سے انکار کیا اور دھاندلی کا الزام لگا کر تحقیقات کا مطالبہ کیا۔ پیپلز پارٹی نے بھی پنجاب میں دھاندلی کے الزام کی تصدیق کی، لیکن انتخابی نتائج کو تسلیم کرتے ہوئے جمہوریت کی بقا اور سیاسی استحکام کی خاطر خاموش رہنے کا فیصلہ کیا۔

جہاں تک مسلم لیگ نون کی قیادت کی طرف سے گڈ گورنس کے دعووں کی بات ہے تو اس کا پول وزیراعظم کی بیماری کے دوران ہی کھل گیا تھا، جب نواز شریف کی عدم موجودگی میں کوئی عبوری وزیراعظم ملک میں موجود نہیں تھا بلکہ جنگی صورتحال درپیش ہونے کے باوجود انکے سمدھی اسحاق ڈار تمام تر کاروباری حسابات کے ساتھ ساتھ حکومتی معاملات کو بھی دیکھ رہے تھے۔ اس ابتر صورتحال کو دیکھتے ہوئے مشیر خارجہ سرتاج عزیز نے آرمی چیف سے کہا کہ آپ امور مملکت کو خود دیکھیں، اسی لئے انہوں نے وفاقی کابینہ کو جی ایچ کیو بلوا کر انہیں ہدایات دیں اور وزیراعظم کی وطن واپسی تک امور حکومت کی دیکھ بھال کرتے رہے۔ حقیقت میں جنرل راحیل شریف ہی ہیں جو نظام حکومت کو دیکھ رہے ہیں، چین، افغانستان، سعودی عرب، ترکی، روس، ملائشیا، انڈونیشیا، یورپ اور امریکہ کے دوروں سے لیکر کراچی میں امن و امان کی صورتحال کنٹرول کرنے تک سب کچھ بالواسطہ طور پر فوج کے ہاتھ میں ہے۔ یہ کہنا کہ فوج امور حکومت میں مداخلت کر رہی ہے، اس سے زیادہ یہ درست ہوگا کہ وفاق، پنجاب اور سندھ میں حکمران جماعتوں سے امور حکومت دیکھے نہیں جا رہے، بلکہ اس سے بھی زیادہ تلخ حقیقت یہ ہے کہ حکمرانوں کی عوام کے مسائل اور ملکی امور سے زیادہ مال بنانے سے دلچسپی ہے۔

پاکستان بحرانوں میں مبتلا ہے، حکمرانی کرنا اتنا آسان نہیں۔ ویسے بھی نیک نیت لیڈروں کے لئے حکومت ہمیشہ کانٹوں کی سیج رہی ہے۔ عموماََ یہی کہا جاتا ہے کہ اپنی ظاہری عزت کی پامالی اور طرح طرح کی اذیتیں برداشت کرنے کے باوجود باریاں بدل بدل کر سیاسی جماعتیں ایوان اقتدار کی راہ کیوں اختیار کرتی ہیں، انکی بے خوفی اور پرخطر فیصلوں کا سبب کیا ہے؟ کیا یہ لوگ پاکستان سے مخلص ہیں؟ کیا یہ عوام کی خاطر قربانی دینے والے ہیں؟ یہ ذاتی مفادات اور آسائشوں کو ملک اور قوم کی خاطر قربان کرتے ہیں؟ ایسا ہرگز نہیں ہے بلکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ کاروباری افراد اچھی مستقبل بینی کی بنیاد پہ خطرات مول لیتے رہتے ہیں۔ شاید اسی اصول کی بنیاد پہ موجودہ حکمران جماعتیں سیاست میں حصہ لیتی ہیں، حکومت بناتی ہیں، انکے رہنما ملک و ملت کی خاطر نہیں بلکہ امور سیاست اور عنان حکومت کیساتھ جڑے ہوئے کاروباری مفادات کی خاطر جیلیں کاٹتے، مفروری نبھاتے اور جلاوطنی اختیار کرتے ہیں۔ سارے حربے استعمال کرنے کے بعد وزیراعظم اپنی بیٹی کو اور وزیراعلٰی پنجاب اپنے بیٹے کو مستقبل میں حکمران دیکھنے کی منصوبہ بندی میں مصروف ہیں۔

لالچ، ہرس، ہوس اور اندھی آرزویں اپنے سینے میں سجائے حکمرانوں کی پوزیشن پہلے کی نسبت ابتر ہو رہی ہے۔ جس طرح سابق صدر آصف زرداری اپنے کرتوتوں کے باعث ملک سے باہر ہیں، اسی طرح آل شریف کی جڑیں کمزور ہو رہی ہیں۔ پنجاب میں سڑکوں، پلوں، بسوں کے ٹھیکوں کے علاوہ ہر طرح سے اور ہر طرح کے امور مملکت سے دوری یہ ثابت کرتی ہے کہ آل شریف کی شہنشاہیت زوال کے راستے پہ گامزن ہے۔ لیکن پاکستان میں عمدہ سیاسی قیادت کے فقدان اور عوام میں سایسی شعور کی کمی اور قومی معاملات کے بارے میں مسلسل بے حسی کی وجہ سے یہ ایوان اقتدار میں برجمان ہیں۔ آل شریف کیخلاف ایک لمبی چارج شیٹ سامنے آچکی ہے، سانحہ ماڈل اور پانامہ اسکینڈل جیسے واقعات نے محب وطن قوتوں کو یہ موقع فراہم کیا ہے کہ وہ عوام کی عدالت میں مقدمہ پیش کریں۔ عوامی بیداری، تحرک اور حرکت میں تسلسل جان جوکھوں کا کام ہے۔ تمام قائدین اپنے اپنے طور پر کردار ادا کر رہے ہیں، تمام جماعتیں اپنی صفوں کو مضبوط بنا رہی ہیں اور اس دفعہ آل شریف کو پیپلز پارٹی کی حمایت بھی میسر نہیں ہے۔ احتجاجی تحریک کا ایجنڈا زیادہ نکھر چکا ہے۔ احتجاجی تحریک چلانے والوں کا موقف ہے کہ موجودہ حکمران وطن دشمن، قاتل، غاصب، کرپٹ اور نااہل ہیں۔

پہلا نکتہ کہ آل شریف وطن دشمن ہیں۔ فوج کی مخالفت، بھارت سے گہرے تعلقات، دہشت گردوں کی سرپرستی، بلوچستان اور کشمیر کے معاملے پر بے حسی اس کی واضح مثالیں ہیں۔ دوسرا نکتہ کہ یہ قاتل ہیں۔ سانحہ ماڈل ٹاون کے بے گناہوں کا لہو پکار پکار کے اس کی نشاندہی کر رہا ہے کہ آل شریف قاتلوں کا ٹولہ ہے۔ تیسرا نکتہ کہ موجودہ حکمران غاصب ہیں۔ دھاندلی پہ دھاندلی، الیکشن کمیشن پہ قبضہ، جعلی ووٹوں کی بہتات، انتخابات میں سرکاری مشینری کا استعمال واضح کرتا ہے کہ ان لوگوں نے کس طرح سازشوں کا جال بچھا کر اقتدار پر قبضہ کیا ہے۔ چوتھا نکتہ کرپشن سے متعلق ہے، پانامہ اسکینڈل اور ٹی آر اوز کے چکر میں اتنی بڑی چوری کو ہضم کرنے کے حیلے ثابت کرنے کے لئے کافی ہیں کہ یہ حکمران کرپٹ ترین لوگ ہیں۔ جہاں تک نااہلیت کا تعلق ہے، وہ پہلے دن سے ہی ثابت ہے، نہ وزیر خارجہ، نہ وزیر دفاع، پورا ملک فوج چلا رہی ہے۔ مذکورہ عوامل یہ سمجھنے کے لئے کافی ہیں کہ پاکستان تحریک انصاف، پاکستان عوامی تحریک اور مجلس وحدت مسلمین عوامی لشکر کے ذریعے آل شریف کا تخت کیوں الٹنا چاہتے ہیں۔ اس دفعہ اگر یہ یلغار کامیاب ہو جاتی ہے تو پاکستان کی خوشحالی کے دن قریب ہیں، ورنہ آئندہ الیکشن میں آل شریف اپنے بینترے بدل بدل کر اقتدار کسی اور کے ہاتھ نہیں جانیں دیں گے۔
خبر کا کوڈ : 564467
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش